1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

سلطنت ِ عثمانیہ کے نامور خطاط ۔۔۔۔۔۔ تحریر : سید محمد سلیم

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏26 فروری 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    سلطنت ِ عثمانیہ کے نامور خطاط ۔۔۔۔۔۔ تحریر : سید محمد سلیم
    usmania.jpg
    خلافت عباسیہ کے خاتمے کے بعد ترکی میں آل عثمان نے ایک سلطنت قائم کی جو صحیح معنوں میں خلافت بغداد کی جانشین تھی۔ 699ھ سے 1342ھ (1299ء تا 1922ئ)تک یہ خلافت قائم رہی۔ اس کی عظمت و شوکت اور اس کا زوال بڑی حد تک خلافت بغداد سے مشابہہ ہے۔ یہ سلاطین اسلامی علوم و فنون کے بڑے قدردان تھے۔ بعض ان میں سے فارسی اور ترکی زبان میں اچھے شعر کہتے تھے۔ بعض بڑے اچھے خطاط تھے۔ سلاطین کے ہاتھ کے تحریر کردہ قرآن مجید آج بھی موجود ہیں۔ یہ سلاطین علما، ادبا، شعرا، خطاطین اور فنکاروں کی ہمت افزائی کرتے تھے۔ خطاطی کا فن یہاں یاقوت مستعصمی کے شاگردوں کے ذریعہ پہنچا تھا۔ اس لیے یہاں خط نسخ کو ہمیشہ غلبہ حاصل رہا۔ سلطان مراد ثانی، سلطان مراد ثالث اور سلطان سلیمان خط نسخ کے ماہر تھے۔ دوسرے درجے میں یہاں خط تعلیق سے بہت دلچسپی تھی۔ آخر میں خط نستعلیق بھی وہاں پہنچ گیا تھا۔ سلاطین نے خط نستعلیق میں بھی دلچسپی لی۔ سلطان مراد چہارم خط نستعلیق بہت خوب لکھتے تھے۔ سب سے زیادہ قدر و منزلت وہاں قرآن مجید کی کتابت کی تھی۔ سلطنت عثمانیہ کے خطاطوں کی فہرست طویل ہے، ذیل میں چند اہم نام پیش کیے جا رہے ہیں۔ شیخ حمد اللہ اماسی شیخ حمد اللہ اماسی مصطفی ددہ کے فرزند تھے۔ مصطفی ددہ اصلاً بخارا کے رہنے والے تھے۔ وہاں سے ہجرت کر کے وہ اماسیہ ترکی میں آ گئے۔ یہاں سے بھی انہوں نے ہجرت کی اور اناضول (اناطولیہ) میں توطن اختیار کر لیا۔ یہاں حمد اللہ اماسی پیدا ہوئے۔ ان کی تاریخ پیدائش میں اختلاف ہے۔ وہ 830 یا 832ھ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے گھر پر والد سے حاصل کی، پھر خط کی تعلیم کی طرف متوجہ ہوئے۔ خط کی تعلیم انہوں نے خیرالدین مرعشی شاگرد عبداللہ صیرفی سے حاصل کی۔ محنت اور مشق کے باعث وہ تجدید خط نسخ میں اپنے اقران و اماثل میں ممتاز ہو گئے۔ سلطان بایزید نے ان کو 886ھ میں استنبول میں بلا لیا۔ آخر عمر تک وہ یہیں رہے۔ یہاں رہ کر انہوں نے خوب خط کی خدمت کی۔ انہوں نے دور سلطانی کا عروج اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ ان کی عمر ایک روایت کے مطابق 93 اور دوسری روایت کے مطابق 96 سال ہوئی۔ اسکدار میں انہیں دفن کیا گیا۔ خط نسخ وہ یا قوت مستعصمی کی روش پر لکھتے تھے۔ وہ اپنے زمانے کے نادر روزگار خطاط تھے۔ بعد کے ترک خطاطوں کی اکثریت ان کی شاگرد ہے۔ ترک خطاطوں کا وہ قطب ہیں۔ ان کے آثار خط کافی تعداد میں موجود ہیں۔ انہوں نے 47 مرتبہ مصحف قرآن مجید لکھا۔ سیکڑوں مختلف سورتیں جدا جدا لکھیں۔ حدیث کی مشہور کتاب مشارق الانوار لکھی۔ ان کے شاگردوں میں سے محی الدین، جمال الدین اماسی اور عبداللہ ابارہ مشہور ہیں۔ حافظ عثمان بن علی حافظ عثمان کی پیدائش آستانہ (قسطنطنیہ) میں ہوئی۔ قرآن مجید حفظ کیا۔ ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ خط سے دلچسپی بچپن سے تھی۔ درویش علی خطاط سے تعلیم حاصل کی۔ 18 سال کی عمر میں خط کی تعلیم میں تکمیل ہوئی۔ اساتذہ فن نے دستار بندی کی اور اجازہ تعلیم عطا کیا مگر حافظ نے مشق بدستور جاری رکھی اور استاد حمداللہ اماسی کی روش کی نقل کی حتیٰ کہ وہ خود ایک شیوہ کے بانی ہوئے۔ اس کے بعد ان کی شہرت ہو گئی۔ ان کی تربیت اور پرورش میں وزیر مصطفی پاشا کو بہت دخل حاصل ہے۔ جب ان کی شہرت ساری مملکت میں پھیل گئی تو ان کو سلطان احمد خاں ثالث اور سلطان مصطفی خاں ثانی کا معلم منتخب کر لیا گیا۔ اگرچہ خلفا کا استاد ہو جانے کے بعد ان پر مال و دولت کا دروازہ کھل گیا تھا، مگر وہ قناعت پسندی اور استغنا پسند انسان تھے۔ مزاج کے اعتبار سے بھی مسکین طبع تھے۔ افادہ عام کے لیے ان کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔ بدھ کے روز وہ اغنیا اور امرا کو فن کی تعلیم دیتے تھے اور اتوار کے دن مسکینوں اور ناداروں کو فن سکھاتے تھے۔ وہ اس قدر بے نیاز انسان تھے کہ راہ چلتے سڑک پر بیٹھ کر سکھانے میں بھی انہیں کوئی عار نہیں تھا۔ ترک مصنفین نے ان کو شیخ ثالث کا لقب دے رکھا ہے۔ نقادان خط نسخ کی رائے یہ ہے کہ حمداللہ اماسی نے یاقوت مستعصمی کے خط میں اضافہ کیا ہے، اس کی مزید تحسین کی ہے اور حافظ عثمان نے حمداللہ کے شیوہ میں مزید ترقی کی ہے، مزید مستحکم بنایا ہے، مزید حسین بنایا ہے۔ ترکی میں خط نسخ کے وہ سب سے بڑے امام ہیں۔ انہوں نے بہت خوبصورت کتابت قرآن کی۔ ان کے ہاتھ کے لکھے ہوئے 25 قرآن مجید اس وقت موجود ہیں۔ ان کے ہاتھ سے لکھے قرآن مجید کی بڑی قدروقیمت تھی۔ قدر دان منہ مانگے داموں لیتے تھے۔ چالیس سال تک فن کی خدمت کرنے کے بعد وہ نادر روزگار 1110ھ میں انتقال کر گیا۔ عبداللہ بک زہدی عبداللہ زہدی خلافت کے آخری ایام کے سب سے فائق خطاط ہیں۔ خط نسخ لکھنے میں بڑے ماہر تھے۔ خط کی تعلیم انہوں نے قاضی عسکر مصطفی آفندی عزت اور دوسرے استادوں سے حاصل کی۔ خط کی سند عزت آفندی سے حاصل کی۔ پھر آستانے میں جامع نور عثمانیہ میں وہ خط کے مدرس مقرر ہو گئے۔ سلطان عبدالحمید خان نے حرم محترم کی بڑے پیمانے پر مرمت کرائی تھی۔ وہ حرم مدنی میں کتابت بھی لکھوانا چاہتے تھے۔ ان کی نظر عبداللہ زہدی پر پڑی۔ عبداللہ زہدی ایک عرصے تک مدینہ منورہ میں رہے اور وہاں بہترین خط میں قرآن مجید کی آیات لکھیں۔ پھر وہ واپسی میں مصر سے ہوتے ہوئے استنبول جا رہے تھے، مصر میں اسمٰعیل پاشا نے ان کے فن کی بڑی قدردانی کی۔ انہیں وہیں روک لیا اور مدرسہ خدیویہ قاہرہ میں استاد خط مقرر کر دیا۔ مدرسہ میں انہوں نے فن کی بہترین خدمت انجام دی۔ بہت سے لائق شاگرد پیدا کیے۔ پھر حرم محترم میں غلاف کعبہ پر آیات قرآنی لکھنے پر مامور ہوئے۔ وہ کام بھی انہوں نے بہت خوبی سے انجام دیا۔ نہایت حسین خط میں آیات قرآنی لکھیں۔ ان کے حسنِ خط سے ہر شخص متاثر تھا۔ مصر میں اشاعتِ خطِ نسخ میں ان کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ انتقال مصر میں 1296ھ میں ہوا۔ درویش عبدی ان کا پورا نام سید عبداللہ بخاری ہے لیکن وہ درویش عبدی کے نام سے مشہور ہیں۔ اصلاً وہ اصفہانی ہیں۔ اصفہان میں انہوں نے خط نستعلیق کی تعلیم مشہور استاد میر عماد حسنی سے حاصل کی۔ پھر وہ سیاحت کرتے ہوئے ترکی پہنچے۔ یہاں سلطان مراد چہارم نے ان کی قدردانی کی اور وہ دربار سے وابستہ ہو گئے۔ ترکی میں خط نستعلیق کو متعارف کرانے والا شخص درویش عبدی ہے۔ انہوں نے اس خط کو مقبول بنانے میں پوری کوشش صرف کر دی۔ صدر اعظم محمد پاشا ان کا بے حد احترام کرتے تھے۔ ان کی خواہش پر درویش عبدی نے شاہنامہ فردوسی کا خوبصورت نسخہ تیار کیا۔ انہوں نے ترکی میں بہت سے شاگرد پیدا کیے۔ انہوں نے سلطان مراد سے حج پر جانے کی درخواست کی۔ وہ ایک مرد صالح تھے۔ سلطان نے نہ صرف اجازت دی بلکہ ایک ہزار دینار زادِ راہ کے طور پر دیا۔ حج کے بعد وہ واپس آستانہ آ گئے۔ یہاں آخر وقت تک خط نستعلیق کی خدمت انجام دیتے رہے۔ ان کی وفات 1057ھ میں استنبول میں ہوئی ۔ واضح رہے کہ ترک تذکرہ نگار اور عرب مصنفین دونوں خط نستعلیق کو خط فارسی لکھتے ہیں اور بعض ان میں سے اس کو خط تعلیق کہتے ہیں، حالانکہ خط تعلیق درحقیقت ایک دوسرا ہی خط ہے۔ محمد چلبی طوپ خانہ ای محمود چلبی نے خط نستعلیق کی تعلیم درویش عبدی سے حاصل کی تھی اور پھر اس میں کمال حاصل کیا تھا۔ درویش عبدی کے کام کو اس نے جاری رکھا اور خط کی مقبولیت میں خوب حصہ لیا۔ نستعلیق کے علاوہ یہ خط شش گانہ کے بھی ماہر تھے۔ خط ثلث اور خط نسخ کی تعلیم انہوں نے حافظ امام محمد سے حاصل کی تھی۔ درویش حسام الدین اصلاً یہ شہر بوسنہ کے رہنے والے تھے۔ تکمیل کے بعد یہ شام میں چلے گئے تھے۔ دمشق میں ایک عرصے تک رہے۔ اس لیے حسام دمشقی کے نام سے مشہور ہو گیا۔ یہ 1000ھ تک زندہ رہے۔ خط نستعلیق میں خاص کمال حاصل کیا تھا۔ایک رائے یہ ہے کہ اگر رومیوں (ترکوں) میں سے کسی شخص نے استادان عجم (ایران) کی روش کی صحیح پیروی کی ہے تو وہ درویش حسام الدین ہیں۔ ولی الدین آفندی وہ بہت بڑے عالم تھے، اس لیے شیخ الاسلام کے منصب پر فائز ہوئے۔ یہ قسطنطنیہ میں شیخ الاسلام رہے۔ خط کی تعلیم انہوں نے طور مش زادہ سے حاصل کی تھی۔ خط نستعلیق جلی اور خفی دونوں بہت خوب لکھتے تھے۔ عثمانی ترک خطاطوں میں ان کا مرتبہ اور مقام بہت بلند تھا۔ حسن سلیقہ اور خط شناسی میں بھی ان کو بہت مہارت حاصل تھی۔ ان کے ہاتھ کے لکھے ہوئے قطعات آج بھی مختلف کتب خانوں اور عجائب خانوں کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ ان کے تیار کردہ تین مرقعے جامعہ استنبول کے کتب خانے میں موجود ہیں۔ ان کا ذوق جمالیات بلند تھا۔ استاد محمد عبدالعزیز رفاعی یہ آستانہ کے رہنے والے تھے۔ خط کی تعلیم حاجی احمد عارف فلبوی سے حاصل کی۔ خط نستعلیق حسنی قرین آباد سے سیکھا۔ یہ خط شش گانہ کے ماہر تھے۔ مہارت کے ساتھ طبع مخترع پائی تھی۔ اس لیے انہوں نے 14 قلم نکالے تھے۔ یہ سب کم و بیش خطوں میں ماہر تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ امام الخطاطین تھے۔ ترکی میں ریاست خط کا ان پر خاتمہ ہو گیا۔ کتاب سازی کے دوسرے لوازمات تجلید، تذہیب، ترسیم، نقاشی وغیرہ کے وہ بڑے ماہر تھے۔ وہ اخلاق و کردار میں بڑے نیک، صالح اور عبادت گزار آدمی تھے۔ فواد اول ملک مصر نے ان کو خاص طور پر قاہرہ بلوایا تھا۔ ان کے لیے ایک عمدہ قرآن مجید لکھا۔ یہ 1340ھ میں قاہرہ آئے۔ چھ ماہ کی مدت میں قرآن مجید نہایت نفاست اور استحکام کے ساتھ لکھا۔ پھر آٹھ ماہ میں اس کی تذہیب اور تجلید وغیرہ کی۔ یہ ایک عجیب و حسین کلام پاک ہے جس کے خط کو اور جلد کو لوگ حیرت سے دیکھتے ہیں۔ فواد اس سے بڑے خوش ہوئے۔ انعام و اکرام تو دیا ہی، ان کی موجودگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے تعلیم خط کا ایک مدرسہ قائم کر دیا جس میں عبدالعزیز رفاعی کو استاد مقرر کر دیا۔ ان کا ایک گراں قدر مشاہرہ مقرر کر دیا۔ 1353ھ میں ان کا انتقال ہو گیا۔ پھر میں ترکی میں انقلاب آ گیا۔ مصطفی کمال نے خلافت کا خاتمہ کر دیا۔ عربی زبان اور عربی رسم الخط ختم کر دیا۔ ترکی زبان کے لیے رومن رسم الخط اختیار کر لیا، اور چھ صدیوں کی خوشنویسی اور خطاطی کی روایات کو زوال آ گیا۔​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں