میرے ہر عمل کو نظر میں رکھ۔ میری چاہتوں کا صلہ نہ دے۔ میں چراغ آخر شب سہی۔ مجھے بے رخی کی ہوا نہ دے۔ مجھے دشمنوں سے گلہ نہیں۔ صلہ دوستوں سے ملا نہیں۔ مجھے جتنا جینا تھا جی چکے۔ مجھے زندگی کی دعا نہ دے۔ یہ گئے زمانے کی بات ہے۔ اسی راہ پر ہم ساتھ تھے۔ میں نئے سفر پر رہوں گا( ساجد)۔ مجھے دور جا کر صدا نہ دے۔ میں پلٹ کر آوں گا تیرے شہر میں تیرا شہر مجھے بھلا نہ دے۔تیرا شہر مجھے بھلا نہ دے۔
جناب محترم صاحب میں مصروف نہیں ہوں۔مگر میں جاب ہولڈر ہوں۔اور نیٹ استعمال کرنے کیلئے۔مجھے۔ وقت ہی کم ملتا ہے۔مگر میں آپ کے پیغام پڑھنے کیلئے وقت نکال لیتا ہوں۔ مجھ کو جلانے والے میرا دل تو نکال لینا۔ کہیں وہ ساتھ نہ جل جائے جو میرے دل میں رہتا ہے۔
بہت خوب ندیم بھائی ! بہت اچھی نظم ہے۔ آپ کا بہت شکریہ کہ آپ ہماری محبتوں کی قدر کرتے ہیں اور ہماری اردو کو وقت دیتے ہیں۔ ہم بھی ہمیشہ آپکے منتظر رہتے ہیں۔
آپ کے لئے دل تو چاہتا ہے کہ کر دوں ہر محفل میں بدنام مگر پھر بچھڑی ہوئی اداوں کا خیال آتا ہے۔ حرکات عجیب ہیں میرے محبوب کی یارو کبھی دشمن کو اشارہ کبھی مجھے اشارہ گستاخ سمجھتے ہیں اگر میری نظر وہ تو اپنی محفل سے مجھ سے مجھے اٹھا کیوں نہیں دیتے۔