1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

سکندرِاعظم کا ادھورا خواب

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏12 جون 2019۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    سکندرِاعظم کا ادھورا خواب
    [​IMG]
    یسرا خان

    معروف فاتح سکندرِ اعظم کا انتقال 11 جون 323 ق م کو ہوا۔ سکندرِ اعظم کا انتقال بابل میں ہوا جسے وہ اپنا دارالحکومت بنانا چاہتا تھا تاکہ خطۂ عرب پر حملہ آور ہو سکے اور اپنی فتوحات کو مزید وسیع کرسکے۔ لیکن یہ محض خواب ہی رہا۔ سکندر قدیم یونانی سلطنت میسی ڈون کا بادشاہ تھا۔ یہ 356 ق م میں پیلا کے مقام پر پیدا ہوا اور 20 برس کی عمر ہی میں بادشاہ بن گیا۔ 16 برس کی عمر تک وہ ارسطو کا شاگرد رہا۔ جب باپ قتل ہوا، اسے وراثت میں مضبوط سلطنت اور تجربہ کار سپاہ ملی۔ اس نے اپنی زندگی کا زیادہ تر حصہ غیرمعمولی عسکری مہمات میں بسر کیا اور اس سلسلے میں ایشیا اور شمال مشرقی افریقہ کی ریاستوں اور سلطنتوں کو روندتا رہا۔ صرف 30 برس کی عمر میں اس نے دورِ قدیم کی ایک بہت بڑی سلطنت قائم کر لی تھی۔ یہ سلطنت یونان سے لے کر برصغیر تک پھیلی ہوئی تھی۔ وہ کم و بیش ناقابلِ شکست رہا۔ اسی لیے اسے دنیا کے کامیاب ترین عسکری کمانڈروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ 334ء میں اس نے قدیم ایران کی ہخامنشی سلطنت پر حملہ کر دیا۔ اس مضبوط سلطنت کو فتح کرنا آسان نہ تھا لیکن وہ 10 سال تک مسلسل حملے کرتا رہا۔ بالآخر اس نے دارا سوم کو شکست دے کر پوری ایرانی سلطنت پر قبضہ کر لیا۔ یوں اس کی سلطنت دریائے سندھ تک وسیع ہو گئی۔ وہ برصغیر پر حملہ آور ہوا اور پورس کے خلاف اہم کامیابی حاصل کی۔ پورس کو شکست دینا اس کے لیے آسان نہ تھا لیکن حالات و واقعات نے سکندر کا ساتھ دیا۔ اس کی سلطنت وسیع ضرور ہوئی لیکن استحکام حاصل نہ کر سکی۔ سکندر کی موت کے بعد چند سالوں کے اندر اس کے جانشین آپس میں الجھ پڑے۔ نتیجتاً سلطنت کے حصے بخرے ہو گئے۔ سکندرِ اعظم کے جرنیلوں اور وارثوں کی کئی ریاستیں وجود میں آ گئیں۔ اگرچہ سکندر کی مہمات سے بہت زیادہ خونریزی ہوئی لیکن اس کی مدد سے دور دراز کے رہنے والوں کو ایک دوسرے کا پتا چلا۔ سکندرِ اعظم کی فتوحات سے بہت سی ثقافتوں اور عقائد کا ملاپ ممکن ہوا۔ اس کی ایک مثال یونانی بدھ مت کا نظریہ ہے جو چوتھی ق م سے پانچویں ق م تک برصغیر میں پھیلا۔ یہ یونانی اور بدھ مت روایات کا امتزاج تھا۔ سکندرِ اعظم نے کم و بیش 20 شہروں کی بنیاد رکھی جنہیں سکندر کا عنوان ملا۔ ان میں سے ایک مصر کا مشہور شہر سکندریہ ہے۔ سکندر کی مدد سے یونانی لوگ دوسرے علاقوں میں آباد ہوئے اور صدیوں تک اپنی الگ شناخت قائم رکھی۔ پاکستان کے شمالی علاقوں میں کیلاش لوگوں کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ ان کے آباؤاجداد کا تعلق یونان سے تھا۔

     

اس صفحے کو مشتہر کریں