1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

سلطانہ شرف الدین

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از زنیرہ عقیل, ‏21 دسمبر 2018۔

  1. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    سلطانہ شرف الدین حیدرآباد کے ایک معزز علم دوست خاندان میں پیدا ہوئیں۔ ابتدائی تعلیم نامپلی گرلز اسکول سے حاصل کرنے کے بعد بی۔ اے، بی ایڈ اس کے بعد ایم۔ اے۔ ایم۔ ایڈ کیا۔ جسٹس شرف الدین صاحب سے شادی ہو گئی۔ ملازمت کا آغاز درس وتدریس سے کیا۔ چادر گھاٹ بوائز کالج کی صدر معلّمہ تھیں۔ انسپکٹر آف اسکول کے فرائض بھی انجام دیئے تھے۔ سلطانہ شرف الدین شاعرہ بھی اور ادیبہ بھی تھیں۔ ان کے افسانے مختلف رسائل اور آل انڈیا ریڈیو سے نشر ہوئے۔ انہوں نے اپنے افسانوں کی طرف توجہ دیتی تو مجموعہ کی شکل اختیار کر لیتیں۔، زندگی میں کافی مصروفیات کے بناء پر اپنے تخلیقات کو مجموعہ کی شک نہ دے سکی۔ سلطانہ شرف الدین کے افسانے ایک مقصد لئے ہوتے۔ انہوں نے اپنے افسانوں کے ذریعے سماجی برائیوں کو دور کرنے کی کوشش کی ہیں۔

    جیسے مغربی اندھی تقلید کو اپنانا۔ جھوٹی شان و شوکت، کلب اور اونچی سوسائٹی کی برائیاں، شوہر اور بیوی کے جھگڑے وغیرہ۔ ان کے افسانوں میں ایک درس ایک پیام ہوتا۔ سلطانہ شرف الدین ایک خوش گفتار، ملنسار، خاتون تھیں۔ سلطانہ شرف الدین کے تعلق محترمہ فاطمہ تاج لکھتی ہے کہ، آپا کا خلوص میرے حق میں تو واقعی نعمت عظمی ہے۔ محترمہ فاطمہ تاج کہتی ہیں کہ میں نے آپا سے بارہا کہا کہ اپنی تخلیقات کو کتابی شکل دے کر منظر عام پر لے آئیے۔ آپا کہتی رہی چھوڑو یار تم یہ بکواس کو شاعر کہتی ہو اگر ایسا ہی ہے تم میرے مرنے کے بعد کتابی شکل دے دینا فاطمہ تاج چاہتی تھی کہ سلطانہ شرف الدین کی زندگی میں ہی ان کا کلام شائع کر کے ان کو چونکا دے لیکن ایسا ن نہی ہو سکا۔ ان کا کلام، انمول نگینے، بعد از مرگ منظر عام پر آیا۔ لیکن افسانوں کا مجموعہ ابھی زیر طبع ہے۔ سلطانہ شرف الدین کو اردو ادب سے بے حد لگاؤ تھا، کافی مصروفیات کے باوجود فطری تقاضے انہیں لکھنے پر مجبور کر دیتے تھے۔ انہوں نے بہت کچھ لکھا لیکن کتابی شکل دے کر منظر عام پر نہیں لایا۔

    ٭٭٭
     
    حنا شیخ 2 نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں