1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

سرکہ

'جنرل سائنس' میں موضوعات آغاز کردہ از الکرم, ‏6 اکتوبر 2011۔

  1. الکرم
    آف لائن

    الکرم ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جون 2011
    پیغامات:
    3,090
    موصول پسندیدگیاں:
    1,180
    ملک کا جھنڈا:
    سرکہ
    سرکہ (عربی: خل ، انگریزی:Vinegar، فارسی: سرکہ) ایک تیزابی مادہ ہوتا ہے جو عام طور پر ایتھنول (شراب) کی تبخیر سے تیار کیا جاتا ہے۔ اسے آپ شراب کی اگلی شکل کہہ سکتے ہیں۔ انگور، گنا، جامن، سیب وغیرہ میں سے کسی کو برتن میں رکھ کر دھوپ میں رکھ کر بھی تیار ہو سکتا ہے جس میں اصل میں پھل سڑ کر سرکہ بنتا ہے۔ طبِ اسلامی، چینی طب وغیرہ میں فائدہ مند سمجھا جاتا ہے۔ بعض احادیثِ نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ذریعے اس کے فوائد بیان کیے جاتے ہیں۔ یہ مسامات میں آسانی سے نفوذ کرتا ہے اس لیے بعض ادویہ کو سرکہ میں ملا کر دیا جاتا ہے۔

    اجزاء اور تیاری

    اس کے بنیادی اجزاء میں خمض الخلیک (Acetic acid) شامل ہوتا ہے۔ قدرتی طور پر بنائے ہوئے سرکہ میں تارتارک تیزاب (Tartaric acid) اور سیٹرک تیزاب (Citric acid) بھی شامل ہوتے ہیں۔ اس کی کثافت 0.96 گرام فی ملی لیٹر ہوتی ہے۔ قدرتی طور پر اسے شراب سے تیار کیا جاسکتا ہے۔ اگرچہ مسلمانوں میں شراب حرام ہے مگر سرکہ کو حلال کیا گیا ہے۔ اصل میں شراب میں خمض الخلیک (Acetic acid) کے بیکٹیریا تخسید (oxidation) کے ذریعے اسے شراب کو سرکہ میں تبدیل کر دیتے ہیں۔ شراب کی جگہ سڑے ہوئے پھلوں کا رس بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ شراب شراب نہیں رہتی اور سرکہ میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ اس میں نہ نشہ رہتا ہے نہ شراب کی خبیث خصوصیات۔۔ اسے مصنوعی طریقہ سے بھی بنایا جا سکتا ہے جس میں ایک سست عمل کہلاتا ہے اور ایک تیز رفتار طریقہ بھی ہے۔ سست عمل سے بہتر اور روائتی سرکہ تیار ہوتا ہے لیکن اس کے لیے بھی کچھ سرکہ یا محلول ملانا پڑتا ہے جس میں خمض الخلیک (Acetic acid) کے بیکٹیریا شامل ہوں۔

    قسمیں
    شراب کا سرکہ


    سب سے عام قسم ہے جو قدیم زمانے سے مستعمل ہے۔ شراب میں خمض الخلیک (Acetic acid) کے بیکٹیریا تخسید (oxidation) کے ذریعے اسے شراب کو سرکہ میں تبدیل کر دیتے ہیں۔ سب سے بہترین قسم کئی سال میں تیار ہوتی ہے جو لکڑی کے بڑے برتنوں میں تیار ہوتی ہے۔ یہ قسم مشرق وسطیٰ میں زیادہ استعمال ہوتی ہے۔

    جو کا سرکہ

    اسے جو سے تیار کیا جاتا ہے۔ جو میں موجود نشاستے کو مالٹوز میں تبدیل کیا جاتا ہے جس سے سرکہ بنتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں اسے جو کی شراب سے تیار کیا جا سکتا ہے

    گنے کا سرکہ

    سرکہ گنے کے رس سے بھی تیار کیا جاتا ہے۔ یہ قسم ہندوستان و پاکستان میں عام ہے۔
    پھلوں کا سرکہ

    سرکہ کو بے شمار پھلوں سے بھی تیار کیا جاتا ہے۔ زیادہ تر کھجوریں، سیب، ناریل، کشمش وغیرہ استعمال ہوتی ہیں۔ سادہ الفاظ میں مختلف پھلوں کی شراب کو سرکہ میں تبدیل کیا جاتا ہے۔ شراب شراب نہیں رہتی اور سرکہ میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ اس میں نہ نشہ اور شراب کی بری خصوصیات باقی نہیں رہتیں۔
    شہد کا سرکہ

    یہ قسم کم ہے۔ زیادہ تر فرانس اور اطالیہ میں ملتی ہے۔
    ادویاتی خصوصیات اور استعمال
    خون اور دل کے امراض


    سرکہ کے فوائد ہزاروں سال سے معلوم ہیں۔ جدید طب میں اس پر کچھ تحقیق بھی ہوئی ہے۔ جدید طب میں اسے واضح طور پر کولسٹرول اور ٹرائیگلیسرائیڈ (Triglyceride) کم کرنے کے لیے فائدہ مند مانا گیا ہے۔
    ۔ یہ بھی پایا گیا کہ دل کے امراض میں ایک واضح کمی اس گروپ میں ہوئی جو سلاد میں سرکہ اور زیتون کے تیل کا استعمال کرتے تھے۔
    ۔ ذیابیطس
    سرکہ کا استعمال جدید تحقیق میں ذیابیطس اور خون میں گلوکوز کی مقدار کو درست کرنے کے لیے فائدہ مند پایا گیا ہے۔ انسولین کی دریافت سے پہلے اسے اس مرض کے لیے استعمال کروایا جاتا تھا۔ ۔ جدید طبی تحقیق کے کئی تجربات میں اسے خون میں گلوکوز کی مقدار (glycemic index ) کم کرنے کے لیے واضح طور پر مؤثر مانا گیا ہے۔ یہ اثر نہ صرف ذیابیطس کے مریضوں میں نہیں پایا گیا بلکہ تندرست افراد میں بھی پایا گیا۔ بعض دیگر جدید طبی تجربات میں یہ پایا گیا کہ سرکہ کا کھانے میں کچھ عرصہ مسلسل استعمال خون میں شکر کی مقدار کو 30 فی صد تک کم کر کے ذیابیطس کو بہتر کرتا ہے اور یہ اثر قائم رہتا ہے۔

    نظام انہضام

    طبی تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ سرکہ کا کھانے میں استعمال اس احساس کو بڑھا دیتا ہے کہ اب بھوک نہیں یعنی انسان کم کھاتا ہے اور اس طرح نظام انہضام بہتر رہتا ہے۔ کم کھانے سے اس سے متعلقہ امراض مثلاً ذیابیطس میں بھی کمی واقع ہوتی ہے۔

    قدیم طب میں استعمال

    اوپر درج کی گئی تحقیقات کے نتائج قدیم طب میں پہلے سے ہی معلوم تھے اور ان تمام مقاصد کے لیے سرکہ کو استعمال کیا جاتا تھا۔ اوپر دیے گئے تجربات قدیم طب میں (جس میں چینی و اسلامی طب بھی شامل ہیں) دی گئی باتوں کی تصدیق کے لیے جدید طب میں کیے گئے۔ ان تمام فوائد کے علاوہ قدیم طب میں درج ذیل فوائد بھی بتائے جاتے ہیں:
    محلل، قابض، مجفف اور مسکنِ درد ہے۔ زائد رطوبت کو خشک کرتا ہے۔ مسامات میں جلد سرایت کرتا ہے اس لیے دوائی کو اس میں ملا کر دیا جاسکتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ تلی میں سرکہ کے لیے خصوصی رغبت ہے۔ اس لیے سرکہ کی جو بھی مقدار پیٹ میں جاتی ہے، فوراً تلی میں داخل ہو جاتی ہے۔ اس لیے وہ ادویہ جو تلی کے علاج میں دی جائیں، اگر اس کے ساتھ سرکہ بھی شامل کر دیا جائے تو اثر جلد ہوتا ہے۔بھوک پیدا کرتا ہے اور سدے کھولتا ہے۔ وبائی امراض مثلاً ہیضہ کے خلاف مدافعت پیدا کرتا ہے۔ (بیکٹیریا کے خلاف کام بھی کرتا ہے) ۔ سرکہ میں پکائے ہوئے گوشت کو یرقان میں مفید سمجھا جاتا ہے۔ پیاس کو کم کرتا ہے۔ پیٹ کے امراض میں مفید ہے۔ سر کے بالوں میں دیگر کچھ اشیاء کے ساتھ ملا کر لگانے سے گرتے ہوئے بال اگتے ہیں۔

    مسلمانوں کے لیے سرکہ کی اہمیت

    مسلمانوں کے لیے سرکہ کی بطور غذا اور دوا کافی اہمیت ہے۔ اس کا ذکر احادیث میں آیا ہے۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ روایت فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ “سرکہ کتنا اچھا سالن ہے۔“حضرت ام ہانی رضی اللہ تعالٰی عنہا روایت فرماتی ہیں کہ ہمارے گھر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف لائے اور پوچھا کہ، “کیا تمہارے پاس کھانے کے لئے کچھ ہے ؟“ میں نے کہا۔ “نہیں ۔ البتہ باسی روٹی اور سرکہ ہے۔“ فرمایا کہ “اسے لے آؤ۔ وہ گھر کبھی غریب نہ ہوگا جس میں سرکہ موجود ہے۔“ امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ سرکہ عقل کو تیز کرتا ہے اور اس سے مثانہ کی پتھری گل جاتی ہے۔
    اس کے علاوہ مسلمان اطباء نے اس کے بارے میں بہت لکھا ہے۔ مثلاً بو علی سینا کہتے ہیں کہ روغن گل میں ہم وزن سرکہ ملا کر خوب ملائیں۔ پھر موٹے کپڑے کے ساتھ سرکہ کو رگڑ کر سر کے گنج پر لگائیں۔ انہی کے ایک نسخہ میں کلونجی کو توے پر جلا کر سرکہ میں حل کرکے لیپ کرنے سے گنج ٹھیک ہو جاتا ہے۔ اسی مقصد کے لیے ادرک کا پانی اور سرکہ ملا کر لگانا بھی مفید ہے۔ بال اگانے کے لیے کاغذ جلا کر اس کی راکھ سرکہ میں حل کرکے لگانے کے بارے میں بھی حکماء نے ذکر کیا ہے۔
     
    ھارون رشید اور محبوب خان .نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: سرکہ

    بہت ہی اعلیٰ مضمون ہے
     
  3. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: سرکہ

    شکریہ الکرم جی
    سرکہ کی افادیت اور اس کے بارے میں اہم اور اچھی معلومات فراہم کیں آپ نے۔
     
  4. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: سرکہ

    شکریہ الکرم جی
    سرکہ کی افادیت اور اس کے بارے میں اہم اور اچھی معلومات فراہم کیں آپ نے۔
     
    ھارون رشید نے اسے پسند کیا ہے۔
  5. الکرم
    آف لائن

    الکرم ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جون 2011
    پیغامات:
    3,090
    موصول پسندیدگیاں:
    1,180
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: سرکہ

    سرکہ ۔ الخل

    تاریخ کے ہر دور میں اسے غذا اور دوا کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ بقراط نے متعدد بیماریوں کے علاج میں سرکہ استعمال کیا ہے۔
    فرانس کے ماہر جراثیم پاسچر نے معلوم کیا کہ ناشتہ میں خمیر جراثیم سے پیدا ہوتا ہے اور سرکہ کے کیمیائی عمل کا باعث جراثیم ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جراثیم کی ایک ایسی قسم بھی موجود ہے جو بیماریاں پیدا کرنے کے بجائے ہمارے ہی فائدے کے کام کرتی ہے۔ ان کو دوست [BLINK]Anti Bodies[/BLINK] جراثیم کہتے ہیں۔
    ان دوست جراثیم کی جانب سے انسانی فائدے کے لئے یہ منفرد کام نہیں بلکہ دودھ، دہی بنانے یا شکر کا الکحل میں تبدیل کرنے، جو سے مالٹ اکسٹریکٹ بنانے کے عمل میں بھی اسی قسم کے دوست جراثیم کی کوششیں شامل ہیں۔


    احادیث میں سرکہ کی اہمیت
    حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ روایت فرماتے ہیں کہ نبی اکرم نور مجسم شاہ بنی آدم رسول محتشم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ “سرکہ کتنا اچھا سالن ہے۔“ (مسلم۔ مشکوٰۃ)
    حضرت ام ہانی رضی اللہ تعالٰی عنہا روایت فرماتی ہیں کہ ہمارے گھر میں نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور پوچھا کہ، “کیا تمہارے پاس کھانے کے لئے کچھ ہے ؟“ میں نے کہا۔ “نہیں ۔ البتہ باسی روٹی اور سرکہ ہے۔“ فرمایا کہ “اسے لے آؤ۔ وہ گھر کبھی غریب نہ ہوگا جس میں سرکہ موجود ہے۔“ (ترمذی)


    سرکہ امراض معدہ اور تلی میں مفید ہے
    سرکہ کھانے کے بعد معدہ کا فعل قوی ہو جاتا ہے۔ پیاس اور صفراء کو اعتدال پر لاتا ہے۔ بھوک کھولتا ہے اور معدہ اور پیٹ کی سوزش میں انتہائی مفید ہے۔ پیٹ سے نفح کو نکالتا ہے اور ہچکی کو روکتا ہے۔ صفرا اور گرمی کی وجہ سے بھوک نہ لگتی ہو تو اس کا استعمال بے حد مفید ہے۔ انجیر کو دو روز تک سرکہ میں بگھو کر کھایا جائے بڑھی ہوئی تلی ٹھیک ہو جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ تلی میں سرکہ کے لئے خصوصی رغبت ہے۔ اس لئے سرکہ کی جو بھی مقدار پیٹ میں جاتی ہے، فوراً تلی میں داخل ہو جاتی ہے۔ اس لئے وہ ادویہ جو تلی کے علاج میں دی جائیں، اگر اس کے ساتھ سرکہ بھی شامل کر دیا جائے تو اثر جلد ہوتا ہے۔ منقی اور جڑ کبر کو سرکہ کے ساتھ نہار منہ کھایا جائے تو پیٹ کے کیڑے مر جاتے ہیں۔

    گلے اور دانتوں کے امراض میں سرکہ کا استعمال

    گلے کے اندر لٹکنے والے کوے کی سوزش، حساسیت اور اس کے ٹیڑھا پن میں مفید ہے۔ گرم سرکہ کے غرارے دانت کی درد کو ٹھیک کرتے ہیں اور مسوڑھوں کو مضبوط کرتے ہیں۔ موسم گرم میں سرکہ پینا جسم کی حدت کو کم کرکے طبیعت کو مطمئن کرتا ہے۔ علامہ محمد احمد ذہبی کہتے ہیں کہ “سرکہ گرمی اور ٹھنڈک دونوں کی تاثیر رکھتا ہے لیکن اس میں ٹھنڈا پیدا کرنے کا عنصر زیادہ غالب ہے۔ یہ معدہ کی سوزش کو دور کرتا ہے۔ عرق گلاب کے ساتھ سر درد میں مفید ہے۔ گرم پانی کے ساتھ غرارے دانت درد کو مفید ہے۔


    سرکہ اورام اور دردوں میں مفید ہے

    ابن قیم کہتے ہیں کہ اس کا لگانا سوزشوں سے پیدا ہونے والے اورام میں مفید ہے۔ حب الرشاد کے ساتھ جو کا آٹا ملا کر سرکہ میں لیپ بنا کر اعصابی دردوں اور خاص طور پر عرق النساء کے لئے لیپ کریں تو ازحد مفید ہے۔ میتھی کے بیج اور طرون پیس کر سرکہ میں لیپ بناکر پیٹ کی سوزش میں مفید ہے۔ یہی نسخہ ورم سے پیدا ہونے والے دردوں میں مفید ہے۔


    سرکہ سے منشیات کا نشہ اتر جاتا ہے

    سرکہ پینے سے شراب اور افیون کا نشہ اتر جاتا ہے۔ چونکہ سرکہ بنیادی طور پر تیزابی صفات رکھتا ہے، اس لئے قلوی رجحان والی زہروں کے علاج میں سرکہ دینا صحیح معنوں میں علاج بالضد ہے۔ جیسا کہ کاسٹک سوڈا وغیرہ۔ آپریشن کے بعد مریض کو جو قے آتی ہے، اس کو روکنے کے لئے رومال کا سرکہ میں تر کرکے مریض کے منہ پر ڈال دیا جاتا ہے۔ بے ہوشی کے بعد کی متلی رک جاتی ہے۔

    ہیضہ کے علاج میں سرکہ کا استعمال

    ویدک طب میں بھی سرکہ کے استعمال کا کافی ذکر ملتا ہے۔ ویدوں نے ہیضہ کے علاج میں سرکہ کو مفید قرار دیا ہے۔ ایک نسخہ کے مطابق پیاز کے ٹکڑے ٹکڑے کاٹ کر سرکہ میں بگھو دئیے جائیں، پیضہ کی وباء کے دنوں میں اس پیاز کو کھانے سے ہیضہ نہیں ہوتا۔
    امراض جلد میں سرکہ کا استعمال

    سرکہ اپنے اثرات کے لحاظ سے جراثیم کش، دافع تعفن اور مقامی طور پر خون کی گردش میں اضافہ کرتا ہے۔ ان فوائد کی بنا پر یہ پھپھوندی سے پیدا ہونے والی تمام سوزشوں میں کمال کی چیز ہے۔ اس میں اگر کسی اور دوائی کا اضافہ نہ بھی کیا جائے تو چھیپ، داد اور رانوں کے اندرونی طرف کی خارش میں مفید ہے۔ پھپھوندی کے علاج میں سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ پھپھوندی دواؤں کی عادی ہو جاتی ہے۔ اس لئے صحیح دوائی کے چند روزہ استعمال کے بعد فائدہ ہونا رک جاتا ہے بلکہ مؤثر دوائی کے استعمال کے دوارن ہی مرض میں اضافہ ہونے لگتا ہے۔ سرکہ وہ منفرد دوائی ہے جس کی پھپھوندی عادی نہیں ہوتی اور یہ ہر حال میں اس کے لئے مفید ہے۔ ابن قیم کے مشاہدات کی روشنی میں پھپھوندی سے پیدا ہونے والی سوزشوں کے لئے ایک نسخہ آزمایا گیا۔ برگ مہندی، سنامکی، کلونجی، میتھرے، حب الرشاد، قسط شیریں کو ہم وزن پیس کر اس کے ایک پیالہ میں چھ پیالہ سرکہ ملا کر اسے دس منٹ ہلکی آنچ پر ابالا گیا۔ پھر کپڑے میں نچوڑ کر چھان کر یہ لوشن ہمہ اقسام پھپھوندی میں استعمال کیا گیا۔ فوائد میں لاجواب پایا گیا۔ کسی بھی مریض کو بیس روز کے بعد مزید علاج کی ضرورت نہ رہی۔


    سرکہ کے سر کے بالوں پر اثرات
    سرکہ جلد اور بالوں کی بیماریوں کے لئے اطباء قدیم کے اکثر نسخہ سرکہ پر ہی مبنی ہیں۔ بو علی سینا کہتے ہیں کہ روغن گل میں ہم وزن سرکہ ملا کر خوب ملائیں۔ پھر موٹے کپڑے کے ساتھ سرکہ کو رگڑ کر سر کے گنج پر لگائیں۔ انہی کے ایک نسخہ میں کلونجی کو توے پر جلا کر سرکہ میں حل کرکے لیپ کرنے سے گنج ٹھیک ہو جاتا ہے۔ بکری کے کھر اور بھینس کے سینک کو جلا کر سرکہ میں حل کرکے سر پر بار بار لگانے سے گرتے بال اگ آتے ہیں۔ اسی مقصد کے لئے ادرک کا پانی اور سرکہ ملا کر لگانا بھی مفید ہے۔ بال اگانے کے لئے کاغذ جلا کر اس کی راکھ سرکہ میں حل کرکے لگانے کے بارے میں بھی حکماء نے ذکر کیا ہے۔

    سرکہ کے فوائد ایک نظر میں :۔

    * خارش اور حساسیت میں سرکہ پلانا اور لگانا مفید ہے۔
    * سرکہ میں پکائے ہوئے گوشت کو یرقان میں مفید بتلایا ہے۔
    * سرکہ جوش خون اور صفراء اور پیاس میں مفید ہے۔ ان وجوہات کی وجہ سے بھوک نہ لگتی ہو تو مفید ہے۔
    * سرکہ میں گندھک ملا کر خارش میں لیپ کرنا مفید ہوتا ہے۔
    * سرکہ کاسٹک سوڈا کا علاج ہے۔
    * عرق النساء میں حکماء نے لکھا ہے کہ حب الرشاد اور جو کا آٹا سرکہ میں حل کرکے لیپ کرنا نہایت مفید ہے۔
    * ہیضہ اور اندرونی سوزشوں میں مفید ہے۔
    * حلق کے ورم میں اس کی بھاپ سونگھایا جانا بے حد مفید ہوتا ہے۔ شراب کا نشہ اتارنے کے لئے ایک اونس سرکہ پلانا کافی ہوتا ہے۔
    * سرکہ اور شہد کا مشہور مرکب بخار، متلی اور صفراوی امراض میں مستعمل ہے۔
    * برسات اور موسموں کی تبدیلیوں میں بہترین چیز ہے۔ پیٹ کی اکثر بیماریاں دور کرتا ہے۔
    * امام صادق فرماتے ہیں کہ سرکہ عقل کو تیز کرتا ہے اور اس سے مثانہ کی پتھری گل جاتی ہے۔

    سرکہ بنانے کا طریقہ

    سرکہ سازی کا بنیادی طریقہ کار جو آج کے دور میں رائج ہے۔ یہ معمولی فرق کے ساتھ بالکل وہی ہے جو آج سے ہزاروں سال پہلے کا تھا بلکہ بنوں، کوہاٹ اور پشاور کے علاقوں میں جہاں گھر گھر میں سرکہ سازی ہوئی ہے، وہی قدیم طریقہ استعمال کیا جاتا ہے یعنی کسی میٹھے یا نشاستہ دار محلول کو ضامن لگا کر جب خمیر اٹھایا جاتا ہے تو اس میں الکحل پیدا ہو جاتی ہے اور کاربن ڈائی آکسائیڈ نکل جاتی ہے اور پھر جب الکحل اور آکسیجن کا ملاپ ہوتا ہے تو سرکہ بن جاتا ہے جبکہ اطباء کے ہاں سرکہ کی تیاری کا طریقہ کچھ اس طرح ہے کہ جس چیز کا سرکہ بنانا ہو، پہلے اس کا رس (جوس) حاصل کرکے پھر اس کو کسی روغنی مٹکے میں ڈال کر زیر زمین اس طرح دبایا جاتا ہے کہ مٹکے کا تمام حصہ زمین کے اندر رہے اور صرف گردن باہر ہو یا پھر کسی ایسی جگہ رکھا جاتا ہے جہاں سورج کی شعاعیں دیر تک رہیں۔ تقریباً چالیس روز بعد یا پھردو ماہ کے بعد نکال کر استعمال میں لاتے ہیں۔

    مجموعی طور پر تیاری کے اعتبار سے سرکہ کی تین اقسام ہیں۔

    * پہلی قسم وہ ہے جو پھلوں سے تیار کی جاتی ہے۔ یہ فطری اور قدرتی طریقہ سے بننے والا سرکہ ہے جو اپنی افادیت کے اعتبار سے بھی اعلٰی خاصوصیات کا حامل ہے۔

    * دوسری قسم خشک اجناس مثلاً جو کے جوہر (ایکسٹریکٹ) سے تیار ہوتی ہے، اپنی افادیت کے اعتبار سے یہ دوسرے نمبر پر ہے۔

    * تیسری قسم تیزاب سرکہ سے تیار کی جاتی ہے۔ اس کی تیاری میں مقطر پانی، تیزاب سرکہ کچھ مقدار چینی اور رنگ استعمال کیا جاتا ہے۔آج کل بازار میں یہی دستیاب ہے ۔سستا ہے مگر
    اِنتہائی نچلے درجے کاہے۔
    سرکہ کے مخرج۔
    سرکہ گنے، جامن، انگور، چقندر، گندم، جو وغیرہ سے تیار اور استعمال کیا جاتا ہے
     
    ھارون رشید اور محبوب خان .نے اسے پسند کیا ہے۔
  6. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: سرکہ

    بہت اعلی جناب ۔۔۔۔بہت معلوماتی مضمون یے
     
    ھارون رشید نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں