1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

سادگی پالیسی اورحکومتی طرز عمل کنور دلشاد

'کالم اور تبصرے' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏19 جون 2019۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    سادگی پالیسی اورحکومتی طرز عمل کنور دلشاد
    وزیراعظم عمران خان نے اعلیٰ اختیاراتی انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان کیا ہے‘ جو سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان‘ ایف آئی اے‘ ایف بی آر اور انٹیلی جینس بیورو پر مشتمل ہوگا۔یہ کمیشن گزشتہ 10 سال کے دوران ملک پر چوبیس ہزار ارب روپے کے قرضوں کا بوجھ ڈال کر اس کا دیوالیہ نکالنے والوں کے خلاف تحقیقات کرے گا اور اس کے ذریعے کرپٹ عناصر کی نشاندہی کر کے ان کو قرار واقعی سزا دی جائے گی۔اس کمیشن کی نگرانی وزیراعظم عمران خان خود کریں گے ۔ میری تجویز ہے کہ کمیشن میں آئی ایس آئی کا نمائندہ بھی شامل ہونا چاہیے۔ وزیراعظم عمران خان کے اس جرأت مندانہ ایکشن پلان کے بعد قوم مشکل ترین بجٹ کو نظریۂ ضرورت کے تحت منظور کرلے گی۔ وزیراعظم کوادراک ہوگا کہ اعلیٰ اختیاراتی کمیشن بنانے کے لیے ان کو پارلیمنٹ ایکٹ کا سہارا لینا ہوگا اور اس کے ساتھ ساتھ ان کو کفایت شعاری مہم میں صدر مملکت سے لے کے وزرا ‘ گورنر‘ صدر اور وزیر اعظم پر بھی گہری نظر رکھنا ہوگی۔ ابھی تک توکفایت شعاری صرف کاغذوں تک ہی محدود نظر آرہی ہے‘ جبکہ حکومتی ارکان وزیراعظم کے احکامات کو ہوا میں اڑاتے نظر آرہے ہیں۔وزرا اور افسران نے اپنے دفاتر کی آرائش اور دوسرے غیر ضروری اخراجات کیلئے خاصی بڑی رقوم مختص کر لی ہیں جو کہ کفایت شعاری کے اصولوں کے برعکس ہے۔
    وفاقی بجٹ کی کالی آندھی گزر گئی ہے۔ حکومتی ترجمانوں نے ٹیکس بجٹ پہلے ہی آؤٹ کر کے اس کی سنسنی خیزی کو ختم کر دیا تھا۔ وزیراعظم عمران خان نے قوم کو اپنے مختصر پیغام میں آگاہ کر دیا تھا کہ گزشتہ دس سال میں پاکستان کا قرضہ 30 ہزار ارب تک پہنچ گیا ۔حکومت نے گزشتہ ماہ ٹیکس ایمنسٹی سکیم کا اعلان بھی کیا تھا‘ تاکہ پاکستانی اپنے اثاثے اور بے نامی اکاؤنٹس ڈیکلیئر کرسکیں ۔اس سکیم کا فائدہ اٹھائیں‘تاکہ ملک کو بھی مالی مشکلات سے نجات ملے اور ان کا پیسہ بھی گردش میں آئے۔ ملک میں سرمایہ کاری بڑھے اور یہ ترقی کرے۔ماضی کی حکومتیں بھی ایسی سکیمیں لاتی رہی ہیں‘ جن پر اعتراض کئے جاتے رہے ہیں کہ مخصوص افراد کو ریلیف دینے کیلئے یہ سکیمیں متعارف کروائی جاتی ہیں‘ جبکہ سارے لوگ ان سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے ‘لیکن حقیقت یہی ہے کہ اس ملک سے ہر ناجائز طریقے سے یاسرکاری وسائل میں نقب لگا کر اپنی دولت بڑھانے والے بااثر لوگ خواہ وہ ملک میں صدارت اور وزارت ِعظمیٰ کے منصب پر تعینات رہے ہوں‘ وزرا ہوں یا کسی بھی سرکاری منصب پر رہنے والے‘ جنہوں نے ملک کو بے دردی سے لوٹا ہے اور بیرون ممالک اثاثے بنائے ہیں ان کو نہ تو ہماری حکومت فروخت کر سکتی ہے اور نہ ہی ان کو واپس لا سکتی ہے اور نہ ہی انہیں ان ممالک میں غیر قانونی ثابت کر سکتی ہے‘ اسی لیے اربوں کھربوں کی کرپشن عوام کے لیے سوہان ِروح بنی ہوئی ہے‘ تاہم کالا دھن جو کہ بیرون ملک پاکستانیوں نے اپنے عزیزواقارب ‘بال بچوں یا اپنے فرنٹ مینوں کے نام پر جمع کروا رکھا ہے؛ اگر جذبۂ خیر سگالی کے طور پر ملک میں واپس لاتے ہیں اور اسی سے سرمایہ کاری کرتے ہیں تو اس سے انہیں بھی فائدہ ہے اور ملک کو بھی ۔حکومت ان بد ترین حالات میں بھی سالانہ چار ہزار ارب روپے ٹیکس اکٹھا کر رہی ہے‘ جس میں سے دو ہزار ارب روپے پہلے سے لیے گئے قرضوں کے سود کی ادائیگی میں چلے جاتے ہیں۔ بچ جانے والے باقی دو ہزار ارب روپے سے ملک کے خرچ بھی پورے نہیں ہوتے ۔وزیراعظم عمران خان کا یہ کہنا درست ہے کہ اگر ہم ٹیکس نہیں دیں گے تو عظیم قوم نہیں بن سکتے ۔قومی جذبہ پیدا ہوگیا تو ہم ہر سال دس ہزار ارب روپے اکٹھے کر سکتے ہیں ؛بشرطیکہ عوام اور حکومت کے مابین فاصلے کم کر دئیے جائیں‘ کرپشن کا تدارک یقینی بنایا جائے اور ریاستی اداروں پر عوام کا اعتماد بحال کیا جائے۔ رمضان المبارک میں جن جن وزرا اور حکومتی عہدیداروں نے افطار ڈنر پر قوم کا سرمایہ خرچ کیا ہے‘ وہ ان سے واپس لیا جائے تو یہ بھی کروڑوں روپے بن جائیںگے۔حکمرانوں کی جانب سے بار بار قوم سے قربانی کا مطالبہ کرنا اور خود عیش و عشرت میں ڈوبے رہنا قوم کو قابل قبول نہیں ہے۔ جب 1900ء میں ناروے میں معاشی بحران آیا تو قوم میں نئے جوش اور و لولے کی لہر پیدا کرنے کے لیے شاہ ناروے اپنے محل کو خیرباد کہہ کر محل کے پچھلے حصے میں منتقل ہوگئے‘ شاہی کاروں کا بیڑہ گراج میں بند کراکے خود ٹرام بسوں کے ذریعے سفر کرنا شروع کر دیا ‘ شدید سردی میں بھی سرونٹ کوارٹر میں وقت گزار ا ‘ جب قوم نے اپنے بادشاہ کی قربانی کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھا تو چند سالوں میں معاشی بدحالی سے باہر آگئے‘ اسی طرح 2009ء میں بنگلہ دیش کی وزیراعظم حسینہ واجد نے معاشی بحران پر قابو پانے کیلئے بیوروکریٹس اور سرکاری اور غیر سرکاری اہلکاروں کیلئے سوٹ کے استعمال پر پابندی عائد کرتے ہوئے سوتی کپڑے پہننے کا حکم دیا ‘تاکہ اے سی کا استعمال نہ کرنا پڑے اور اس طرح بجلی اور پیسہ بچایا جائے ۔ دفتر میں چائے کے استعمال پر پابندی عائد کرکے مہمانوں کے لیے صرف پانی کو قومی مشروب قرار دیا گیا‘ جبکہ ہمارے ہاں صدر مملکت مشاعروں سے دل بہلاتے رہے ہیں؛ حالانکہ انہوں نے صدارتی الیکشن کے دوران میڈیا سے بات کرتے ہوئے وعدہ کیا تھا کہ الیکشن میں کامیابی کے بعد وہ پارلیمنٹ لاجز میں ہی مقیم رہیں گے‘ مگر حلف اٹھانے کے بعد سے شاہانہ انداز اختیار کیے ہوئے ہیں ۔ایوان ِصدر میں اپنے رہنے کیلئے سکیورٹی کا بہانہ تراشا گیا‘ مگر وزیراعظم پاکستان نے بھی ان کی باز پرس نہیں کی۔ ریاست ِمدینہ کا تصور پیش کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان کو حضرت عثمان غنی ؓکی تقلید کرنی چاہیے تھی کہ جب بلوائیوں نے مدینہ منورہ کو گھیرے میں لے رکھا تھا تو حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کو مشورہ دیا گیا کہ آپ محافظوں کے حصار میں مسجد نبوی میں نماز ادا کرنے تشریف لے جائیں تو حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے یہ تاریخی جملہ ارشاد فرمایاکہ: کیارسول اللہﷺ محافظوں کے حصار میںنماز ادا کرتے تھے؟آج ملک کے وزیراعظم کو اس طرح خوف ہے کہ عید الفطر کی نماز گھر کے بر آمدے میں چند ملازمین کے ہمراہ ادا کرتے ہیں‘ جبکہ شاہ فیصل مسجد میں یا میانوالی حلقے میں نماز عید ادا کرنی چاہیے تھی۔مسٹر ذوالفقار علی بھٹو اقتدار سے پہلے اور بعد میں بھی لاڑکانہ میں ہی نماز عید ادا کرتے تھے۔
    وزیر اعظم کا خطاب قومی خطاب کا روپ اس وقت ہی دھار سکتا ہے جب سادگی کی عظیم روایات کو خود حکومت حقیقی معنوں میں ریاست مدینہ کے اصولوں کی روح کے عین مطابق اپنائے ۔ وزیراعظم عمران خان قوم کو یہ تو بتا رہے ہیں کہ حکومت کی ایجنسیز کے پاس معلومات ہیں کہ کس کے پاس بے نامی اکاؤنٹس ہیں یا بے نامی پراپرٹیز ہیں ۔وہ کہتے ہیں کہ حکومت کے پاس وہ انفارمیشن ہے جو پہلے کسی حکومت کے پاس نہیں تھی۔ہماری رائے میں اب وقت آگیا ہے کہ ان معلومات کی روشنی میں اہداف مقرر کئے جائیں‘ قومی مجرموں کو واضح تنبیہ کی جائے اور ایسے عناصر سے یہ رقوم ڈیڈ لائن گزرنے کے بعد ہر صورت واپس لی جائیں۔ عوام پر جائز ٹیکس لگانے میں کوئی حرج نہیں؛ بشرطیکہ حکمران اپنی مراعات سے دستبردار ہو جائیں‘ عوام بھی اس سلسلے میں حکمرانوں کے ساتھ تعاون کرتے ہیں‘ مگر اس کے لیے ضرروری یہ ہوتا ہے کہ حکومت اور عوام میں قریبی رابطہ اور اعتماد کی فضا قائم ہو۔ بادی النظر میں ٹیکس ایمنسٹی سکیم فی الحال ناکام نظر آتی ہے‘ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ عوام کو ابھی تک بے یقینی کا شکار ہیں کہ اسی ٹیکس ایمنسٹی سکیم کے بعد کوئی طوفانی کریک ڈاؤن بھی ہوگا؛ اگر حکومت کفایت شعاری کے ذریعے اپنے اخراجات کم کر لے اور بے نامی جائیدادوں اور اکاؤنٹس کو ریگولر کر لے تو اس کا فائدہ نا صرف بہت سے مالی وسائل کی بچت اور ریونیو میں اضافے کی صورت میں سامنے آئے گا ‘بلکہ عوام کا حکومت پر اعتماد بھی بحال ہو گا۔ اس وقت عوام میں ٹیکس چھپانے کا جو رجحان پایا جاتا ہے ‘اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ لوگ حکومتوں اور اداروں پر اعتماد نہیں کرتے۔ بے یقینی کے اسباب ہمارے سامنے ہیں‘ ہمارے ملک کی تاریخ ان اسباب سے بھری پڑی ہے ۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں