1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

سکھی اور دکھی لوگ

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از گھنٹہ گھر, ‏10 جون 2006۔

  1. گھنٹہ گھر
    آف لائن

    گھنٹہ گھر ممبر

    شمولیت:
    ‏15 مئی 2006
    پیغامات:
    636
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    Date: Friday, June 09, 2006 ادارتی صفحہ رزنامہ جنگ
    سکھی اور دکھی لوگ,,,,کشور ناہید

    بھئی کمال ہوگیا۔ ملک بہت ترقی کر رہا ہے۔ پمز ہسپتال کے سامنے کی زمین اربوں روپے میں فروخت ہوئی ہے۔ وہاں 47 منزلہ ہوٹل بنے گا۔ لگژری اپارٹمنٹ بنیں گے۔ لوگ کتنے سکھی ہیں۔ اربوں روپے کے مالک ہیں۔ ابھی کچھ دنوں کی بات ہے ایک بڑے شخص نے 70 لاکھ کا قرض لیا۔ وہ قرض بینک میں ہی رہنے دیا۔ ڈیڑھ سال بعد وہ قرض واپس ہوگیا۔ سیاہ کا سفید ہونا اور کیا ہوتا ہے۔ کہتے ہیں کہ کھیلوں سے متعلق ایک سربراہ نے ابھی گزشتہ دنوں اپنے ایک ارب روپے کو اسی طرح سیاہ و سفید کے چکر میں لگا دیا تھا۔ مگر یہ تو بڑے لوگ ہیں۔ کیا صرف یہی خوش ہیں۔ آئیں ذرا ان سب لوگوں کا جائزہ لیں جو بہت خوش ہیں۔ دکاندار سب کے سب خوش ہیں جتنی دفعہ جایئے وہ آپ کو قیمت بڑھا کر دودھ ہو کہ ڈبل روٹی کی محض روٹی ہاتھ میں پکڑا دیں گے۔ آپ ذرا سا منہ بنائیں گے مگر پھر سامان تو آپ کو خریدنا ہے منہ بنا کر سہی۔ ادائیگی تو کر دیں گے۔ سب نے اپنی دکانوں کے آگے کے برآمدے کرائے پر دیئے ہوئے ہیں۔ متعلقہ افسران بھی ان سے بھتہ لے کر خوش ہیں اور جن کی دکانوں کے آگے تھڑے لگائے گئے ہیں، وہ بھی خوش ہیں۔ خریدار کو اگر سامان مہنگا ملتا ہے تو اس کا بھی تو کوئی سبب ہے۔ فیکٹری مالک سب کے سب خوش ہیں۔ وہ چاہے گڑ سٹور کریں کہ چینی کہ دھاگہ، کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ بیوروکریسی بہت خوش ہے، وہ فلم چلاتے ہیں، پالیسی بناتے ہیں، بدنام سیاسی مہرے ہوتے ہیں۔ ہر زمانے کے افسر سرخرو اور سیاسی لوگ بدنام ٹھہرے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ وہی لوگ جو غلط کام کرتے ہیں۔ ریٹائرہو کر ضخیم کتابیں لکھتے ہیں۔ اپنی معصومیت ظاہر کرنے کو اور ٹیلی ویژن پر انٹرویو دیتے ہیں کہ سیاسی لیڈر غلط کام کر رہا تھا میں تو بالکل اس میں شامل نہیں تھا۔ اب بتایئے کون لوگ ہیں جو ناخوش ہیں۔ طبقہ بہ طبقہ ذرا چاروں طرف میں آپ کو گھما لوں کہ پھر آپ صرف اور صرف بجٹ کے اعدادوشمار پڑھتے ہوئے اس موازنے کو بھی یاد رکھیں گے۔ ایک عام سپاہی کی تنخواہ 2468 روپے ماہانہ ہے۔ وہ جب ٹریفک پہ لگ جاتا ہے تو اس کی تنخواہ دوگنی یعنی 5 ہزار روپے ماہانہ ہو جاتی ہے۔ آٹھ گھنٹے ڈیوٹی کے دوران نہ کہیں پینے کو پانی اور نہ کھانے کو روٹی ملتی ہے۔ پھر اگر وہ چلتے پھرتے ہوٹلوں، دیگوں والوں، پھلوں کی ریڑھیوں سے مفت بری کرتے ہیں تو کیا برا کرتے ہیں۔ آخر پیٹ تو سب کے ساتھ لگا ہوتا ہے۔ وہ ایک عام مالی جو پارلیمینٹ کے سامنے فیصلے کرنے والوں کی آنکھوں کو تراوٹ بخشنے کے لئے سارا دن دھوپ میں کھڑے رہ کر پانی دیتا اور پودوں میں کھاد ڈالتا ہے اس کو کتنی تنخواہ ملتی ہے۔ وہ آدمی جو ریت میں چھلیاں رکھ کر سکولوں کے سامنے کھڑے ہو کر بیچتا ہے (خیر سے اسلام آباد میں تو یہ بھی اجازت نہیں ہے) وہ دن بھر کے بعد کتنے روپے کماتا ہے۔ کیا کھلاتا ہے اور کیا بچاتا ہے۔ وہ شخص جو گنڈا گولے بیچ کر روزی بناتا ہے۔ تنور پہ اس گرمی میں روٹی لگاتا ہے، وہ لڑکا جو کیتلی اور چائے ٹرے میں رکھ کر ایک دکان سے دوسری پر جاتا ہے اور وہ لڑکا کہ جو اس گرم زمین پر گاڑی کے نیچے لیٹ کر موٹر ٹھیک کرتا ہے، وہ مزدور جو ہتھ گاڑی پہ پورے اندرون شہر لاہور میں صبح سے رات گئے تک سامان ڈھوتا ہے، وہ مزدور عورتیں اور مرد اس دھوپ میں ریت اور سیمنٹ کی کڑھائیاں لئے صبح سے رات تک کام کرتے ہیں وہ بھلا کیا کماتے ہیں اور کیا دس دس بندوں کے خاندان کو کھلاتے ہیں۔ یوں تو اعدادوشمار والے لوگ بتایت ہیں کہ عراق کے بعد فلپین میں پولیس غربت کی حد سے نیچے ہے۔ پاکستان کے اعدادوشمار بھی کچھ اس سے ملتے جلتے ہیں۔ جب پوچھو کہ پولیس کی غربت کے علاوہ کرائم ریٹ پاکستان میں بھی اور خاص کر کراچی میں جو حال ہے تو ماہرین نفسیات نہیں، عام آدمی بتاتا ہے کہ بڑی بڑی پجیرو کے مقابلے میں بھوکے اور بیروزگار لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جائے تو ان کے پاس سوائے اور کیا چارہ ہے کہ وہ ڈاکے ڈالیں۔ بڑے ملال کے ساتھ کہنے لگا ”آنٹی ! آپ کو معلوم ہے فلاں انکل کے بارے میں اس کا بیٹا کیا کہتا ہے، وہ کہتا ہے میرے ابو بہت Corrept ہیں یہ بات وہ بڑی نفرت سے کہتا ہے“ میں سوچ رہی ہوں والد ہوتے تھے علامہ اقبال جیسے، فائداعظم جیسے کسی مزدور جیسے، کسی کلرک جیسے کہ جن کی اولاد ان کی محنت کی عظمت کو سلام کرتی تھی اور جن کو یہ کہنے میں کوئی باک نہیں تھا کہ میں غربت میں بڑی ہوئی ہوں۔ اب یہ حال ہے کہ دس دس کوٹھیوں اور پچاس پچاس لگژری گاڑیوں کے مالک کہہ رہے ہیں کہ میرے نام کوئی گھر ہے اور نہ کوئی گاڑی بلکہ اتنے فیاض ہیں کہ سو ایکڑ مربع زمین بھی اپنے منشی کے نام کر دی ہے۔ ہم جو غریبوں کیلئے کام کرتے پھرتے ہیں ہمارے ہاتھ تو آدھا کنال زمین بھی نہیں آتی ہے یا ہمیں اپنی پرانی کوٹھی بھی نہیں بخشتا ہے کہ ہم وہاں غریب عورتوں کو کام سکھا سکیں۔ ہم تو اس کے نام کی تختی لٹکائیں گے۔ ان کا ساری عمر شکریہ ادا کریں گے مگر ایسے فیاض لوگ ہماری لغت سے باہر ہیں۔ میں نے آپ کے سامنے آمدنی کے دو گروپس پیش کئے ہیں۔ ایک وہ جو کہ جو سب کچھ رکھتے ہیں، حوصلہ نہیں رکھتے کہ اپنے نام کی کوئی چیز ظاہر کر سکیں۔ دوسرے وہ ہیں کہ جب بچت کے لئے سوچتے ہیں تو کہتے ہیں بیس روپے کی دال کی پلیٹ، 10روپے کی روٹی، یہ تو مجھے تین وقت چاہئے۔ سو روپے روز میری کمائی اور سو روپے روز میرے اکیلے جی کا خرچ ہے۔ غریب دوست بجٹ مجھے کیا دے گا۔رشوت اور کام چوری یہ دونوں بنیادی چیزیں چھن جائیں تو پھر بھی بڑے لوگ کوٹھیاں اپنے نام ہی نہیں بنوائیں گے اب تو ٹی وی چینلز بھی 13 قسطوں کے ڈرامے کا بجٹ 19 قسط کا کہہ کر منظور کرواتے ہیں۔ یقین نہیں تو کسی کارپرداز سے پوچھ لیں۔
     
  2. سموکر
    آف لائن

    سموکر ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مئی 2006
    پیغامات:
    859
    موصول پسندیدگیاں:
    8
    انتہا ہے خود غرضی کی
     
  3. پٹھان
    آف لائن

    پٹھان ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مئی 2006
    پیغامات:
    514
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    دے نہیں لے گا جناب!
     

اس صفحے کو مشتہر کریں