1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

سکندر آعظیم اور ذولقرنین

'عظیم بندگانِ الہی' میں موضوعات آغاز کردہ از بےمثال, ‏14 مارچ 2009۔

  1. بےمثال
    آف لائن

    بےمثال ممبر

    شمولیت:
    ‏7 مارچ 2009
    پیغامات:
    1,257
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    السلام علیکم قارئین
    ایک سوال میرے ذھن میں ہے کہ سکندر آعظم جس نے دنیا کو فتح کرنے کا خواب دیکھا تھا اور جس سکندر کا ذکرقران میں‌ہے،ان میں‌کیا فرق ہے؟
    کیا یہ دونوں‌ایک ہی ہے ؟
    لیکن ایسے کیسے ممکن ہے کیونکہ یونان کا سکندر تو بدھ مت تھا
    پلیز میری رہنمائی کریں اس بارے میں
     
  2. انجم رشید
    آف لائن

    انجم رشید ممبر

    شمولیت:
    ‏27 فروری 2009
    پیغامات:
    1,681
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    مجھے بھی انتظار رہے گا یہاں تک یونانی اسکندر کی بات ہے اس کے بارے میں اچھی طرح جانتا ہوں وہ واقع بت پرست تھا قبل مسیع لیکن کیا قران مجید میں بھی اس کا ہی ذکر ہے یا کیسی اور کا ماشاءاللہ بے مثال بھائی اچھا مضمون
    شروع کیا ہے آپ نے
     
  3. بےمثال
    آف لائن

    بےمثال ممبر

    شمولیت:
    ‏7 مارچ 2009
    پیغامات:
    1,257
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    شکریہ انجم بھائی۔اب کوئی دوست اگر وضاحت کر دیں‌تو ہماری اس لڑی کا مقصد پورا ہو جائے گا اور میری طرح اگر کسی اور دوست کو بھی تاریخ سے لگاو ہے اس کو بھی مواد مل جائے گا انشاءاللہ
     
  4. انجم رشید
    آف لائن

    انجم رشید ممبر

    شمولیت:
    ‏27 فروری 2009
    پیغامات:
    1,681
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    :salam:
    بے مثال بھائی ایسا لگتا ہے جیسے یہاں سب وقت گزارنے آتے ہیں شاید تاریخ کا کوئی بھی شدائی نہیں :horse: :horse: :horse:
     
  5. بےمثال
    آف لائن

    بےمثال ممبر

    شمولیت:
    ‏7 مارچ 2009
    پیغامات:
    1,257
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    :201: :201: :201:
    اسی لئے تو میں نے لکھنا ہی چھوڑ دیا ہے۔کہ مجھے ان چیزوں‌میں دلچسپی نہیں کہ "آپ یہاں‌کس لئے آئے" "کیوں" مجھے اچھا نہیں‌لگتا"
    یہ باتیں‌خانہ پری والی ہوتی ہے۔اور تعمیری عمل رک جاتا ہے۔جہاں دل کرتا ہے بات کر لیتا ہوں ورنہ یقین جانیں‌کہ چھوڑ دیا ہے لکھنا ہی۔شاید آپ کو اندازہ ہو اس بات کا
     
  6. گجر123
    آف لائن

    گجر123 ممبر

    شمولیت:
    ‏1 دسمبر 2008
    پیغامات:
    177
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    اسلام و علیکم،

    اتفاق سے آج آپ کے سوال پر نظر پڑ گئي۔ یہی سوال بہت دیر سے میرے ذہن میں بھی گردش کر رہا تھا۔

    بہت پہلے ویکیپیڈیا کا ایک مضمون پڑھا تھا۔ آج دوبارہ دیکھا تو اس میں خاصی تعداد میں مزید معلومات بھی شامل ہو گئی ہیں۔

    مضمون یہ ہے:
    http://en.wikipedia.org/wiki/Alexander_the_Great
    اس میں سے میں وہ حصہ نقل کر رہا ہوں جو کہ قرآن کے متعلق ہے

    (قرآن پاک میں اسکندر کے الفاظ استعمال نہیں ہوئے بلکہ صرف ذولقرنین کہا گيا ہے۔ شاید اسکندر کی فتوحات کی کثرت کے سبب زیادہ خیال یہی کیا جاتا ہے کہ سکندر ہی ذولقرنین ہو)

    Main article: Alexander in the Qur'an
    Alexander the Great sometimes is identified in Persian and Arabic traditions as Dhul-Qarnayn, Arabic for the "Two-Horned One", possibly a reference to the appearance of a horn-headed figure that appears on coins minted during his rule and later imitated in ancient Middle Eastern coinage.[citation needed] Accounts of Dhul-Qarnayn appear in the Qur'an, and so may refer to Alexander.

    References to Alexander may also be found in the Persian tradition. The same traditions from the Pseudo-Callisthenes were combined in Persia with Sassanid Persian ideas about Alexander in the Iskandarnamah. In this tradition, Alexander built a wall of iron and melted copper in which Gog and Magog are confined.

    Some Muslim scholars[who?] disagree that Alexander was Dhul-Qarnayn. There are actually some theories that Dhul-Qarnayn was a Persian King with a vast Empire as well, possibly King Cyrus the Great.[citation needed] The reason being is Dhul-Qarnayn is described in the Quran as a monotheist believer who worshipped Allah (God). This would remove Alexander as a candidate for Dhul-Qarnayn as Alexander was a polytheist. Yet contemporaneous Persian nobles would have practiced Zurvanism, thus disqualifying them on the same basis.



    ملائی زبان میں کوئی بہت قدیم کتاب ملی ہے جس میں دونوں شخصیات پر بحث کی گئي ہے : http://en.wikipedia.org/wiki/Hikayat_Is ... Zulkarnain

    اس صفحے پر بھی اسی بارے میں لکھا گیا ہے لیکن ابھی مجھے یہ بھی نہیں پتا کہ یہ زبان کون سی ہے (شاید انڈونیشین ہو)
    http://www.mymasjid.net.my/forum/displa ... n-alquran/

    سکندر کی کچھ فتوحات کا تذکرہ یہاں بھی موجود ہے:
    http://en.wikipedia.org/wiki/Wars_of_Al ... _the_Great


    بدقسمتی سے ابھی تک ویکیپیڈیا طرز کا انسائیکلوپیڈا اسلامی دنیا میں موجود نہیں ہے
     
  7. بےمثال
    آف لائن

    بےمثال ممبر

    شمولیت:
    ‏7 مارچ 2009
    پیغامات:
    1,257
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    السلام علیکم پیارے دوست
    بہت شکریہ اور جزاک اللہ ،کہ آپ نے سعی کی اور کچھ لکھا آپ نے
    ذولقرنین کے بارے میں قران کی چند آیات درج کر رہا ہوں
    امید ہے اس سے زیادہ فایدہ ہوگا


    شروع اللہ کا نام لے کر جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
    سورة الکهف رکوع (۱۲/۱۱)
    اور تم سے ذوالقرنین کے بارے میں دریافت کرتے ہیں۔ کہہ دو کہ میں اس کا کسی قدر حال تمہیں پڑھ کر سناتا ہوں <۸۳> ہم نے اس کو زمین میں بڑی دسترس دی تھی اور ہر طرح کا سامان عطا کیا تھا <۸۴> تو اس نے (سفر کا) ایک سامان کیا <۸۵> یہاں تک کہ جب سورج کے غروب ہونے کی جگہ پہنچا تو اسے ایسا پایا کہ ایک کیچڑ کی ندی میں ڈوب رہا ہے اور اس (ندی) کے پاس ایک قوم دیکھی۔ ہم نے کہا ذوالقرنین! تم ان کو خواہ تکلیف دو خواہ ان (کے بارے) میں بھلائی اختیار کرو (دونوں باتوں میں تم کو قدرت ہے) <۸۶> ذوالقرنین نے کہا کہ جو (کفر وبدکرداری سے) ظلم کرے گا اسے ہم عذاب دیں گے۔ پھر (جب) وہ اپنے پروردگار کی طرف لوٹایا جائے گا تو وہ بھی اسے بُرا عذاب دے گا <۸۷> اور جو ایمان لائے گا اور عمل نیک کرے گا اس کے لئے بہت اچھا بدلہ ہے۔ اور ہم اپنے معاملے میں (اس پر کسی طرح کی سختی نہیں کریں گے بلکہ) اس سے نرم بات کہیں گے <۸۸> پھر اس نے ایک اور سامان (سفر کا) کیا <۸۹> یہاں تک کہ سورج کے طلوع ہونے کے مقام پر پہنچا تو دیکھا کہ وہ ایسے لوگوں پر طلوع کرتا ہے جن کے لئے ہم نے سورج کے اس طرف کوئی اوٹ نہیں بنائی تھی <۹۰> (حقیقت حال) یوں (تھی) اور جو کچھ اس کے پاس تھا ہم کو سب کی خبر تھی <۹۱> پھر اس نے ایک اور سامان کیا <۹۲> یہاں تک کہ دو دیواروں کے درمیان پہنچا تو دیکھا کہ ان کے اس طرف کچھ لوگ ہیں کہ بات کو سمجھ نہیں سکتے <۹۳> ان لوگوں نے کہا ذوالقرنین! یاجوج اور ماجوج زمین میں فساد کرتے رہتے ہیں بھلا ہم آپ کے لئے خرچ (کا انتظام) کردیں کہ آپ ہمارے اور ان کے درمیان ایک دیوار کھینچ دیں <۹۴> ذوالقرنین نے کہا کہ خرچ کا جو مقدور خدا نے مجھے بخشا ہے وہ بہت اچھا ہے۔ تم مجھے قوت (بازو) سے مدد دو۔ میں تمہارے اور ان کے درمیان ایک مضبوط اوٹ بنا دوں گا <۹۵> تو تم لوہے کے (بڑے بڑے) تختے لاؤ (چنانچہ کام جاری کردیا گیا) یہاں تک کہ جب اس نے دونوں پہاڑوں کے درمیان (کا حصہ) برابر کر دیا۔ اور کہا کہ (اب اسے) دھونکو۔ یہاں تک کہ جب اس کو (دھونک دھونک) کر آگ کر دیا تو کہا کہ (اب) میرے پاس تانبہ لاؤ اس پر پگھلا کر ڈال دوں <۹۶> پھر ان میں یہ قدرت نہ رہی کہ اس پر چڑھ سکیں اور نہ یہ طاقت رہی کہ اس میں نقب لگا سکیں <۹۷> بولا کہ یہ میرے پروردگار کی مہربانی ہے۔ جب میرے پروردگار کا وعدہ آپہنچے گا تو اس کو (ڈھا کر) ہموار کردے گا اور میرے پروردگار کا وعدہ سچا ہے <۹۸> (اس روز) ہم ان کو چھوڑ دیں گے کہ (روئے زمین پر پھیل کر) ایک دوسرے میں گھس جائیں گے اور صور پھونکا جائے گا تو ہم سب کو جمع کرلیں گے <۹۹> اور اُس روز جہنم کو کافروں کے سامنے لائیں گے <۱۰۰> جن کی آنکھیں میری یاد سے پردے میں تھیں اور وہ سننے کی طاقت نہیں رکھتے تھے <۱۰۱>



    ان میں‌اللہ نے جن جگہوں‌کی نشاندہی کی ہے
     
  8. بےمثال
    آف لائن

    بےمثال ممبر

    شمولیت:
    ‏7 مارچ 2009
    پیغامات:
    1,257
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    یہاں‌مزید کچھ حقایتیں تفسیر قرآن سے لیتے ہیں اور اس کی روشنی میں‌پرکھتے ہیں‌کہ دونوں‌میں‌کیا فرق ہے
    کنزایمان سے احمد رضا بریلوی صاحب کی کچھ حقایتیں



    شروع اللہ کا نام لے کر جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے

    [​IMG]

    [​IMG]

    [​IMG]
     
  9. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم جناب گجر بھائی اور بےمثال بھائی ۔
    موضوعِ زیرِ بحث پر آپ نے بہت محنت سے تحاریر ارسال کیں۔
    دعا ہے اللہ تعالی آپکی محنت کو قبول فرما کر جزائے خیر دے۔ آمین

    بےمثال بھائی ۔ کنز الایمان والے ترجمہ و تفسیر سے زیادہ آسان آپ کی پچھلی تحریر (سورہ کہف کی تفصیل ) لگی ۔ اس میں روانی زیادہ ہے۔
    بہرحال ۔ جزاک اللہ خیرا۔
     
  10. گجر123
    آف لائن

    گجر123 ممبر

    شمولیت:
    ‏1 دسمبر 2008
    پیغامات:
    177
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    یہ خاشیہ غالباحضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمتہ اللہ علیہ کا لکھا ہوا ہے۔ آپ نے اسلامی لحاظ سے تو خوب اشارے دئے ہیں لیکن جہاں سائینسی حوالے سے بات ہو وہاں آپ کی تشریح خاصے ابہام پیدا کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔

    سکندر کے وزیر اگر حضرت حضر علیہ السلام ہوں تو پھر اس کا کیا یہ مطلب نہیں نکلے گا کہ حضرت موسی علیہ السلام سکندر کے بعد اس دنیا میں تشریف لائے۔

    قرآن پاک میں سورج کے طلوع اور غروب ہونے کے جن مقامات کا ذکر کیا گیا ہے، ان کے حوالے سے کوئی تشریح موجود ہیں کیا؟ میری نظر سے تو ابھی نہیں گزری، میری خواہش ضرور ہے کہ اس حوالے سے معلومات حاصل ہوں
     
  11. گجر123
    آف لائن

    گجر123 ممبر

    شمولیت:
    ‏1 دسمبر 2008
    پیغامات:
    177
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    یہ تو آپ نے میرے دل کی بات کہہ ڈالی۔ اگرچہ بے مقصد لڑیوں میں شرکت کی تعداد بہت زیادہ ہے تاہم معلوماتی موضوعات بھی کافی زیادہ ہیں۔ ممکن ہے کہ ابھی آپ کی نظر ان پر نہ گئی ہو۔
     
  12. انجم رشید
    آف لائن

    انجم رشید ممبر

    شمولیت:
    ‏27 فروری 2009
    پیغامات:
    1,681
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    :salam:
    گجر بھائی اور بے مثال بھائی جزاک اللہ ماشاءاللہ
     
  13. بےمثال
    آف لائن

    بےمثال ممبر

    شمولیت:
    ‏7 مارچ 2009
    پیغامات:
    1,257
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    گجر بھائی،بہت شکریہ آپ کی دلچسپی کا،اگر مجھے اتنی معلومات ہوتی،تو میں یہ لڑی سوالی انداز میں کبھی شروع نا کرتا
    اسی لئے تو اس کو منظر عام پر لے کر آیا ہوں کہ ہمیں علم ہو کہ خقیقت کیا ہے۔
    سو میرے بھائی اپنے علم کی روشنی میں جتنا ہو سکتا ہے ہمیں مستفید کریں پلیز
    بہت نوازش
     
  14. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    ماشاء اللہ بہت ہی اہم موضوع ہے مگر میں‌تو بس طالب علم کے طور پہ صرف پڑھ ہی سکتاہوں۔
     
  15. بےمثال
    آف لائن

    بےمثال ممبر

    شمولیت:
    ‏7 مارچ 2009
    پیغامات:
    1,257
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    جی بیشک طالب علم ہم سبھی ہیں‌کہ علم سے سیرابی ناممکن ہے
     
  16. انجم رشید
    آف لائن

    انجم رشید ممبر

    شمولیت:
    ‏27 فروری 2009
    پیغامات:
    1,681
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    :salam:
    بے مثال بھائی اور گجر بھائی جزاک اللہ
     
  17. آذر
    آف لائن

    آذر ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جنوری 2010
    پیغامات:
    219
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    جواب: سکندر آعظیم اور ذولقرنین

    میں‌اس موضوع پر اپنی ناقص معلومات شئیر کر رہا ہوں‌- شائد بات کچھ واضح ہو سکے

    ذوالقرنین اور سکند ر دو علیحدہ علیحدہ شخصیات ہیں‌ - اس بات کے مندرجہ ذیل دلائل ہیں

    1 - ذوالقرنین کا نام بھی سکندر تھا - یہ حضرت خضر علیہ السلام کے خالہ زاد بھائی ہیں‌ - حضرت خضر علیہ السلام ان کے وزیر اور جنگوں‌کے علمبردار رہے ہیں------ (جبکہ سکندر اعظم کی سوانح‌حیات میں حضرت خضر علیہ السلام کا کوئی تذکرہ نہیں ہے )

    2- یہ سام بن نوح کی اولاد میں ہیں‌اور یہ بڑھیا کے اکلوتے فرزند ہیں‌ حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے دست حق پر اسلام قبول کرکے مدتوں‌ان کی صحبت میں‌رہے ہیں‌ اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان کو کچھ وصیتیں‌‌بھی فرمائی تھی صحیح قول یہی ہے کہ یہ نبی نہیں‌بلکہ ایک بندہ صالح‌ہیں جو ولایت کے شرف سے سرفراز ہیں‌ (‌جبکہ سکندر اعظم کافر تھا ) ( صادی جلد 3 ص21 )

    3- اللہ تعالی نے ان کو تمام روئے زمین کی بادشاہی‌عطا فرمائی (جبکہ سکندر اعظم نے پوری دنیا پر حکمرانی نہیں‌کی )‌ دنیا میں‌کل چار بادشاہ ایسے ہوئے ہیں‌جن کو پوری دنیا کی بادشاہی ملی - ان میں‌دو مومن حضرت سلیمان علیہ السلام اور ذوالقرنین ہیں‌
    جبکہ دو کافر بخت نصر اور نمرود ہیں
    اور تمام روئے زمین کے ایک پانچویں‌بادشاہ اس امت ہیں‌ہونے والے ہیں‌جن کا اسم گرامی حضرت امام مہدی ہے
    (مدارک جلد 3 ص 23 )
     
  18. عمر خیام
    آف لائن

    عمر خیام ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2009
    پیغامات:
    2,188
    موصول پسندیدگیاں:
    1,308
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: سکندر آعظیم اور ذولقرنین

    یہ مضمون ام کا نظر سے پہلے کیوں نہی گذرا۔۔۔
    بوت دلچسپ مضمون اے اور دماغ کا بوت سا گرہیں کھولتا اے۔۔
    ام بھی اسی بات سے متفق اے کہ سکندر یعنی الیگزینڈر یونانی۔۔۔ یعنی مقدونیہ والا اور سکندر ذوالقرنین جس کا ذکر قرآن میں آیا ہے دو الگ الگ شخصیات ہیں۔۔
    ام کو ٹھیک طرح سے یاد تو نہیں رہا لیکن کہیں پڑھا ضرور تھا کہ سکندر ذوالقرنین دراصل ساٰئیرس اعظم تھا جیسا کہ گجر123 کے حوالے میں بھی لکھا ہے۔ اور اس کو ثابت کرنے کی واستی کچھ دلیل بھی دیا گیا تھا جو کہ اس وقت ام کو ٹھیک ٹھیک یاد نہیں رہا۔

    اللہ بہتر جانتا ہے!!!
     
  19. کنعان
    آف لائن

    کنعان ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جولائی 2009
    پیغامات:
    729
    موصول پسندیدگیاں:
    977
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: سکندر آعظیم اور ذولقرنین

    ذوالقرنین
    ذوالقرنین کی عجیب کہانی

    چند قریشیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو آزمانا چاھا، اس مقصد کے لئے انهوں نے مدینے کے یہودیوں کے مشورے سے تین مسئلے پیش کیے۔ ایک اصحاب کہف کے بارے میں تھا۔ دوسرا مسئلہ روح کا تھا اور تیسرا ذوالقرنین کے بارے میں ۔ ذوالقرنین کی داستان ایسی ھے کہ جس پر طویل عرصے سے فلاسفہ اور محققین غور و خوض کرتے چلے آئے ھیں اور ذوالقرنین کی معرفت کے لئے انهوں نے بہت کوشش کی ھے۔

    اس سلسلے میں پھلے ھم ذوالقرنین سے مربوط جو قرآن میں بیان هوا ھے وہ بیان کرتے ھیں۔ کیونکہ تاریخی تحقیق سے قطع نظر ذوالقرنین کی ذات خود سے ایک بہت ھی تربیتی درس کی حامل ھے اور اس کے بہت سے قابل غور پھلو ھیں۔اس کے بعد ذوالقرنین کی شخصیت کو جاننے کے لئے ھم آیات، روایات اورموٴرخین کے اقوال کا جائزہ لیں گے۔

    دوسرے لفظوں میں پھلے ھم اس کی شخصیت کے بارے میں گفتگو کریں گے اور پھلا موضوع وھی ھے جو قرآن کی نظر میں اھم ھے۔ اس سلسلے میں قرآن کہتا ھے

    اور (اے حبیبِ معظّم!) یہ آپ سے ذوالقرنین کے بارے میں سوال کرتے ہیں، فرما دیجئے: میں ابھی تمہیں اس کے حال کا تذکرہ پڑھ کر سناتا ہوں
    سورہٴ کہف آیت 83

    بھر حال یھاں سے معلوم هوتا ھے کہ لوگ پھلے بھی ذوالقرنین کے بارے میں بات کیا کرتے تھے۔البتہ اس سلسلے میں ان میں اختلاف اور ابھام پایا جاتا تھا۔ اسی لئے انهوں نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ضروری وضاحتیں چاھیں۔

    اس کے بعد فرمایا گیا ھے

    بیشک ہم نے اسے (زمانۂ قدیم میں) زمین پر اقتدار بخشا تھا اور ہم نے اس (کی سلطنت) کو تمام وسائل و اسباب سے نوازا تھا
    سورہٴ کہف آیت84

    پس وہ (مزید) اسباب کے پیچھے چل پڑا
    سورہٴ کہف آیت85

    یہاں تک کہ وہ غروبِ آفتاب (کی سمت آبادی) کے آخری کنارے پر جا پہنچا وہاں اس نے سورج کے غروب کے منظر کو ایسے محسوس کیا جیسے وہ (کیچڑ کی طرح سیاہ رنگ) پانی کے گرم چشمہ میں ڈوب رہا ہو اور اس نے وہاں ایک قوم کو (آباد) پایا۔ ہم نے فرمایا: اے ذوالقرنین! (یہ تمہاری مرضی پر منحصر ہے) خواہ تم انہیں سزا دو یا ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو
    سورہٴ کہف آیت86

    ذوالقرنین نے کہا: جو شخص (کفر و فسق کی صورت میں) ظلم کرے گا تو ہم اسے ضرور سزا دیں گے، پھر وہ اپنے رب کی طرف لوٹایا جائے گا، پھر وہ اسے بہت ہی سخت عذاب دے گا
    سورہٴ کہف آیت87

    یہ ظالم و ستمگر دنیا کا عذاب بھی چکھیں گے اور آخرت کا بھی۔

    اور جو شخص ایمان لے آئے گا اور نیک عمل کرے گا تو اس کے لئے بہتر جزا ہے اور ہم (بھی) اس کے لئے اپنے احکام میں آسان بات کہیں گے
    سورہٴ کہف آیت88

    اس سے بات بھی محبت سے کریں گے اور اس کے کندھے پر سخت ذمہ داریاں بھی نھیں رکھیں گے اور اس سے زیادہ خراج بھی وصول نھیں کریںگے۔

    ذوالقرنین کے اس بیان سے گویا یہ مراد تھی کہ توحید پرایمان اور ظلم و شرک اور برائی کے خلاف جدوجہد کے بارے میں میری دعوت پر لوگ دو گروهوں میں تقسیم هوجائیں گے۔ ایک گروہ تو ان لوگوں کا هوگا جو اس الٰھی تعمیری پروگرام کو مطمئن هوکر تسلیم کرلیں گے انھیں اچھی جزا ملے گی اور وہ آرام و سکون سے زندگی گزاریں گے جبکہ دوسرا گروہ ان لوگوں کا هوگا جو اس دعوت سے دشمنی پر اتر آئیں گے اور شرک و ظلم اور برائی کے راستے پر ھی قائم رھیں گے انھیں سزادی جائے گی۔

    ذوالقرنین نے اپنا مغرب کا سفر تمام کیا اور مشرق کی طرف جانے کا عزم کیا اور جیسا کہ قرآن کہتا ھے

    (مغرب میں فتوحات مکمل کرنے کے بعد) پھر وہ (دوسرے) راستہ پر چل پڑا
    یہاں تک کہ وہ طلوعِ آفتاب (کی سمت آبادی) کے آخری کنارے پر جا پہنچا، وہاں اس نے سورج (کے طلوع کے منظر) کو ایسے محسوس کیا (جیسے) سورج (زمین کے اس خطہ پر آباد) ایک قوم پر اُبھر رہا ہو جس کے لئے ہم نے سورج سے (بچاؤ کی خاطر) کوئی حجاب تک نہیں بنایا تھا (یعنی وہ لوگ بغیر لباس اور مکان کے غاروں میں رہتے تھے)

    سورہٴ کہف آیت89-90


    یہ لوگ بہت ھی پست درجے کی زندگی گزارتے تھے یھاں تک کہ برہنہ رہتے تھے یا بہت ھی کم مقدار لباس پہنتے تھے کہ جس سے ان کا بدن سورج سے نھیں چھپتا تھا۔

    واقعہ اسی طرح ہے، اور جو کچھ اس کے پاس تھا ہم نے اپنے علم سے اس کا احاطہ کر لیا ہے
    سورہٴ کہف آیت91

    بعض مفسرین نے یھاں یہ احتمال ذکر کیا ھے کہ یہ جملہ ذوالقرنین کے کاموں اور پروگراموں میں اللہ کی ہدایت کی طرف اشارہ ھے۔

    ذوالقرنین نے دیوار کیسے بنائی؟

    قرآن میں ذوالقرنین کے ایک اور سفر کی طرف اشارہ کرتے هوئے فرمایا گیا ھے

    (مشرق میں فتوحات مکمل کرنے کے بعد) پھر وہ (ایک اور) راستہ پر چل پڑا
    سورہٴ کہف آیت92

    یہاں تک کہ وہ (ایک مقام پر) دو پہاڑوں کے درمیان جا پہنچا اس نے ان پہاڑوں کے پیچھے ایک ایسی قوم کو آباد پایا جو (کسی کی) بات نہیں سمجھ سکتے تھے
    سورہٴ کہف آیت93

    یہ اس طرف اشارہ ھے کہ وہ کوہستانی علاقے میں جا پہنچے۔ مشرق اور مغرب کے علاقے میں وہ جیسے لوگوں سے ملے تھے یھاں ان سے مختلف لوگ تھے،یہ لوگ انسانی تمدن کے اعتبار سے بہت ھی پسماندہ تھے کیونکہ انسانی تمدن کی سب سے واضح مظھر انسان کی گفتگو ھے۔

    اس وقت یہ لوگ یاجوج ماجوج نامی خونخوار اور سخت دشمن سے بہت تنگ اور مصیبت میں تھے۔ ذوالقرنین کہ جو عظیم قدرتی وسائل کے حامل تھے، ان کے پاس پہنچے تو انھیں بڑی تسلی هوئی ۔ انهوں نے ان کا دامن پکڑ لیا

    انہوں نے کہا: اے ذوالقرنین! بیشک یاجوج اور ماجوج نے زمین میں فساد بپا کر رکھا ہے تو کیا ہم آپ کے لئے اس (شرط) پر کچھ مالِ (خراج) مقرر کر دیں کہ آپ ہمارے اور ان کے درمیان ایک بلند دیوار بنا دیں
    سورہٴ کہف آیت94

    بھر حال اس جملے سے معلوم هوتا ھے کہ ان لوگوں کی اقتصادی حالت اچھی تھی لیکن سوچ بچار، منصوبہ بندی، اور صنعت کے لحاظ سے وہ کمزور تھے۔ لہٰذا وہ اس بات پر تیار تھے کہ اس اھم دیوار کے اخراجات اپنے ذمہ لے لیں، اس شرط کے ساتھ ذوالقرنین نے اس کی منصوبہ بندی اور تعمیر کی ذمہ داری قبول کرلیں۔

    اس پر ذوالقرنین نے انھیں جواب دیا

    ذوالقرنین نے) کہا: مجھے میرے رب نے اس بارے میں جو اختیار دیا ہے (وہ) بہتر ہے)
    سورہٴ کہف آیت95

    اور میں تمھاری مالی امداد کا محتاج نھیں هوں۔

    تم اپنے زورِ بازو (یعنی محنت و مشقت) سے میری مدد کرو، میں تمہارے اور ان کے درمیان ایک مضبوط دیوار بنا دوں گا
    سورہٴ کہف آیت95

    پھر ذوالقرنین نے حکم دیا

    تم مجھے لوہے کے بڑے بڑے ٹکڑے لا دو
    سورہٴ کہف آیت96

    جب لوھے کی سلیں آ گئیں تو انھیں ایک دوسرے پر چننے کا حکم دیا

    یہاں تک کہ جب اس نے (وہ لوہے کی دیوار پہاڑوں کی) دونوں چوٹیوں کے درمیان برابر کر دی
    سورہٴ کہف آیت96

    تیسرا حکم ذوالقرنین نے یہ دیا

    تو کہنے لگا: (اب آگ لگا کر اسے) دھونکو، یہاں تک کہ جب اس نے اس (لوہے) کو دھونک دھونک کر) آگ بنا ڈالا )
    سورہٴ کہف آیت96

    درحقیقت وہ اس طرح لوھے کے ٹکڑوں کو آپس میں جوڑ کر ایک کردینا چاہتے تھے۔ یھی کام آج کل خاص مشینوں کے ذریعے انجام دیا جاتا ھے، لوھے کی سلوں کو اتنی حرارت دی گئی کہ وہ نرم هو کر ایک دوسرے سے مل گئیں۔
    پھر ذوالقرنین نے آخری حکم دیا

    تو کہنے لگا: میرے پاس لاؤ (اب) میں اس پر پگھلا ہوا تانبا ڈالوں گا

    سورہٴ کہف آیت96


    اس طرح اس لوھے کی دیوار پر تانبے کا لیپ کرکے اسے هوا کے اثر سے اور خراب هونے سے محفوظ کردیا۔ بعض مفسرین نے یہ بھی کھا ھے کہ موجودہ سائنس کے مطابق اگر تانبے کی کچھ مقدار لوھے میں ملادی جائے تو اس کی مضبوطی بہت زیادہ هوجاتی ھے۔ ذوالقرنین چونکہ اس حقیقت سے آگاہ تھے اس لئے انهوں نے یہ کام کیا۔ آخر کار یہ دیوار اتنی مضبوط هوگئی

    پھر ان (یاجوج اور ماجوج) میں نہ اتنی طاقت تھی کہ اس پر چڑھ سکیں اور نہ اتنی قدرت پا سکے کہ اس میں سوراخ کر دیں
    سورہٴ کہف آیت97

    یھاں پر ذوالقرنین نے بہت اھم کام انجام دیا تھا۔ مستکبرین کی روش تو یہ ھے کہ ایسا کام کرکے وہ بہت فخر وناز کرتے ھیں یا احسان جتلاتے ھیں لیکن ذوالقرنین چونکہ مرد خدا تھے۔

    لہٰذا انتھائی ادب کے ساتھ کہنے لگے

    ذوالقرنین نے) کہا: یہ میرے رب کی جانب سے رحمت ہے)
    سورہٴ کہف آیت98

    اگر میرے پاس ایسا اھم کام کرنے کے لئے علم و آگاھی ھے تو یہ خدا کی طرف سے ھے اور اگر مجھ میں کوئی طاقت ھے اور میں بات کرسکتا هوں تو وہ بھی اس کی طرف سے ھے اور اگر یہ چیزیں اور ان کا ڈھالنا میرے اختیار میں ھے تو یہ بھی پروردگار کی وسیع رحمت کی برکت ھے میرے پاس کچھ بھی میری اپنی طرف سے نھیں ھے کہ جس پر میں فخر و ناز کروں اور میں نے کوئی خاص کا م بھی نھیں کیا کہ اللہ کے بندوں پر احسان جتاتا پھروں۔ اس کے بعد مزید کہنے لگے

    پھر جب میرے رب کا وعدۂ (قیامت قریب) آئے گا تو وہ اس دیوار کو (گرا کر) ہموار کردے گا (دیوار ریزہ ریزہ ہوجائے گی)، اور میرے رب کا وعدہ برحق ہے
    سورہٴ کہف آیت98

    یہ کہہ کر ذوالقرنین نے اس امر کی طرف اشارہ کیا کہ اختتام دنیا اور قیا مت کے موقع پر یہ سب کچھ درھم برھم هوجائے گا۔


    ذوالقرنین کون تھے؟

    جس ذوالقرنین کا قرآن مجید میں ذکر ھے، تاریخی طور پر وہ کون شخص ھے، تاریخ کی مشهور شخصیتوں میں سے یہ داستان کس پر منطبق هوتی ھے، اس سلسلے میں مفسرین کے مابین اختلاف ھے۔ اس سلسلے میں جو بہت سے نظریات پیش کیے گئے ھیں ان میں سے یہ تین زیادہ اھم ھیں۔


    جدید ترین نظریہ یہ ھے جو ہندوستان کے مشهور عالم ابوالکلام آزاد نے پیش کیا ھے۔ ابوالکلام آزاد کسی دور میں ہندوستان کے وزیر تعلیم تھے۔ اس سلسلے میں انهوں نے ایک تحقیقی کتاب لکھی ھے۔ اس نظریہ کے مطابق ذوالقرنین،”کورش کبیر“ ”بادشاہ ہخامنشی “ھے۔




    ذوالقرنین کو یہ نام کیوں دیا گیا؟

    پھلی بات تو یہ ھے کہ ”ذوالقرنین“ کا معنی ھے۔”دوسینگوں والا“ سوال پیدا هوتا ھے کہ انھیں اس نام سے کیوں موسوم کیا گیا۔ بعض کا نظریہ ھے کہ یہ نام اس لئے پڑا کہ وہ دنیا کے مشرق و مغرب تک پہنچے کہ جسے عرب ” قرنی الشمس“ (سورج کے دوسینگ) سے تعبیر کرتے ھیں۔

    بعض کہتے ھیں کہ یہ نام اس لئے هوا کہ انهونے دو قرن زندگی گزاری یا حکومت کی۔ اور پھر یہ کہ قرن کی مقدار کتنی ھے، اس میں بھی مختلف نظریات ھیں۔ بعض کہتے ھیں کہ ان کے سر کے دونوں طرف ایک خاص قسم کا ابھار تھا ا س وجہ سے ذوالقرنین مشهور هو گئے۔ آخر کار بعض کا نظریہ یہ ھے کہ ان کا خاص تاج دوشاخوں والا تھا۔


    جناب ذوالقرنین کے ممتاز صفات​


    قرآن مجید سے اچھی طرح معلوم هوتا ھے کہ ذوالقرنین ممتاز صفات کے حامل تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے کامیابی کے اسباب ان کے اختیار میں دئیے تھے، انهوں نے تین اھم لشکر کشیاں کیں۔ پھلے مغرب کی طرف، پھر مشرق کی طرف اور آخر میں ایک ایسے علاقے کی طرف کہ جھاں ایک کوہستانی درہ موجود تھا، ان مسافرت میں وہ مختلف اقوام سے ملے۔ وہ ایک مرد مومن، موحد اور مھربان شخص تھے۔ وہ عدل کا دامن ھاتھ سے نھیں چھوڑتے تھے۔ اسی بناء پر اللہ کا لطف خاص ان کے شامل حال تھا۔ وہ نیکوں کے دوست اور ظالموں کے دشمن تھے۔ انھیں دنیا کے مال و دولت سے کوئی لگاؤ نہ تھا۔ وہ اللہ پر بھی ایمان رکھتے تھے اور روز جزاء پر بھی۔ انهو ں نے ایک نھایت مضبوط دیوار بنائی ھے، یہ دیوار انهوں نے اینٹ اور پتھر کے بجائے لوھے اور تانبے سے بنائی (اور اگر دوسرے مصالحے بھی استعمال هوئے هوں تو ان کی بنیادی حیثیت نہ تھی)۔ اس دیواربنانے سے ان کا مقصد مستضعف اور ستم دیدہ لوگوں کی یاجوج و ماجوج کے ظلم و ستم کے مقابلے میں مدد کرنا تھا۔

    وہ ایسے شخص تھے کہ نزول قرآن سے قبل ان کا نام لوگوں میں مشهور تھا۔ لہٰذا قریش اور یهودیوں نے ان کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سوال کیا تھا، جیسا کہ قرآن کہتا ھے: ” تجھ سے ذوالقرنین کے بارے میں پوچھتے ھیں :“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ائمہ اھل بیت علیھم السلام سے بہت سی ایسی روایات منقول ھیں جن میں ھے کہ: ” وہ نبی نہ تھے بلکہ اللہ کے ایک صالح بندے تھے“ ۔


    دیوار ذوالقرنین کھاں ھے ؟


    بعض لوگ چاہتے ھیں کہ اسے مشهور دیوار چین پر منطبق کریں کہ جو اس وقت موجود ھے اور کئی سو کلو میٹر لمبی ھے لیکن واضح ھے کہ دیوار چین لوھے اور تانبے سے نھیں بنی ھے اور نہ وہ کسی چھوٹے کو ہستانی درے میں ھے ،وہ ایک عام مصالحے سے بنی هوئی دیوار ھے ،اورجیسا کہ ھم نے کھا ھے کئی سو کلو میٹر لمبی ھے اور اب بھی موجود ھے ۔ بعض کااصرار ھے کہ یہ وھی دیوار” ماٴرب “ ھے کہ جو یمن میں ھے ،یہ ٹھیک ھے کہ دیوار ماٴرب ایک کوہستانی درے میں بنائی گئی ھے لیکن وہ سیلاب کو روکنے کے لئے اور پانی ذخیرہ کر نے کے مقصد سے بنائی گئی ھے اور ویسے بھی وہ لوھے اور تانبے سے بنی هوئی نھیں ھے۔

    جب کہ علماء و محققین کی گواھی کے مطابق سرزمین ” قفقاز“ میں دریائے خزر اور دریائے سیاہ کے درمیان پھاڑوں کا ایک سلسلہ ھے کہ جو ایک دیوار کی طرح شمال اور جنوب کو ایک دوسرے سے الگ کرتا ھے اس میں ایک دیوار کی طرح کا درہ کا موجود ھے جو مشهور درہ ”داریال“ ھے ، یھاں اب تک ایک قدیم تاریخی لوھے کی دیوار نظر آتی ھے ،اسی بناء پر بہت سے لوگوں کا نظریہ ھے کہ دیوار ِذوالقرنین یھی ھے

    یہ بات جاذب نظر ھے کہ وھیں قریب ھی ”سائرس“ نامی ایک نھر موجود ھے اور ”سائرس“ کا معنی ”کورش“ھی ھے (کیونکہ یونانی ”کورش“ کو”سائرس“کہتے تھے)۔ ارمنی کے قدیم آثار میں اس دیوار کو”بھاگ گورائی“کے نام سے یاد کیا گیا ھے ،اس لفظ کا معنی ھے ”درہ کورش“ یا ”معبر کورش“( کورش کے عبور کرنے کی جگہ) ھے یہ سند نشاندھی کرتی ھے کہ اس دیوار کا بانی ”کورش“ ھی تھا۔

    یاجوج ماجوج کون تھے ؟


    قرآن واضح طور پر گواھی دیتا ھے کہ یہ دو وحشی خونخوار قبیلوں کے نام تھے ،وہ لوگ اپنے ارد گرد رہنے والوں پر بہت زیادتیاں اور ظلم کرتے تھے ۔ عظیم مفسر علامہ طباطبائی ۺنے المیزان میں لکھا ھے کہ توریت کی ساری باتوں سے مجموعی طورپر معلوم هوتا ھے کہ ماجوج یا یاجوج و ماٴجوج ایک یا کئی ایک بڑے بڑے قبیلے تھے ، یہ شمالی ایشیا کے دور دراز علاقے میں رہتے تھے ، یہ جنگجو ، تگر اور ڈاکو قسم کے لوگ تھے ۔

    تاریخ کے بہت سے دلائل کے مطابق زمین کے شمال مشرق” مغولستان“ کے اطراف میں گزشتہ زمانوں میں انسانوں کا گویا جوش مارتا هوا چشمہ تھا، یھاں کے لوگوں کی آبادی بڑی تیزی سے پھلتی اورپھولتی تھی ، آبادی زیادہ هونے پر یہ لوگ مزرق کی سمت یا نیچے جنوب کی طرف چلے جاتے تھے اور سیل رواں کی طرح ان علاقوں میں پھیل جاتے تھے اور پھر تدریجاً وھاں سکونت اختیار کر لیتے تھے ، تاریخ کے مطابق سیلاب کی مانند ان قوموں کے اٹھنے کے مختلف دور گزرے ھیں ۔

    کورش کے زمانے میں بھی ان کی طرف ایک حملہ هوا ، یہ تقریباً پانچ سو سال قبل مسیح کی بات ھے لیکن اس زمانے میں ”ماد“ اور” فارس“ کی متحد ہ حکومت معرض وجود میں آچکی تھی لہٰذا حالات بد ل گئے اور مغربی ایشیا ان قبائل کے حملوں سے آسودہ خاطر هوگیا۔ لہٰذا یہ زیادہ صحیح لگتا ھے کہ یاجوج اور ماجوج انھی وحشی قبائل میں سے تھے ،جب کورش ان علاقوں کی طرف گئے تو قفقاز کے لوگوں نے درخواست کی کہ انھیں ان قبائل کے حملوں سے بچایا جائے ،لہٰذ اس نے وہ مشهور دیوار تعمیر کی ھے جسے دیوار ذوالقرنین کہتے ھیں ۔
     
  20. کنعان
    آف لائن

    کنعان ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جولائی 2009
    پیغامات:
    729
    موصول پسندیدگیاں:
    977
    ملک کا جھنڈا:
    سکندر اعظم ذوالقرنین نہیں تھے

    ذوالقرنین کون تھے؟​




    جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہوتا ہے

    < وَیَسْاٴَلُونَکَ عَنْ ذِی الْقَرْنَیْنِ قُلْ سَاٴَتْلُوا عَلَیْکُمْ مِنْہُ ذِکْرًا >
    (1)
    اور اے پیغمبر! یہ لوگ آپ سے ذو القرنین کے بارے میں سوال کرتے ہیں تو آپ کہہ دیجئے کہ میں عنقریب تمہارے سامنے ان کا تذکرہ پڑھ کر سنادوں گا



    یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ذوالقرنین کون تھے؟

    جس ذوالقرنین کا قرآن مجید میں ذکر ہے، تاریخی طور پر وہ کون شخص ہے، تاریخ کی مشہور شخصیتوں میں سے یہ داستان کس پر منطبق ہوتی ہے، اس سلسلے میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے، اس سلسلے میں بہت سے نظریات پیش کئے گئے ہیں، ان میں سے یہ تین زیادہ اہم شمار ہوتے ہیں


    پہلا نظریہ :بعض کا خیال ہے کہ”اسکندر مقدونی“ ہی ذوالقرنین ہے۔
    لہٰذا وہ اسے اسکندر ذوالقرنین کے نام سے پکارتے ہیں، ان کا خیال ہے کہ اس نے اپنے باپ کی موت کے بعد روم، مغرب اور مصر پر تسلط حاصل کیا، اس نے اسکندریہ شہر بنایا، پھر شام اور بیت المقدس پر اقتدار قائم کیا، وہاں سے ارمنستان گیا، عراق و ایران کو فتح کیا، پھر ہندوستان اور چین کا قصد کیا وہاں سے خراسان پلٹ آیا، اس نے بہت سے نئے شہروں کی بنیاد رکھی، پھر وہ عراق آگیا، اس کے بعد وہ شہر” زور“ میں بیمار پڑا اور مرگیا، بعض نے کہا ہے کہ اس کی عمر چھتیس سال سے زیادہ نہ تھی، اس کا جسد خاکی اسکندریہ لے جا کر دفن کردیا گیا۔
    (2)


    دوسرا نظریہ:موٴرخین میں سے بعض کا نظریہ ہے کہ ذوالقرنین یمن کا ایک بادشاہ تھا۔
    اصمعی نے اپنی تاریخ” عرب قبل از اسلام“ میں،ابن ہشام نے اپنی مشہور تاریخ ”سیرة“ میں اور ابوریحان بیرونی نے”الآثار الباقیہ“ میں یہی نظریہ پیش کیا ہے۔ یہاں تک کہ یمن کی ایک قوم ”حمیری“ کے شعرا اور زمانہٴ جاہلیت کے بعض شعرا کے کلام میں دیکھا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اس بات پر فخر کیا ہے کہ ذوالقرنین ہم میں سے ہیں۔


    تیسرا نظریہ: جو جدید ترین نظریہ ہے جس کو ہندوستان کے مشہور عالم ابوالکلام آزاد نے پیش کیا ہے، ابوالکلام آزاد کسی دور میں ہندوستان کے وزیر تعلیم تھے،اس سلسلے میں انہوں نے ایک تحقیقی کتاب لکھی ہے۔
    (3)


    اس نظریہ کے مطابق ذوالقرنین، کورش کبیر“ ”بادشاہ ہخامنشی “ ہے۔
    (4)


    لیکن چونکہ پہلے اور دوسرے نظریہ کے لئے کوئی خاص تاریخی منبع نہیں ہے، اس کے علاوہ قرآن کریم نے ذو القرنین کے جو صفات بیان کئے ہیں ان کا حامل سکندر مقدونی ہے نہ کوئی بادشاہِ یمن۔ اس کے علاوہ اسکندر مقدونی نے کوئی معروف دیوار بھی نہیں بنائی ہے، لیکن رہی یمن کی ”دیوارِ ماٴرب“ تو اس میں ان صفات میں سے ایک بھی نہیں ہے جو قرآن کی ذکر کردہ دیوار میں ہیں، جبکہ ”دیوار ماٴرب“ عام مصالحہ سے بنائی گئی ہے اور اس کی تعمیر کا مقصد پانی کا ذخیرہ کرنا اور سیلاب سے بچنا تھا، اس کی وضاحت خود قرآن میں سورہ سبا میں بیان ہوئی ہے۔
    لہٰذا ہم تیسرے نظریہ پر بحث کرتے ہیں یہاں ہم چند امور کی طرف مزید توجہ دینا ضروری سمجھتے ہیں


    الف: سب سے پہلے یہ بات قابل توجہ ہے کہ ذوالقرنین کو یہ نام کیوں دیا گیا؟
    پہلی بات تو یہ ہے کہ”ذوالقرنین“ کے معنی ہیں ”دوسینگوں والا“، لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انہیں اس نام سے کیوں موسوم کیا گیا؟ بعض کا نظریہ ہے کہ یہ نام اس لئے پڑا کہ وہ دنیا کے مشرق و مغرب تک پہنچے جسے عرب”قرنی الشمس“(سورج کے دوسینگ)سے تعبیر کرتے ہیں۔

    بعض کہتے ہیں کہ یہ نام اس لئے پڑا کہ انہو ں نے دوقرن زندگی گزاری یا حکومت کی ، اور پھر یہ کہ قرن کی مقدار کتنی ہے، اس میں بھی مختلف نظریات ہیں۔

    بعض کہتے ہیں کہ ان کے سر کے دونوں طرف ایک خاص قسم کا ابھار تھا اس وجہ سے ذوالقرنین مشہور ہو گئے ۔

    بعض کا یہ نظریہ ہے کہ ان کا خاص تاج دوشاخوں والا تھا۔


    ب ۔ قرآن مجیدسے اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ ذوالقرنین ممتاز صفات کے حامل تھے خدا وند عالم نے کامیابی کے اسباب ان کے اختیار میں دئے تھے،انہوں نے تین اہم لشکر کشی کی، پہلے مغرب کی طرف ،پھر مشرق کی طرف اور آخر میں ایک ایسے علاقے کی طرف گئے جہاں ایک کوہستانی درّہ موجود تھا، ان مسافرت میں وہ مختلف اقوام سے ملے۔

    وہ ایک مرد مومن، موحد اور مہربان شخص تھے، وہ عدل کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے تھے، اسی بنا پر خدا وند عالم کا خاص لطف ان کے شامل حال تھا۔

    وہ نیک لو گوں کے دوست او رظالموں کے دشمن تھے،انہیں دنیا کے مال و دولت سے کوئی لگاؤ نہ تھا، وہ اللہ پر بھی ایمان رکھتے تھے اور روز جزا پر بھی۔ انہو ں نے ایک نہایت مضبوط دیوار بنائی ہے،یہ دیوار انہوں نے اینٹ اور پتھر کے بجائے لوہے اور تانبے سے بنائی (اور اگر دوسرے مصالحے بھی استعمال ہوئے ہوں تو ان کی بنیادی حیثیت نہ تھی)، اس دیوار کے بنانے سے ان کا مقصد مستضعف اور ستم دیدہ لوگوں کی یاجوج و ماجوج کے ظلم و ستم کے مقابلے میں مدد کرنا تھا۔


    وہ ایسے شخص تھے کہ نزول قرآن سے قبل ان کا نام لوگوں میں مشہور تھا، لہٰذا قریش اور یہودیوں نے ان کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تھا، جیسا کہ قرآن کہتا ہے: < وَیَسْاٴَلُونَکَ عَنْ ذِی الْقَرْنَیْنِ > ” اور اے پیغمبر! یہ لوگ آپ سے ذو القرنین کے بارے میں سوال کرتے ہیں، حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ائمہ اہل بیت علیہم السلام سے بہت سی ایسی روایات منقول ہیں جن میں بیان ہواہے کہ: ”وہ نبی نہیں تھے بلکہ اللہ کے ایک صالح بندے تھے“۔(5)


    ج ۔ تیسرا نظریہ (ذو القرنین کورش ہی کو کہتے ہیں) اس کی دو بنیاد ہیں

    ۱۔
    اس مطلب کے بارے میں سوال کرنے والے یہودی تھے، یا یہودیوں کے کہنے پر قریش نے سوال کیا تھا، جیسا کہ آیات کی شان نزول کے بارے میں منقول روایات سے ظاہر ہوتا ہے، لہٰذا اس سلسلہ میں یہودی کتابوں کو دیکھنا چاہئے۔ یہودیوں کی مشہور کتابوں میں سے کتاب ”دانیال“ کی آٹھویں فصل میں تحریر ہے
    بل شصّر“ کی سلطنت کے سال مجھے دانیال کو خواب میں دکھایا گیا، جو خواب مجھے دکھایا گیا اس کے بعد اور خواب میں ،میں نے دیکھا کہ میں ملک ”عیلام “ کے ”قصر شوشان“ میں ہوں، میں نے خواب میں دیکھا کہ میں ”دریائے ولادی“ کے پاس ہوں، میں نے آنکھیں اٹھا کر دیکھا کہ ایک مینڈھا دریا کے کنارے کھڑا ہے، اس کے دو لمبے سینگ تھے، اور اس مینڈھے کومیں نے مغرب، مشرق اور جنوب کی سمت سینگ مارتے ہوئے دیکھا، کوئی جانور اس کے مقابلہ میں ٹھہر نہیں سکتا تھا اور کوئی اس کے ہاتھ سے بچانے والا نہ تھا وہ اپنی رائے پر ہی عمل کرتا تھا اور وہ بڑا ہوتا جاتا تھا۔
    (6)


    اس کے بعد اسی کتاب میں دانیال کے بارے میں نقل ہوا ہے جبرئیل اس پر ظاہر ہوئے اور اس کے خواب کی تعبیر یوں بیان کی
    تم نے دو شاخوں والا جو مینڈھا دیکھا ہے وہ مدائن اور فارس (یا ماد اور فارس) کے بادشاہ ہیں۔
    یہودیوں نے دانیال کے خواب کو بشارت قرار دیا وہ سمجھے کہ ماد و فارس کے کسی بادشاہ کے قیام اور بابل کے حکمرانوں میں ان کی کامیابی سے یہودیوں کی غلامی اور قید کا دور ختم ہوجائے گا، اور وہ اہل بابل کے چنگل سے آزاد ہوجائیں گے۔

    زیادہ زمانہ نہ گزرا تھا کہ ”کورش“ نے ایران کی حکومت پر غلبہ حاصل کر لیا اس نے ماد اور فارس کو ایک ملک کرکے دونوں کو ایک عظیم سلطنت بنا دیا، جیسے دانیال کے خواب میں بتایا گیا تھا کہ وہ اپنے سینگ مغرب، مشرق اور جنوب کی طرف مارے گا، کورش نے تینوں سمتوں میں عظیم فتوحات حاصل کیں۔ اس نے یہودیوں کو آزاد کیا، اور فلسطین لوٹنے کی اجازت دی۔

    یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ توریت کی کتاب اشعیاء فصل ۴۴، نمبر ۲۸ میں بیان ہوا ہے: ”اس وقت خاص طور سے کورش کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ میرا چرواہا ہے اس نےمیری مشیت کو پورا کیا ہے اور شیلم سے کہے گا تو تعمیر ہوجائے گا۔

    یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ توریت کے بعض الفاظ میں ”کورش“ کے بارے میں ہے کہ عقابِ مشرق اور مردِ تدبیر جو بڑی دور سے بلایا جائے گا۔
    (کتاب اشعیاء فصل ۴۶، نمبر ۱۱ )

    دوسری بنیاد یہ ہے کہ انیسویں عیسوی صدی میں دریائے” مرغاب “ کے کنارے تالاب کے قریبکورش کا مجسمہ دریافت ہوا، یہ ایک انسان کے قد وقامت کے برابر ہے،اس میں کورش کے عقاب کی طرح دو پَر بنائے گئے ہیں اور اس کے سرپر ایک تاج ہے، اس میں مینڈھے کے سینگوں کی طرح دو سینگ نظر آتے ہیں۔

    یہ مجسمہ بہت قیمتی اور قدیم فن سنگ تراشی کا نمونہ ہے، اس نے ماہرین کو اپنی طرف متوجہ کرلیا ہے جرمنی ماہرین کی ایک جماعت نے صرف اسے دیکھنے کے لئے ایران کا سفر کیا۔

    توریت کی تحریر کو جب اس مجسمہ کی تفصیلات کے ساتھ ملایا گیا تو ابو الکلام آزاد کو مزید یقین ہوا کہ کورش ذو القرنین (دو سینگوں والا) کہنے کی وجہ کیا ہے، اس طرح یہ بھی واضح ہو گیا کہ کورش کے مجسمہ میں عقاب کے دو پر کیوں لگائے گئے ہیں، اس سے دانشوروں کے ایک گروہ کے لئے ذو القرنین کی تاریخی شخصیت مکمل طور پر واضح ہوگئی۔

    اس کے علاوہ اس نظریہ کی تائید کے لئے کورش کے وہ اخلاقی صفات ہیں جو تاریخ میں لکھے ہوئے ہیں
    یونانی مورخ ہر ودوٹ لکھتا ہے: کورش نے حکم جاری کیا کہ اس کے سپاہی جنگ کرنے والوں کے علاوہ کسی کے سامنے تلوار نہ نکالیں اور اگر دشمن کا سپاہی اپنا نیزہ خم کردے تو اسے قتل نہ کریں، کورش کے لشکر نے اس کے حکم کی اطاعت کی ، اس طرح سے ملت کے عام لوگوں کو مصائب جنگ کا احساس بھی نہ ہوا۔


    ہرو دوٹ کورش کے بارے میں لکھتا ہے: کورش کریم، سخی، بہت نرم دل اور مہربان بادشاہ تھا، اسے دوسرے بادشاہوں کی طرح مال جمع کرنے کا لالچ نہ تھا، بلکہ اسے زیادہ سے زیادہ کرم و بخشش کا شوق تھا، وہ ستم رسیدہ لوگوں کے ساتھ عدل و انصاف سے کام لیتا تھا اور جس چیز سے زیادہ خیر اور بھلائی ہوتی تھی اسے پسند کرتا تھا۔

    اسی طرح ایک دوسرا مورخ ”ذی نوفن“ لکھتا ہے: کورش عاقل اور مہربان بادشاہ تھا، اس میں بادشاہوں کی عظمت اور حکماء کے فضائل ایک ساتھ جمع تھے، وہ بلند ہمت تھا اس کا جود و کرم زیادہ تھا اس کا شعار انسانیت کی خدمت تھا ا ور عدالت اس کی عادت تھی وہ تکبر کے بجائے انکساری سے کام لے لیتا تھا۔

    مزے کی بات یہ ہے کہ کورش کی اس قدر تعریف و توصیف کرنے والے مورخین غیر لوگ ہیں کورش کی قوم اور وطن سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے جو کہ اہل یونان ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ یونان کے لوگ کورش کی طرف دوستی اور محبت کی نظر سے نہیں دیکھتے تھے کیونکہ کورش نے ”لیدیا“ کو فتح کرکے اہل یونان کو بہت بڑی شکست دی تھی۔

    اس نظریہ کے طرفدار کہتے ہیں کہ قرآن مجید میں ذو القرنین کے بیان ہونے والے اوصاف کورش کے اوصاف سے مطابقت رکھتے ہیں۔

    اس تمام باتوں کے علاوہ کورش نے مشرق، مغرب اور شمال کی طرف سفر بھی کئے ہیں اس کے تمام سفر کا حال (اور سفر نامہ) اس کی تاریخ میں تفصیلی طور پر ذکر ہوا ہے، یہ قرآن میں ذکر کئے گئے ذو القرنین کے تینوں سفر سے مطابقت رکھتے ہیں۔

    کورش نے پہلی لشکر کشی ” لیدیا “ پر کی ، یہ ایشائے صغیر کا شمالی حصہ ہے یہ ملک کورش کے مرکز حکومت سے مغرب کی سمت میں تھا۔

    جس وقت آپ ایشائے صغیر کے مغربی ساحل کے نقشہ کو سامنے رکھیں گے تو دیکھیں گے کہ ساحل کے زیادہ تر حصے چھوٹی چھوٹی خلیجوں میں بٹے ہوتے ہیں، خصوصاً ”ازمیر“ کے قریب جہاں خلیج ایک چشمہ کی صورت میں دکھائی دیتا ہے۔

    قرآن کا بیان ہے کہ ذو القرنین نے اپنے مغرب کے سفر میں محسوس کیا کہ جیسے سورج کیچڑ آلود چشمہ میں ڈوب رہا ہے، یہ وہی منظر ہے جو کورش نے غروب آفتاب کے وقت ساحلی خلیجوں میں دیکھا تھا۔

    کورش کی دوسری لشکر کشی مشرق کی طرف تھی جیسا کہ ہرو دوٹ نے کہا ہے کہ کورش کا یہ مشرقی حملہ ”لیدیا“ کی فتح کے بعد ہوا خصوصاً بعض بیابانی وحشی قبائل کی سرکشی نے کورش کو اس حملہ پر مجبور کیا۔

    چنانچہ قرآن میں بھی ارشاد ہے

    < حَتَّی إِذَا بَلَغَ مَطْلِعَ الشَّمْسِ وَجَدَہَا تَطْلُعُ عَلَی قَوْمٍ لَمْ نَجْعَلْ لَہُمْ مِنْ دُونِہَا سِتْرًا>
    (7)
    یہاں تک کہ جب طلوع آفتاب کی منزل تک پہنچا تو دیکھا کہ وہ ایک ا یسی قوم پر طلوع کررہا ہے جن کے پاس سورج کی کرنوں سے بچنے کے لئے کوئی سایہ نہ تھا


    یہ الفاظ کورش کے سفر مشرق کی طرف اشارہ کررہے ہیں جہاں اس نے دیکھا کہ سورج ایسی قوم پر طلوع کر رہا ہے جن کے پاس اس کی تپش سے بچنے کے لئے کوئی سایہ نہ تھا، یہ اس طرف اشارہ ہے کہ وہ قوم صحرا نوردتھی اور بیابانوں میں رہتی تھی۔

    کورش نے تیسری لشکر کشی شمال کی طرف ”قفقاز“ کے پہاڑوں کی طرف کی یہاں تک کہ وہ دو پہاڑوں کے درمیان ایک درّے میں پہنچا، یہاں کے رہنے والوں نے وحشی اقوام کے حملوں اور غارت گری کو روکنے کی درخواست کی اس پر کورش نے اس تنگ درے میں ایک مضبوط دیوار تعمیر کردی۔ اس درّہ کو آج کل درّہ ”داریال“ کہتے ہیں، موجودہ نقشوں میں یہ ”ولادی کیوکز“ اور ”تفلیس“ کے درمیان دیکھا جاتا ہے وہاں اب تک ایک آہنی دیوار موجود ہے، یہ وہی دیوار ہے جو کورش نے تعمیر کی تھی، قرآن مجید نے ذو القرنین کی دیوار کے جو اوصاف بتائے ہیں وہ پوری طرح اس دیوار پر منطبق ہوتے ہیں۔

    اس تیسرے نظریہ کا خلاصہ یہ تھا جو ہماری نظر میں بہتر ہے۔
    (8)

    یہ صحیح ہے کہ اس نظریہ میں بھی کچھ مبہم چیزیں پائی جاتی ہیں، لیکن عملاً ذو القرنین کی تاریخ کے بارے میں ابھی تک جتنے نظریات پیش کئے گئے ہیں اسے ان میں سے بہترین کہا جاسکتا ہے۔
    (9)

    ---------

    حوالہ جات

    (1)
    سورہٴ کہف ، آیت ۸۳

    (2)
    تفسیر فخر رازی، محل بحث آیت میں اور کامل ابن اثیر ، جلد اول صفحہ ۲۸۷ میں اور بعض دوسرے مورخین اس بات کے قائل ہیں کہ سب سے پہلے اس نظریہ کو پیش کرنے والے شیخ ابو علی سینا ہیں جنھوں نے اپنی کتاب الشفاء میں اس کا ذکر کیا ہے

    (3)
    المیزان ، جلد ۱۳، صفحہ ۴۱۴

    (4)
    فارسی میں اس کتاب کے ترجمعہ کا نام”ذوالقرنین یا کورش کبیر“ رکھا گیا ہے، اور متعدد معاصر مورخین نے اسی نظریہ کی تائید کرتے ہوئے اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے

    (5)
    دیکھئے تفسیر نو رالثقلین ، جلد ۳صفحہ ۲۹۴/اور ۲۹۵

    (6)
    کتاب دانیا ل ،فصل ہشتم ،جملہ نمبر ایک سے چار تک

    (7)
    سورہٴ کہف ، آیت ۹۰

    (8)
    اس سلسلہ میں مزید وضاحت کے لئے کتاب ”ذو القرنین یا کورش کبیر“ اور ”فرہنگ قصص قرآن“ کی طرف رجوع فرمائیں

    (9)
    تفسیر نمونہ ، جلد ۱۲، صفحہ ۵۴۲
     
  21. آذر
    آف لائن

    آذر ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جنوری 2010
    پیغامات:
    219
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    جواب: سکندر آعظیم اور ذولقرنین

    شکریہ ------------------
     
  22. عارف عارف
    آف لائن

    عارف عارف ممبر

    شمولیت:
    ‏13 جنوری 2010
    پیغامات:
    729
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    جواب: سکندر آعظیم اور ذولقرنین

    اچھی تحریر ہے شکری:a180:ہ
     

اس صفحے کو مشتہر کریں