1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

سیاسی فرقہ پرستی

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از کنعان, ‏16 اگست 2017۔

  1. کنعان
    آف لائن

    کنعان ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جولائی 2009
    پیغامات:
    729
    موصول پسندیدگیاں:
    977
    ملک کا جھنڈا:
    سیاسی فرقہ پرستی

    میرے چند احباب مجھ سے صرف اس بات پر دور ہو گئے کہ میں ان سے مختلف سیاسی نظریہ رکھتا ہوں۔ کسی بھی محفل، افطار پارٹی، دعوت وغیرہ میں سیاست کے سوا موضوعات ناپید ہو چکے ہیں۔ بات بحث سے شروع ہوتی ہے اور لڑائی پر ختم، مباعث میں سے کوئی ماننے کو تیار نہیں ہوتا اور بعض دفعہ تو کوئی دلیل بھی نہیں ہوتی۔ یہ منظر اب ہوٹل، چوراہوں، گھر، محفل ہر جگہ نظر آتا ہے، دلیل پر دلیل، بات پر بات اور بے نتیجہ ! دلوں میں فاصلے کچھ بڑھ سے گئے ہیں اور لوگ سیاسی فرقوں میں بٹ چکے ہیں۔ یہ تقسیم آپ کو میڈیا پر بھی نظر آئے گی، اگر آپ کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر بلیٹن سنا دی جائے تو آپ بتا دیں گے کہ کون سے نیوز چینل کی خبر ہے۔ اب تو حالت یہ ہے کہ ایک ہی جلسے یا واقعہ کی منظر کشی ہو اور آپ ریموٹ گھما کر دیکھیں تو ایسے گمان ہو گا کہ آپ دو مختلف چیزیں دیکھ رہے ہیں۔ یہ تقیسم دانشوروں میں بھی ہیں اور کالم نگاروں میں بھی، ہم اب اپنے نظریے کے دانشور کو سنتے ہیں اور دوسری طرف کی دلیل یہ کہہ کر رد کر دیتے ہیں کہ صاحب یہ تو فلاں پارٹی کا ہے یا یہ تو بک چکا ہے۔ یہ تقسیم آپ کو ٹوئٹر اور فیس بک بھی نظر آتی ہے اب لوگ صرف یکطرفہ بات کرتے نظر آتے ہیں۔ اس سارے کھیل میں فرقہ تبدیل کرنا بہت مشکل ہے،

    1. ایک تو ہم دوسری رائے سنتے ہی نہیں،
    2. دوسرا ہم نے لیڈز کو دیوتا کا درجہ دے رکھا ہے،
    3. اور تیسرا ہم کسی بھی واقعہ میں کوئی نہ کوئی بہانہ تراش کر اپنے دل کو تسلی دے دیتے ہیں۔

    اس کی ایک شکل شخصیت پرستی کی ہے، ہم جس لیڈر کو پسند کرتے ہیں اس کی ہر بات کا دفاع کرتے ہیں۔ چاہے ہمارے اندر یہ احساس ہو کہ فلاں صاحب یا انکی فلاں بات غلط ہے مگر کیونکہ ہم اس کی گماں کی حد تک پرتش کرتے ہیں لہٰذا ہم اس کا اسی شدومد سے دفاع کرتے ہیں۔ اس لیڈر کی ہر بات پر پردہ ڈالتے ہیں، کہیں دور سے اپنی ذات کو تسلی دینے کو دلیل گھڑتے ہیں۔ یہی چیز متضاد بھی ہوتی ہے یعنی اگر کوئی اچھی بات، عمل یا دلیل مخالف لیڈر کا ہو ہم اس میں بےجا کیڑے نکلاتے ہیں، اس کو ردّ کرنے کی ہر ترکیب کرتے ہیں۔ اگر کوئی لیڈر یکسر غلط اور قصور وار نکل آئے یا اس کا کوئی نظریہ درست نہ نکلے تو ہم راہ راست پر آنے کے بجائے نہ صرف اس کا دفاع کرتے نظر آتے ہیں بلکہ اپنی آپ کو بھی جھوٹی تسلی دیتے ہیں۔

    یہ وہ سیاسی پستی اور زوال ہے جو ہماری معاشرت، سیاسی بلوغت اور معاشرتی نشونما کو دیمک کی طرح چھاٹ رہا ہے، اس کا ادارک کیے بغیر بطور قوم کسی صورت آگے بڑھنا ممکن نہیں۔ ہماری عقلیں سلب ہو چکی ہیں، دانش جواب دے چکی ہے، فکر دب چکی ہے۔ کتنے افسوس کی بات ہے اس قوم کے لیے جو پہلے ہی لسانی، مذہبی، اور برادری کی تقسیم میں تھی۔ خدا جانے ہماری سمت کیا ہے اور ہم کب شخصیت پرستی سے نکل کر کسی دوسری کی رائے کو بھی جگہ دیں گے۔ کب ہم سکے کے دنوں رخ دیکھنے کی صلاحیت رکھیں گے؟

    تحریر: حسن بھٹی

    ۱۵ اگست ۲۰۱۷
     
    حنا شیخ نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں