1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

سفرِ معراج ۔ تقاضائے ایمانی

'سیرتِ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم' میں موضوعات آغاز کردہ از برادر, ‏14 جولائی 2009۔

  1. برادر
    آف لائن

    برادر ممبر

    شمولیت:
    ‏21 اپریل 2007
    پیغامات:
    1,227
    موصول پسندیدگیاں:
    78
    سفرِمعراج۔ ۔ ۔ نقوشِ کفِ پائے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چاندنی

    معجزۂ معراج تاریخِ ارتقائے نسلِ انسانی کا وہ سنگِ میل ہے جسے قصر ایمان کا بنیادی پتھر بنائے بغیر تاریخِ بندگی مکمل نہیں ہوتی اور روح کی تشنگی کا مداوا نہیں ہوتا۔ معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تاریخِ انسانی کا ایک ایسا حیرت انگیز، انوکھا اور نادر الوقوع واقعہ ہے جس کی تفصیلات پر عقلِ ناقص آج بھی حیران و ششدر ہے۔ اسے کچھ سجھائی نہیں دیتا کہ سفرِ معراج کیونکہ طے ہوا؟ عقل حیرت کی تصویر بن جاتی ہے، مادی فلسفہ کی خوگر، اربعہ عناصر کی بے دام باندی عقلِ ناقص یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ انسانِ کامل حدودِ سماوِی کو عبور کر کے آسمان کی بلندیاں طے کرتا ہوا لامکاں کی وسعتوں تک کیسے پرواز کر سکتا ہے اور وہ کچھ دیکھ لیتا ہے جسے دیکھنے کی عام انسانی نظر میں تاب نہیں۔ اس لئے حدود و قیود کے پابند لوگ اس بے مثال سفرِ معراج کے عروج و ارتقاء پر انگشت بدنداں ہیں اور اسے مِن و عن اور مستند انداز سے مذکورہ تفصیلات کے ساتھ بھی ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتے اور ایسے ایسے شبہات وارد کرتے ہیں اور تشکیک کا ایسا غبار اُڑاتے ہیں کہ دلائل سے غیر مسلح ذہن اور عام آدمی ان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا اور دیوارِ ایمان متزلزل سی ہونے لگتی ہے۔

    نبئ آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معجزات میں معجزۂ معراج خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ تاریخِ انبیاء کی ورق گردانی کی جائے تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اپنے برگزیدہ رسولوں اور نبیوں کو اللہ رب العزت نے اپنے خصوصی معجزات سے نوازا۔ ہر نبی کو اپنے عہد، اپنے زمانے اور اپنے علاقے کے حوالے سے معجزات سے نوازا تاکہ ان کی حقانیت ہر فردِ بشر پر آشکار ہو اور وہ ایمان کی دولت سے سرفراز کیا جائے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی امت چونکہ جادو میں کمال رکھتی تھی، ہزاروں جادوگر دربارِ شاہی سے وابستہ ہوتے، اس لئے خالقِ کائنات نے بھی اپنے نبی کو جادو کے ان کمالات کا توڑ کرنے کے لئے معجزات عطا کئے۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دور میں طب کا بڑا چرچا تھا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام مردوں کو بھی زندہ کر دینے کی قدرت سے فیض یاب تھے۔ کوڑھیوں کو تندرست کر دیتے کہ اس زمانے میں طب کا دور دورہ تھا اور انسانی نفسیات کو یہی بات زیادہ Apeal کرتی ہے۔ ہر نبی اپنے وقت کے ہر کمال سے آگے ہوتا ہے۔ امت جس کمال پر فائز ہوتی ہے نبی اس کمال پر بھی حاوی ہوتا ہے۔

    اب نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تشریف لانا تھا۔ بابِ نبوت و رسالت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ بند ہو رہا تھا۔ ختمِ نبوت کا تاج سرِ اقدس پر سجایا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاتم المرسلین قرار پائے چنانچہ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایسے معجزات سے نوازا گیا جن کا مقابلہ تمام زمانوں کی قومیں مل کر بھی نہ کر سکتی تھیں۔ اللہ رب العزت کو معلوم تھا کہ امتِ محمدی چاند پر قدم رکھے گی اور ستاروں پر کمندیں ڈالے گی لہٰذا اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مکان و لامکاں کی وسعتوں میں سے نکال کر اپنے قرب کی حقیقت عطا فرمائی جس کا گمان بھی عقل انسانی میں نہیں آ سکتا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے باقی تمام معجزات اور دیگر انبیاء و رسل کے تمام معجزات ایک طرف اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معجزۂ معراج ایک طرف، تمام معجزات مل کر بھی معجزۂ معراج کی ہمہ گیریت اور عالمگیریت کو نہیں پہنچ سکتے۔ یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دائمی معجزہ ہے جس کی عظمت میں وقت کا سفر طے ہونے کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا جائے گا اور نئے نئے کائناتی انکشافات سامنے آ کر معجزۂ معراج کی حقانیت کی گواہی دیتے رہیں گے۔ اِرتقاء کے سفر میں اٹھنے والا ہر قدم سفرِ معراج میں نقوشِ کفِ پا کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں مکہ سے اٹھا اور براق پر سوار ہو کر بیت المقدس پہنچا، وہاں سے آسمانوں اور پھر وہاں سے عرشِ معلی تک گیا حتیٰ کہ مکان و لامکاں کی وسعتیں طے کرتا ہوا مقامِ قاب و قوسین پر پہنچا اور پھر حسنِ مطلق کا بے نقاب جلوہ کیا۔ انبیائے کرام سے ملاقاتیں کیں، جب لوٹا تو گھر کے دروازے کی کنڈی ہل رہی تھی اور غسل و وضو کا پانی حرکت میں تھا۔ ابولہب اور ابوجہل کی عقل آڑے آ گئی۔ غبارِتشکیک نے حقائق کو چھپا لیا جبکہ ابوبکر رضی اللہ عنہ عشق کی بازی جیت گئے اور صدیق کے لقب سے ملقّب ہوئے۔ انسان کا سفرِ ارتقاء نقوشِ کفِ پائے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلاش کا نام ہے۔

    سفرِ معراج عالمِ بیداری میں طے ہوا

    آج کے سائنسی دور کے اِرتقاء اور کائناتی انکشافات کے اس دور میں بھی اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ میں نے خواب میں زمینوں اور آسمانوں کی سیر کی اور جب میں واپس آیا تو میرا بستر گرم تھا تو اسے مِن و عن تسلیم کیا جا سکتا ہے کیونکہ یہ خواب کی بات ہے اور خواب میں ایسا ہونا ممکن ہے۔ اگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی یہ دعویٰ خواب کے حوالے سے کرتے تو ابولہب کو اس کی حقانیت سے انکار ہوتا اور نہ ابوجہل کو۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دعویٰ عالمِ بیداری میں کیا گیا کہ آسمانوں اور زمینوں کی سیر میں نے عالمِ بیداری میں کی، اس لئے عقلِ عیار اسے تسلیم کرنے پر تیار نہ ہوئی۔ اب چونکہ جاگتے ہوئے یہ سب کچھ ہونا انسانی فہم و اِدراک سے بالاتر تھا لہٰذا اس معجزہ کو اہلِ ایمان کے لئے ان کے ایمانوں کی آزمائش قرار دیا گیا۔ چنانچہ قرآنِ مجید میں ارشاد ہوتا ہے:

    وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلاَّ فِتْنَةً لِّلنَّاسِ. (بنی اسرائيل، 17 : 60)

    اور ہم نے تو (شبِ معراج کے) اس نظارہ کو جو ہم نے آپ کو دکھایا لوگوں کے لئے صرف ایک آزمائش بنایا ہے (ایمان والے مان گئے اور ظاہر بین اُلجھ گئے۔)

    بعض لوگ یہ سمجھتے کہ رویا چونکہ عام طور پر خواب کے معنیٰ میں استعمال کیا جاتا ہے لہٰذا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سفرِ معراج خواب میں عطا ہوا۔ درحقیقت یہ مفہوم غلط ہے۔ عربی زبان میں رؤیاء رات کے وقت کھلی آنکھوں سے دیکھنے کو بھی کہتے ہیں اور دورِ جاہلیت کے کئی عرب شعراء کا کلام بھی اس بات کی گواہی دیتا ہے۔ یہاں رویاء سے مراد مطلق مشاہدہ ہے۔ اس امر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن نے کہا :

    لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا. (بنی اسرائيل، 17 : 1)

    تاکہ ہم اس (بندۂ کامل) کو اپنی نشانیاں دکھائیں۔

    چونکہ یہ چیز کسی بھی شخص کے لئے عملاً ناممکن تھی لہٰذا اللہ رب العزت نے اسے اپنی قدرتوں کی طرف منسوب کیا اور فرمایا :

    سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلاً. (بنی اسرائيل، 17 : 1)

    (کہ ہر نقص، عیب اور ناممکن کے لفظ سے) پاک ہے وہ قادرِ مطلق جو لے گیا اپنے بندے کو رات کے وقت سیر کرانے۔

    کفار و مشرکینِ مکہ کا ردِّ عمل ہی ظاہر کرتا ہے کہ معجزۂ معراج کوئی معمولی واقعہ تھا اور نہ یہ کوئی خواب ہی بیان ہو رہا تھا۔ اگر یہ خواب ہوتا تو کفار و مشرکین کا ایسا منکرانہ ردِّ شعمل سامنے آتا اور نہ قرآن میں اس کا ذکر اس اہتمام سے ہوتا۔ الشفاء بتعریف حقوقِ المصطفیٰ میں قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تحقیق کے مطابق ان صحابہ رضی اللہ عنہ و ائمہ کرام رحمۃ اللہ علیہ کو جسمانی معراج پر ایمان رکھنے والا کہا ہے :

    و ذهب معظم السلف و المسلمين إلی أنه إسراء بالجسد و فی اليقظة و هذا هو الحق وهو قول إبن عباس و جابر و أنس و حذيفة و عمر و أبی هريرة و مالک بن صعصعة و أبی حبة البدری و ابن مسعود و الضحاک و سعيد بن جبير و قتاده و ابن المسيب و ابن شهاب و ابن زيد و الحسن و إبراهيم و مسروق و مجاهد و عکرمة و ابن جريج و هو دليل قول عائشة وهو قول الطبری و ابن حنبل و جماعة عظيمة من المسلمين وهو قول أکثر المتأخرين من الفقهاء و المحدثين و المتکلمين و المفسرين.
    (الشفاء، 1 : 188)


    اسلاف اور مسلمانوں کی اکثریت اسراء کو جسم کے ساتھ بیداری میں ہونے پر ایمان رکھتی ہے اور یہی سچا قول ہے۔ اس قول میں ابن عباس رضی اللہ عنہ، جابر رضی اللہ عنہ، انس رضی اللہ عنہ، حذیفہ رضی اللہ عنہ، عمر رضی اللہ عنہ، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، مالک بن صعصعہ رضی اللہ عنہ، ابوحبہ البدری رضی اللہ عنہ، ابن مسعود رضی اللہ عنہ، ضحاک رضی اللہ عنہ، سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ، قتادہ ابن المسیب رضی اللہ عنہ، ابن شہاب رضی اللہ عنہ، ابن زید رضی اللہ عنہ، حسن رضی اللہ عنہ، ابراہیم رضی اللہ عنہ، مسروق، مجاہد رضی اللہ عنہ، عکرمہ رضی اللہ عنہ، ابن جریح رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ شریک ہیں اور یہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کے قول پر دلیل ہے اور یہ قول طبری رحمۃ اللہ علیہ ، ابن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے علاوہ مسلمانوں کی غالب اکثریت کا بھی ہے اور متاخرین فقھاء محدثین اور متکلمین و مفسرین کا بھی یہی قول ہے۔

    انسان ظاہر و باطن کا پیکرِ دلنشیں ہے۔ داخل سے خارج تک اور خارج سے داخل تک کا سفر اَن گِنَت مراحل کا امین ہوتا ہے۔ باطن ایک شفاف آئینہ ہے جس میں ظاہر کی دنیا کا ہر عکس جلوہ گر ہوتا ہے۔ اس طرح ظاہر بھی من کی دنیا کا عکاس ہے۔ باطن کے پانچ لطائف ہوتے ہیں۔ قلب، روح، سرّ، خفی اور اخفی۔ سفرِ معراج عالمِ بیداری میں طے ہوا۔ اس کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ یہ معراج یک جہتی نہ تھی بلکہ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطا ہونے والی معراج تمام لطائف کی بھی معراج تھی۔ وہ ایسے کہ ہر لطیفے کا مقام اپنی جگہ سے اٹھ کر اوپر کے مقام پر چلا گیا یعنی جسمِ اطہر جو نفس کا مظہر تھا جب مقامِ قاب قوسین پر پہنچا تو وہ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جسمِ اطہر تھا لیکن جسم کے مقام سے اٹھ مرتبۂ قلب پر پہنچ گیا تھا۔ یہ بات اگر سمجھ میں آ جائے تو یہ خود بخود واضح ہو جاتا ہے کہ شبِ معراج حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ پاک کا دیدار سر کی آنکھوں سے کیسے کیا۔ اصل بات یوں ہے کہ اس سلسلے میں دو روایات ملتی ہیں :

    1۔ اُمُ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنھا سے مروی ہے کہ جس شخص نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت اللہ جل شانہ کو سر کی آنکھوں سے دیکھنے کا دعویٰ کیا، اس نے کفر کیا۔ اسکو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس روایت کے ساتھ بیان کیا ہے۔

    عن مسروق، قال : سالت عائشة رضی الله عنه عن هذه الآية التي فيها الروية فقالت : انا اعلم هذه الامة بهذه، وانا سالت رسول الله صلي الله عليه وآله وسلم عن ذالک قال : رأيت جبرئيل ثم قالت : من زعم ان محمداً رای ربه فقد اعظم الکذب علی الله.

    مسروق بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے آیت رؤیت کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا میں اس کے بارے میں اس امت سے بہتر جانتی ہوں۔ میں نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس کے بارے میں پوچھا۔ آپ نے فرمایا میں نے جبرئیل کو دیکھا ہے۔ پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا جس نے یہ دعویٰ کیا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ہے تو اس نے اللہ تعالیٰ پر بہت بڑا جھوٹ باندھا ہے۔

    1. صحيح لمسلم، کتاب الايمان، رقم : 287
    2. صحيح البخاری، کتاب بدأ الخلق، رقم : 3062
    3. جامع الترمذی، کتاب التفسير، رقم : 3068، 3278
    4. مسند احمد بن حنبل، 6 : 49، 50
    5. مسند ابی يعلی، 8 : 304، رقم : 4900


    امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ المعجم الکبیر والاوسط میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول نقل کرتے ہیں :

    عن ابن عباس رضي الله عنه قال : راي محمد صلي الله عليه وآله وسلم ربه عزوجل مرتين مرة ببصره و مرة بفواده.

    1. المعجم الکبير، 12 : 71، رقم : 12564
    2. المعجم الاوسط، 6 : 356، رقم : 5757
    3. المواهب اللدنيه، 2 : 37
    4. نشر الطيب، 55


    حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب کو دو مرتبہ دیکھا ایک مرتبہ سرکی آنکھوں سے اور دوسری مرتبہ دل کی آنکھوں سے۔

    حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے موقف کی تائید اور اسکی تفصیل باب رؤیت باری تعالی میں بیان کی جائے گی۔

    حقیقتِ حال یہ ہے کہ دونوں باتیں ایسی ہیں کہ انہیں مان لیا جائے کیونکہ سر کی آنکھیں جب تک مرتبۂ جسم پر رہیں، اللہ تعالیٰ کے حسن اور اس کے نورِ ذات کو نہیں دیکھا جا سکتا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب دیکھا تو سر کی آنکھیں مرتبۂ قلب پر فائز ہو چکی تھیں اور جسم رتبے میں دل سے بدل چکا تھا یعنی کھلی ہوئی تو سر کی آنکھیں تھیں مگر ان کا دیکھنا ایسا تھا کہ دل دیکھ رہا ہو۔ اس لئے قرآن مجید نے کہا :

    مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَىO (النجم، 53 : 11)

    دل نے جھوٹ نہ کہا جو دیکھا۔

    یہ دل وہی تو دیکھ رہا تھا جو آنکھیں دیکھ رہی تھیں۔ اسی طرح قلبِ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معراج حاصل ہوئی تو وہ مرتبۂ روح پر پہنچ گیا یعنی دل تو پہلے ہی اللہ رب العزت کی محویت میں غرق تھا جب وہ روح کے مرتبے تک پہنچا تو فنا ہو گیا۔ پھر روح کو سرّ کا درجہ ملا تو وہ فنائے تام کے درجے تک پہنچی۔ پھر سر ّخفی اور اَخفیٰ کے مرتبے تک پہنچا تو کبھی ’’دَنٰی‘‘ کے ذریعے مولا کو دیکھا تو کبھی ’’فَتَدَلّٰی‘‘ کے ذریعے قرب کی انتہائیں نصیب ہوئیں، آخرکار مشاہدہ اپنے کمال کو پہنچ گیا، جسے قرآن مجید میں یوں بیان کیا گیا ہے :

    وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَىO(النجم، 53 : 13)

    اور (اب) انہوں نے وہ جلوہ دوسری بار دیکھا۔

    سفرِ معراج میں تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہر لطیفے کو قربِ الٰہی نصیب ہوا اور وہ دیدارِ الٰہی کی لذتِ دوام سے ہمکنار ہوا۔ جب سب مراحل طے پا گئے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس حال میں کرۂ ارضی کی طرف لوٹے کہ ہر ہر لطیفے میں مولا کے قرب اور اس کے دیدار کی لذتیں سما چکی تھیں۔

    سفرِمعراج اپنے تین مراحل میں

    1۔ پہلا مرحلہ

    سفرِ معراج کا پہلا مرحلہ مسجدُ الحرام سے مسجدِ اقصیٰ تک کا ہے۔ یہ زمینی سفر ہے۔ یہ چونکہ انسانی دنیا کا حصہ ہے اور ذہنِ انسانی میں اس کی تفہیم نسبتاً آسانی سے ممکن ہے اس لئے اسے تفصیل سے بیان کیا گیا ہے، حتیٰ کہ سفر کے اَحوال، واقعات اور اس کی حقانیت پر دلائل بھی بیان کئے گئے ہیں۔

    2۔ دُوسرا مرحلہ

    سفرِ معراج کا دوسرا مرحلہ مسجدِ اقصیٰ سے لے کر سدرۃ ُالمنتہیٰ تک ہے۔ یہ کرۂ ارضی سے کہکشاؤں کے اس پار واقع نورانی دنیا تک سفر ہے۔ یہ چونکہ مخلوق کی حدود کے اندر تھا لہٰذا اسے بھی بیان کیا مگر تفصیل سے بیان نہیں کیا کیونکہ یہ پوری طرح ذہنِ انسانی میں آنے والا نہ تھا۔

    3۔ تیسرا مرحلہ

    سفرِ معراج کا تیسرا مرحلہ سدرۃ ُالمنتہیٰ سے آگے قاب قوسین اور اس سے بھی آگے تک کا ہے۔ چونکہ یہ سفر محبت اور عظمت کا سفر تھا اور یہ ملاقات محب اور محبوب کی خاص ملاقات تھی لہٰذا اس رودادِ محبت کو راز میں رکھا گیا۔ سورۃ ُالنجم میں فقط اتنا فرمایا کہ وہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جو راز اور پیار کی باتیں کرنا چاہیں وہ کر لیں۔ (اب کسی کو اس سے کیا غرض کہ کیا باتیں کیں) جبکہ اس مقام پر فرمایا : إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ البَصِيرُ۔ اب غور طلب بات یہ ہے کہ یہ نہیں بتایا کہ دیکھنے اور سننے والا کون ہے؟ اس سے مراد اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات بابرکات بھی ہو سکتی ہے اور آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات بھی ( یہ معنی علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی تفسیر روح المعانی میں بیان کیا ہے) گویا اس کے دو معانی ہو گئے :

    1۔ بے شک اس مقام پر فقط اللہ ہی تھا جو پیار بھرے انداز میں اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مکھڑا تکنے والا تھا اور جو اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی میٹھی میٹھی زبان سے اس کی عرضداشت سننے والا تھا۔

    2۔ بے شک اس مقام پر فقط حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی تھے جو اپنے رب تعالیٰ کے حسن بے نقاب کے جلوے میں مشغول تھے اور اللہ تبارک و تعالیٰ کے ارشادات اور پیار بھری باتیں سننے والے تھے۔

    یہ وہ مقام تھا جہاں سفرِ محبت و عظمت اپنے مقصود کو پانے والا تھا جس کا مخلوق سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا لہٰذا ان کے بتانے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ کبھی وہ سننے والا اور یہ سنانے والا تھا اور کبھی یہ دیکھنے والا اور وہ دیکھا جانے والا تھا۔

    یہ معنیٰ امام صاوی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی لیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ اس کی حکمت یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی زبانِ حکمت سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف بیان کرنا چاہتے ہیں تاکہ واضح ہو کہ آپ کا مقام کتنا بلند ہے۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمتوں کا حال معلوم ہو سکے۔

    عارف الراعی فرماتے ہیں :

    و إن قابلتْ لفظة لَنْ تَرَانِيْ
    بما کَذَبَ الْفُؤَادُ فهمّت معنی
    فموسٰی خرّ مغشياً عليه
    و أحمد لم يکن ليزيغ ذهناً


    ترجمہ :۔ ’’اگر تو لَن تَرَانِي اور مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَى کا آپس میں مقابلہ کرے تو تیری سمجھ میں آ جائے گا کہ حقیقت کیا ہے۔ موسیٰ بے ہوش گئے جبکہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چشمِ اقدس بھی دنگ نہ ہوئی‘‘ ۔

    (الصاوی علی الجلالين، 4 : 137)

    قوسین یعنی دو کمانوں کا اِستعارہ

    محبت اپنی زبان خود تخلیق کرتی ہے۔ اظہارِ محبت کسی لفظ کا بھی مرہونِ منّت نہیں ہوتا۔ چشمِ بے تاب سارا حال کہہ دیتی ہے۔ محبت کے تقاضوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ تعلق اتنا گہرا ہو کہ دو کا ذکر کرنا ہو تو اس طرح کیا جائے جیسے ایک ہی کا ذکر ہے حتیٰ کہ غیریت کا تصور تک مٹ جائے۔ مثلاً قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے : ثُمَّ دَنٰی فَتَدَلّٰی، اب اس آیت میں دو افعال ہیں مگر کسی ایک کے فاعل کا بھی ذکر نہیں کیا گیا۔ اب اس میں مختلف صورتیں ممکن ہیں :

    دونوں کا فاعل اللہ ہو : اگر دونوں کا فاعل اللہ ہو تو مفہوم یہ ہو گا ’’پھر اللہ قریب ہوا، پھر اللہ مزید قریب ہوا‘‘ ۔
    دونوں کا فاعل حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بنایا جائے : اس صورت میں معنیٰ یہ ہو گا ’’پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قریب ہوئے، پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مزید قریب ہوئے‘‘۔
    دَنٰی کا فاعل حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اور تَدَلّٰی کا فاعل اللہ رب العزت کو بنایا جائے :
    یہ معنی زیادہ قرین قیاس ہے۔ ظاہر ہے کہ پہلا قرب تو آنے والا خود ہی چاہتا ہے مگر مخلوق کو محدود ہونے کے سبب سے کسی نہ کسی حد پر رک ہی جانا تھا۔ سو باقی رہنے والے فاصلے کو مٹانے کے لئے اور قرب کی حدوں کو توڑ دینے کے لئے اللہ آگے بڑھا کہ جو غیر محدود ہے۔

