1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

سینیٹ الیکشن اور ضمنی انتخابات کی کشیدگی ۔۔۔۔ خاورگھمن

'کالم اور تبصرے' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏25 فروری 2021۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    سینیٹ الیکشن اور ضمنی انتخابات کی کشیدگی ۔۔۔۔ خاورگھمن

    رواں ہفتے کی ایک گرما گرم خبر الیکشن کمیشن کی جانب سے سیالکوٹ میں ہونے والے قومی اسمبلی کے حلقہ نمبر 75کے ضمنی انتخابات سے متعلق مسلم لیگ (ن) کی امیدوار نوشین افتخار کی درخواست کی سماعت ہے ۔ راجہ سکندر سلطان کی سربراہی میں ہونے والے الیکشن کمیشن کے اجلاس میں نوشین افتخار اور ان کے حریف امیدوار اسجد ملہی کی معروضات پر غور کیا گیا۔راجہ سلطان سکندر نے کہا کہ ’’الیکشن کمیشن کسی گڑبڑ یا شکایات کے پیش نظر انتخابی نتائج کو روک سکتا ہے‘‘۔
    یہ آبزرویشن پی ٹی آئی کی اس بات کا جواب تھی کہ کمیشن کو نتائج روکنے کا اختیار حاصل نہیں ہے۔ دوران سماعت ریٹرننگ افسر نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ ’’ 360 پولنگ اسٹیشنز میں سے 337پولنگ اسٹیشنز کے نتائج ساڑھے تین بجے رات تک موصول ہوئے تھے۔ 20پریذائیڈنگ افسروں سے رابطہ نہیںہو رہا تھا۔ 20پولنگ اسٹیشنز میں سے چار کلیئر ہیں، 14 پولنگ اسٹیشنز کے نتائج میں رد و بدل کا خدشہ ہے‘‘۔ پی ٹی آئی مکمل نتائج کے اعلان پر زور دے رہی ہے جبکہ مسلم لیگ ن کا مطالبہ ہے کہ تمام حلقوں میں دوبارہ پولنگ کرائی جائے۔تاہم الیکشن کمیشن نے اپنی پریس ریلیز میں کہا ہے کہ پریذائیڈنگ افسروں کا اچانک گم ہو جانا انتظامیہ اور قانو ن نافذ کرنے والے اداروں کی کمزوری لگتی ہے۔این اے 75 سیالکوٹ کے کچھ پولنگ سٹیشنوں میں دوبارہ ضمنی الیکشن ہوں گے یا پورے حلقے میں ؟ اس کا فیصلہ الیکشن کمیشن جلد سنائے گا۔

    نیب سے مسلم لیگ( ن) کے لئے اچھی خبر ملی ہے ۔ 20 مہینوں کے بعد منی لانڈرنگ کیس میں پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز کی درخواست ضمانت منظور کر لی گئی ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے دونوں فریقین کے دلائل سننے کے بعد انہیں ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔یاد رہے، ان کی گرفتاری رمضان شوگر ملز، منی لانڈرنگ کیس میں11جون 2019ء کو عمل میں آئی تھی۔

    سیاسی ماحول کو گرمانے کیلئے بلاول بھٹو زرداری بھی لاہور میں ہیں اور وہ آج کسی وقت یوسف رضا گیلانی کے ہمراہ مریم نواز سے ملاقات کریں گے۔ جس میں سینیٹ کے انتخابات اور اس کے بعد کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔

    سب سے دلچسپ صورتحال وفاقی وزیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کے حوالے سے سامنے آ ر ہی ہے ۔ ایک باخبر شخص کے مطابق اگر عبدالحفیظ شیخ صاحب ہار جاتے ہیں تو سب سے پہلا تجزیہ یہ سامنے آئے گا کہ مقتدرہ حکومت سے نا خوش ہے اور ایک صفحے والا فلسفہ قصہ پارینہ ہوتا جا رہا ہے ۔ بظاہر حکومتی برتری کے باوجود اگر گیلانی صاحب جیت جاتے ہیں تو اس رائے کو زیادہ لوگ مانیں گے اور اسی بیانیے کو لے کر متحدہ اپوزیشن بھی آگے بڑھے گی۔ دوسری جانب جس سے بھی بات کریں ،وہ کہتے ہیں ، جب حکومت نے حفیظ شیخ کو وزیر خزانہ بنوایا ہے تو وہ انہیںکیونکر ہارنے دے گی ۔ میری ذاتی رائے میں یوسف رضا گیلانی کے جیتنے کی صورت میں پاکستانی سیاست کافی مختلف ہو جائے گی۔ جس کا زیادہ دبائو یقینی طور پر وزیر اعظم عمران خان پر آئے گا اور گیلانی صاحب کے جیتنے کی صورت میں خان صاحب کا رد عمل غیر معمولی بھی ہو سکتا ہے ۔

    اس پس منظر کیساتھ اسلام آباد میں سب سے زیادہ پوچھا جانے والا سوال یہ ہے کہ کیا عبدالحفیظ شیخ کے الیکشن کو لے کر عمران خان حکومت پریشان ہے ؟ اس پر حکومتی ارکان کہتے ہیں کہ اس طرح کے کانٹے دار انتخابات میں تمام فریقین اپنا پورا زور لگاتے ہیں اور ہم بھی شیخ صاحب کے لیے کوئی کوتاہی نہیں کریں گے۔ خاص طور پر ایسے ماحول میں جب پی ڈی ایم نے حکومت مخالف تحریک بھی شروع کر رکھی ہے جس کا واحد مقصد تحریک انصاف کی حکومت کا خاتمہ ہے ۔ ایک وفاقی وزیر کا کہنا تھاکہ اگر گیلانی صاحب جیت جاتے ہیں تو یہ ہماری حکومت کی ناکامی ہو گی اور اس کے بعد معاملات کہاں جا کر رکیں گے ،اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا ،اس لیے حفیظ شیخ کے الیکشن کے حوالے سے ہم کوئی رسک نہیں لے رہے اور یہ نشست ہر صورت میں جیت لیں گے۔

    دوسری طرف اپوزیشن سے جب بات کی جائے تو وہ بھی پر امید ہیں کہ گیلانی صاحب کی کامیابی حکومت کے خاتمے کا پیش خیمہ ثابت ہو گی ۔ نمبروں کا کھیل تو بہت واضح ہے۔حکو متی امیدوار کو ہرانے کے لیے آٹھ سے دس اراکین قومی اسمبلی کواپنا ووٹ یوسف رضا گیلانی کے پلڑے میں ڈالنا پڑے گا۔ اس صورتحال میں سینیٹ الیکشن کے حوالے سے سپریم کورٹ کا فیصلہ آنا بھی ابھی باقی ہے لیکن جس طرح سینیٹ میں پیسے کے استعمال پر بحث ہو رہی ہے اب کسی بھی رکن کے لیے پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی آسان نہیں ہوگی ۔

    بعض ذرائع سے جب بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا فی الحال کسی بھی سطح پر ایسی سوچ نہیں پائی جا رہی جس سے یہ اخذ کیا جا سکے کہ مقتدرہ عمران خان سے نا خوش ہے یا پھر ایک صفحے والی بات ختم ہو گئی ہے ، عمران خان کو پورا وقت ملے گا تاکہ کل خان صاحب یہ نہ کہہ سکیںکہ ان کی حکومت کو کسی سازش کے ذریعے گرایا گیا ہے اور اسی میں سب کا بھلا ہے ۔

    اگر دیکھا جائے تو اب پیپلزپارٹی کے ساتھ مسلم لیگ (ن) کی سوچ بھی تبدیل ہو رہی ہے کہ حکومت کو کسی دھرنے یا لانگ مارچ کی بجائے ووٹ یا عدم ا عتماد کے ذریعے باہر نکالا جائے بصورت دیگر موجودہ سیاسی لڑائی جاری رہے گی اور آنے والی حکومت کو اس طرح کے مسائل کا سامنا ہو گا۔ یوں اکثریت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ کبھی نرم اور کبھی گرم ، ملکی سیاست یونہی آگے بڑھتی رہے گی۔جلسے جلوس بھی ہوتے رہیں گے اور انتخابی اصلاحات پر بات بھی آگے بڑھتی رہے گی۔جس پر اس وقت حکومت اور اپوزیشن ،دونوں راضی نظر آتے ہیں ، سینیٹ انتخابات کے بعد اس اہم قومی ایشو پر اتفاق رائے پیدا ہو سکتا ہے ۔

     

اس صفحے کو مشتہر کریں