1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

سوات: سازش بے نقاب ہورہی ہے

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از commando, ‏9 اپریل 2009۔

  1. commando
    آف لائن

    commando ممبر

    شمولیت:
    ‏16 دسمبر 2008
    پیغامات:
    95
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    گزشتہ جمعہ کے روز میڈیا کے ایک مشتبہ ویڈیو جس میں چند مبینہ طالبان ایک لڑکی کو زمین پر لٹا کر اور دبوچ کر کوڑے مار رہے ہیں۔ اس ویڈیو کے منظر عام ہر آتے ہی ایک بھونچال آگیا عام افراد سکتے کی حالت میں تھے کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ لیکن مفاد پرست اور امریکی کاسہ لیس، امریکہ کے پٹھو ایسے ہی کسی موقع کی تلاش میں تھے کہ کسی طرح دین اسلام کو بدنام کرنے کا موقع مل جائے اور بلی کے بھاگوں چھیکا ٹوٹا کہ یہ ویڈیو نشر ہوگئی بس پھر کیا تھا پھر تو اسلام بیزار این جی اوز، اور مغرب نوازوں کی طرف سے اس واقعے کی آڑ میں دین اسلام کے احکامات، اور شریعت کے خلاف گز گز بھر کی لمبی زبان نکال کر دشنام طرازیاں کی گئی اور بقول جنگ کے کالم نگار جناب عرفان صدیقی صاحب کہ دیکھتے ہی دیکھتے وہ لبرل فاشسٹ مفسر، محدث، فقہیہ اور مجتہد بن گئے جو نماز کی رکعتیں بھی نہیں گنوا سکتے ہر شخص شیخ القرآن اور شیخ الحدیث بن بیٹھا اور المیہ سوات کی اسلامی تعلیمات کے تناظر میں تشریح و تعبیر کرنے لگا یوں لگا جیسے برسات کی بھوک کے مارے بھیڑیوں کو شکار ہاتھ آگیا ہو، ایک سے بڑھ کر ایک مفتی زماں، مجتہد العصر اور نابغہ وقت بن بیٹھا بالکل یہی صورتحال تھی اس وقت چند ہی لوگ تھے جو اس پر اعتدال پر قائم تھے اور یہ کہہ رہے تھے کہ یہ کوئی سازش لگتی ہے۔ ہم نے بھی اس پر یہی کہا تھا کہ یہ ویڈیو کسی سازش کے تحت جاری کی گئی ہے۔اور ہم نے اس کے ساتھ ڈاکٹر عافیہ کے لیے بھی آواز اٹھانے کی بات کی تھی لیکن کچھ لوگوں کو یہ بات پسند نہیں آئی تھی خیر یہ تو ہمارا موضوع نہیں ہے اس وقت ہم بات کریں گے کہ آہستہ آہستہ سازش بے نقاب ہوتی جارہی ہے کیوں کہ جس خاتون کو مبینہ طور پر کوڑے مارنے کا ذکر کیا گیا وہ اس واقعے سے اور اس سزا سے انکاری ہے۔ وزیر اعلیٰ سرحد کا یہ کہنا ہے کہ یہ ویڈیو مکمل طور پر جعلی اور اسلام کو بدنام کرنے کی سازش ہے، کمشنر مالا کنڈ کا کہنا ہے کہ خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ایسا کوئی واقع نہیں پیش آیا ۔ دراصل یہ سارا معاملہ سوات امن معاہدہ کو ختم کرنے لیے گھڑا گیا ہے تاکہ اسکو جواز بنا کر سوات امن معاہدہ ختم کیا جائے کیوں کہ پاکستان اور بالخصوص شمالی علاقہ جات میں امن امریکہ کے مفاد میں نہیں ہے اور امریکہ کی ناراضگی کے ڈر سے ہی ابھی تک صدر جانب آصف علی زرداری نے اس معاہدے کی توثیق نہیں کی تھی، اور بالاخر یہی بات ثابت ہوئی کیوں کہ امریکی وزیر دفاع نے کہہ دیا کہ امن معاہدہ پاکستان، افغانستان اور امریکہ کے حق میں نہیں ہے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کی حکومت اگر اپنے کسی علاقے میں کسی گروپ کے ساتھ کوئی معاہدہ کرتی ہے تو اس سے امریکہ کے پیٹ میں مروڑ کیوں اٹھتے ہیں؟ صاف ظاہر کہ امریکہ کا مفاد یہ ہے کہ اگر شمالی علاقہ جات میں امن قائم ہوجاتا ہے تو پھر امریکہ کس بات کو جواز بنا کر پاکستان پر دباؤ ڈالے گا اور کس طرح پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو غیر محفوظ ثابت کرے گا ؟

    اسی لیے پر امن پاکستان کے بجائے شورش زدہ اور ہیجان میں مبتلا پاکستان امریکہ کے لیے زیادہ بہتر ہے۔ اسی لیے آئے دن بم دھماکے اور ڈرون حملے کیے جارہے ہیں تاکہ ملک میں امن قائم نہ ہوسکے اور یہ کہا جاسکے کہ ایٹمی اثاثے غیر محفوظ ہیں۔امریکہ پاکستان کے ذریعے چین اور ایران پر دباؤ بڑھانا چاہتا ہے کیوں پاکستان میں امریکی افواج کی موجودگی میں ان دونوں ممالک پر پریشر بڑھانا آسان ہوگا۔پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے بارے میں اگر امریکہ کےحوالے سے اگر کسی کی یہ سوچ ہے کہ ایسا نہیں ہوسکتا تو وہ احمقوں جنت میں رہتا ہے کیوں کہ گزشتہ روز ہی امریکی صدر بارک اوبامہ نے کہا ہے کہ غیر محفوظ اٹیمی اثاثوں کی حفاظت کی جائے گی ۔یہ صرف ایک بیان نہیں بلکہ آگے کا منصوبہ ہے جو بتایا گیا ہے۔اس سارے کھیل میں ہماری ایجنسیاں دانستہ یا نادانستہ طور پر ان کے ہاتھوں میں کھیل رہی ہیں اور وہ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار کا کردار ادا کر رہی ہیں۔اب پاکستان کے میں ہونے والے ہر واقعے کا تعلق بیت اللہ محسود سے جوڑا جا رہا ہے۔اور دہشت گردی کے ہر واقعے کی ذمہ داری بیت اللہ محسود کے کھاتے میں ڈالی جارہی تھی لیکن اب شائد اس سلسلےکو بریک لگ جائے کیوں کہ بیت اللہ محسود کے نام سے ہر واقعے کی ذمہ داری قبول کرنے والوں سے ایک غلطی ہوئی کہ نیو یارک میں فائرنگ کے واقعے کی ذمہ داری میں بیت اللہ محسود کے کھاتے میں ڈال دی گئی لیکن خود امریکہ نے اس کی تردید کر دی کہ اس واقعے میں ایک ویتنامی ملوث تھا اور بیت اللہ محسود کا اس واقعے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ اصل بات کچھ اور ہے اور طالبان اسلام پسندوں کو بدنام کرنے کے لیے ان کے نام سے کاروائیاں کی جارہی ہیں۔اس بات کو تقویت ان باتوں سے بھی ملتی ہے اگر کسی عام سے چھوٹے سے گمنام مجرم کو بھی پتہ چلتا ہے کہ لوگ اس کی کاروائیوں سے ہوشیار ہوگئے ہیں تو وہ محتاط ہوجاتا ہے لیکن جب سے بیت اللہ محسود کے اوپر امریکہ نے انعام رکھا ہے تو اچانک اس نے لگا تار کاروائیاں شروع کردی ہیں یہی بات اس معاملے کو مشکوک بنانے کے لیے کافی ہے دوسرا یہ کہ اگر ہم طالبان کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو معلوم ہوتا ہےکہ ان کی زیادہ تر مخالفت امریکہ اور مغرب کی پالیسیاں ہوتی ہیں اور وہ عموماً مسلکی سیاست میں ملوث نہیں تھے لیکن چند ماہ پیشتر طالبان کے نام سے ایک فرقے کے پیر کے قتل کے بعد اس کی لاش کی بے حرمتی دراصل مسلمانوں کے اتحاد کے توڑنےکی امریکی سازش تھی۔اگرچہ اس واقعے پر اشتعال تو کافی پایا گیا لیکن پھر بھی عوام نے صبر کیا اور یہ سازش ناکام ہوگئی اس کے بعد امام بارگاہوں اور مساجد میں کاروائیاں شروع کی گئیں تاکہ مسمان آپس میں دست و گریبان ہوجائیں اور ہم اپنا کام بہ آسانی انجام دیدیں اس کے ساتھ ساتھ سوات میں چند ماہ پیشتر جان بوجھ کر فورسز کو نشانہ بنایا گیا اور بے گناہوں کا قتل عام کیا گیا تاکہ لوگوں کو اسلام سے متنفر کیا جاسکے اور کہا جاسکے کہ اگر اسلام کی بات کی گئی تو یہ اسلام پسندوں کا اصل چہرہ ہے اس طرح عوام کو اسلام سے بیزاری کی طرف مائل کیا گیا۔اور یہ ویڈیو بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے اسی طرح یہ جو فورسز پر اور امام بارگاہوں پر مساجد پر خود کش حملے اور بم دھماکے ہو رہے ہیں یہ اسی سازش کا حصہ ہیں ہماری عوام سے اپیل ہے کہ وہ اس حوالے سے محتاط رہیں اور سازش کو سمجھیں اور نادانستگی میں اس کا حصہ نہ بنیں
     
  2. commando
    آف لائن

    commando ممبر

    شمولیت:
    ‏16 دسمبر 2008
    پیغامات:
    95
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    حقوق نسواں کے علمبرداروں کا اصل چہرہ...................سلیم اللہ شیخ


    حقوق نسواں کےعلمبرداروں نے سوات کے واقعے پر جس طرح فوری رد عمل کا اظہار کیا، اور جس طرح اس کی مذمت کی نہ صرف مذمت کی بلکہ اس کے خلاف فوری طور پر مظاہروں اور منظم مذمت کا سلسلہ بھی شروع کردیا گیا۔ یہ بہت ہی مستحسن قدم تھا جو کہ اٹھایا گیا تھا ہم اس بات کے حامی ہیں کہ ظلم کہیں بھی ہو اس کی مذمت اور بیخ کنی ہونی چاہیے اس لیے ہمیں اس پر بڑی خوشی ہے کہ کوئی ظلم کے آگے ڈھال بن جاتا ہے۔ یہ بات واضح رہے کہ اگرچہ یہ مبینہ واقعہ جس انداز میں پیش آیا وہ غلط ہے لیکن شریعت میں سر عام سزاؤں کا ہی ذکر ہے۔ اسلامی تاریخ میں ایک خاتون کاذ کر ملتا ہے کہ جس کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں رجم کیا گیا تھا۔ وہ سر عام کیا گیا تھا نہ کہ کسی بند کمرے میں یا ڈھکی چھپی جگہ ۔اسی طرح اسلام میں قاتل کا سر قلم اور چور کے ہاتھ کاٹنے کی جو سزا ہے وہ سر عام دی جاتی ہے تاکہ معاشرے کے دوسرے لوگوں کو عبرت حاصل ہو، اور اگر کسی کے دماغ میں کوئی فتور یا فاسق اراد ہو تو وہ وہیں رک جاتا ہے۔ یہ ان سزاؤں کی حکمت ہوتی ہے اس لیے سر عام سزا کو غلط نہیں کہا جا سکتا ہے۔ یہ تو ایک ضمنی بات تھی۔ ہم بات کر رہے تھے کہ سوات کے واقعے پر حقوق انسانی اور حقوق نسوان کے علمبرداروں نے تقدیس مشرق کے ثنا خوانوں نے بہت شور مچایا اور اس کی مذمت کی گئی۔ یہ مشکوک واقعہ پاکستان میں پیش آیا اور اس میں مبینہ طور پر طالبان اس میں ملوث ہیں۔اس لیے سب نےدل کی بھڑاس خوب نکالی ۔ لیکن یہ ثناء خوان تقدیس مشرق امریکی ڈرون حملوں اور امریکہ کی حراست میں موجود بے گناہ ،مظلوم ڈاکٹر عافیہ کے معمالے پر بالکل خاموش تھے۔ وہ ذہین خاتون جس کو اپنے ہی ملک سے اغواء کیا گیا، اور جو قریباً پانچ سال سے امریکہ اور افغانستان کی قید میں ہے جس کے تین میں سے ایک بیٹے کا پتہ ہے باقی دو بچوں کا کچھ اتا پتا نہیں ہے کہ وہ کہاں ہیں گمان غالب ہے کہ ان کے بچوں کو عیسائی مشنری اداروں یا یہودیوں کے پاس بھیج دیا گیا ہے اور ان مسلمان بچوں کو یہودی یا عیسائی بنا دیا گیا ہے، البتہ اس مظلوم خاتون کے لیے ان روشن خیالوں کے بقول دقیانوسی خیالات رکھنے والے مذہبی انتہا پسندوں نے اور نو مسلم برطانوی خاتون صحافی مریم ریڈلے نے آواز اٹھائی تھی۔ یاد رہے یہ وہی نو مسلم خاتون ہیں جو چند دن افغانستان میں طالبان کی قید میں رہی تھیں اور ان وحشی درندوں اور تنگ نظر ملاؤں اور جدید تہذیب سے بے بہرہ جاہل طالبان کے حسن سلوک اور اخلاق سے متاثر ہو کر اسلام قبول کر لیا تھا۔اس سے یہ بات سامنے آئی کہ اول تو اب طالبان کے نام کو استعمال کر کے اسلام کو بدنام کیا جارہا ہے۔ دوسرا یہ کہ ان نام نہاد حقوق کے علمبرداروں کو صرف اسلام کو بدنام کرنے کا موقع ملنا چاہیئے۔

    آیئے ذرا جائزہ لیتے ہیں ان کی حقوق انسانی سے محبت: انتیس جنوری دو ہزار آٹھ کو شمالی وزیرستان میں ایک میزائل حملے میں بارہ افراد ہلاک ہوجاتے ہیں ان میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں، پورا ملک میں اس کی مذمت کی گئی البتہ یہ ثناء خوان تقدیس مشرق خاموش تھے۔

    چودہ مئی دوہزار آٹھ کو ڈمہ ڈولا میں امریکی مزائل حملہ بچوں سمیت سات افراد ہلاک: حقوق انسانی کے چیمپینز کو اس واقعے کی خبر شاید نہیں پہنچی اس لیے ان کی طرف سے خاموشی چھائی رہی۔

    گیارہ اگست دوہزار آٹھ باجوڑ میں گھر پر بمباری سات افراد ہلاک،مرنے والوں میں دو عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں: ثناء خوان تقدیس مشرق کہاں تھے ؟

    دو ستمبر دو ہزار آٹھ کو باجوڑ ایجنسی میں سیکورٹی فورسز کی گولہ باری سے نو افراد ہلاک،مرنے والوں میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔ثناء خوان تقدیس مشرق کو شائد اس واقعے کی اطلاع نہیں ہوئی

    تین ستمبر دو ہزار آٹھ کوافغانستان کے قریب ایک پاکستانی سرحدی گاؤں انگور اڈاہ میں امریکی اور اتحادی افواج کے کمانڈوز ہیلی کاپٹر کے ذریعے باقاعدہ اتر کر ایک گھر میں داخل ہوئے اور فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں بیس افراد ہلاک ہوگئے۔ان میں تین خواتین اور دو بچے بھی شامل تھے۔ ثناء خوان تقدیس مشرق کہاں تھے؟؟

    اس کے دو دن بعد ہی شمالی وزیرستان میں امریکی میزائل حملوں میں تین بچے اور دو خواتین ہلاک۔ثناء خوان تقدیس مشرق خاموش کیوں تھے؟؟

    بارہ ستمبر دو ہزار آٹھ کو وزیرستان میں امریکی میزائل حملہ، بارہ ہلاک ہلاک شدگان میں تین بچے اور دو خواتین بھی شامل ہیں۔ثناء خوان تقدیس مشرق کہاں تھے؟؟

    تین اکتوبر دو ہزار آٹھ کو امریکی میزائل حملے میں پندرہ ہلاک، ہلاک ہونے والوں میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں:ثناء خوان تقدیس مشرق خاموش کیوں تھے ؟؟؟

    اور اتفاق کی بات ہے کہ جس وقت یہ ثنا خوان تقدیس مشرق، یہ نام نہاد حقوق کے علمبرادر، یہ آزادی نسواں کے حامی، یہ عورتوں کے حقوق کے چیمپئین سوات کے واقعے پر شور مچا ہے تھے،ایک عورت کی بے حرمتی پر آنسو بہا بہا کر ذمہ داران کی پھانسی کا مطالبہ کر رہے تھے۔ عین اسی دن شمالی وزیرستان میں امریکی ڈرون حملوں میں ایک مکان تباہ ہوگیا،جس میں تیرہ اور بعض اطلاعات کے مطابق نو افراد جاں بحق ہوگئے، جن میں تین خواتین اور چار بچے بھی شامل تھے۔ یہ ثناء خوان مشرق اس وقت بھی ایک لفظ بھی اس واقعے کی مذمت میں نہ کہہ سکے کیوں؟؟ کیا اس لیے کہ یہ حملہ امریکہ نے، گوری چمڑی والوں نے کیا تھا اور مرنے والے پاکستانی تھے۔اور کیا یہ خواتین جو ہلاک ہوئیں ہیں کیا یہ اس ملک کی بیٹیاں، بہنیں نہیں تھیں کہ ان کے لیے بھی آواز اٹھائی جاتی۔

    اور سنیے تیئس اگست دو ہزار آٹھ کو بلوچستان میں تین خواتین کو زندہ درگور کیا گیا،اس واقعے میں بلوچستان کے بڑے بڑے سردار ملوث تھے۔سوات کے ذمہ دارارن کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کرنے والوں نے اس واقعے کے ذمہ داران کے خلاف کیا ایکشن لیا؟ حالانکہ وہاں تو حکومت کی رٹ قائم ہے۔اور یہ تمام لوگ جو سوات واقعے کی مذمت کرنے میں پیش پیش ہیں یہ لوگ بھی تو حکومت کے اتحادی ہیں پھر اس واقعے کے ذمہ داران آزاد کیوں اور اس ممبر قومی اسمبلی کو ابھی تک نااہل کیوں نہیں قرار دیا گیا جس نے اس بہیمانہ واقعے کو اپنی قبائلی روایات کا حصہ قرار دیا تھا؟۔ ثناء خوان تقدیس مشرق نے اس حوالے سے کیا کام کیا ہے ؟؟؟کچھ نہیں

    اور تو اور ابھی دو ہی دن پہلے سندھ میں ایک فرد نے شک کی بنیاد پر اپنی بیوی کی ناک کاٹ لی اس پر کہیں سے کوئی آواز نہیں اٹھائی گئی۔ کیوں؟؟؟

    مندرجہ بالا تمام خبریں اور حقائق یہ بات ثابت کرتے ہیں کہ ان دین بے زار لوگوں کو کسی قسم کے انسانی حقوق یا حقوق نسواں کی کوئی فکر نہیں ہے نہ ہی یہ لوگ پاکستان اور اسلام کے خیر خواہ ہیں۔بلکہ امریکی اور مغربی ممالک کی امداد پر پلنے والے ان لوگوں کا اپنا کوئی ایجنڈا نہیں ہے بلکہ یہ دین اور ملک دشمن عناصر کے ایجنڈے کے مطابق عمل کرتے ہیں اگر یہ ملک کے خیر خواہ ہوتے تو ان ڈرون حملوں پر بات کرتے، لال مسجد کے ظلم پر آواز آٹھاتے، زندہ درگور کی گئی بچیوں کے قتل پر آواز اٹھاتے، کتوں کے آگے ڈال کر، کتوں سے بھنبھوڑ کر اور سر عام ایک مظلوم بچی کا حمل گرانے کے بعد اس کو قتل کرنے والے سندھ کے وڈیرے اور ظالموں کے خلاف آواز آٹھاتے، لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا سب خاموش رہے۔

    ہماری عوام سے یہی گزارش ہے کہ وہ ان سے ہوشیار رہیں اور ان کی باتوں میں نہ آئیں۔
     
  3. نیلو
    آف لائن

    نیلو ممبر

    شمولیت:
    ‏8 اپریل 2009
    پیغامات:
    1,399
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    سلام عرض ہے۔
    کمانڈو صاحب ۔ اتنی متاثر کن تفصیلی تحریریں ہم تک پہنچائیں ۔ شکریہ
    یہ سب کہاں سے لیتے ہیں ؟
     
  4. انجم رشید
    آف لائن

    انجم رشید ممبر

    شمولیت:
    ‏27 فروری 2009
    پیغامات:
    1,681
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    :salam:
    کمانڈو صاحب بہت شکریہ
     
  5. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم کمانڈو بھائی ۔
    تحریر واقعی متاثر کن ہے۔

    کیا ہی اچھا ہوتا اگر آپ ماخذ کا حوالہ بھی تحریر کے آخر میں‌دے دیا کریں۔
    آگے بات کرنے میں پختگی اور آسانی ہوجاتی ہے۔ شکریہ
     
  6. commando
    آف لائن

    commando ممبر

    شمولیت:
    ‏16 دسمبر 2008
    پیغامات:
    95
    موصول پسندیدگیاں:
    0
  7. فواد -
    آف لائن

    فواد - ممبر

    شمولیت:
    ‏16 فروری 2008
    پیغامات:
    613
    موصول پسندیدگیاں:
    14

    Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

    ڈاکٹر عافيہ صديقی کيس


    جب يہ خبر پہلی مرتبہ ميڈيا پر رپورٹ کی گئ تھی تو بہت سے امريکی حکومتی عہديداروں نے اس بات کی تحقيق کی تھی اور افغانستان ميں متعلقہ حکام سے براہراست رابطہ کيا تھا۔ مشہور پاکستانی صحافی نصرت جاويد نے بھی اپنے پروگرام "بولتا پاکستان" مين اس بات کی تصديق کی تھی کہ انھيں پاکستان ميں امريکی سفير اين پيٹرسن نے يہی بتايا تھا کہ انھوں نے اپنی تحقيق سے اس بات کی تصديق کی ہے کہ ڈاکٹر عافيہ صديقی قيدی نمبر 650 نہيں تھيں۔

    اس کے علاوہ اين پيٹرسن نے پاکستان ميں ہيومن رائٹس کميشن کے صدر کو تين مرتبہ فون کر کے ان خبروں کی ترديد کی۔ اس بات کی تصديق بھی نصرت جاويد نے اپنے پروگرام ميں کی۔

    اس کے بعد اين پيٹرسن نے پاکستان کے تمام اخبارات اور ميڈيا کے اہم اداروں کو ايک خط بھی لکھا جس ميں انھوں نے ڈاکٹر عافيہ صديقی اور قيدی نمبر 650 کے حوالوں سے ميڈيا پر افواہوں کی تردید کی اور يہ واضح کيا تھا کہ ڈاکٹر عافيہ صديقی امريکی قيد ميں نہيں تھيں۔

    رچرڈ باؤچر کی جانب سے وائس آف امريکہ کو ايک انٹرويو بھی ديا گيا جو بعد ميں جيو ٹی وی پر بھی نشر ہوا جس ميں انھوں نے واضح الفاظ ميں يہ بات کہی تھی کہ ڈاکٹر عافيہ صديقی کبھی بھی قيدی نمبر 650 نہيں تھيں۔

    برطانوی صحافی ايوان ريڈلی نے اپنے انٹرويو ميں يہ واضح طور پر کہا تھا کہ انکے "خيال" کے مطابق ڈاکٹر عافيہ صديقی قيدی نمبر 650 ہو سکتی ہيں اور اس کے بعد انھوں نے ميڈيا کے سامنے اس بات کو اسی طرح بيان کيا جس کو بنياد بنا کر ميڈيا کے کچھ حلقوں نے اس مفروضے کو ايک تصديق شدہ حقيقت بنا کر پيش کيا۔

    يہ بات سراسر حقیقت کے منافی ہے۔

    آپ اردو کے بہت سے فورمز پر ڈاکٹر عافيہ صديقی کيس کے حوالے سے ميری پوسٹس بھی پڑھ سکتے ہيں جس ميں يو – ايس – اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کے ترجمان کی حيثيت سے ميں نے کئ ہفتے پہلے يہی بات کہی تھی کہ ہماری تحقيق کے مطابق ڈاکٹر عافيہ صديقی قيدی نمبر 650 نہيں تھيں۔ جب اس کيس کے بارے ميں مجھ سے مختلف فورمز پر سوالات کيے گۓ تھے تو تمام تر تنقید کے باوجود ميں نے شروع ميں اپنی راۓ کا اظہار نہيں کيا تھا کيونکہ ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم اس معاملے ميں تحقيق کر رہی تھی اور کوئ بھی راۓ دينے سے پہلے ميرے ليے يہ ضروری تھا کہ ميں اصل حقائق کی تصديق کروں۔ ظاہر ہے کہ انٹرنيٹ پر کچھ دوستوں کے ليے راۓ قائم کرنے سے پہلے تحقيق کی ضرورت نہیں ہوتی۔

    ميں آپ کی توجہ اس بات کی طرف بھی کروانا چاہتا ہوں کہ برطانوی صحافی نے اپنے ايک حاليہ انٹرويو میں يہ بات بھی کہی کہ برطانوی حکومت نے جو معلومات لارڈ نذير احمد کو دی ہيں ان کے مطابق بھی ڈاکٹر عافيہ صديقی قيدی نمبر 650 نہيں تھيں۔

    اب تک اس کيس کے حوالے سے امريکی سفارت کاروں، اہم افسران اور حکومتی اداروں نے جو بيان ديے ہیں ان سب ميں تسلسل اور يکسانيت ہے ليکن ميڈيا پر جو کچھ رپورٹ کيا جا رہا ہے اس ميں ہر روز ايک نئ "حقيقت" بيان کی جا رہی ہے۔

    اس بارے ميں يہ بات بھی ياد رہے کہ يہ کيس اس وقت زير سماعت ہے اور اس کيس کے بہت سے پہلو ايسے ہیں جو اس کيس کے فيصلے کے وقت سب کے سامنے آئيں گے۔ ڈاکٹر عافيہ صديقی کی بہن نے بھی اپنے ايک حاليہ انٹرويو ميں يہی بات کہی تھی کہ اس کيس کے زير سماعت ہونے کی وجہ سے وہ کچھ معاملات پر اس وقت بات نہيں کر سکتيں۔


    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
    digitaloutreach@state.gov
    http://www.state.gov
     
  8. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    تو فواد بھائی ۔ آپ " تحقیق " کرکے بتا دیں کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا قیدی نمبر کیا تھا۔
    بات ختم ۔ خواہ مخواہ اتنی لمبی تحریر لکھ ماری ۔ :nose:
     
  9. راشد احمد
    آف لائن

    راشد احمد ممبر

    شمولیت:
    ‏5 جنوری 2009
    پیغامات:
    2,457
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    کبھی آپ قیدی نمبر سے یہ ثابت کرنیکی کوشش کرتے ہیں کہ عافیہ صدیقی کا قیدی نمبر 650 نہیں کبھی کہتے ہیں کہ ان پر کیس چل رہا ہے۔

    فواد صاحب آپ کی باتوں میں‌تضاد کیوں‌ہے؟

    آپ میڈیا کی رپورٹوں، امریکی عہدیداروں کے بیانات اور موقف پیش کرتے ہیں۔
    تحقیق کرکے آپ ہی بتادیں کہ عافیہ صدیقی کا قیدی نمبر کیا ہے؟


    راشد احمد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – ہماری اردو اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
    http://www.oururdu.com
     
  10. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    راشد بھائی ۔ آپ اپنے نام سےپہلے " ڈاکٹر " لکھنا بھول گئے۔ :hasna: :hasna: :hasna:
     
  11. فواد -
    آف لائن

    فواد - ممبر

    شمولیت:
    ‏16 فروری 2008
    پیغامات:
    613
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

    کسی بھی ايشو کے بارے ميں حتمی راۓ قائم کرنے سے پہلے يہ ضروری ہے کہ عمومی تاثر اور مخصوص سوچ اور سياسی ايجنڈے سے ہٹ کر حقائق کی تحقيق کرنی چاہيے۔

    ڈاکٹر عافيہ صديقی کيس کے سلسلے ميں مختلف اردو فورمز،ميڈيا ٹاک شوز اور اخباری کالمز میں جن شديد جذبات کا اظہار کيا جاتا رہا ہے اس کی بنياد يہ مفروضہ اور يقين تھا کہ ڈاکٹر عافيہ صديقی ہی قيدی نمبر 650 ہيں اور وہ سال 2003 سے افغانستان کے بگرام ائربيس ميں امريکی مظالم کا شکار ہیں۔

    برطانوی صحافی ايوان ريڈلی جنھوں نے اس ميڈيا مہم کا آغاز کيا تھا يہ تسليم کر چکی ہيں کہ ڈاکٹر عافيہ صديقی قيدی نمبر 650 نہيں تھيں۔ يہاں يہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ انھوں نے خود يہ کہا ہے کہ ان کے بيان کو بنياد بنا کر ميڈيا نے ازخود يہ نتيجہ اخذ کيا تھا کہ وہ قيدی نمبر 650 ہو سکتی ہيں۔ دوسرے لفظوں ميں اس بات کا کوئ ثبوت يا دستاویزی شہادت موجود نہيں تھی جس کی بنياد پر يہ دعوی کيا جا سکتا کہ ڈاکٹر عافيہ صديقی بگرام ائربيس ميں قيد تھيں ليکن اس کے باوجود کچھ لوگوں نے ڈاکٹر عافيہ صديقی کی تصوير کے اوپر قيدی نمبر 650 کا ليبل لگا کر کتابيں اور طويل جذباتی نظميں تک لکھ ڈاليں۔

    اس کيس کے حوالے سے ميرا شروع سے يہ موقف رہا ہے کہ محض ميڈيا پر بغير ثبوت اور شہادتوں کے زير بحث افواہوں اور قياس آرائيوں کی بنياد پر راۓ زنی دانشمندی نہيں ہے۔ اس واقعے کے ميڈيا پر آنے کے بعد ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم نے متعلقہ حکام سے براہراست رابطہ کر کے يہ تصديق کی تھی کہ نہ تو ڈاکٹر عافيہ صديقی قيدی نمبر 650 تھيں اور نہ ہی وہ سال 2003 سے امريکی حراست ميں تھيں۔

    ميں نے 13 اگست کو اپنی پوسٹ ميں لکھا تھا کہ

    "ہماری مصدقہ اطلاعات کے مطابق پاکستانی ميڈیا پر مختلف رپورٹوں کے برعکس ڈاکٹر عافيہ صديقی قيدی نمبر 650 نہيں تھيں۔ سال 2003 ميں ايک خاتون اينمی کمبيٹنٹ قيدی نمبر 650 کو بگرام ميں قيد رکھا گيا تھا ليکن ان کا نام اور حليہ ڈاکٹر عافيہ صديقی سے قطعی مختلف ہے۔ اس خاتون کو جنوری 2005 ميں رہا کر ديا گيا تھا۔ ڈاکٹر عافيہ جولائ 2008 سے پہلے امريکی تحويل ميں نہيں تھيں"۔

    ڈاکٹر عافيہ صديقی کا کيس اس وقت امريکی عدالت ميں زير سماعت ہے اور انھيں اپنی کہانی سنانے کا پورا موقع ملے گا۔


    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
    digitaloutreach@state.gov
    http://www.state.gov
     
  12. انجم رشید
    آف لائن

    انجم رشید ممبر

    شمولیت:
    ‏27 فروری 2009
    پیغامات:
    1,681
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    :salam:
    راشد بھائی بہت بہت شکریہ ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – ہماری اردو اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ بناے کا
    اب انشاءاللہ یونایٹڈ اسٹیٹ ڈیپارمنٹ کو یہاں سے ہی جواب ملے گا بہت شکریہ بھائی :dilphool: :dilphool:
     
  13. راشد احمد
    آف لائن

    راشد احمد ممبر

    شمولیت:
    ‏5 جنوری 2009
    پیغامات:
    2,457
    موصول پسندیدگیاں:
    15
     
  14. انجم رشید
    آف لائن

    انجم رشید ممبر

    شمولیت:
    ‏27 فروری 2009
    پیغامات:
    1,681
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    :salam:
    ھاھاھاھاھاھا راشد بھائی فواد جی کہاں لکھتے ہیں ان کو ڈیجیٹل آوٹ ریچ ڈیپارٹمنٹ ہی لکھ کر دیتی ہے
     
  15. زاہرا
    آف لائن

    زاہرا ---------------

    شمولیت:
    ‏17 نومبر 2006
    پیغامات:
    4,208
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    لیکن وہ انگریزی سے اردو ترجمہ تو ضرور کرتے ہوں گے نا۔
    کچھ نہ کچھ تو کریڈٹ انہیں بھی جانا چاہیے۔ :yes:
     
  16. فواد -
    آف لائن

    فواد - ممبر

    شمولیت:
    ‏16 فروری 2008
    پیغامات:
    613
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

    ميں جب کسی موضوع پر اپنی راۓ کا اظہار کرتا ہوں تو وہ اس موضوع پر يو – ايس – اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ اور امريکی حکومت کے سرکاری موقف کی بنياد پر ہوتا ہے۔ اس کا موازنہ آزاد ميڈيا پر کسی نيوز رپورٹ يا اخباری کالم سے نہيں کيا جا سکتا۔ آپ يقينی طور پر ميری راۓ سے اختلاف کر سکتے ہيں۔ آپ اس بات کا حق رکھتے ہيں کہ کسی بھی موضوع کے حوالے سے اپنی آزاد راۓ قائم کريں۔

    آزاد ميڈيا، صحافی اور کالم نگار اپنی راۓ کے اظہار کا حق رکھتے ہيں۔ وہ مختلف ذرائع سے حاصل کردہ معلومات کی بنياد پر اپنی سوچ اور خيالات کا اظہار کرتے ہيں۔ مثال کے طور پر کچھ عرصہ قبل پاکستانی ميڈيا پر يہ خبر چلی کہ سابق صدر مشرف کسی بھی وقت بيرون ملک منتقل ہو سکتے ہيں اور انکی اور اہل خانہ کی منتقلی کے ليے ائرپورٹ پر جہاز تيار کھڑا ہے۔ ہم سب جانتے ہيں کہ يہ خبر غلط ثابت ہوئ۔ جس صحافی نے سب سے پہلے يہ خبر "رپورٹ" کی تھی، اس سے جب اس حوالے سے سوال کيا گيا تو اس کا جواب يا تھا کہ اس نے مختلف لوگوں کے بيانات اور خبروں سے ذاتی حيثيت ميں يہ "نتيجہ" اخذ کيا تھا۔

    ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم کا طريقہ کار اس سے قطعی مختلف ہے۔ ہماری ٹيم براہراست يو – ايس – اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ سے منسلک ہے۔ لہذا اس حوالے سے کسی موضوع پر ميری راۓ امريکی حکومت کے سرکاری موقف کو واضح کرتی ہے۔ اس کی مثال ايسے ہی ہے جيسے پاکستان کے دفتر خارجہ يا کسی اندرونی وزارت کے دفتر سے جاری کردہ کسی بيان کا موازنہ اخبار ميں شائع ہونے والی کسی ايسی خبر سے نہيں کيا جا سکتا جسے کسی صحافی نے اپنی ذاتی حيثيت ميں رپورٹ کيا ہو۔


    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
    digitaloutreach@state.gov
    http://www.state.gov
     
  17. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    بہت خوب فواد بھائی ۔ صحیح فرمایا آپ نے۔
     
  18. راشد احمد
    آف لائن

    راشد احمد ممبر

    شمولیت:
    ‏5 جنوری 2009
    پیغامات:
    2,457
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    شکریہ فواد بھائی
     

اس صفحے کو مشتہر کریں