1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

سیف زُلفی

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏18 ستمبر 2019۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    سیف زُلفی، ایک جری شاعر ان کی شاعری کلاسیکل اور جدیدیت کا حسین امتزاج ہے

    [​IMG]
    عبدالحفیظ ظفر

    کوفے کے قریب ہو گیا ہے لاہور عجیب ہو گیا ہے جب کوئی شاعر اپنے کسی شعر میں تلمیع کا استعمال خوبصورتی سے کرتا ہے تو اس شعر کو چار چاند لگ جاتے ہیں۔ اس سے یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ یہ شاعر تاریخی شعور سے پوری طرح بہرہ ور ہے اور اسے تاریخی حقائق کا مکمل ادراک ہے۔ باقی کا کام تو قاری کا ہے کہ وہ اپنی ذہنی استعداد کے مطابق تلمیع کا رشہ اس شعر سے جوڑے۔ تب کہیں جا کر معانی کے جہاں کھلتے ہیں۔ اردو کے کلاسیکل اور جدید شعرا میں بہت سے ایسے ہیں جنہوں نے اپنے اشعار میں بڑی مہارت سے تلمیع کا استعمال کیا ہے۔ مرزا اسداللہ غالب کا یہ شعر ملاحظہ کیجیے کیا کِیا خِضر نے سکندر سے اب کسے رہنما کرے کوئی اس طرح کی کئی مثالیں اور بھی دی جا سکتی ہیں۔ سیف زُلفی بھی ان شعرا میں شامل ہیں جو اس فن میں یدطولیٰ رکھتے ہیں۔ 70ء اور 80ء کی دہائی میں اس شاعر کی بڑی شہرت تھی۔ انہوں نے کلاسیکل اور جدیدیت کے حسین امتزاج سے متاثر ہو کر شاعری تخلیق کی۔ ان کی قوتِ متخیلہ بہت مضبوط تھی اور پھر ایک اور وصف جو ان کی شاعری میں ملتا ہے وہ ہے فکر کی گہرائی۔ ان کی شاعری انسانیت کے درد سے معمور ہے اور انہوںنے شاعری کو اپنی جرأت اور بے باکی کا لباس پہنایا۔ وہ اپنی ذاتی زندگی میں بھی صداقت کا عَلم تھامے رہے اور انہوں نے کبھی اپنے اصولوں اور نظریات پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ انہوں نے تمام عمر جو دیکھا، محسوس کیا، اسے بڑی ایمانداری سے شعری زبان دی۔ سیف زُلفی کا اصل نام سید محمد ذوالفقار حسین تھا اور زُلفی ان کا تخلص تھا۔ وہ 25 دسمبر 1934ء کو بریلی (بھارت) میں پیدا ہوئے۔ تقسیمِ ہند کے بعد وہ پاکستان آ گئے۔ شاعری ان کی شریانوں میں خون بن کے دوڑتی تھی۔ ان کے شعری مجموعوں میں ’’لُہو، چاند اور سویرا، تابہ خاکِ کربلا، اور ٹکڑے ٹکڑے آدمی‘‘ شامل ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ شعر کی حرمت کا تحفظ کیا۔ ان کی شاعری میں سہلِ ممتنع کی جھلکیاں بھی ملتی ہیں۔ وہ رومانوی شاعر نہیں تھے لیکن ان کی غزل کے موضوعات بڑے اثر انگیز ہوتے تھے۔ فکر کی گہرائی کا جب جذبات کی شدت سے ملاپ ہوتا ہے تو کمال کی شاعری تخلیق ہوتی ہے۔ سیف زُلفی کے ہاں یہی شعری اوصاف بکثرت ملتے ہیں۔ یہ نہ سمجھا جائے کہ وہ جمالیاتی طرزِ احساس کو اتنی اہمیت نہیں دیتے تھے لیکن جمالیات کا تصور ان کا اپنا تھا۔ ان کی شاعری میں زندگی کے مختلف رنگ دکھائی دیتے ہیں جن میں دکھ اور الم کے رنگ زیادہ ہیں۔ ان کی شاعری میں ان لوگوں کے لیے شدید نفرت ہے جو منافقت سے کام لیتے ہیں اور ظلم و جبر کے خلاف کھل کر سامنے نہیں آتے۔ ہر بہادر اور جری آدمی سچائی کو اپنا ہتھیار بناتا ہے۔ وہ خود صداقت کی روشنی پھیلاتا ہے اور باطل کی تاریکیوں میں گم نہیں ہوتا۔ سیف زُلفی فنی لحاظ سے بھی بڑے پختہ شاعر تھے۔ شعر پڑھنے کا بھی ان کا اپنا ہی انداز تھا۔ بات سے بات نکالنے کا ہنر بھی انہیں خوب آتا تھا۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ ہمارے اکثر شعرا جنہیں زندگی میں بہت شہرت ملتی ہے، موت کے بعد انہیں بہت جلد بھلا دیا جاتا ہے۔ کیا ہم اتنے زود فراموش ہیں یا پھر بے حسی کی آگ میں ہمارے احساس کا شجر جل کر خاکستر ہو چکا؟ سیف زُلفی کا شمار ان جدید شعرا میں ہوتا ہے جنہوں نے 60ء کی دہائی میں غزل کا روایتی مفہوم تبدیل کیا اور اسے نئے معانی دیئے، نئی جہتوں سے سرفراز کیا اور اس کا کینوس وسیع کیا۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے شعریت کے اپنے پیمانے ایجاد کیے جن میں سب سے زیادہ زور موضوعات کے تنوع پر دیا گیا۔ ان کی بعض غزلیات کے ردیف اور قوافی بھی بہت نامانوس ہیں اسی کو تخلیقی شاعری کہتے ہیں۔ وہ قارئین سے اپنے سوالات کے جوابات طلب کرتے ہیں اور پھر انہیں ’’قیمتی مشوروں‘‘ سے بھی نوازتے ہیں۔ لیکن یہ مشورے بلاجواز نہیں دیئے جاتے، ان میں قاری کا کسی قسم کا نقصان نہیں، بلکہ فائدہ ہی فائدہ ہے۔ ذیل میں سیف زُلفی کے کچھ اشعار پیشِ خدمت ہیں۔ کھل جائیے برستے ہوئے ابر کی طرح جوچیز دل میں ہے اسے باہر نکالیئے کیوں جل بجھے کہیں تو گرفتار بولتے زندوں میں چپ رہے تو سرِ دار بولتے اب خلوتوں میں شور مچانے سے فائدہ تھا حوصلہ تو برسرِ دربار بولتے اب کیا گلہ کریں کہ مقدر میں کچھ نہ تھا ہم غوطہ زن ہوئے تو سمندر میں کچھ نہ تھا دیکھا تو سب ہی لعل و جواہر لگے مجھے پرکھا جو دوستوں کو تو اکثر میں کچھ نہ تھا صحرا بھلے کہ ذہن کو کچھ تو سکوں ملے گھبرا گیا ہوں شہر کے بازار دیکھ کر سائے جو سنگِ راہ تھے رستے سے ہٹ گئے دل جل اٹھا تو خود ہی اندھیرے سمٹ گئے گمنام تھے تو سب کی طرف دیکھتے تھے ہم شہرت ملی تو اپنی خودی میں سمٹ گئے اشکوں میں قلم ڈبو رہا ہے فن کار جوان ہو رہا ہے ظالم کو سکھا رہا ہے انصاف پتھر میں درخت بو رہا ہے چنگاریاں نہ ڈال مرے دل کے گھاؤ میں میں خود ہی جل رہا ہوں غموں کے الاؤ میں کاغذ پہ اگل رہا ہے نفرت کم ظرف ادیب ہو گیا ہے اس شہر کا دل نہیں ہے زُلفی یہ شہر غریب ہو گیا ہے ویسے تو سیف زُلفی نے نعتیں اور مرثیے بھی لکھے لیکن اس مختصر مضمون میں ان کی شاعری کا مکمل محاکمہ نہیں کیا جا سکتا۔ 21 مئی 1991ء کو سیف زُلفی جگر کے عارضے کے باعث انتقال کر گئے۔ یقینِ کامل ہے کہ وہ اپنی بے مثل شاعری کی وجہ سے ہمیشہ زندہ رہیں گے۔

     

اس صفحے کو مشتہر کریں