سالِ نو ایک استعارا ہے وقت ہر ایک سا ہمارا ہے سال ہوتے ہیں موسموں کی طرح ہمیں سب موسموں نے مارا ہے وقت نے صرف پلک ہے جھپکی آنکھ میں ہو بہو نظارا ہے خامشی میں وہی تعفن اک گفتگو میں وہی غبارا ہے حال بگڑا ہے اور بھی اپنا ہم نے جتنا اسے سنوارا ہے