1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

سنگا پورمیں موم کا عجائب گھر

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏19 جون 2019۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    سنگا پورمیں موم کا عجائب گھر
    upload_2019-6-19_3-29-33.jpeg

    ڈاکٹر ایم اے صوفی

    سنگا پور اس وقت ایشیا کا ایک انتہائی اہم ملک ہے۔ اس کی بندرگاہ کیپل (Keppel) دنیا کی مصروف ترین جگہ ہے۔ یہاں پر اقتصادی مسائل حل ہوتے ہیں۔ سنگاپور میں بے شمار پرندے پائے جاتے ہیں۔ پرندوں کے لیے پارک ہیں۔ یہاں پر دنیا کی بلند ترین انسان کی بنائی ہوئی آبشار ہے۔ یہاں پر مسجدیں بھی ہیں اور عرب سٹریٹس بھی ہیں۔ جہاں پر قدیم زمانے میں عرب تاجروں نے ٹیکسٹائل تجارت کااجرا کیا تھا اور اسی طرح وہاں پر ایک بہترین، کھلی، خوبصورت اور جاذب نظر سلطان مسجد بھی موجود ہے۔ وہاں مسلمان بلا خوف و خطر عبادت میں مصروف ہوتے ہیں۔ مجھے مسجد کے امام سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ وہ انگریزی میں گفتگو کر سکتے تھے۔ ایک روز گھومتے ہوئے میری نظر مدرسۃ الجنید الاسلامیہ کے بورڈ پر پڑی۔ میں اس مدرسہ کی اسلامی تعلیم سے بے حد متاثر ہوا۔ اس مدرسہ میں خواتین اساتذہ تھیں جو سکون واطمینان سے روایتی حجاب اوڑھے ہوئے تھیں۔ وہاں کے لوگوں میں نہ تو مقامی زبان کی مہارت تھی اور نہ ہی عربی پر عبورحاصل تھا۔ مگر قرآن مجید کی آیات استعمال کر کے اپنے جذبات، محبت اور اُلفت کے احساسات پیش کرسکتے تھے۔ سنگاپور کی دریافت سٹمفرڈ رائیفلز نے کی تھی۔ اس سے قبل یہاں پر مسلمان بادشاہ ہوا کرتے تھے۔ سنگاپور کا عجائب گھر قومی تمدن اور تاریخ کا حامل ہے اور حکومت اس عجائب گھر کی باقاعدہ طور پر حفاظت کرتی ہے۔ حکومت نے سیاحوں کے لیے ایسے انتظامات کررکھے ہیںجہاں پر شائقین اور سیاحوں کے لیے کافی دلچسپی ہوتی ہے۔ یہ علاقہ سمندر کے کنارے واقع ہے۔ یہاں پر ایک ایکوریم ہے، جہاں پر دوہزار پانچ سو سے زائد گھونگے اور سپیوں کی تعداد ہے۔ سنٹوسا میں ایک موم کا عجائب گھر ہے، جہاں پر تاریخی موم سے بنے ہوئے مجسّمے ہیں۔ جس میں سنگاپور کی دریافت سے لے کر اور مسلمان بادشاہ، دوسری جنگ عظیم کے بعد ہتھیار ڈالنے اور سرایلفرڈ کے کئی مجسّمے ہیں۔ یہاں پر کشتی، ریل گاڑی اور سکائی لائنز کیبل کے ایسے انتظامات ہیں جوآنکھوں کو خیرہ بھی کرتے ہیں اور فرحت بھی بخشتے ہیں۔ کیبل کار سمندر کو پار کرتی ہوئی پہاڑیوں پر جاتی ہے اور آدمی انسانی قوت اور ایجادات سے دنگ رہ جاتا ہے۔ اتنی ترقی، اتنا اونچا معیار،اتنی ذہنی پختگی زندہ قوموں کی نشان دہی کرتی ہے اور آج سنگاپور کے ہر فرد کی یہی سوچ ہے کہ’’سنگا پور کو مضبوط بنائیے۔‘‘ سنگاپور میں کوئی بھکاری نہیں، کوئی آوارہ کتا نہیں اور نہ ہی کوئی شخص بھیک مانگنے کا پیشہ اختیار کرسکتا ہے۔ انہوں نے مکانوں کے بحران کو فلیٹس کی صورت میں حل کرنا شروع کردیا ہے۔ چھوٹے تنخواہ دار طبقے کو ضروری طور پر تین فیصد صحت کے لیے، 25 فیصد فلیٹ حاصل کرنے کے لیے بچت کرنا ہوتی ہے۔ لہٰذا چھوٹا تنخواہ دار طبقہ اپنی زندگی کو ناساز گار حالات سے اس طرح نکالتا ہے اور بچت کرتا ہے کہ اس کو فلیٹ ملکیت میں مل جاتا ہے اور صحت بھی اچھی رہتی ہے۔ اس طرح سنگاپور نے ترقی یافتہ ملک ہونے کی ابتدا کر لی ہے۔ لہٰذا اپنی خوراک، تجارت، ترقی، بین الاقومی فنڈز، صحت، قومی پیداوار کا پورا جائزہ لے کر اضافے اور قومی پیداوار زیادہ کرنے میں گامزن ہے۔ یہاں پر چینی نژاد زیادہ پائے جاتے ہیں۔ مگر چینی نژاد مسلمان بھی موجود ہیں۔ سنگاپور میں سبزہ زار گرائونڈ پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ یہاں پر گالف کھیلنے کا زیادہ رواج ہے۔ کچھ لوگوں کو گھوڑے کی سواری کا بہت شوق ہے۔ 1842ء میں سنگاپور میں ریس کلب کی تشکیل ہوئی، 90سال تک سنگاپور گھڑ دوڑ کا گھر سمجھاجاتا رہا۔ 1924ء میں اس کلب کا نام تبدیل کر کے سنگاپور ٹرف کلب رکھا گیا۔ 1933ء میں اس کھیل کے فروغ کے لیے ایک گھر Bikuit Timah بنایا گیا۔ اس پر گھڑ دوڑ کا بڑا مقابلہ ہوتا تھا۔ سنگاپور میں انگلینڈ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور ملائیشیا سے گھوڑے آتے ہیں اور تجربہ کار جوکی اپنا کام دکھاتے ہیں۔ یہاں پر ہر طرح کے کھانے میسرآتے ہیں۔ مقامی لوگ زیادہ ترسفید چاول کھاتے ہیں مگر لذیذ کھانے مشرقی روایات کے حامل مصالحے دار بھی میسر ہیں۔ مسجد کے سامنے ناشتہ میں آپ کو پراٹھا اور چنے میسر آتے ہیں۔ چپاتی، نان اور دیگر ڈشیںعمدہ ملتی ہیں۔ ہمیں مندر میں جانے کا بھی اتفاق ہوا۔ ہندو اپنی ثقافت میں ملبوس میسر آئے۔ مقامی علاقے ایسے بھی ہیں جہاں غریب لوگ آباد ہیں۔گویا سنگاپور کی ترقی کا راز حکومت کا قانون پر عمل اور انسانیت سے محبت ہے۔ عوام خوش ہیں۔ لوگ اساتذہ، بیوروکریٹ، بس کنڈکٹر ہر آدمی اپنی ذمہ داری سنبھالے ہوئے ہے۔ علمی ماحول بھی میسر ہے۔لوگ اپنی زندگی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ (کتاب’’سفر نامہ صوفی ‘‘ سے ایک باب )
     

اس صفحے کو مشتہر کریں