    اس کی تائید امام شعرانی رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ اس حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آگے پہنچے تو ربِ کائنات نے ارشاد فرمایا :

    قف يا محمد! إن ربک يصلی. (اليواقيت و الجواهر، 2 : 35)

    ٹھہر جاؤ اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! بیشک تمہارا رب قریب ہوتا ہے۔

    صَلّٰی، یُصَلِّيْ کا معنی قریب ہونا صاحبِ ’’الصَّلٰوۃ و البُشر‘‘ نے بھی لیا ہے۔

    اب رہی بات یہ کہ اللہ کس قدر قریب ہوا تو اس کا جواب اس آیت کریمہ سے بخوبی ملتا ہے۔ فرمایا :

    فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَىO(النجم، 53 : 9)

    پھر دو کمانوں کا فاصلہ رہ گیا یا اس سے بھی کم رہ گیا (جس کی کوئی حد معلوم نہیں)۔

    ایک لطیف نکتے کی وضاحت

    دوئی کے مٹانے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ توحید و رسالت کا تعلق ایسا ہے کہ دو کو مانا جائے مگر دونوں میں ایسی دُوئی جو غیریت کا مفہوم رکھتی ہو اُسے تسلیم نہ کیا جائے۔ گویا جس طرح دو ہونے کا انکار کرنا کفر ہے اس کی طرح دُوئی کو بدرجۂ غیریت ماننا بھی کفر ہے۔

    تمثیل کا ثقافتی پس منظر

    جزیرہ نمائے عرب میں ظہورِ اسلام کے وقت اگرچہ کوئی مرکزی حکومت نہ تھی۔ سیاسی اور جغرافیائی وحدت کا تصور عملاً مفقود تھا، تاہم قبائلی رسم و رواج کی پابندی کی جاتی۔ عربوں کا ایک اپنا مزاج تھا جس نے ان کی ثقافتی اِکائی کو بڑی حد تک زمانے کی دستبرد سے محفوظ رکھا۔

    عربوں کا ایک طریقہ تھا کہ جب دو قبیلے آپس میں ملتے اور معاہدہ کر کے یک جان دو قالب ہونا چاہتے تو فریقین اپنی کمانوں کو آپس میں بدلتے اور پھر ملا کر تیر پھینکتے تو یہ تصور کیا جاتا کہ ایک کا پھینکا ہوا تیر دوسرے کا ہے اور دوسرے کا پھینکا ہوا تیر پہلے کا ہے۔ ایک فریق کی دوستی دوسرے فریق کی دوستی ہے اور ایک کی دشمنی دوسرے کی دشمنی ہے۔ گویا قاب قوسین کی مثال دے کر اللہ رب العزت یہ بات واضح کرنا چاہتے ہیں جس نے اللہ سے تعلق جوڑنے کا ارادہ رکھا اسے چاہئے کہ اس کے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دامنِ رحمت سے لپٹ جائے اور جس کسی نے اس کے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے (معاذاللہ) بغض رکھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں (نعوذ باللہ) تنقیص کی جسارت کی، اللہ نے اس کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیا۔

    معراج بلاشبہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا زندہ معجزہ ہے۔ یہ معجزہ براہِ راست اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت، رفعت اور حقیقت کسی بھی فردِ بشر کی سمجھ بوجھ، عقل و خرد اور فہم و فراست کی پرواز سے بلند اور بہت ہی بلند ہے حتیٰ کہ کسی کے لئے اس کا تصور بھی ممکن نہیں۔

    مراحلِ سفرِ معراج

    حقیقتِ معراج کے چند گوشے بیان کرنے کے بعد اب ہم مختلف احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں واقعہ معراج کی جملہ تفصیلات بیان کرتے ہیں۔

    مرحلۂ اُولیٰ۔ ۔ ۔ بیت ُاللہ سے بیت ُالمقدس تک

    سفرِ معراج، سفرِ محبت بھی ہے اور سفرِ عظمت بھی۔ بیت ُاللہ سے بیت المقدس اس سفرِ مقدس کا پہلا مرحلہ تھا۔ یہ واقعہ متعدد صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اور متعدد طرق، اسناد اور تفصیلات کے ساتھ منقول ہے۔ نیز تابعین نے بھی اسے صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔

    حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حطیمِ کعبہ میں آرام فرما رہے تھے کہ حضرت جبرئیل امین علیہ السلام نے آ کر تاجدارِ کون و مکاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جگایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نیند سے بیدار ہوئے، اِدھر اُدھر دیکھا اور پھر لیٹ گئے۔ جبرئیل امین علیہ السلام نے دوبارہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بیدار کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر اِدھر اُدھر دیکھا اور لیٹ گئے۔ پھر جبرئیل امین علیہ السلام نے تیسری مرتبہ درِ اقدس پر آواز دی۔ اس مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اٹھے تو جبرئیل علیہ السلام نے عرض کی : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اللہ رب العزت نے آپ کو اپنی ملاقات کے لئے بلایا ہے۔ اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سینۂ اقدس حلق سے لے کر ناف تک چاک کیا گیا اور قلبِ اطہر کو نکالا گیا۔ اللہ رب العزت نے ملاءِ اعلیٰ سے ایک طشت کے اندر اپنے خصوصی اَنوار و تجلیاتِ حکمت بھیجے تھے۔ ان اَنوار و تجلیات سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلبِ اقدس کو دھویا گیا تاکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قلبِ اطہر سفرِ معراج شروع کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے ذاتی انوار و تجلیات کے فیض کو کماحقہ اپنے اندر جذب کرنے کی صلاحیت پیدا کر لے۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں ایک سواری پیش کی گئی جو قد کے اعتبار سے گوش دراز سے اونچی اور خچر سے نیچی تھی۔ اس کا رنگ چمکدار اور سفید تھا۔ اس کا نام ’’براق‘‘ تھا۔

    عن مالک بن صعصعة، قال : قال رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ’’بينا أنا في الحجر. . . و فی رواية فی الحطيم. . . بين النائم و اليقظان، إذ أتانی آت، فشقّ ما بين هذه إلی هذه، فاستخرج قلبی، فغسله ثم أعيده، ثم أتيت بدابة دون البغل فوق الحمار أبيض، يقال له ’’البُرَّاق، ، فحملت عليه، ، .

    (روح المعانی، 15 : 5)


    حضرت مالک بن صعصعہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں حجر۔ ۔ ۔ دوسری روایت میں حطیم کا ذکر ہے۔ ۔ ۔ میں نیند اور بیداری کی درمیانی کیفیت میں تھا جب میرے پاس آنے والا (فرشتہ) آیا۔ اس نے (میرا سینہ) یہاں سے یہاں تک چیرا۔ پھر میرے دل کو نکال کر غسل دیا۔ پھر دوبارہ اندر رکھ دیا۔ پھر ایک سواری لائی گئی جو خچر سے چھوٹی اور گوش دراز سے بڑی تھی۔ اس کا رنگ سفید تھا۔ اسے ’’براق‘‘ کہا جاتا ہے پس مجھے اس پر سوار کرایا گیا۔

    جب تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو براق پر سوار کیا گیا تو وہ فخر و اِنبساط سے ناچنے لگی کہ آج اسے سیاحِ لامکاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سواری ہونے کا لازوال اعزاز حاصل ہو رہا ہے۔ براق اس سعادتِ عظمیٰ پر وجد میں آ گیا۔ اس پر جبرئیلِ امین علیہ السلام نے اس سواری سے فرمایا :

    ’’رک جا! اللہ کی عزت کی قسم تجھ پر جو سوار بیٹھا ہے آج تک تجھ پر ایسا سوار نہیں بیٹھا‘‘۔

    حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو براق پر سوار کرا کے انہیں بیت المقدس کی طرف لے جایا گیا۔ براق کی رفتار کا یہ عالم تھا کہ جہاں سوار کی نظر پڑتی تھی وہاں اس کا قدم پڑتا تھا۔

    حضرت موسیٰ علیہ السلام کا اپنی قبرِ انور میں نماز ادا کرنا

    سفرِمعراج کے پہلے مرحلے پر سفر جاری تھا کہ حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا گزر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قبرِ انور کے قریب سے ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا کہ وہ اپنی قبرِ انور میں کھڑے صلوٰۃ پڑھ رہے تھے۔

    انبیاء صف بہ صف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے استقبال کیلئے کھڑے تھے۔

    جب یہ مقدس قافلہ بیت المقدس پہنچا تو بابِ محمد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے استقبال کے لئے کھلا تھا۔ جبرئیل امین علیہ السلام نے اپنی انگلی سے دروازے کے قریب موجود ایک پتھر میں سوراخ کیا اور براق کو اس سے باندھ دیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیت المقدس میں داخل ہوئے تو تمام انبیائے کرام علیھم السلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم، اِکرام اور اِحترام میں منتظر تھے۔ انہیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امامت میں نماز پڑھنے کا شرف حاصل ہوا۔

    مرحلۂ ثانیہ۔ ۔ ۔ بیت المقدس سے سدرۃ المنتہیٰ تک

    انبیاء حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اقتداء میں نماز ادا کر کے ادب و احترامِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مشرف ہو چکے تو آسمانی سفر کا آغاز ہوا، اس لئے کہ ہر زمینی عظمت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں کا بوسہ لے چکی تھی۔ پہلے آسمان پر پہنچ کر آسمان کے دروازے پر دستک دی گئی۔ بوّاب پہلے سے منتظر تھا۔ آواز آئی : کون ہے؟۔ ۔ ۔ جبرئیل امین نے جواب دیا : میں جبرئیل ہوں۔ ۔ ۔ ۔ آواز آئی : آپ کے ساتھ کون ہے؟۔ ۔ ۔ جواب دیا : یہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ آج کی رات انہیں آسمانوں پر پذیرائی بخشی جائے گی۔ آسمان کا دروازہ کھل گیا اور پوچھنے والے نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ بیکس پناہ میں سلام عرض کرنے کی سعادت حاصل کی۔ مرحبا یا سیدی یا مرشدی مرحبا

    فانطلق بی، حتی أتی السماء الدنيا فاستفتح، قيل : من هذا؟ قال : جبرئيل، و من معک؟ قال : محمد، قيل : قد أرسل إليه؟ قال : نعم، قيل : مرحبا به فنعم المجيئ جاء.

    (تفسير البغوی، 3 : 93)


    پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آسمانوں کی طرف بڑھے اور جب آسمانِ دنیا پر آئے تو دروازہ کھٹکھٹایا۔ آواز آئی : کون؟ جبرئیل امین نے کہا : جبرئیل۔ پھر کہا گیا : آپ کے ساتھ کون ہے؟ انہوں نے کہا : محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ پھر پوچھا گیا : کیا انہیں بلایا گیا ہے؟ جبرئیل نے کہا : ہاں۔ آواز آئی : خوش آمدید، کتنا اچھا آنے والا آیا ہے۔

    تاجدارِ کائنات حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملاقات حضرت آدم علیہ السلام سے ہوئی۔ انہیں بتایا گیا کہ یہ آپ کے جلیل القدر فرزند ہیں۔ ختم المرسلین ہیں۔ یہی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ یہی کل انبیاء کے سرتاج ہیں۔ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دادا جان کہہ کر آدم علیہ السلام کی بارگاہ میں سلام ارشاد فرمایا۔ حضرت آدم علیہ السلام نے سلام کا جواب بھی عرض کیا اور اپنے عظیم فرزند کو دعاؤں سے بھی نوازا۔ اس کے بعد مہمانِ عرش حضور پُرنور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دوسرے آسمان کی طرف اٹھایا گیا۔ پہلے آسمان کی طرح بوّاب نے دوسرے آسمان کا بھی دروازہ کھولا۔ یہاں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیدنا عیسیٰ علیہ السلام اور یحییٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔ اس یادگار ملاقات اور آسمان کے ملکوتی مشاہدات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تیسرے آسمان کی طرف اٹھایا گیا۔ تیسرے آسمان پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملاقات سیدنا یوسف علیہ السلام سے کرائی گئی۔ تیسرے آسمان کے مشاہداتِ نورانی کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چوتھے آسمان پر پہنچایا گیا۔ چوتھے آسمان پر تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملاقات حضرت ہارون علیہ السلام سے کرائی گئی۔ اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سفرِ معراج طے کرتے ہوئے چھٹے آسمان پر پہنچے اور سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی چشمانِ مقدس اشکبار ہو گئیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و رفعت کو دیکھ کر رشک کے آنسو چھلک پڑے۔ آپ کی زبانِ اقدس سے بے اختیار نکلا کہ خدائے بزرگ و برتر کے یہ وہ برگزیدہ رسول ہیں جن کی امت کو میری امت پر شرف عطا کیا گیا۔ میری امت پر جسے بزرگی عطا ہوئی یہ وہی رسولِ برحق ہیں جن کی امت کو میری امت کے مقابلے میں کثرت کے ساتھ جنت میں داخل کیا گیا۔ مہمانِ ذی حشم حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملاقات ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ہوئی۔

    دیدارِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے ملائکہ کے ہجوم در ہجوم

    مشاہداتِ آسمانی کے نورانی جلوؤں کے بعد تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سدرۃ المنتہیٰ کے مقام تک لے جایا گیا۔ یہ وہ مقامِ عظیم ہے جہاں آ کر ملائکہ، حتیٰ کہ انبیاء و رُسل کی بھی پرواز ختم ہو جاتی ہے۔ جہاں مقرب فرشتوں کے بھی پرجلتے ہیں۔ گویا ملاقات کا سارا نظام اور عالمِ امکان کی ساری بلندیاں سدرۃ ُالمنتہیٰ پر ختم ہو جاتی ہیں۔ سدرۃ ُالمنتہیٰ کا مقامِ اولیٰ عالمِ مکان کی آخری حد اور لامکاں کا ابتدائی کنارہ ہے۔ اس مقام پر تفسیر نیشاپوری اور تفسیر دُرِ منثور میں ایک حدیث نقل کی گئی ہے۔ فرشتے اللہ رب العزت کی بارگاہِ اقدس میں دعا مانگتے تھے کہ اے کائنات کے مالک! جس محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاطر تو نے یہ کائنات تخلیق فرمائی جس پر تو اپنی زبانِ قدرت سے ہمہ وقت درود پڑھتا ہے اور ہم بھی تیرے حکم کی تعمیل میں اس ہستی پر درود و سلام کا نذرانہ بھیجتے ہیں آج وہی مہمانِ ذی وقار تشریف لا رہے ہیں۔ اے باری تعالیٰ! ہمیں اپنے اس رسولِ محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بے نقاب جلوہ عطا فرما۔ اللہ پاک نے ان مقرب ملائکہ کی دعا کو شرفِ قبولیت بخشا اور فرمایا کہ تم ساری کائناتِ آسمانی سے سمٹ کر اس درخت ’’سدرۃ ُالمنتہیٰ‘‘ پر بیٹھ جاؤ۔ فرشتے ہجوم در ہجوم اُمڈ پڑے۔ فرشتوں کی اتنی کثرت ہوئی کہ وہ درخت ان کے نور کے سائے میں آ گیا :

    إستأذنتِ الملائکةُ الربَّ تبارک و تعالٰی أن ينظروا إلی النبی صلی الله عليه وآله وسلم، فأذن لهم، فغشيت الملائکةُ السِّدرةَ لينظروا إلٰی النبی صلی الله عليه وآله وسلم. (الدر المنثور، 6 : 116)

    فرشتوں نے اللہ تعالیٰ سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی خواہش کا اظہار کیا تو انہیں اجازت دے دی گئی۔ پس فرشتوں نے سدرہ (بیری کے درخت) کو اپنی کثرت سے چھپا لیا تاکہ نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کر سکیں۔

    قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے۔

    إِذْ يَغْشَى السِّدْرَةَ مَا يَغْشَىO (النجم، 53 : 16)

    جب سائے میں لے کر چھپا لیا سدرہ کو جس نے کہ چھپا لیا (ملائکہ کی کثرت نے)o

    سدرۃ ُالمنتہیٰ کے مقامِ عظیم پر قدسیانِ فلک کو مہمانِ ذی وقار کے دیدارِ فرحت آثار کا لازوال شرف حاصل ہوا۔

    رخِ مصطفیٰ ہے وہ آئینہ کہ اب ایسا دوسرا آئینہ
    نہ ہماری بزمِ خیال میں نہ دکانِ آئینہ ساز میں

    جب مہمانِ عرش آگے بڑھنے لگے تو جبرئیلِ امین رک گئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جبرئیل چلو! تو عرض کیا :

    لو دنوتُ أنملةً لاحترقتُ. (اليواقيت و الجواهر، 3 : 34)

    اگر میں ایک چیونٹی برابر بھی آگے بڑھا تو (تجلیاتِ الٰہی کے پرتو سے) جل جاؤں گا۔

    سِدرہ سے آگے یکتا و تنہا سفرِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

    اس مقام پر آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جنت کی سیر کرائی گئی۔ حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنت کے احوال کا مشاہدہ فرمایا اور وہاں کی نعمتوں کی زیارت فرمائی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب سفرِ معراج کی اگلی منزل کی طرف روانہ ہوئے تو جبرئیل اور براق ساتھ نہ تھے۔ آپ یکتا و تنہا ہی اپنے خالقِ کائنات کے اِذن سے روانہ ہوئے۔ اللہ رب العزت نے اپنے مہمانِ عرش کی سواری کے لئے ایک سبز رنگ کا ملکوتی اور نورانی تخت بھیج دیا۔ اس تخت کا نام ’’زخرف‘‘ تھا۔ حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عرشِ معلی تک پہنچایا گیا۔ جب سدرۃ ُ المنتہیٰ کی منزل گزر چکی، جب فرشتوں کا استقبال پیچھے رہ گیا تو آگے ایک نور تھا اور دیکھنے والے کو اس نور کے سوا کچھ نظر نہ آتا تھا۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس نور میں غائب کر دیا گیا تو دیکھنے والی آنکھ آپ کو دیکھنے سے قاصر تھی۔ اب کسی کو معلوم نہ تھا کہ یہ نور کیا ہے؟ کیسا ہے؟ کہاں سے ہے؟ کہاں تک ہے؟ کہاں جانے والا ہے؟ اس حصارِ نور میں داخل ہونے کے بعد مہمانِ ذی حشم حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عرشِ معلی کی سیر کی۔ اس کے بعد مہمانِ مکرم کو بڑی عزت، وقار اور تمکنت کے ساتھ آگے لے جایا گیا۔

    مرحلۂ ثالثہ۔ ۔ ۔ سدرۃ ُالمنتہیٰ سے وصالِ اِلٰہی تک

    سدرۃ ُ المنتہیٰ سے وصالِ اِلٰہی تک سفرِ معراج کا نقطۂ عروج ہے۔ یہاں سے سفر کا ایک نیا مرحلہ شروع ہوتا ہے۔ آگے ایک عالم نور تھا۔ اَنوار و تجلیاتِ الٰہی پُرفِشاں تھے۔ اللہ رب العزت کی ذاتی اور صفاتی تجلیات سے بھرپور عالمِ لامکاں کے جلوے ہر سو جلوہ ریز تھے۔ مہمانِ عرش حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تن تنہا ان جلوؤں میں داخل کر دیا گیا۔ سب سے پہلے اللہ پاک کے اسماء کے پردے ایک ایک کر کے گزرتے رہے اور ہر اسم مبارک کے رنگ سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گزارا گیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عالمِ بیداری میں تھے لہٰذا اس عجیب سی کیفیت کو دیکھ کر بتقاضائے بشریت کچھ معمولی سی وحشت بھی محسوس فرمانے لگے جیسا کہ انسان اکثر لمحاتِ تنہائی میں محسوس کرتا ہے۔ جونہی حضور پُرنور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلبِ اقدس پر یہ کیفیت وارد ہوئی اللہ رب العزت کی طرف سے آواز آئی:

    قف يا محمد صلی الله عليه وآله وسلم ! إن ربک يصلی. (اليواقيت و الجواهر، 2 : 35)

    پیارے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رک جاؤ! بے شک تمہارا رب (استقبال کے لئے) قریب آ رہا ہے۔

    سفرِ وصال

    معجزۂ معراج میں یہاں تک کا سفر، سفرِ محبت و عظمت تھا۔ اب یہاں سے آگے سفرِ وصال شروع ہوتا ہے۔ سفرِ معراج کے اس مرحلہ پر مہمانِ عرش حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مقامِ ’’قاب قوسین‘‘ پر پہنچ گئے۔

    ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

    ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّىO فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَىO(النجم، 53 : 8، 9)

    پھر (اس محبوبِ حقیقی سے) آپ قریب ہوئے اور آگے بڑھےo پھر (یہاں تک بڑھے کہ) صرف دو کمانوں کے برابر یا اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا۔

    یہاں توجہ طلب بات یہ ہے کہ دو قوسوں پر بات ختم نہیں کی بلکہ قُرب اور بُعد کے تمام جھگڑے ختم کرنے کے لئے تمام حدوں کو توڑ دیا، تمام فاصلے مٹا دیئے، تمام فاصلے یکسر ختم کر دیئے، سوائے ایک فرق کے کہ وہ خدا تھا۔ ۔ ۔ خدائے لاشریک اور یہ اس کے محبوب بندے اور رسول تھے۔ وہ خالق تھا اور یہ مخلوق۔

    چنانچہ ارشاد ہوتا ہے :

    فَأَوْحَى إِلَى عَبْدِهِ مَا أَوْحَىO(النجم، 53 : 10)

    پس وحی کی اپنے بندے کی طرف جو کہ اس نے وحی کیo

    یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ محب اور محبوب کے درمیان تنہائی کی ملاقات میں جو باتیں ہوئیں ان کا بیان بھی نہیں فرمایا لہٰذا محب اور محبوب میں کیا کیا باتیں ہوئیں، اس کلام کی حقیقتوں کی کسی کو کچھ خبر نہیں۔ حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فقط اتنا بیان فرمایا کہ جب ملاقات ہوئی تو خالقِ کائنات نے فرمایا :

    اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ أَيها النَّبِیُّ وَ رَحْمَةُ اﷲِ وَ بَرَکَاتُه. (معارج النبوة، 3 : 149)

    اے نبی! تمہارے اوپر سلامتی ہو اور اللہ کی رحمت ہو اور اس کی برکتیں ہوں۔

    حضور پُر نور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رحمت کے اس پیغام کے جواب میں عرض کیا :

    اَلسَّلَامُ عَلَيْنَا وَ عَلٰی عِبَادِ اﷲِ الصَّالِحِيْنَ. (معارج النبوة، 3 : 149)

    سلام ہم پر اور اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں پر۔

    اور پھر واپسی پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اُمت کے لئے پچاس نمازوں کا تحفہ عطا کیا گیا جسے لے کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کی ذاتی و صفاتی تجلیات اور تمام فیوض و برکات سمیت واپس کرۂ ارضی کی طرف پلٹے۔

    اقتباس از ۔ فلسفہء معراج النبی :saw: ۔ مصنف شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری
     
  2. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم۔ برادر محترم !
    ماہ رجب المرجب کی مناسبت سے معراج النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک اور ایمان افروز تحریر ارسال فرمانے پر بہت شکریہ ۔
    اللہ کریم ہمارے دلوں میں اپنے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ، تعظیم و تکریم اور اطاعت کے جذبے فروزاں کرے۔ آمین
     
  3. نور
    آف لائن

    نور ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جون 2007
    پیغامات:
    4,021
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    جزاک اللہ خیر
     

اس صفحے کو مشتہر کریں