1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

سویا بین کا دلچسپ تاریخی پس منظر

'میڈیکل سائنس' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏15 اکتوبر 2019۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    سویا بین کا دلچسپ تاریخی پس منظر
    upload_2019-10-15_3-17-4.jpeg
    فیاض احمد علیگ

    سویا بین(Soya Bean)ایک قدیم ترین پودا ہے جو بطور غذاا ور دوا استعمال ہوتا ہے۔ سویا بین کے پودے ۱۵۰ سینٹی میٹر اونچے ہوتے ہیں، تنے باریک روئیں دار اورآپس میں الجھے ہوئے لیسدار ہوتے ہیں۔ سویابین کو غذا و ددوا کے علاوہ دیگر مقاصد کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے چنانچہ اس سے Paint، وارنش، Linoleum، کاغذ اور بہت سے واٹر پروف سامان وغیرہ بھی بنتے ہیں۔ سویا بین کا استعمال عام طور سے بطور غذا چین میں ۲۸۵۳ قبل مسیح سے ہوتا رہا ہے چنانچہ۲۸۳۸ قبل مسیح میں چین کے شہنشاہ شنگ ننگ (Sheng-Nung) کی تحریر کردہ کتاب میں بھی اس کا حوالہ ملتا ہے۔ (۲) جس میں اس نے پانچ اناجوں ( Soybeans, Rice, Wheat, Barley and Millet.)کو مقدس قرار دیا ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کم از کم ۲۸۳۸ قبل مسیح سے ہی چین میں اس کا استعمال عام ہو چکا تھا۔ چین کے بعد یہ دنیا کے دیگر ممالک جیسے جاپان، انڈونیشیا، فلیپائن، ویتنام، تھائی لینڈ، ملیشیا، برما، نیپال، ہندوستان، بنگلہ دیش اورپاکستان وغیرہ میں بھی عام ہو گیا۔ اس کی بھرپورغذائیت اور طبی افادیت کے باعث جاپان، یورپ اور امریکہ کے علاوہ دیگر ممالک جیسے مصر، جنوبی افریقہ، روس،آسٹریلیا، کوریا، منچوریا اور منگولیا وغیرہ میں بھی اس کی کاشت بڑے پیمانے پر کی جاتی ہے۔ اسی طرح حالیہ برسوں میں برازیل، رومانیہ، میکسیکو اور ارجنٹائینا وغیرہ میں بھی اس کی کاشت پر توجہ دی جانے لگی ہے۔ سویا بین کا تاریخی پس منظر بڑا عجیب و غریب ہے۔ تاریخ کے مطابق مغربی چین میں سونا چاندی، ہیرے موتی وغیرہ سے لدا ایک تجارتی قافلہ جا رہا تھا کہ راستے میں قافلے کو ڈاکوئوں نے گھیر لیا۔ ان ڈاکوئوں سے بچنے کے لئے تاجروں نے اپنے نوکروں کے ساتھ ایک ایسے غار میں پناہ لی جو چٹانوں سے گھرا ہوا تھا۔ اس غار میں چھپے ہوئے کئی دن ہو گئے حتی کہ کھانے کا سار اسامان ختم ہو گیا۔ بھوک کی حالت میں ہی ایک نوکر کی نظر ایک عجیب و غریب پودے پر پڑی جو ان لوگوں کے لئے بالکل نیا تھا۔ بہرحال۔۔۔ بھوک سے نڈھال ان لوگوں نے ان پودوں کے بیج نکال کرآٹا بنایا اور اسے گوندھ کر اس کے کیک تیار کئے جو کھانے میں انتہائی لذیذ ثابت ہوئے اور اسی کے سہارے ان لوگوں نے کافی دن اسی غار میں گذار دئے۔ اس طرح حادثاتی طور پر سویا بین کی دریافت ہوئی اور رفتہ رفتہ پورے چین میں اس کا ستعمال عام ہو گیا۔ چین کے بعد جاپان میں اس کا استعمال عام ہوا۔یورپ میں پہلی بار ۱۹۷۲ میں جرمن ماہر نباتات اینگلی برٹ فانسکر نے جاپان میں دوسال گذارنے کے بعد سویا بین پر باقاعدہ مضمون شایع کر کے اسے متعارف کرایا۔ بر صغیر ایشیا خصوصاً ہندوپاک میں سویا بین کا استعمال کب سے عام ہو اور کس ذریعہ سے وہ یہاں تک پہنچی اس کاکوئی تاریخی ثبوت تو نہیں ملتا۔ ہاں ! اتنا ضرور ہے کہ مرکزی ایشیا میں آریہ سماج کے لوگ سویا بین کو بھی شہد کی طرح مقدس مانتے تھے۔ ہندوستان کے یوگی اسے انتہائی صحت بخش و مقوی غذا کے طور پر استعمال کرتے تھے۔سویا بین ہر لحاظ سے مکمل غذا ہے اس لئے کہ اس میں تمام غذائی اجزاء جیسے لحمیات، کاربوہائیڈریٹ، وٹامنز اور منرلز پائے جاتے ہیں۔سویابین میں کیلشیم ، فولاد اور فاسفورس بھی کافی مقدار میں ملتا ہے۔ چنانچہ چینیوں کا خیال ہے کہ ’’یہ جسم کو متناسب بناتی، جسمانی ساخت کو ترقی دیتی اور نشو و نما کو تیز کرتی ہے‘‘۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں