سانپ سیڑھی کا کھیل میں بھی ایک پہ وہ بھی ایک پہ اسے سیڑھی ملی وہ چڑھ گیا مجھے راستے میں ھی ڈس لیا میرے بخت کے کسی سانپ نے بڑی دور سے پڑا لوٹنا زخم کھا کے اپنے نصیب کا وہ ننانوے پہ چلا گیا میں دس کے پھیر میں گھر گیا میں بڑھا تو بڑھتا ھی گیا اسےایک نمبرتھا چا ھیے جو نہں ملا سو وہ نیہں ملا بس ایک چوکے کی بات تھی اسے جیتنا میری مات تھی میں نے جان کے گو ٹ غلط چلی اور سانپ کے منہ میں ڈال دی کبھی سوچنا یہ دوستوں!یہ جو پیار ھے سانپ سیڑھی کا کھیل ھے ِ
شام بہن ۔ آپکی شاعری بہت خوب ہے۔ عام سےکھیل سے محبت جیسے سنجیدہ موضوع کا استعارہ نکالنا بہت بڑ ی صلاحیت ہے بہت سی داد قبول فرمائیے۔