1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

سوشل نیٹ ورک کا غلط استمال

'انفارمیشن ٹیکنالوجی' میں موضوعات آغاز کردہ از حنا شیخ 2, ‏23 نومبر 2017۔

  1. حنا شیخ 2
    آف لائن

    حنا شیخ 2 ممبر

    شمولیت:
    ‏6 اکتوبر 2017
    پیغامات:
    1,643
    موصول پسندیدگیاں:
    725
    ملک کا جھنڈا:
    آج کے دور کو سائنس کی ترقیات اور چمک دَمک کا دور کہا جاتا ہے، لیکن ایک طرف اگر اس نے تعمیر و ترقی کے لئے راہیں ہموار کی ہیں تو دوسری طرف سائبر کرائمز نے معاشرے میں بدنظمی اور ہلچل سی پیدا کردی ہے، سوشل نیٹ ورک اور سیٹلائٹ چینل محض انٹرٹینمنٹ کا ذریعہ ہیں لیکن ان کو ہمارے ملک میں جرائم کی پہلی سیڑھی بنادیا گیا ہے، تمام دُنیا میں یہی چینلز اور فیس بُک، اسکائپ وغیرہ استعمال ہورہے ہیں لیکن دُنیا میں شازو ناظر ہی اس کے توسط یا ذریعہ سے جرائم کی شرح میں اضافہ ہوا ہو جتنا پاکستان میں ہوتا ہے، یہاں مختصر بیان کرنالازمی ہے کہ پچاس ساٹھ سال قبل جب ریڈیو اور ٹرانزسسٹر کا دور تھا لوگ مطمئن تھے جب ٹیلی ویژن کی آمد ہوئی تو اس چھوٹی اسکرین نے دُنیا میں انقلاب بپا کردیا آج ٹی وی ہر گھر میں موجود ہے اور اس اسمال اسکرین یا سائنسی ایجاد کو ہم لوگ غلط نظریئے سے استعمال کررہے ہیں بالخصوص ہمارا الیکٹرانک میڈیا شعور اور مکمل نالج نہ ہونے کے باعث ایسے پروگرامز نشر کررہا ہے جس سے نئی نسل سائنس یا ٹیکنالوجی کو سمجھنے کی بجائے اس کا غلط استعمال کررہی ہے۔
    مغربی ممالک میں ٹی وی کو صرف وقت گزارنے کی ایک مشین سمجھا جاتا ہے کوئی بھی نیا پروگرام ٹی وی پر نشر کرنے سے پہلے انفارمیشن منسٹری (سنسر بورڈ) میں سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کے لئے بھیجا جاتا ہے اور وہ ادارہ اس پروگرام کو مدنظر رکھ کر سرٹیفکیٹ جاری کرتا ہے کہ یہ پروگرام فلاں فلاں عمر کے افراد کے دیکھنے کے قابل ہے یا نہیں مثلاً اگر ایک پروگرام یا فلم جس میں معمولی سابھی تشدد کا عنصر پایا جاتا ہے اسے بارہ سال سے کم عمر کے افراد نہیں دیکھ سکتے ہیںیا ہالی وڈ کی تشدد سے بھرپور فلموں کو اٹھارہ سال سے کم عمر کے افراد کے لئے ممنوع قرار دیا جاتا ہے کارٹونز پروگرامز وغیرہ کے لئے عمر کی کوئی قید و بند نہیں رکھی گئی اور ہر ایک کو دیکھنے کی اجازت ہے۔ علاوہ ازیں مغربی ممالک میں کئی نیوز چینلز ایسے ہیں جو صرف ہرگھنٹے بعد تین سے پانچ منٹ کی ہیڈ لائنز نشر کرتے ہیں اور اس کے بعد سائنس کی نئی ایجادات یا تحقیقات کے بارے میں جیسے کہ نظام شمسی، سمندر کی گہرائی اور وہاں پائے جانے والے جانوروں، نئی موٹر کارز اور ان کی ٹیکنالوجی، ہسٹری، جغرافیہ یا ایک پینسل کیسے تیار کی جاتی ہے وغیرہ جیسے معلوماتی اور تعمیری پروگرامز ہمیشہ ناظرین کی دلچسپی کا باعث ہوتے ہیں، بچوں کے دیکھنے کے تمام پروگرام شام نو بجے بند کردیئے جاتے ہیں اور بچوں کے ڈاکٹرز کی والدین کو خاص طور پر ہدایت ہے کہ دن میں آدھا گھنٹہ سے زیادہ بچے ٹی وی نہیں دیکھ سکتے، جب کہ پاکستان میں دن رات مختلف چینلز پر صرف سیاست اور تشدد ہی دکھایا جاتا ہے جس سے بالخصوص بچوں پر بُرے اثرات مرتب ہورہے ہیں بچوں کے ذہن معصوم اور خام ہوتے ہیں وہ اچھے بُرے کی تمیز نہیں کرسکتے اور اپنا قیمتی وقت جو انہیں پڑھائی کو دینا چاہئے اسکرین کے سامنے گزارتے ہیں، اشتہارات سے ان کی نفسیات پر بُرا اثر پڑتا ہے۔
    ہم کہتے ہیں کہ بچے ملک و قوم کا مستقبل ہیں لیکن ان کے مستقبل کی تعمیر و تشکیل پر توجہ نہیں دیتے جو بچے خیالی تصورات و بے جا خواہشات میں مبتلا ہوکر اپنا وقت ضائع کرتے ہیں وہ بھلا کیسے مستقبل کا اثاثہ ثابت ہوسکتے ہیں، عید کے موقع پر ہر چینل نے بچوں کے بارے میں مختلف رپورٹ نشر کی کہ والدین کے ساتھ پرفضا مقام پر یا پارکس وغیرہ میں تفریح کی اور دیکھنے میں یہ آیا کہ ہر دوسرے بچے کے ہاتھ میں جدید طرز کا کھلونا ہتھیار تھا بہت افسوس ہوتا ہے ایسے والدین کی سوچ پر ہتھیار بھی کوئی کھیلنے کی چیز ہے بھلے وہ کھلونا ہی کیوں نہ ہو؟ مغربی ممالک میں ہرچھوٹے بڑے شاپنگ سینٹر سے کھلونا ہتھیار ہٹا دیئے گئے ہیں، اس کی وجہ یہ بیان کی گئی کہ نہ ہتھیار مارکیٹ میں ہوں گے نہ بچے ان کی طرف راغب ہوں گے، اپنے کالم ہتھیار میں اس کے منفی اثرات تحریر کرچکا ہوں۔
    بلاشبہ ٹی وی انٹرٹینمنٹ کے علاوہ انفارمیشن دینے کا بھی کردار ادا کرتا ہے لیکن پاکستان میں بچوں کے لئے نہ تو کوئی تعلیمی پروگرامز پیش کئے جاتے ہیں اور نہ تخلیقی، بچوں کے ذہنوں میں سیاست اور تشدد کا زہرگھولا جارہاہے، والدین کو چاہئے کہ جتنا ممکن ہو بچوں کو ٹی وی سے دور رکھیں نہیں تو ذہنی و جسمانی نقصان کے ذمہ دار ہوں گے جیسے کہ بینائی کی کمزوری یا بہرہ پن دونوں صورتوں میں بچوں کو کم عمری میں ہی آلات کاسہارا لینا پڑے گا، بچے کچی مٹی کی طرح ہوتے ہیں آپ انہیں جس سانچے میں چاہیں ڈھال سکتے ہیں، بچوں کی رہنمائی اور نگرانی کرنے پر ہی وہ مستقبل کااثاثہ ثابت ہوں گے، اس لئے بچوں کو تشدد سے بھرپور انڈین فلمیں یا بے مقصد خواتین کے فیملی جھگڑوں پر مبنی ڈرامے دکھانے سے بہتر ہے کمپیوٹر پر تعلیمی اور تخلیقی پروگرام ڈاﺅن لوڈکردیں جن سے انہیں کچھ حاصل بھی ہو، کیونکہ اسی سائنسی ٹیکنالوجی نے جہاں زندگی کے دوسرے شعبوں میں اپنے قدم جمائے ہیں وہیں تعلیمی اور تخلیقی میدان میں اس کے ذریعے ایک انقلاب آیا ہے۔
    آپ صرف دو گھنٹے توجہ سے انٹرنیٹ پر اپنے بچوں کی عمروں کو مدنظر رکھ کر مختلف ویب سائٹ پر تعلیمی اور تخلیقی ویب سائٹ تلاش کریں اور انہیں ڈاﺅن لوڈ کرنے کے بعد سیو کرلیں بچوں کو انٹرنیٹ اس وقت تک استعمال کرنے کی اجازت نہ دیں جب تک وہ باشعور نہیں ہوجاتے، بچوں کے ذہن اتنے فاسٹ ہیں کہ وہ فوراً ہر چیز کو سمجھ جاتے ہیں چیدہ چیدہ باتیں انہیں سمجھا دی جائیں اور وقتاً فوقتاً ان کی نگرانی بھی کی جائے اور سمجھایا جائے، انٹرنیٹ پر بچوں کے لئے ریاضی،سائنس، سماجی علوم، ذہنی آزمائش، گیمز، آرٹ و تصویر سازی، جنرل نالج، انگلش لیکچر کے علاوہ ہائی ٹیک معلوماتی پروگرامز بھی ڈاﺅن لوڈ کرسکتے ہیں۔
    جرمنی میں پہلی کلاس سے ہی اسکول کی طرف سے ریاضی، انگلش اور جرمن گرامر سیکھنے کے لئے بچوں کوسوفٹ ویئر دیئے جاتے ہیں تاکہ وہ ہوم ورک کرنے میں بچوں کے مددگارثابت ہوں۔
    ہم لوگوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم سائنس اور ٹیکنالوجی کو مانتے ہوئے بھی اس سے دور بھاگتے ہیں سائنس کی ایجادات پر عش عش تو کرتے ہیں لیکن اسے اچھا بھی نہیں سمجھتے، ہمیں سوچنا چاہئے کہ ہمارے بچے سائنس اور ٹیکنالوجی میں عبور حاصل نہیں کریں گے تو کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔ علاوہ ازیں پتھروں کے زمانے میں واپس جانے سے بہتر ہے دورِ جدید کی تخلیقات کو قبول کریں اور بچوں کے مستقبل کی راہ میں رکاوٹ نہ بنیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی ہی بچوں اور ہم سب کا مستقبل ہے، سائنس اور ٹیکنالوجینے ہمیں بہت کچھ یاد ہے لیکن سیاست اور تشدد کلچر نے ہمیں کہیں کا نہ چھوڑا۔

    شئی​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں