1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . . قسط 42

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از پاکستانی55, ‏10 فروری 2019۔

  1. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    sala ul deen ayubi.jpg
    لہلاتی گھاٹیوں میں شاداب قصبے تھے جن کے سامنے کھجوروں،سیبوں،انگوروں ،خوبانیوں ،شہتوتوں اور ناش پتیوں کادستر خوان بچھا رہتا۔چمکیلے ٹھنڈے میٹھے پانی کے چشموں کے کٹورے رکھے رہتے۔مکانوں کی پگڑیوں پر باورچی خانے کے دھوئیں کے سرمئی طرے لزرا کرتے۔کچے پکے مکانوں کی سنگین چوبیں اور کھجور کی چھال کی چھتوں کے نیچے لانبے چوڑے دالانوں میں سوت کاتتی، قالین بنتی، چمڑا رنگتی اور مٹی کے برتن بناتی کسان بوڑھیاں کھانستی رہتیں، کھنکارتی رہتیں، شریر پوتوں نواسوں کو چمکارتی پھسلاتی رہتیں۔ بوڑھے لوٹی ہوئی مغربی قبائیں پہنے باغوں اور کھیتوں کی فصلوں کو آنکتے رہتے۔ دردیلے جوڑوں اور تمغوں کی طرح لگے ہوئے زخموں اور داغوں کو سہلاتے رہتے اور ذہن میں کلبلاتے ہوئے گناہوں کو جہاد کی یلغاروں کا نشہ پلا کر تھپکیاں دیتے رہتے اور موجودہ جنت کی حوروں سے اٹھکیلیوں کے خواب دیکھا کرتے۔ عورتیں خیالی آنکھوں سے دمشق کے بازاروں میں کوڑیوں کے مول بکتی ہوئی مصنوعات اور زیورات کو پسند کیا کرتیں۔ مٹی کے بیضاوی گھڑوں میں چشموں کا پانی بھرا کرتیں اور خوشبودار راستوں پر چلتی ہوئی ان دنوں کو یاد کیا کرتیں جب ان کے شوہر ان کو گھورنے کے لئے ان جھاڑیوں میں منڈلایا کرتے تھے جو آج مال غنیمت میں اٹی ہوئی مغربی کنیزوں کی لذت میں کھوئے رہتے ہیں ۔
    مرد ڈھیلے ڈھالے کفتان پہنے، آبدار ہتھیار باندھے، طرحدار گھوڑوں پر سوار ان عورتوں کی تیز خوشبویاد کیا کرتے جو انہیں لوٹ میں ملی تھیں اور جنہیں بیچ کر انہوں نے گھوڑیاں خریدی تھیں اور کھیت بوئے تھے۔
    ضرور پڑھیں: بارشیں برسانے والا سسٹم دوبارہ پاکستان میں کب داخل ہوگا؟ محکمہ موسمیات نے خبردار کردیا
    غروب ہوتی ہوئی سردیوں کا شامی آفتاب جب ایک نیزہ ہولیا تب قبہ شاہی کی نچلی منزل کی درمیانی محراب کے ہشت پہل زر کارستون سے لگے کھڑے ہوئے وزیر، ابوبکر کے پاس امیر سامان پہنچا اور جلوس کے تیار ہونے کی خبر دی۔ وزیر نے مرصع کمر بند کو کس لیا۔ دونوں ہاتھوں سے عمامے کا زاویہ درست کیا۔ زینے پر کھڑے ہوئے قراقوش کے محافظ دستے نے اپنے جگمگاتے ہتھیاروں کو سمیٹ کر وزیر کے لئے راستہ بنایا ور وہ سیڑھیاں چڑھنے لگے۔
    ترجمان سردار نے بھاری پردہ ہٹادیا۔ سلطان اعظم تخت کے تکیے سے پشت لگائے دونوں ہاتھوں سے سردبائے نیم دراز تھے۔ وزیر نے پائینتی کھڑے ہوکر سینے پر ہاتھ باندھ لئے۔ سلطان نے ابروپیشانی پر چڑھ لئے اور سوچتی نگاہ سے سوال کیا۔ وزیر نے سر جھکایا پھرتن کر کھڑے ہوکر گوش گزار کیا۔(جاری ہے )

    https://dailypakistan.com.pk/29-Jan-2018/722164
     

اس صفحے کو مشتہر کریں