1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

سابقہ ورژن "یادوں کی پٹاری" سے اقتباس-4

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از عبدالرحمن سید, ‏7 جنوری 2010۔

  1. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    بچپن کی شرارتیں اور وہ ساتھ تکلیفیں جو آٹھائیں ان میں بھی ایک الگ ھی مزا اور چاشنی تھی، دل تو چاھتا ھے کہ بچپن کے دور سے بالکل نہ نکلوں اور ساری زندگی بچپن کے ھی دور میں گم رھوں اور ایک واقعہ آپ سب کی نذر کرتا رھوں، لیکن بہت ساری بچپن کی یادیں کچھ ادھوری سی ھیں، جیسے جیسے یاد آتی جائیں گی میں پیش کرتا رھونگا-

    ایک اور واقعہ اسکول کا دھندلا دھندلا سا یاد آرھا ھے، ھمارے اس اسکول کی یہ خاص بات ضرور تھی کہ لڑکوں کو اکثر پکنک کیلئے مختلف تفریح گاھوں پر ضرور لے جایا کرتے تھے، اور ھر پکنک کا اپنا ایک الگ مزا ھوا کرتا تھا، مگر ایک پکنک کا سفر مجھ کو تھوڑا تھوڑا یاد آرھا ھے جب ھماری پوری کلاس نے کراچی سے شاید 60 میل کے فاصلہ پر ایک چھوٹے سے علاقہ ٹھٹھہ میں پکنک کا پروگرام بنایا تھا، جہاں پر تھوڑے سے دور کے فاصلے پر مکلی کے مقام پر ایک بہت بڑے بزرگ کا مزار تھا اور اسکے ساتھ ھی ایک “مکلی کا قبرستان“ کے نام سے ھے، جو کہتے ھیں کہ دنیا کا سب سے بڑا قبرستان ھے جہاں پر محمد بن قاسم کے زمانے کے آثار بھی ھیں اور پرانے مقبرے بھی ھیں،

    اگر ھم بذریعہ بس جاتے تو جلدی پہنچ سکتے تھے لیکن ٹیچروں نے ٹریں کے راستہ ھی پروگرام بنایا تھا کیونکہ وہاں سے کوئی ایک بہت بڑی جھیل نزدیک پڑتی تھی، اور اس کے لئے پسنجر ٹرین کا ھی انتخاب کیا تھا، کیونکہ یہ ھی چھوٹے اسٹیشن پر رکتی تھی، تین دن کا پروگرام تھا اسکول سے ھی ھم تمام لڑکے اکھٹے ھوکر الگ الگ بسوں میں بیٹھ کر اسٹیشن پہنچے ھر ٹیچر کے سپرد دس دس لڑکے تھے اور ھم سب اپنے اپنے ٹیچرز کی سربراہی میں ایک پہلے سے ھی ریزرو ڈبے میں بیٹھے اور وہ پسنجر ٹرین کراچی سے آہستہ آہستۃ خراماں خراماں چلی، راستے میں وہ ھر ایک اسٹیشن پر رکتی ھوئی چھک چھک کرتی اپنے مخصوص سیٹی کے ساتھ چلی جا رھی تھی راستہ میں کوئی بڑا اسٹیشں نہیں آیا تھا سارے ھی راستے چھوٹے چھوٹے اسٹیشن نظر آئے، کسی کسی جگہ تو پلیٹ فارم ھی نہیں ھوتا تھا، لوگوں کو اترنے چڑھنے میں بڑی مشکل ھوتی تھی،!!!!!!

    اس پسنجر ٹرین کا بھی ایک الگ ھی لطف تھا، گاڑی پلیٹ فارم سے نکلی اور پھر بھی لوگ سوار ھوتے رھے بمعہ سامان کے قلی ان کو دھکا دے کر بٹھاتے بھی رھے اور مزدوری اور ساتھ بھتہ بھی لیکر ھی اترتے رھے، جبکہ ٹرین کافی آگے تک کھسک چکی تھی -

    اس پسنجر ٹرین میں بھی کافی پکنک کا سماں تھا، کچھ مسافر تو ھمارے اسٹوڈنٹ کے ریزرو ڈبے میں بھی آگئے تھے، کافی بحث اور تکرار کے باوجود بھی ان لوگوں نے اترنے کا نام نہیں لیا اور زیادہ تر بغیر ٹکٹ ھی تھے، اور قلیوں نے انہیں بےوقوف بنا کر کچھ پیسوں کے عوض انہیں ھمارے ڈبے میں زبردستی ھی گھُسا دیا تھا اب کیا کرتے مجبوری تھی،

    ارے سائیں!! بس تھوڑی دور کی تو بات ھے راستے میں ھم اتر جائے گا، ھم اپکی کرسی پر نہیں بیٹھے گا، ادھر نیچے ھی ٹھیک ھے، سائیں خدا تم کو خوش رکھے نی،!!!!!

    ایک نے ذرا التجا کرتے ھوئے کہا تو ھمارے ایک ٹیچر نے بھی جواباً کہا کہ کوئی بات نہیں، سائیں بیٹھ جاؤ،!!! شاید انہوں نے بھی انکی گھنی مونچھوں سے ڈرتے ھوئے ھی کہا تھا!!!!!

    ایک دو سائیں تھوڑی تھے وہ تو کوئی آٹھ دس تھے تھے، بمعہ اپنے کنبہ کے ساتھ اور زیادہ تر خانہ بدوش ھی لگتے تھے، سب زیادہ تر گیٹ کے پاس اور کچھ نے تو باتھ روم کے دروازے پر ھی ڈیرہ ڈالا ھوا تھا، کسی کے ساتھ بندروں کو جوڑا تھا، جو ان کے کمر میں رسی سے بندھے ھوئے تھے، اور بار بار اچھل کود کررھے تھے، اور لڑکوں کو بھی چھیڑ چھیڑ کا موقع مل گیا تھا، ایک دوسرے کو بندروں کی طرف اشارہ کرکے رشتہ داری جوڑ رھے تھے، اور سارے ڈبے میں ایک دھما چوکڑی مچی ھوئی تھی،!!!!

    کوئی ایک بندر کی طرف اشارہ کرکے کہہ رھا تھا کہ دیکھ جیدی تیرا بھائی تجھے دیکھ کر مسکرا رھا ھے، کوئی بندروں کو اپنی کھانی پینے کی چیزوں میں سے کھلانے کی کوشش کررھا تھا اور کچھ تو خالی مستی ھی کررھے تھے، بار بار بندروں کو انہیں کی چھڑی سے چھیڑ رھے تھے، اس اثنا میں ایک بندر فخرعالم کی چھیڑچھاڑ سے تنگ آکر اسکے کندھے پر شور مچاتا ھوا چڑھ گیا، بڑی مشکل سے اس بندر سے جان چھڑائی چند ایک کھروچ آئی، کچھ بچت ھوگئی، لڑکوں نے اس کا رکارڈ لگانا شروع کردیا، ارے دیکھو بھائی بھائی میں جھگڑا ھوگیا، ٹیچروں نے لڑکوں کو خوب ڈانٹا لیکن لڑکے کہاں سدھرنے والے تھے اور ویسے ٹیچر حضرات بھی ساتھ ساتھ خوب ان باتوں سے تفریح لے رھے تھے،

    کسی کے پاس تو چھوٹا سا ریچھ اور اسکے ساتھ بکری بھی تھی، مگر اس کے نزدیک نہ کوئی نہیں گیا بلکہ کسی نے چھیڑا تک نہیں لیکن لڑکے آوازیں وقفہ وقفہ سے آوازیں ضرور کستے رھے ایک لڑکا جسکا نام تو بدرالمغیز تھا لیکن اسے پیار سے بدرو کہتے تھے کچھ تو اس کی شراتوں سے تنگ آکر بدروح بھی کہتے تھے، اس نے تو سب کو تنگ کیا ھوا تھا، ھر کوئی اس سے پریشان رھتا تھا اور اس سے چھپنے کی کوشش کرتا تھا ایک لڑکا پرویز حمایت جو بہت ھی شریف تھا اسکا تو یہ بدرو ھمیشہ پیچھا ھی لئے رھتا تھا،

    یہ ٹریں تو ھر جگہ ھی رک جاتی تھی، بعض اوقات تو آدھے آدھے گھنٹے کے لئے رک جاتی تھی شاید کسی ایکسپریس ٹرین کو آگے گزارنے کےلئے مگر کبھی کبھی تو لگتا ھے کہ “سگنل مین“ شاید بھول ھی جاتا ھو کہ اس گاڑی کو بھی آگے جانا، اگے کچھ ایک اور چھوٹے سے اسٹیشن کےدوسرے پلیٹ فارم پر جہاں لاوارث اور فالتو سمجھ کر ٹرینوں اور مال گاڑیوں کو کھڑی کردیتے ھیں، اپنی یہی پسنجر ٹرین کافی دیر تک رکی رھی، آخر سگنل بھی کھل گیا، لیکن ٹرین ٹس سے مس نہیں ھوئی، ایک لڑکا باھر سے خبر لایا، کہ انجن ڈرائیور ھی غائب ھے، اور جب انجن ڈرائیور واپس آیا تو پتہ چلا کہ وہ اپنی فیملی کو لینے کے لئے اسٹیش کے ساتھ ھی ایک گاؤں گیا ھوا تھا اور اپنے گھر والوں اور بچوں کو ایک ڈبے میں چڑھا رھا تھا،

    اس اسٹیشن پر ایک قلی تھا ایک ھی اسٹیشن ماسٹر تھا وہ ھی ٹکٹ بیچتا تھا ساتھ کسی پسنجر گاڑی کے آنے پر ھی ٹکٹ چیک بھی کرتا تھا اور اس کے علاؤہ وہ ضرورت پڑنے پر سگنل ڈاؤن بھی کرتا تھا اور آنے جانے والی ٹرینوں کو سبز جھنڈی بھی دکھاتا تھا، یعنی کہ وہ پورے اسٹیشن کا اکلوتا ھی اسٹاف تھا، اور شاید جب انکے پاس تنخواہ کا پے رول آتا تھا تو وہ کم از کم 10 اسٹاف کا تو ضرور ھوتا ھوگا، یہ معلومات تو بعد میں مجھے میرے ایک ریلوے کے ملازم دوست سے پتہ چلا کہ یہاں تو ایسا ھی ھوتا ھے ورنہ سوچو کہ اس چھوٹی سی تنخواہ میں گزارا کیسے ھو، اور بھی بہت سے رازوں کا انکشاف بھی کیا تھا، اب خیال آتا ھے ھر دفعہ ریلوے کو خسارہ ھی کیوں برداشت کرنا پڑتا ھے -

    ھمیں تو گورنمنٹ کی طرفسے اسٹوڈنٹ کے رعائیتی ٹکٹ ملے تھے اور باقی جو سفر کررھے تھے بغیر ٹکٹ تھے کچھ تو قلیوں نے لوگوں سے پیسے اینٹھ کر کر بٹھا دیا تھا، کچھ ھر اسٹیشن سے وہاں کہ ماسٹر اور ٹرین کے ٹکٹ چیکر اور گارڈ آپس میں ھی معاملہ طے کرکے مسافروں کو کسی نہ کسی ڈبہ میں جگہ ھو یا نہ ھو سامان کے ساتھ دھکا ضرور دے دیتے تھے، بہت ھی ثواب کا کام کرتے تھے ھر مسافر کو کسی نہ کسی طرح اسکی منزل تک پہنچا ھی دیتے تھے، اور آج تک یہ سلسلہ بہت ھی کامیابی سے چل رھا ھے، اگر کراچی یا کسی بھی بڑے اسٹیشن پر آپ اپنی سیٹ رزرو کرانے جائیں تو آپکی خواھش کے مطابق کبھی بھی سیٹ نہیں ملے گی اور اگر آپ وھاں کے قلی سے رابطہ کریں تو فوراً ھی جتنی سیٹیں اور برتھیں آپکو چاھئے اپکے ھاتھ میں موجود مگر اسکی قیمت قلی کے ھاتھ میں تھمانی ضرور پڑتی ھے، کیا بات ھے ھر ریلوئے اسٹیشن کا بادشاہ صرف قلی اور صرف قلی ھی ھوتا ھے-

    معاف کیجئے گا میں کچھ اپنی پٹری سے ھی اتر گیا تھا، خیر ھماری ٹرین کو بھی آخر کچھ دھچکا سالگا کچھ ھلچل سی محسوس ھوئی باھر کھڑکی سے جھانک کر دیکھا تو پتہ چلا کہ سارا گاؤں وہ انجن ڈرائیور کی فیملی کو چھوڑنے آیا ھوا تھا اور سب ھاتھ ھلا ھلا کر سب کو الوداع کہہ رھے تھے کچھ تو ھمیں بھی دیکھ کر ھاتھ ھلارھے تھے، کسی نے ایک فقرہ ھی کس دیا کہ کیا وہ تمھاری ماسی یا خالہ ھے، جسے تم لوگ ھاتھ ھلا کر جواب دے رھے ھو، یہ سنتے ھی سب نے شرمندگی سے ھاتھ اندر کرلئے، !!!!!!!!!!!!!!!

    خیر بڑی مشکل سے یہ چھک چھک کرتی نازوں کی پلی ھوئی پسنجر ٹرین اپنے مقررہ اسٹیشن پر پہنچی جس کا نام “جنگ شاھی“ تھا، کوئی چھوٹا سا بازار اسٹیشں کے باھر نظر آرھا تھا لیکن نہ کوئی جنگ کے آثار تھے اور نہ ھی کوئی شاھی مقبرہ تھا،

    شکر ھے پہنچ تو گئے مگر دوپہر گزرچکی تھی دو بج رھے تھے، سب کو بہت سخت بھوک لگ رھی تھی، صبح سے چلے ھوئے یہ وقت آگیا تھا 5 گھنٹے ھوچکے تھے اگر بس سے آتے تو شاید ایک گھنٹے سے پہلے ھی پہنچ جاتے اور ابھی تو کافی سفر باقی تھا اسٹیشن سے پھر شاید کسی بس میں بیٹھ کر جانا تھا، کچھ موسم اچھا ھی تھا ورنہ تو حالت بہت خراب ھوجاتی-

    اسٹیشن پر اتر تو گئے اور سب لڑکوں کو ایک شاھی عالمگیر سرائے میں ھم سب کو لے جایا گیا جہاں ابھی دوپہر کے کھانے پکانے کا انتظام بھی کرنا تھا، جیسے ھی ھم اس شاھی سرائے میں گھسے تو اندر اندھیرا اور چمگادڑوں کا بسیرا، ھمارے اندر گھسنے سے پہلے ھی انہوں نے پھڑپھڑانا اور چیخنا چلانا شروع کردیا ھم سب تو واپس بھاگے اور صحن میں ھی بیٹھ کر دریاں بچھا کر کچھ تو لیٹ گئے کچھ بازار کی طرف نکل لیئے، اور کچھ ٹیچروں کے ساتھ مل کر کھانا پکانے کا انتظام کرنے میں لگ گئے،

    باقی بچے ھم تین چار دوست تو کیا کرتے، مل کر اپنی اپنی جیبوں سے پیسے نکال کر کچھ کھانے پینے کی چیزیں خریدنے کے بارے میں سوچنے لگے، کیونکہ بھوک لگ رھی تھی اور جس طرح کھانے پکانے کا بندوبست ھورھا تھا وہ امید تو نہیں تھی کہ شام تک بھی تیار ھو جائے!!!!!!!!!!

    جی ہاں تو بات ھورھی تھی “جنگ شاھی“ ریلوے اسٹیشن کی، جہاں ھم تمام اسٹوڈنٹس پکنک منانے اسکول کی طرف سے پہنچے تھے، دوپہر کے دو بج چکے تھے، اور دوپہر کے کھانا پکانے کی تیاری ھورھی تھی اور ھم سب کا بھوک کے مارے برا حال تھا، کھانا پکانے والی ٹیم الگ ھی تشکیل دی ھوئی تھی جنہوں نے کھانا پکانے کا خشک سامان، پہلے سے ھی کراچی سے بندوبست کرکے آئے تھے، اور تازہ ساماں جیسے سبزی، گوشت کا پکنک پوانٹ سے ھی خریدنے کا پروگرام تھا اور ویسے بھی ھر ایک ٹولی کو مختلف کام کی ذمہ داریاں دی گئی تھیں،

    وہاں پر اسٹیشن کے ساتھ ھی بازار سے ھی کچھ دیسی تازی مرغیاں کٹوائی گئیں، اس کے علاوہ کچھ تازہ گوشت، ساتھ ھی ھری سلاد دھنیاں پودینہ ھری مرچ وغیرہ بھی وہاں پرھی آسانی سے مل گیا، وہاں پھر شاید بریانی اور قورمے کا پروگرام بن رھا تھا، پکانے والی ٹیم جو کھانا پکانے میں مشہور تھی، اس میں کچھ اسپشل ماھر ٹیچرز بھی تھے جو ھمیشہ ھر پکنک میں اپنے کھانے پکانے کے جوھر ضرور دکھاتے تھے اور وہ ھی پکنک کے تمام پروگرام کو منظم طریقہ سے بڑے شوق سے ترتیب بھی دیتے تھے، جس میں کوئی بھی مداخلت نہیں کرتا تھا، اور واقعی وہ لوگ ھمیشہ بڑے اھتمام سے بہت ھی خوش ذائقہ کھانا تیار کرتے تھے،

    ایک ٹیچر کے پاس کیشئیر کی ذمہ داری تھی اور ان کے دو اسسٹنٹ لڑکے ھوتے جن کا کام صرف ضرورت کے وقت باھر کی خریداری اور سارا حساب کتاب انہی ٹیچر کو دینا ھوتا تھا، جن کے پاس اسکول کا فنڈ ھوتا تھا جو تمام پکنک کا تخمینہ لگاکر ایڈوانس میں ھی اندازاً لگا کر اسٹوڈنٹس سے بھی اکھٹا کرتے تھے اور کچھ اسکول کی طرف سے بھی فنڈ شامل کر لیا کرتے تھے اور اس بات کی تو گارنٹی تھی کہ سب کچھ ایمانداری سے ھی ھوتا تھا اور ساتھ ٹیچرز بھی اپنا اپنا حصہ بھی ضرور شامل کیا کرتے تھے، اور اگر کبھی کچھ کمی ھوجاتی تھی تو تمام ٹیچرز مل کر اس کمی کو اپنی جیب سے پورا کرتے تھے، جو اس اسکول کے ٹیچرز کی تمام خصوصیات میں سے ایک منفرد خاصیت تھی -

    بہرحال ھمارے گروپ یا ٹولی جو 5 لڑکوں پر مشتمل تھی ضرورت پڑنے پر مختلف کاموں کی ذمہ داری تھی، جیسے لکڑی جلانےکےلئے اور پانی پینے کےلئے اور پکانے کیلئے بندوبست کرنا وغیرہ وغیرہ، جس میں ھم پہلے ھی سے ماسٹر تھے، ھم لڑکوں نے فورآً اپنا کام ضرورت کے مطابق کرکے، اجازت لےکر آگے بازار کی ظرف نکل گئے، کیونکہ بھوک بہت لگ رہی تھی اور ابھی کھانا تیار ھونے میں کافی وقت تھا، بازار کی طرف ایک ھوٹل نظر آیا جہاں ھم نے بیٹھ کر دال اور سبزی کے سالن اور روٹی سے کچھ بھوک کو مٹایا -

    واپس آئے تو کچھ ٹیچرز، نزدیک ھی کسی جھیل پر جانے کا پروگرام بنا رھے تھے، وھاں پر ایک ٹریکٹر کے ذریعے کچھ ٹیچرز کی نگرانی میں باقی لڑکوں کو ساتھ لے کر، پکانے والی ٹیم کو چھوڑ کر، بقایا سب نکل پڑے، پہلے تو اس جھیل پر جانے کا پروگرام دوپہر کے کھانا کھانے کے بعد تھا، مگر کھانے میں کچھ تاخیر ھونے کے سبب پروگرام پیں کچھ تبدیلی ھوگئی تھی، اس ٹریکٹر کے پچھلے ٹرالر میں پر ھم بیٹھ تو گئے لیکن جھیل تک پہنچتے پہنچتے جو کچھ کھایا پیا تھا وہ سب کا سب ھضم ھوگیا،

    دھوپ کچھ زیادہ تھی، تھوڑا بہت گھومے پھرے کچھ لڑکوں اور ٹیچروں نے تصویریں بھی اتاریں ھم بھی پھوکٹ میں شامل ھوگئے، پھر اسے ٹریکٹر سے ھی واپس آگئے، شام ھورھی تھی ، کھانا آخری دم وخم پر تھا، ایک ٹیم نے فوراً اپنی ذمہ داری کے حساب سے، دری وغیرہ بچھائی اور اوپر پرانے آخبار، جو ساتھ لائے تھے، بچھائے اس ٹیم کا کام کھانا کھلانا تھا، سب نے ہاتھ منہ دھوئے اور بیٹھ گئے اور بس کچھ ھی دیر میں کھانا لگا دیا گیا، اور پھر کیا تھا سب کھانے پر اس بری طرح ٹوٹے کہ کھانا کھلانے والی پارٹی کبھی سالن لاتی تو روٹی ختم ھوجاتی اور کبھی روٹی لاتے تو سالن ختم، پھر بریانی کا دور چلا وہ بھی اس ظرح کہ کھلانے والے بریانی کے تھال بھر بھر کر لاتے رھے ادھر پہلے والے تھال ختم، کھلانے والے بھی بریانی یا قورمے کے تھال لاتے لاتے بیچ میں سے اچھی اچھی بوٹیاں اچک لیتے تھے، کیونکہ انہیں بھی بہت سخت بھوک لگی ھوئی تھی-

    یہ دعوت ایسی لگ رھی تھی کہ جیسے کسی شادی میں کھانا کھا رھے ھوں، اس میں چند اس علاقے کےمعزز لوگ بھی شامل ھوگئے تھے، جنہوں نے یہ مغلیہ خاندان کی سرائے بمعہ چمگادڑوں کے بغیر کسی معاوضے کے دے کر ھم پر مہربانی کی تھی، اندر تو کوئی چمگادڑوں کی وجہ سے نہیں گیا بس باھر ھی مغلیہ صحن میں ھی بیٹھ کر کچھ تو اکبر بادشاہ کے روپ دھارے ھوئے لیٹ گئے اور کچھ شاجہاں کی طرح اس سرائے کو تاج محل سمجھ کر ممتاز محل کے گن گانے لگے اور کچھ تو بےچارے اپنی ٹیم کو لیکر مقرر کردہ ذمہ داری کو لےکر برتن دھونے میں لگ گئے مگر وھاں کے کچھ مقامی لوگوں نے بھی کچھ مدد کرکے کھانا کھانے کا اپنا حق ادا کردیا -

    کھانا کھاتے ھی سب کو پھر الرٹ کردیا کہ بھئ سب اٹھو، بس آگئی ھے چلو اپنا اپنا سامان سمیٹو اور بس میں بیٹھو، اگلے پوائنٹ پر جانا ھے، اب کھانا کھا کر سب ھی ٹن ھوگئے تھے، بہرحال بڑی مشکل سے جلدی جلدی بس میں گھسے کسی کو بیٹھنے کی جگہ ملی کسی کو نہیں، بڑا بڑا سامان تو چھت پر ھی چڑھا دیا لیکن چھوٹا موٹا سامان بس کے اندر ھی لے گئے، مجھ سمیت کافی لڑکوں کو جگہ تو مل گئی لیکن جو بعد میں بس کی چھت پر سامان رکھ کر چڑھے تو انہیں بیٹھنے کی جگہ نہیں ملی، وہ بس بھی ایسی تھی کہ بندے کو کبڑا بن کر کھڑا ھونا پڑا ، پتہ نہیں آگے کتنا اور سفر تھا، کچھ تو بےچارے چھت پر ھی چڑھ گئے، ایک اور سونے پر سہاگہ یہ کہ کوئی ایک اور پسنجر ٹرین آگئی اور بس والے نے اس کے پسنجر اٹھانے کیلئے بس کو اور مزید کچھ دیر کے لئے روک دیا -

    ھم جو بس میں تھے انکا تو مزید حشر نشر ھورھا تھا ایک تو اس بس کے شیشے ایسے تھے کہ کھلنے کا نام ھی نہیں لیتے تھے اور اوپر سے کنڈکٹر نے اور بہت سے مزید اور مسافروں کو بمعہ سازوسامان کے اندر بس میں زبردستی پھنس پھنسا کر گھسیڑ دیا تھا، کیا عالم تھا، کبھی ایسا جم غفیر نہیں دیکھا تھا، پسینہ سر سے پیر تک بہہ رھا تھا، اور لوگوں کے پاس سے تو ایسی مہک آرھی تھی لگتا تھا کہ شاید برسوں ھوگئے ان لوگوں کو نہائے ھوئے، خیر کیا کرتے مجبوری تھی، کچھ بلکہ بہت کچھ سہنا پڑ رھا تھا،

    بڑی مشکل سے بس کی گھڑگھڑاہٹ کے کانپنے سے یہ محسوس ھوا کہ اب شاید بس نے اپنے سفر کے آغاز کرنے کی ٹھان لی ھے، خیر ھانپتی کاپتی ھلتی جلتی اچھلتی بس نے آھستہ آھستہ چلنا شروع کیا، کہیں کہیں سے تھوڑی بہت ھوا آرھی تھی، جیسے ھی بس بازار کے حدود سے باھر نکلی، تو اندھیرے کی وجہ سے کچھ بھی نظر نہیں آرھا تھا، خیر میں تو بےچارے اوپر چھت والوں کا اور کھڑے ھوئے دوستوں اور ٹیچروں کا سوچ رھا تھا کہ نہ جانے کیا حال ھورھا ھوگا،

    اسی سوچ میں گُم ایک نیند کا جھٹکا مجھے آیا ھی تھا کہ ایک مرغی کڑکڑاتی ھوئی میرے گود میں گری اور میں ایک دم گھبرا گیا اور اپنے دل پر ھاتھ رکھ لیا ایسا لگا کہ جان ھی نکل گئی،ایک تو رش اور اوپر سے کسی کے ٹوکرے میں سے مرغیاں پھڑپھڑاتی ھوئی باھر نکل رھی تھیں، بس کیا تھا بس میں ایک ھنگامہ ھوگیا، میرے پاس جو مرغی گری اسے پکڑ کر بیٹھا تھا کہ کہیں اور نہ نکل جائے کہ اچانک ایک مقامی آدمی کا سر میری شکل کے سامنے الٹا ھی آگیا اور مجھ سے مرغی چھین کر غصہ سے کہا، جو میں بالکل سننے کے موڈ میں نہیں تھا، ایک تو میں نے اس کی مرغی سنبھالی اور اس نے مجھ پر ھی چیخنا شروع کردیا !!!!!

    اوئے چھوکرے اس مرغی کے ساتھ اس کا بچہ بھی تھا وہ تم نے کدھر کو گم کردیا !!!!!!!

    میں نے ڈرتے ھوئے جواب دیا کہ،،،،،،،،،،،،،

    دیکھو سائیں!!! ھم سے آپ قسم لے لو، ھمارے نصیب میں آپکی مرغی ھی آئی تھی، اسکا بچہ ھم نے نہیں دیکھا !!!!!!!!!!!

    اس نے اور غصہ سے کہا کہ،!!!!!
    ھم کچھ نہیں جانتا ھے، ھم کو تو اس کا بچہ ابھی چاھئے، یہ مرغی تمھارے گود میں تھا تو اس کا بچہ بھی اس کے ساتھ ھی تھا اور کدھر کو جائے گا، ھم تو اس کا پیسہ لے کر چھوڑے گا ورنہ تم کو ادھر ھی ختم !!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!

    یہ کس مشکل میں پھنس گیا میرے ساتھ ھی کوئی اور اسکی ظرح ایک مقامی بیٹھا تھا جس نے آدھی سے زیادہ سیٹ گھیرے ھوئے تھی اور میں کھسکتے کھسکتے گرنے ھی والا تھا، اس نے اس مرغی والے کو اپنی زبان میں کچھ شاید میری حمایت میں ھی کہا، جسکی وجہ سے میری جان خلاصی ھوئی، اور میں اسی خوشی میں کھڑا ھوگیا اور اپنی چھوٹی جو جگہ بچی تھی وہ بھی اس کو دے دی کہ بس یہی خوش رھے !!!!!!!!!


    مرغی کا بچہ تو چھوڑیں، جو بھی مرغیاں اسکے ٹوکرے میں سے نکلیں تھیں اس میں سے صرف ایک ھی مرغی میرے پاس مل بھی گئی ورنہ باقی میں سے کچھ نے تو کھڑکیوں سے چھلانگ ماردیں تھیں اور کچھ کو تو اندر ھی لوگوں نے اپنے ھی بغل میں دبوچ لیں، جو بعد میں ھی پتہ چلا،

    جو مرغیاں نیچے کود گئی تھیں ان کے پیچھے تو اس مرغی والے نے چھلانگ ماردی تھی وہ بھی چلتی بس میں سے اور پیچھے کی طرف منہ کرکے، نہ جانے اس بے چارے کو کتنی چوٹ آئی ھوگی کیونکہ ایک تو خود بھی بھاری بھر کم ، ساتھ خالی ٹوکرا بھی ھاتھ میں اور وہ اترا بھی تو چلتی بس میں پیچھے کی طرف منہ کرکے، اور باھر اندھیرا بھی تھا، ایک آواز تو آئی تھی بڑی زور کی چیخنے کی، لیکں بس ڈرائیور نےاپنی زبان میں اپنے کنڈکٹر سے کچھ پوچھا اور اسکے جواب میں اس نے بس کو اور تیز چلانا شروع کردیا تھا، کسی کے پوچھنے پر اس نے کہا کہ
    ،،،،،،،،،،، سائیں!!!!! خاموش رھو پیچھے ڈاکو سائیں لوگ آرھا ھے !!!!!

    اور بس ڈرائیور نے اندر کی ٹمٹماتی ھوئی بتی بھی بجھا دی تھی اور آگے پیچھے کی لائٹ بھی بالکل بند کردی تھی، اندر تو کچھ بھی دکھائی نہیں دے رھا تھا، اور ھم اسکول کے لڑکوں کو تو یہ پہلا اور آخری تجربہ تھا، ڈر کے مارے جان نکلی جارھی تھی، ٹیچروں کے بھی منہ سے کوئی آواز نکل نہیں رھی تھی، کیونکہ وہاں کے ڈاکوؤں کے بارے میں سنا ضرور تھا لیکن واسطہ آج ھی پڑا تھا!!!!

    نہ جانے ڈرائیور بس کو اندھیرے میں کیسے دوڑائے جارھا تھا، بس بھی جھومتی جھامتی، اچھلتی کودتی، اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھی، پتہ نہیں چھت پر بیٹھے ھوئے لوگوں کا کیا حال ھوا ھوگا، میں بھی اپنی سیٹ اس مرغی کے بچے کے چکر میں گنوا چکا تھا، اور بس کھڑے کھڑے ٹانگیں بھی شل ھوچکی تھیں، کچھ نیند کا غلبہ بھی تھا اور رات کے شاید 10 بجے کا وقت ھوگا، اچانک بس کے اندر سے ھی ایک مرغے نے اپنی آواز کے جادو سے بس کی کھڑکھڑاتی اور چنگھاڑتی شور شرابے میں ایک نئے سُرؤں کا اضافہ کردیا، میں نے سوچا کہ شاید یہ بھی اسی مرغی والے کا مرغا ھوگا، جاگا بھی تو دیر سے جاگا!!!!!

    آخر کو ھماری منزل آھی گئی شاید کنڈکٹر نے “مکلی“ کی آواز لگائی تھی، دور سے کچھ مدھم سے تمٹاتی ھوئی روشنی کی جھلک نظر آرھی تھی اور کچھ رنگ برنگی روشنیوں کے بلب بھی جلتے بجھتے نظر آرھے تھے، شاید وہ مکلی کے ایک بڑے بزرگ کا مزار تھا، بہرحال وھاں آہستہ اہستہ سب اپنی کمر سیدھی کرتے ھوئے اتر گئے، اور سامان وغیرہ بھی اتارا اور سب ٹیموں نے اپنے اپنے ممبروں کو پورا کیا ابھی تو آدھے ممبر بھی پورے نہیں ھوئے تھے، بعد میں پتہ چلا کہ وہ دوسری بس میں آرھے ھیں،

    تھکے ھوے تو تھے مزار کے نزدیک سامان لے کر بڑی مشکل سے پہنچے، آگے کافی لوگ سوئے ھوئے تھے، انکو ڈسٹرب کرنا بالکل مناسب نہیں سمجھا، وہاں رات کا اندھیرا تو تھا ھی اور کوئی ھموار جگہ مل نہیں رھی تھی تو اونچے نیچے ٹیلوں اور غیر ھموار جگہ پر ھی غنیمت جان کر سب لڑکوں نے مل کر رات کے اندھیرے میں ھی دریاں اور چادریں الٹی سیدھی کرکے بچھائی، کچھ بھی نطر نہیں آرھا تھا اور سب کے سب تھک کر لیٹ گئے کچھ لڑکے مزار کی طرف حاضری دینے چلے گئے ھم لوگوں میں تو بالکل ھمت نہیں تھی -

    صبح ھوکر بھی گزر گئی سورج کی شعائیں منہ پر پڑ رھی تھی اس کے باوجود بھی کسی کی آنکھ کھل نہیں رھی تھی، ایک آواز نے ھم سب کو چونکا دیا اور ھم سب اتنے خوفزدہ ھوئے کہ کانپنے لگے ھر ایک کی حالت خراب تھی چہرے بالکل پیلے پڑچکے تھے وہاں سے سب کچھ چھوڑ کر بھاگے !!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!

    ھم سب سخت تھکان کی وجہ سے گہری نیند میں ڈوبے ھوئے تھے جبکہ سورج کی روشنی اچھی خاصی چاروں طرف پھیل چکی تھی، کسی نے میرے کان میں خاموشی سے کہا کہ ھم لوگ تو قبروں کے اوپر سو رھے ھیں، میں فوراً ھی ڈر کے مارے اُٹھ کر بیٹھ گیا اور اِدھر اُدھر کئی لڑکوں کو دیکھا کہ کچھ نے تو قبروں کو اپنا تکیہ بنایا تھا، کچھ لڑکوں ‌نے قبر کو ایسے گود میں لیا ھوا تھا کہ جیسے کوئی بچہ اپنی امٌاں سے لپٹ کر سو رھا ھو اور کچھ تو وقت سے پہلے ھی سے کھلی ھوئی قبروں میں پیر لٹکا کر خرانٹے لے رھے تھے، کچھ ٹیچروں کا بھی یہی ملا جلا حال تھا -

    میں بھی اسی طرح کھلی قبر کے بالکل برابر میں ایک قبر کو تکیہ بنائے لیٹا ھوا تھا، جہاں قبر کے اندر کا سارا حصہ صاف نظر آرھا تھا، ارے باپ رے جو ڈر کر ھم سب لڑکے چیخ کر وھاں سے بھاگے اور دور جاکر کھڑے ھوگئے اور کئی تو کانپ بھی رھے تھے اور پھر ھمارے ٹیچروں نے وھیں پر ھم سب لڑکوں کو بلا کر کہا کہ!!!!!!!!!!

    دیکھو بچوں !!!!!!!!!!! یہ ڈر اور خوف کچھ بھی نہیں ھے صرف ذہن کا ایک نفسیاتی اثر ھے، جو بھی چیز آپ اپنے دماغ اور تصور میں بٹھا لو گے وھی تمھاری سوچ ایک حقیقت کا روپ لے کر وھم کے وجود کو تسلیم کر لے گی، جو آپکے ڈر اور خوف کا بعث بھی بن سکتی ھے،
    اب یہ بتاؤ کہ ساری رات آپ قبروں پر سوتے رھے اور کچھ بھی محسوس نہ کرسکے کیونکہ آپ سب کو اندھیرا ھونے کی وجہ سے یہ معلوم ھی نہیں ھوسکا کہ یہ “مکلی“ کا سب سے بڑا اور پرانا قبرستان اور پرانے کھنڈرات کے اثرات ھیں، اور اگر یہ پہلے پتہ ھوتا تو کیا آپ لوگ اسطرح بے خبر سو سکتے تھے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

    وہ خوف کا سحر جو دماغ کو ماؤف کرچکا تھا، آھستہ آھستہ اس کا اثر ختم ھوتا جارھا تھا، اور واقعی اس واقعہ کے بعد کم از کم مجھے تو یہ احساس ھوگیا تھا کہ ڈر اور خوف ھمیشہ اللٌہ تعالیٰ کا ھی ھونا چاھئے اور ھمیں اسکے تمام احکامات کی بجاآوری کرکے اپنی عاقبت کو سنوارنے کی فکر کرنی چاھئیے-

    بہرحال لگتا تھا کہ ناشتہ کا انتظام ھو رھا تھا، چائے کی دیگچی چڑھی ھوئی نظر آئی اور ایک جگہ کچھ انڈے ابل رھے تھے اور دوسری طرف انڈوں کا املیٹ بھی تیار ھورھا تھا کوئی ہاف فرائی کی فرمائیش کررھا تھا اور کوئی فل فرائی کی، کسی نے آملیٹ کا آرڈر دیا ھوا تھا ایک طرف ڈبل روٹی کے سلائسس کا ڈھیر تھا اسکے ساتھ ھی مکھن کا ایک بڑا پیکٹ ایک پلیٹ میں دو تین چھریوں کے ساتھ نطر آیا، دوسری پلیٹ میں دو تین قسم کے شہد اور جام کی بوتلیں رکھی تھیں اور یہ سب کچھ ایک درخت کے نیچے مہم جاری تھی، اور باقی لڑکے ایک لائن میں پلیٹ اٹھائے باری باری ڈبل روٹی کے سلائس اُٹھاتے ھوئے ساتھ مکھن جام یا شہد اپنی اپنی پلیٹوں میں ضرورت کے مطابق ڈالتے ھوئے جہاں انڈے تلے جارھے تھے وھاں کی ٹرے سے جس قسم کا ہاف فائی، فل فرائی ھو چاھے ابلا ھوا ھو یا آملیٹ ھو، ھر کوئی اپنی پلیٹ میں ڈالتا ھوا آگے بڑھ رھا تھا اور آخر میں چائے کا کپ آٹھاتے ھوئے ایک کسی کونے میں یا کسی دوست کے ساتھ پہلے سے بچھی ھوئی دری پر بیٹھ کر ناشتہ کا صحیح لطف اٹھارھا تھا،

    اور یہ کھانے پینے کی تقسیم اور دوسرے تمام پکنک سے متعلق کوئی بھی کام کا ھر نظام اتنے سلیقے اور منظم طریقے سے انجام پا رھا تھا کہ کسی کو بھی کسی قسم کی کوئی تکلیف یا پریشانی نہیں ھورھی تھی اور کسی کو کسی سے کوئی شکایت بھی سننے یا دیکھنے کو نہیں ملی، اور سب مل جل کر اپنی اپنی پہلے سے ھی مقرر کردہ ذمہ داریاں کو نبھا رھے تھے،

    ھمیں اس وقت اپنے اسکول پر بہت فخر تھا کہ اس کا ھر لحاظ سے ایک اپنا ایک بہترین اسٹینڈرڈ تھا اور اسی کی وجہ سے اس اسکول میں داخلہ بھی بہت مشکل سے ملتا تھا، اب نہ جانے کیا حال ھے اللٌہ کو ھی معلوم ھے، پڑھائی کے ساتھ ساتھ کھیل کود کے مقابلوں میں بھی ھمیشہ ھمارا اسکول اچھی پوزیشن لیتا تھا، اور کیا کیا تعریف کروں میرے پاس اسکےلئے الفاظ نہیں ھیں، یہ سب کچھ اچھی اور معیاری تنظیم کی وجہ ھی سے بہتر نظام چل رھا تھا -

    اس وقت اسکول کے ٹیچروں کی ایک خاص بات ضرور تھی کہ جو بھی سگریٹ پینے کے عادی تھے انہیں میں نے کم از کم اپنے اسٹوڈنٹ کے سامنے کبھی سگریٹ پیتے ھوئے نہیں دیکھا تھا اور اگر کوئی ٹیچر کہیں ایک کونے میں چھپ کر سگریٹ پی رھا ھو اور سامنے سے کوئی طالب علم آجائے تو وہ فوراً سگریٹ بجھا دیتے تھے، اس کے علاوہ میں نے کبھی بھی کسی ٹیچر کو دوسرے ٹیچرز کے ساتھ کسی بھی طالبعلم کے سامنے کسی قسم کا بھی مذاق یا زور سے باتیں کرتے ھوئے بھی نہیں دیکھا تھا -

    بہرحال بہتر سُدھار اور اچھی تنظیم کی ضمانت اُسی ادارے کو ھی دی جاسکتی ھے، جہان پر کم از کم اچھے اصول، اخلاق اور بہتریں ڈسپلین کا خیال رکھا جاتا ھو اور یہ کوئی مشکل بھی نہیں ھے صرف اسکے لئے یک جہتی کی ضرورت ھے اور اپنا ایمان مضبوط ھونا چاھئے -!!!!!!!!

    ھاں تو بات ھو رھی تھی ناشتے کی، سب نے مل کر خوب زبردست سیر ھوکر ناشتہ کیا، پھر ان بزرگ کے مزار پر جاکر حاضری دی اور فاتحہ پڑھی اور تمام “مکلی کے قبرستان“ کے تمام پرانے آثار کو دیکھا، کہا جاتا ھے کہ یہ دنیا کا سب سے بڑا اور پرانا قبرستان کہلاتا ھے اور محمدبن قاسم اور راجہ داھر کی جنگ میں شہید ھونے والوں کے مقبرات بھی یہیں ھیں، اور اتنا بڑآ قبرستان تھا کہ دوسرا کنارا کہاں ختم ھوتا ھے بلکل نظر نہیں آتا تھا -

    وھان سے پھر ھم سب نے اپنا اہنا بوریا بسترا اور سازوسامان کو سمیٹا اور وہاں سے دو یا تیں گروپ کی شکل میں بسوں کے ذریعے بغیر کسی پریشانی کے نزدیکی قصبہ“ ٹھٹھہ“ پہنچ گئے، جو ایک چھوٹا سا مغلیہ دور کا ایک تاریخی شہر بھی ھے وھاں کی ایک مغلیہ دور کی ایک خوبصورت سی کئی گنبدوں والی مسجد بھی دیکھنے کو ملی جہاں کی ایک خاص بات تھی کہ بغیر لاوڈاسپیکر کے قاری صاحب کا خطبہ مسجد کے کسی بھی کونے میں سنا جاسکتا تھا جوکہ خود ھم نے باقاعدہ طور سے باری باری اس کا تجربہ اپنی آواز سے ممبر کے پاس جاکر بھی کیا، اور سب نے ھر کونے میں آواز بھی سنی -

    اور بہت سی وہاں کی مشھور جگہیں دیکھیں او پھر ایک جگہ منتخب کر کے وہاں اپنا پڑاو ڈالا اور دوپہر کے کھانے کا انتظام اپنی اپنی ذمہ داریوں کو سامنے رکھتے ھوئے کیا، جس طرح سے کل شام کو جنگ شاھی ریلوے اسٹیشن پر کیا تھا، پکانے والے پکاتے میں مشغول گھومنے والے بازار کے چکر میں اور آرام کرنے والے کچھ دیر کےلئے سو بھی گئے مگر سب نے اپنی اپنی ذمہ داریاں کھانا پکانے سے پہلے ھی ختم کرلیں تھی، کچھ کی ذمہ داریاں کھانا کھانے کے بعد آتی تھیں !!!!!

    کھانا کھا کر سب لوگوں نے ایک پارک کے سایہ دار درخت کے نیچے دریاں بچھا کر کچھ دیر تک آرام کیا اور شام تک سب نے واپسی کا ارادہ کرلیا بہتر تو یہی تھا کہ براستہ سڑ ک ھی سفر کیا جائے تاکہ جلد سے جلد گھر پہنچ جائیں، اس تجویز کی منظوری ھوگئی تھی اور پھر یہ فیصلہ کیا گیا کہ ھر گروپ اپنی اپنی ذمہ داریوں کے ساتھ تمام لڑکوں کو انکے گھر تک پہنچائے اور اس پر عمل درآمد شروع ھوگیا، جیسے جیسے بس آتی گئی ایک ایک گروپ گنجائیش کے مطابق بسوں میں سوار ھوتا گیا اور اپنی اپنی منزل کی راہ لی، ھر کوئی بہت تھک چکا تھا، سارے راستے سب بس میں سوتے ھوئے گئے، اور خیریت سے شام تک اپنے اپنے گھر پہنچ گئے -

    یہ ھمارے اسکول کی سب سے بہتر اور لمبی پکنک تھی ایک رات اور دو دن تک، بہت ھی اچھا سب نے انجوائے کیا اور کچھ دوستوں نے تصویرں بھی کھینچی تھیں لیکن ملی کسی کو بھی نہیں، دو دن کی تفریح تھی باقی پھر سے وھی اسکول کی گھماگھمی میں گم ھو گئے -

    یہ ایک یاد گار تفریح تھی جو کہ آٹھویں کلاس کے وقت کی تھی اور جسے میں شامل نہیں کرسکا تھا، مگر اچانک یاد آگئی تو مجھے کچھ پیچھے جانا پڑا، اور بھی کئی یادیں ھلکی ھلکی ذہن میں کلبلا تو رھی ھیں، لیکن واضع نہیں ھیں، جیسے ھی کوئی دلچسپ واقع ذہن میں مکمل یاد آئے گا تو فوراً لکھوں گا،

    اب تو میں بڑی مشکل سے نویں کلاس میں پہنچ چکا تھا، آرٹس کے صرف چار مضامین تھے، جنہیں پاس کرنا تھا، کوشش اس دفعہ ساری کی کہ سارے پیپر کلئیر ھوجائیں، اور بہت امید بھی تھی، مگر پھر بھی کچھ اپنے شوق بھی تھے، لوگوں کی پسند کی تصویریں بنانا اور ان میں تقسیم بھی کرنا اس کے علاوہ قلمی دوستی بھی جاری رھی، لیکن اخباروں اور بچوں کے رسالوں میں بھی لکھنے میں وقت کی تنگی کے باعث بہت زیادہ کمی آگئی تھی،!!!!!!!
     

اس صفحے کو مشتہر کریں