1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

سانحہ پشاور والوں کے نام

'آپ کے مضامین' میں موضوعات آغاز کردہ از رفاقت حیات, ‏19 دسمبر 2014۔

?

کیا بچوں کو اس بے دردی سے قتل کرنے والے مسلمان کہلانے کے لائق ہیں؟

  1. yes

    0 ووٹ
    0.0%
  2. no

    100.0%
  1. رفاقت حیات
    آف لائن

    رفاقت حیات ممبر

    شمولیت:
    ‏14 دسمبر 2014
    پیغامات:
    318
    موصول پسندیدگیاں:
    244
    ملک کا جھنڈا:
    قلم بھیخون کے آنسو رو پڑا
    پھولوں کو شہید لکھتے لکھتے
    آنکھوں سے آنسو بھی سوکھ گئے
    پھولوں کو شہید لکھتے لکھتے​

    ہر آنکھ اشک بار ہے،ہر دل رنجیدہ ہے۔اور ہو گا بھی کیوں نہیں،آخر اس قدر اندوہناک حادثہ اس کرہٗ ارض نے دیکھا۔جو پتھرسے پتھر دل شخص کو رلانے پر مجبور کر دے۔صرف ان کو نہیں ہو گا جنہوں نے یہ ظالمانہ کام کیا ہے۔ان کو انسان کہنا انسانیت کی توہین ہے۔ایسے درندہ صفت لوگوں سے تو درندے بھی شرما گئے ہوں گے۔اور ایسا بھیانک کام کر کے خود کو مسلمان بھی سمجھتے ہیں۔ایسے لوگوں کو زمین کھود کر اس میں خود گڑھ جانا چاہیئے۔
    ظالموں کو ذرا بھی خیال نہ آیا
    پھولوں کو شہید کرتے کرتے
    یقیناًاس وقت جب ظالموں نے اپنا منصوبہ بنایا ہو گا تو زمین نے اپنے کاخالق سے فریاد کی ہوگی کہ اے رب کریم !مجھے اجازت دے تو میں پھٹ جاؤں اور ان انسان نما درندوں کو نگل جاؤں،یقیناًآسمان نے بھی اجازت طلب کی ہو گی کہ اے رحمان !مجھے حکم دے تو میں ان ظالموں پر ٹوٹ کے برسوں....لیکن وہ خدا جو ہر لمحے کی خبر رکھتا ہے،اس نے اجازت نہیں دی ہو گی۔۔کیونکہ کہ وہ جانتاتھا کہ اس قربانی کے بعد کیا ہو گا؟
    ان معصوم شہیدوں کی قربانیا ں ضرور رنگ لائیں گیں۔کیونکہ خدا کسی کی قربانی ضائع نہیں کرتا۔ایک نہ ایک دن ہمیں اس کا پھل ضرور ملے گا۔
     
    غوری اور پاکستانی55 .نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    یہ درندے ہیں انسان نہیں ،اگر انہیں اور ڈھیل دی گی تو یہ اسی طرح ہمارے پھولوں کو شہید کر کے ہمیں خون کے آنسو رلاتے رہیں گے
     
  3. آصف 26
    آف لائن

    آصف 26 ممبر

    شمولیت:
    ‏27 فروری 2011
    پیغامات:
    116
    موصول پسندیدگیاں:
    59
    ملک کا جھنڈا:
    اسلام علیکم ہم بس چار دن اس پر ماتم کریں گے پھر وہی حال اور زندگی اسی ڈگر پر خدارا اب تو جاگو یہ وہی بھیڑیے ہیں جن کوہم خود پالتے ہیں بڑےبڑ ے اخباروں میں اشتہار چھپتے ہیں بلکہ ہم خود ان کو کھالیں فطرانہ زکوتہ پہنچاتے ہیں پھر یہ اسی سے اسلحہ خرید کر ہم پر گولیاں برساتے ہیں عقل مند کے لئے اشارہ کافی ہے
     
  4. رفاقت حیات
    آف لائن

    رفاقت حیات ممبر

    شمولیت:
    ‏14 دسمبر 2014
    پیغامات:
    318
    موصول پسندیدگیاں:
    244
    ملک کا جھنڈا:
    تو آپ کے کہنے کا صاف مطلب یہ ہے کہ یہ سب کام مدارس کا ہے۔مجھے آپ کی سوچ پے بہت افسوس ہورہا ہے۔
    آپ کی معلومات کے لئے پشاور میں جو حملہ ہوا تھا وہ مسلمانوں نے نہیں کیا بلکہ وہ غیر مسلم تھے
     
  5. آصف 26
    آف لائن

    آصف 26 ممبر

    شمولیت:
    ‏27 فروری 2011
    پیغامات:
    116
    موصول پسندیدگیاں:
    59
    ملک کا جھنڈا:
    آپ نے سلام کا جواب تک نہیں دیا اور جھٹ اپنے علم غیب سے ارشاد فرما دیا آپ کی سوچ پر افسوس ہے جناب میں خود مدرس ہوں اور حفظ کی کلاس پڑھاتا ہوں باقی میں فضول بحث نہیں کرتا عقل مند میری مراد جان چکے ہوں گے باقی آپ میری معلومات میں اضافہ فرماکر احسان فرمائیں اور بتائیں کہ وہ کس مزہب اور ملک کے باشندے تھے
     
  6. رفاقت حیات
    آف لائن

    رفاقت حیات ممبر

    شمولیت:
    ‏14 دسمبر 2014
    پیغامات:
    318
    موصول پسندیدگیاں:
    244
    ملک کا جھنڈا:
    یہ میری غلطی ہے کہ میں جواب دینا بھول گیا۔یہ لیجئے جواب''وعلیکم السلام''۔
    میں کوئی علم غیب کا ماہر نہیں ہوں اور نہ ہی کوئی جان سکتا ہے۔میڈیکل رپورٹ سے پتہ چلا تھا کہ کم از کم وہ مسلم نہیں تھے۔جتنا مجھے پتہ تھا اتنا میں نے بتا دیا۔
    جس طرح آپ نے بات کی ہے اس سے تو کوئی بھی نہیں جان سکتا کہ آپ کیا کہنا چاہتے ہیں۔آپ صاف لفظوں میں بات کیوں نہیں کرتے۔سچ کو واضح کر کے بتاتا چاہیے بجائے اس کے دوسرے لوگ کوئی اور مطلب نکال سکیں۔میں اب اتنا عقل مند تونہیں کہ آپ جیسے عالموں کی بات آسانی سے سمجھ سکوں۔میری آپ سے انتہائی مؤدبانہ گزارش ہے کہ آپ صاف صاف بات بتائیں تا کہ اوروں کا بھی بھلا ہو جائے۔
     
  7. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    کئی دہائیوں سے بہت سے ممالک مسلمانوں کے خون کی ہولی کھیل رہے ہیں کہ یہی وہ قوم ہے جو ان کے لئے خطرے کا باعث ہوسکتی ہے۔ کیونکہ خون چوسنے والے بظاہر طاقت ور ممالک دنیا کو اپنے تسلط میں کرنا چاہتے ہیں جہاں تمام عیاشیاں صرف چند لوگوں اور ان کے مصاحبوں کو میسر ہوں اور بقیہ عوام الناس جہنم گزار رہے ہوں۔

    ایسا نظام جہاں بے کس لوگوں کی فریاد سننے والا کوئی نہ ہو اور قانون و عدل صرف اور صرف امراء کے لئے مختص ہو جو ان کی حفاظت اور امن کے لئے برسرپیکار ہو۔

    جہاں بہت سے ادارے جیسے ایمنسٹی انٹرنیشنل وغیرہ ان کے نظام کو عادلانہ اور شفاف ثابت کرنے کے لئے بھر پور پرچار ر کرنے پر مامور ہوں۔

    اور عوام الناس یومیہ صرف اور صرف دو روٹی کا سامان اکٹھا کرنے میں اپنی تمام توانائیاں لگادیں تاکہ انھیں روٹی کے علاوہ کچھ اور سوچنے کی مہلت نہ باقی رہے۔

    ایسے میں جہاں رشتے کمزور ہونے لگتے ہیں، وہیں ایمان بھی خطرے سے دوچار ہونے کے امکانات ظاہر ہونے لگتے ہیں۔

    اس وقت پورا عالم اور خصوصا مسلم بھائی نہایت تکلیف دہ دورانیے سے گزر رہے ہیں جہاں صرف اور صرف اللہ تعالی کی غیبی مدد ہی کارآمد ہوسکتی ہے۔ یہ مدد خواہ ہمارے اندر سے مخلص قیادت کے ظہورسے شروع ہو یا ہمارے دشمن آپسی لڑائی میں کمزور ہوجائیں۔

    لیکن یہ بات یقینا سچ ہے کہ حق آکر رہے گا اور باطل اپنے انجام کو ضرور پہنچے گا۔

    نوٹ: بہت سے معصوم انسانوں کو بے دردی سے قتل کرنے کے لئے انسانی ذہن کو مذہبی طور پر اس قدر پراگندہ کردیا جائے کہ وہ جنون کی شکل اختیار کرجائے اور اپنے کم علمی پر مبنی عقائد کی پیروی میں اپنے ناہنجار اساتذہ کے حکم کی تعمیل کرے یا پھر انسانی ذہن کو ماوف اور درندگی پر اکسانے والی ادواء کے زیر اثر اور یا پھر اسلام سے باہر کے بے دین لوگ جو دین اسلام سے سخت مخاصمت رکھتے ہوں اور جن کے اندر اس قدر بغض ہوکہ ان کے سامنے جو بھی آئے گا ان کے غضب کا شکار ہوکر رہے گا۔

    اللہ تعالی سے استغفار اور آپس میں ایک دوسرے کی ڈھارس باندھنے اور حوصلہ دینے کا وقت ہے ناکہ ایک دوسرے مورد الزام قرار دیا جائے۔


    مایوسی اور تکلیف دہ وقت میں دل جوئی کرنا اور ہمت بڑھانا مثبت عمل ہے۔ بے کسی اور پریشانی میں گھرے ہوئے لوگوں کو ان کی ناکامی کا حقدار ٹھہرانا منفی عمل ہے۔

    چوائس ہر انسان کی اپنی ہوتی ہے اور وہ اسی راہ پر گامزن رہتا ہے۔

    از غوری
     
    رفاقت حیات نے اسے پسند کیا ہے۔
  8. آصف 26
    آف لائن

    آصف 26 ممبر

    شمولیت:
    ‏27 فروری 2011
    پیغامات:
    116
    موصول پسندیدگیاں:
    59
    ملک کا جھنڈا:
    سرکار عرض ہے اگر کھلے لفظوں میں سننا چاہتے ہیں تو عرض ہے یہ اک خاص مکتبہ فکر کے لوگ ہیں جو اپنے علاوہ ہر کسی کو مشرک قرار دیتے ہیں اور ان سے قتال کرنا جائز جانتے ہیں جو گنمبد خضراء کو صنم اکبر قرار دیتے ہیں داتا علی ہجویری کے مزار شریف کو شرک کا اڈہ بتاتے اور اولیاء کو بتوں سے تشبیع دیتے ہیں ان کے مولوی کھلے لفظوں ان طالبان کی حمایت اور ان کو ہر لحاظ سے سپورٹ کرتے ہیں اپنے گھر اور مدارس کے دروازے ہمیشہ ان بد بختوں کے لئے کھلے رکھتے ہیں اگر اب بھی آپ ان کو نہیں پہنچاتے تو کھل کر کیا جواب دوں ؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں