1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

سابقہ ورژن "یادوں کی پٹاری" سے ایک اقتباس،!!!!

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از عبدالرحمن سید, ‏7 جنوری 2010۔

  1. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    سن 1964 کا نویں کلاس اور تقریباً 14 سال کی عمر ھوگی، اس کلاس میں کافی دوست بھی بچھڑ گئے تھے، کیونکہ کئی دوستوں کو اچھے نمبر لانے کی وجہ سے سائنس میں داخلہ مل گیا تھا اور ھم جیسوں کو کم نمبروں کی وجہ سے آرٹس میں داخلہ مل سکا، غنیمت ھے مل گیا ورنہ تو آٹھویں کلاس میں ھی رھنے کا ڈر تھا !!!!!!!!!!!!!!!!!!

    مجھ میں ایک بری عادت تھی کہ اگر کسی نئے شوق کو اگر پکڑ لیا تو اسی کے پیچھے پڑ جاتا تھا یا تو اسے مکمل کرکے رھتا یا جب تک وہ کام بگڑ نہ جائے اس وقت تک اسکی جان نہیں چھوڑتا تھا،جس کی وجہ سے میری پڑھائی بہت ھی زیادہ ڈسٹرب رھی، ھر ایک کے والدین تو یہی چاھتے ھیں کہ ان کی اولاد اچھی تعلیم حاصل کرے، لیکن اکثر والدین اپنے بچوں کی سرگرمیوں پر خاص نظر نہیں رکھ پاتے یا ان کو اتنے دباؤ اور غصے کے زیراثر رکھتے ھیں کہ بچے پھر کوئی اور چوری کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور ھوجاتے ھیں -

    مجھے ماں کی طرف سے بہت زیادہ لاڈ پیار ملا اور وہ ھر وقت مجھے والد صاحب کی ڈانٹ اور غصہ کے عتاب سے بچاتی رھیں، جس کا میں نے بہت ناجائز فائدہ اٹھایا، اور دوسری طرف والد صاحب کا غصہ، حد سے زیادہ سختی کی وجہ اور ڈانٹ کے ڈر سے میں نے غلط طریقوں سے دوسرے کاموں میں اپنے آپ کو الجھا لیا، اور پڑھائی کی طرف سے اپنا دھیان بہت کم کردیا، اور ایسا بھی نہیں تھا کہ والد کے پیار میں کوئی کمی تھی، ھماری تمام ضروریات کا خاص خیال رکھتے اور من پسند کی چیزیں خرید کر دیتے بھی تھے،

    بہت سی ایسی باتیں ھیں جو کافی دلچسپ تھیں لیکن یادوں کے دریچوں میں آتے آتے رہ جاتی ھیں، میں چاھتا ھوں کہ ابھی میں اپنے آپ کو آٹھویں جماعت تک ھی رکھوں کیونکہ اس میں بجپن اور لڑکپن کی شرارتیں اور کافی دلچسپ واقعات پوشیدہ ھیں، جن کو میں یاد کرنے کی کوشش کررھا ھوں، جو جو مجھے یاد آتا جائے گا، ویسے ھی تحریر کرنے کی کوشش کروں گا، اورجو کچھ مجھے مختصراً یاد ھے وہ بھی ساتھ ساتھ لکھتا جاونگا، لیکن میں مقررہ وقت اور عمر کا صحیح تعین نہیں کرسکتا،

    اپنے ایک اور شوق کے بارے میں بتاتا چلوں، مچھلی کے شکار کا شوق جو مجھے والد صاحب کی ظرف سے ھی ورثہ میں ملا تھا، مجھے اب تک یاد ھے کہ وہ راولپنڈی میں چُھٹی والے دن فجر کی نماز کے فوراً بعد مجھے ساتھ لے کر سواں ندی کے پاس بلاناغہ مچھلی کے شکار پر لے کر جاتے تھے اور میں بھی بہت شوق سے ان کے ساتھ جاتا تھا اور دوپہر تک ھم شکار کرکے واپس آجاتے تھے، اور گھر کے علاوہ محلے والے بھی مچھلی کے ذائقے سے محروم نہیں رھتے تھے، کراچی پہنچ کر ان کا یہ شوق تقریباً ختم ھی ھو گیا تھا، لیکن میں نے انکی یہ گدی سنبھال لی تھی اور اکثر دوستوں کے ساتھ مچھلی پکڑنے نکل جاتا تھا کبھی اجازت لے کر اور کبھی یونہی چوری چھپے -

    اسی طرح ایک دفعہ میں اپنے ایک دوست کے ساتھ سمندر کے کنارے گھومنے اور ساتھ مچھلی کے شکار کیلئے نکل گئے، شاید اسکول جانے کے بجائے ھم دونوں نے سمندر کی طرف کا پروگرام بنا لیا، باقی دوستوں کو پہلے سے ھی اطلاع دے چکے تھے،!!! وہاں اس دن سمندر کی لہریں بہت دور تھیں اور تفریح کے ساتھ کچھ مچھلی بھی پکڑنے کا بھی پروگرام تھا ڈور کانٹے اور مچھلی کی خوراک بھی ساتھ مکمل انتظام کے ساتھ گئے تھے، کتابوں کے بستے یاد نہیں کہ کہاں چھپا کر رکھے تھے،

    گھر سے میں کچھ دیر پہلے ھی نکل گیا تھا اور باقی دوست پہلے ھی سے مقرر کردہ جگہ پر مل گئے تھے، وہاں سے بس میں بیٹھ کر سمندر کے کنارے پہنچے، اس دفعہ ھم سب نے ایک نئی جگہ کا انتخاب کیا تھا، وہاں پر دور ایک ٹیلہ نطر آیا اور سمندر کی لہریں بھی اس ٹیلے کو چُھو کر واپس جارھی تھیں، ھم نے یہی سوچا کہ اس ٹیلے پر چڑھ کر مچھلی کا شکار کرتے ھیں تاکہ ڈور کو گھما کر سمندر میں دور تک پھینکنے میں آسانی ھو، ٹیلہ کافی فاصلہ پر تھا، کافی دیر لگی وہاں ٹیلے تک پہنچنے میں، خیر ھم سب نے ٹیلے کی دوسری طرف جہاں سمندر تھا وہاں بیٹھ کر جگہ کو کچھ صاف ستھرا کیا اور صحیح طرح بیٹھنے کی جگہ بنائی اور ایک دوست گھر سے دری لایا تھا اسے بجھا کر ھم سب نے شکار کی تیاری شروع کردی، کچھ دیر کے بعد ھم تین دوست ھی بچے تھے، باقی جا چکے تھے،!!!!

    ھم تینوں دوستوں نے کچھ گھر سے اور کچھ راستے سے کھانے پینے کا سامان بھی ساتھ لے آئے تھے، سامنے سمندر کا ایک خوبصورت منطر بھی تھا اور دور سے چھوٹی بڑی کشتیاں بھی آ جا رھی تھیں اسکے علاوہ بڑے بڑے بحری جہازوں کو بھی انکی مخصوص سائرن کی آواز کے ساتھ ھم بخوبی دیکھ سکتے تھے، اور دور سے کراچی کی بندرگاہ بھی نطر آرھی تھی، جہاں بڑے بڑے بحری جہاز لنگر انداز تھے اور بڑی بڑی آسمان کو چھوتی ھوئی کرینیں سامان اتارتی ھوئی نظر آرھی تھیں، اس دفعہ ھمیں بہت اچھی جگہ ملی تھی اور ھم نے یہ فیصلہ بھی کرلیا کہ آئندہ بھی ھم یہیں پر مچھلی کے شکار کے لئے آیا کریں گے، کیونکہ وہاں بیٹھتے ھی ایک دوست نے جیسے ھی گھما کر ڈور پھینکی تو فوراً ھی چند سیکنڈ بعد ایک درمیانے سائز کی مچھلی پھنس گئی تھی،

    پیچھے کا منظر ٹیلے کے وجہ سے نظر نہیں آرھا تھا اور ھمیں کچھ پرواہ بھی نہیں تھی کہ پیچھے کیا ھورھا ھے، ھم سب تو مچھلی پکڑنے اور سمندر کے ساحلی منظر سے لطف اندوز ھورھے تھے، کہ اچانک کچھ دیر بعد یہ محسوس ھوا کہ سمندر کا پانی آہستہ آہستہ اُوپر چڑھ رہا ھے کیونکہ پانی اب ھمای دری کے اُوپر تک آگیا تھا اور ھم دری اور ساماں کو اسی رفتار سے اُوپر کی طرف کھسکتے جارھے تھے، اور ھم لوگ اپنے کام میں اتنے مگن رھے کہ پیچھے کی طرف مُڑ کے نہیں دیکھا کہ وھاں کا کیا حال ھوگا -

    جب پانی کچھ زیادہ ھی اُوپر آگیا اور ھم اُوپر کی طرف چڑھتے چلے گے تو پیچھے کا منطر نظر آگیا، اور کیا دیکھتے ھیں کہ وہاں بھی سمندر کافی دور تک پھیلتا جارھا تھا، ھم سب کی جان ھی نکل گئی، کسی کو بھی تیرنا نہیں آتا تھا، اسی پریشانی میں شام ھوتی جارھی تھی اور سمندر کا پانی آہستہ آہستہ اُوپر چڑھتا آرھا تھا اور ھم چوٹی تک پہنچ چکے تھے!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!

    پانی بہت آہستہ آہستہ اُوپر چڑھ رہا تھا اور وہ ایک چھوٹا سا ٹیلہ تھا، باقی تمام چیزیں تو پانی میں بہہ گئیں، بس ھم تینوں تھر تھر کانپ رھے تھے اور پریشان بھی تھے، شام ھو رھی تھی، اسکول کا وقت بھی ختم ھو رھا تھا، وھاں سے کافی شور بھی کیا، مدد کیلئے لوگوں کو بلانے کی کوشش بھی کی لیکن نہ کوئی دور سمندر میں کشتی والا ھماری آواز سن سکتا تھا اور نہ ھی دوسری طرف دور ساحل کے پار سڑک پر آنے جانے والے کو ھماری آواز پہنچ رھی تھی، بس ایک ھی صرف اُوپر والا ھماری آواز سن سکتا تھا، خوب ھم نے اس وقت اُوپر والے سے گڑگڑا کر معافی مانگی اور ھماری آنکھوں میں آنسو چھلک رھے تھے کیونکہ اب تو کوئی بچنے کا راستہ بھی نہیں تھا، اتنے میں سونے پر سہاگہ یہ ھوا کہ ھلکی ھلکی بارش بھی شروع ھوگئی،

    پریشانی میں ایک اور اضافہ، مگر اچانک نیچے دیکھا کہ پانی کی سطح گرتی جاررھی تھی اور ھماری کچھ جان میں جان آئی، جیسے ھی پانی ھمارے گھٹنوں تک پہنچا وھاں سے ھم سرپٹ پانی میں اچھلتے ھوئے بھاگے، لیکن گھر پہنچنے تک مغرب کا وقت ھوچکا تھا سب گھر والے پریشان تھے، مجھے دیکھ کر سب کی جان میں جان آئی، خوب ڈانٹ تو پڑی لیکن مار کھانے سے بچ گیا، اسکی وجہ یہ تھی کہ مجھے سخت بخار چڑھ گیا تھا، مزید اور تین دن کی اسکول سے چھٹی کرنی پڑی، بعد میں یہ بخار ٹائیفایڈ کی شکل اختیار کر گیا تھا، آٹھویں جماعت کے سالآنہ امتحانات سر پر تھے، ٹائم ٹیبل آچکا تھا اور میں بالکل ھی پڑھائی کی ظرف دھیان نہیں دے سکتا تھا والد صاحب نے بھی مجھے تسلی دے دی تھی کہ صحت ھے تو جہان ھے -

    اس حادثے کے بعد آئندہ کیلئے توبہ کرلی کے سمندر پر نہیں جائیں گے اگر کہیں جانا بھی ھو تو گھر سے اجازت لے کر جائیں گے!!!!!!
     
  2. حسن رضا
    آف لائن

    حسن رضا ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جنوری 2009
    پیغامات:
    28,857
    موصول پسندیدگیاں:
    592
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: سابقہ ورژن "یادوں کی پٹاری" سے ایک اقتباس،!!!!

    سید انکل بہت خوب لکھا ہے

    بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے آپ سے

    اللہ آپ کو ہمیشہ خوش رکھے آمین
     
  3. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: سابقہ ورژن "یادوں کی پٹاری" سے ایک اقتباس،!!!!

    خوش رھو حسن جی،!!!! ذرا میری اس اقتباس کی مکمل "یادوں کی پٹاری" کا سابقہ ورژن کی بحالی کیلئے انتظامیہ سے ایک دفعہ اور یاددھانی کی کوشش تو کیجئے،!!!!
     

اس صفحے کو مشتہر کریں