1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

سابقہ ورزن "یادوں کی پٹاری" سے اقتباس-3

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از عبدالرحمن سید, ‏7 جنوری 2010۔

  1. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    ایسے کئی واقعے ھیں جن سے میں کئی بار بال بال بچا ھوں، بچپن اور لڑکپن بھی کیا چیز ھے، کسی موسم کا اثر بھی نہیں ھوتا ھے چاھے گرمی ھو سردی ھو بارش ھو، طوفان ھو، بچپن میں بس اپنی ھی نئی نئی شرارتوں میں مگن رھتے ھیں،

    بارشوں کے دوراں ھم بچوں کو ایک موقعہ مل جاتا تھا کچھ نہ کچھ گڑبڑ ھنگامہ کرنے کا، ھمارے محلے کے ساتھ ھی ملٹری کے علاقے میں امرود اور آم اور نیمبوں کے باغات تھے، عام دنوں میں تو مالی ھمیشہ ان باغوں کی ڈیوٹی پر معمور رھتا تھا لیکن صرف بارش کا ھی ایک ایسا موسم ھوتا تھا کہ وہ نظر نہیں آتا تھا، جس کی وجہ سے ھم بچے بارشوں کا بہت بےچینی سے انتطار کرتے تھے، جیسے ھی بارشیں شروع ھوئیں ھم سب کی تو جیسے لاٹری ھی نکل آتی تھی، ایک تو اسکول سے چھٹی اور دوسرے باغوں میں بہار آجاتی تھی، خوب اپنی مرضی سے، درختوں پر چڑھ جانا اور کچے آموں اور نیمبووں کو توڑ کر گھروں میں پہنچانا اور پکے پکے امرودوں کو مل بیٹھ کر کھانا -

    ان باغوں میں مجھے کوئل کی کوک بہت اچھی لگتی تھی، اسکے علاوہ دوسرے پرندوں کی آوازیں جب آپس میں ٹکراتی تھیں تو ایک حسین سا سماں ھوتا تھا لگتا تھا کہ ھم سب واقعی ایک کسی گھنے جنگل میں ھیں، وھاں سے نکلنے کو بھی جی نہیں چاھتا تھا، بارش میں ھم سب بھیگے ھوئے خوب کھیلتے بھی رھتے تھے، جبکہ والدہ بہت غصہ بھی ھوتی تھیں، انکی تو پروا ھی نہیں کرتے بس جیسے ھی ابا جان کے آنے کا وقت قریب ھوتا تو فوراً میں تو گھر کی راہ لیتا، اور گھر جاکر نہا دھو کر کپڑے بدل کے جلدی سے کتاب اٹھا کے پڑھنے بیٹھ جاتا،

    ایک دن یہی بارشوں کا سلسلہ تھا، اور ھم تمام دوست بھی انہیں باغوں کے حشر نشر میں لگے ھوئے تھے، میرا ایک دوست اوپر درخت پر چڑھ کر امرود توڑ ٹوڑ کر پھینک رھا تھا اور میں نیچے جھکا ھوا امرود چن رھا تھا، اسی دوران درخت کے اوپر سے ایک بڑا پتھر میری کمر پر گرا اور میں وہیں بیٹھ گیا، چند لمحوں تک تو مجھے کچھ ھوش نہیں رھا، لیکن میں بالکل کھڑا نہیں ھوسکتا تھا، ایسی تکلیف میں نے کبھی بھی محسوس نہیں کی آنکھوں سے پانی جاری تھا، بڑی مشکل سے دو لڑکوں نے مجھے پکڑا اور ڈاکٹر صاحب کے پاس لے گئے جو محلے میں ھی رھتے تھے، وہ صبح کے وقت گورنمنٹ اسپتال میں جاتے تھے اور شام کو محلے سے کچھ ھی فاصلے پر ھی اپنا کلینک کھول کر بیٹھ جاتے تھے بہت اچھے انسان تھے، اس دن شاید بارش کی وجہ سے ھی وہ گھر پر ھی موجود تھے انہوں نے میری کمر پر کچھ دوائی لگائی، ساتھ ایک انجیکشن لگایا اور کچھ گولیاں اور پاوڈر کی پڑیاں بھی دی-

    ڈاکٹر صاحب بہت اچھے تھے پیسے بھی نہیں لئے، میں نے ان سے کہا کہ آپ گھر پر مت بتائیے گا، انہون نے جواباً وعدہ کیا اور کچھ نصیحتیں بارش کے حوالے سے کیں کہ بارشوں میں باھر مت کھیلا کرو اور باغوں میں بھی مت جایا کرو کیونکہ اکثر بارشوں کے موسم میں باغوں میں خطرناک قسم کے سانپ اور بچھو وغیرہ بھی ھوتے ھیں، جس سے کچھ بھی نقصان ھوسکتا ھے، اور بعض وقت تو بھوت وغیرہ بھی چپک جاتے ھیں، اور انہوں نے بہت سے حوالے بھی دیے کہ فلاں لڑکا پاگل ھوگیا تھا اور فلاں لڑکے کو سانپ نے کاٹا تھا اگر وقت پر اسپتال نہیں جاتا تو بچ جاتا اور کسی کو بچھو نے کاٹ لیا تھا، ان کی نصیحتیں سن کر تو اور بھی ھم ڈر گئے، کمر کا بھیانک درد دو تین دن میں ٹھیک تو ھو گیا لیکن بعد میں باغ میں جانے کی ھمت ھی نہیں کی -

    کافی عرصہ بعد ایک دفعہ پھر دوسرے دوستوں کے اسرار پر ایسے ھی ایک بارش کے موسم میں پھر دماغ خراب ھوا، پہنچ گئے پھر اسی باغ میں لیکں بہت احتیاط کے ساتھ، ساتھ ڈر بھی لگ رہا تھا اور ڈاکٹر صاحب کی نصیحتیں بار بار کانوں میں گونج بھی رھی تھیں، میں نے دوستوں سے کہا بھی کہ یاد ھے کہ ڈاکٹر صاحب نے کیا کہا تھا لیکن دوستوں نے کہا ھمیں تو اتنا عرصہ ھوگیا آج تک تو کچھ نہیں ھوا کچھ نہیں ھوگا میں تو ڈر ڈر کے ان سب کے پیچھے خوفزدہ ھوکر چل رھا تھا، کچھ تو درختوں میں چڑھ گئے اور کچھ درختوں پر پتھروں کی بوچھاڑ کرکے اپنی قسمت آزمائی کررھے تھے،

    میں بس تماشائی بنا بس سب کے تماشے دیکھ رھا تھا اور یہ میں نے کہا بھی کہ بھئی واپس چلو دیر ھوگئی ھے، لیکن کوئی بھی ٹس سے مس نہیں ھورھا تھا، اچانک ایک دم کیا دیکھا کہ باغ کا مالی شور مچاتا ھوا آرھا تھا سارے لڑکے بھاگے ایک لڑکا اس مالی کے ھتے چڑھ گیا اور میں نے ڈر کے خاموشی سے ایک جھاڑی میں چھلانگ لگادی، جہاں میرا ھی استقبال کرنے کیلئے شہد کی مکھیوں کا ایک بہت بڑا جھنڈ موجود تھا، اور پھر کیا تماشا میرے ساتھ ھوا، چیخ بھی نہیں سکتا تھا اور ان شہد کی پیاری سویٹ مکھیوں سے جان بھی چھڑا نہیں سکتا تھا،

    میں تھا اور وہ سویٹ شہد کی مکھیاں تھیں، لگتا تھا کہ کیا لگتا تھا کچھ حوش ھوتا تو پتہ لگتا کہ کیا لگ رھا تھا،!!!!!!!!!!!!!!!!‌

    ساری شہد کی مکھیاں بار بار مجھ پر ھی حملہ کررھی تھیں، تکلیف کے مارے برا حال تھا سارے منہ پر ٹانگوں میں گردن پر جہاں جہاں انہیں موقع ملا اپنے سارے ڈنگ چبھو دئیے، میں شدید تکلیف کی وجہ سے بہت تڑپ رھا تھا بڑی مشکل سے چھپتا چھپاتا باھر نکلا، بارش بھی تھم چکی تھی، سیدھا گھر پہنچا اور راستے میں بھی کوئی دوست نطر نہیں آیا، سب شاید مالی کے ڈر سے گھروں میں دبک کر بیٹھ گئے تھے اور پتہ نہیں اس لڑکے کا کیا ھوا جو مالی کے قابو میں آگیا تھا،

    بہرحال مالی سے جان چھوٹی لاکھوں پائے، لوٹ کے بدھو گھر کو آئے، بدھو گھر تو آگئے، اب گھر میں کیاجواب دوں گا، یہ سوچ کر بہت پریشان تھا منہ پر ھاتھ نہیں لگا سکتا تھا، لگتا تھا کہ چہرے پر آبلے پڑ گئے ھیں،
    جیسے ھی گھر میں آئینہ میں اپنی شکل دیکھی تو رونا آگیا پورا چہرا سوج کر ایک عجیب سے ھی نقشہ میں تبدیل ھوگیا تھا، اب اسی تکلیف میں بستر میں گھس کر چادر اوڑھ لی، تاکہ کوئی نہ دیکھ سکے اور تڑپتا رھا آخر اماں نے سمجھ ھی لیا کہ دال میں کچھ کالا ھی ھے، فوراً انہوں نے چادر کھسکائی اور میرا چہرہ دیکھ کر وہ بھی تڑپ گئیں فوراً ھی محلے کے بڑی بوڑھی عورتوں کو بلایا اور انہوں نے پتہ نہیں اپنے کیا کیا دیسی ٹوٹکے استعمال کئے، اسی وقت والد صاحب بھی آگئے اور بہت تلملائے اور والدہ پر خامخواہ ھی غصہ ھوگئے، بہر حال رات گئے تک مجھے ان دیسی ٹوٹکوں سے آرام آھی گیا -!!!!!!!!

    لیکن اس دن کے بعد توبہ کرلی کہ اب کبھی بھی بارشوں میں باغات کی طرف نہیں جائیں گے،!!!! بس یہ تو بچپن کی ھی توبہ ھوتی ھے، پھر سب کچھ بھول جاتے ھیں،!!!!!!
     

اس صفحے کو مشتہر کریں