1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

سائنس اور ٹیکنالوجی

'جنرل سائنس' میں موضوعات آغاز کردہ از کنعان, ‏20 نومبر 2017۔

  1. کنعان
    آف لائن

    کنعان ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جولائی 2009
    پیغامات:
    729
    موصول پسندیدگیاں:
    977
    ملک کا جھنڈا:
    سائنس اور ٹیکنالوجی

    اس ملک خداداد پاکستان میں سائنس و ٹیکنالوجی حکمرانوں کی نگاہ میں ایک غیر اہم چیز ہے۔ مجھے یورپ سے آئے ہوئے 41 برس ہو گئےاس دوران میں نے صرف بھٹو صاحب، غلام اسحٰق خان صاحب کو ایسی شخصیات پایا جن کو سائنس و ٹیکنالوجی کی اہمیت کا احساس تھا۔

    جب میں نے بھٹو صاحب کو یورینیم کی افزودگی کا پروگرام شروع کرنے کا مشورہ دیا تو انھوں نے نہ ہی’عقل کل‘ بلائے اور نا ہی ان سے مشورہ کیا خود ہی اسکی افادیت کا احساس کر لیا اور کام شروع کرا دیا۔ اسی طرح جب اَٹھاسی کے اواخر میں، میں نے غلام اسحٰق خان کو ایک اعلیٰ انجینئرنگ وٹیکنالوجی انسٹی ٹیوٹ کا مشورہ دیا تو انھوں نے اس مشورے کو اس طرح قبول کیا جس طرح ایک بچہ خوشنما کھلونے پر جھپٹتا ہے۔ بدقسمتی ہے کہ موجودہ حکمراں چونکہ سائنس و ٹیکنالوجی سے نابلد ہیں اُنھیں یہ الفاظ برے لگتے ہیں۔ انھیں روزمرہ کی آسائشیں استعمال کرتے وقت کبھی یہ خیال نہیں آتا کہ یہ سب کچھ سائنس و ٹیکنالوجی کے کرشمے ہیں۔

    29 اکتوبر کے روزنامہ نیوز میں دو مضامین جناب وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور وزیر داخلہ جناب احسن اقبال صاحب کے پڑھ کر بہت افسوس ہوا۔ ایسے اعلیٰ عہدوں پر براجمان ہو کر اس قسم کی عقل و فہم کا مظاہرہ قوم اور ملک کی بد نصیبی ہے۔ دونوں نے ٹیکنوکریٹس کو بُرے الفاظ میں پیش کیا ہے۔ میں ان کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ نہ کسی ترقی یافتہ ملک میں اور نہ ہی اس مملکت خداداد پاکستان میں سائنسدان، ٹیکنالوجسٹ حکمرانی چاہتے ہیں۔ آپ کسی سے بھی دریافت کر لیں مجھے وزیر سائنس و ٹیکنالوجی کی پیشکش کی گئی تھی اور اصرار کیا گیا تھا مگر میں نے شکریہ کے ساتھ انکار کردیا تھا اور عزیز دوست پروفیسر ڈاکٹر عطاء الرحمن کا نام تجویز کر دیا تھا۔

    میں یہ بتانا بلکہ جتانا چاہتا ہوں کہ تمام ترقی یافتہ ممالک میں بہت کم ہی سیاست داں ٹینکوکریٹ ہوتے ہیں لیکن وہ عقلمند اور سمجھدار ہوتے ہیں اور وہ اہم فنّی پروجیکٹس کے لئے فنڈز اور سہولتیں فراہم کرتے ہیں اور سائنسدانوں اور ٹیکنوکریٹس اپنی صلاحیت دکھاتے ہیں اور ملک کی ترقی میں اہم رول ادا کرتے ہیں۔ میری حکمرانوں سے مؤدبانہ درخواست ہے کہ سائنسدانوں اور ٹیکنوکریٹس کو ملک کی ترقی کی اسکیموں میں شامل کریں اور ان کی صلاحیتوں سے استفادہ کریں یہ آپ کی صلاحیت پر منحصر ہے کہ آپ اچھے اور برے لوگوں میں تفریق کریں۔ وزیر اعظم ایک اچھی ایئرلائن چلا رہے ہیں اور ان کو یقیناً اچھی سمجھ بوجھ ہے ان کو چاہئے کہ سول سروس اسٹرکچر کو تبدیل کریں جو تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ میں اس میں ان کی مدد کر سکتا ہو اور صنعتوں کے قیام پر توجہ دیں کہ ملازمتیں پیدا ہوں اور بیروزگاری ختم ہو۔ اس میں بھی میں مدد کر سکتا ہوں۔ اعلیٰ ٹیکنیکل یونیورسٹی کے قیام میں بھی رہنمائی کر سکتا ہوں۔ میں نے غلام اسحق خان انسٹی ٹیوٹ بنایا تھا وہ جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ آج سے تقریباً 48 سال پہلے میں نے اعلیٰ فنّی تعلیم پر انگلستان کے ایک مشہور فنّی جرنل میں ایک تفصیلی آرٹیکل لکھا تھا جس کو بہت سراہا گیا تھا۔ اپنے 15 سالہ قیام یورپ میں میری توجہ وہاں کے نظام تعلیم اور اچھے نظام مملکت پر تھی اور KRL میں جو نظام رائج تھا وہ آج بھی مثالی مانا جاتا ہے۔

    دیکھئے تمہید میں ہی بات کہاں سے کہاں جا پہنچی۔ کہنا یہ چاہ رہا تھا کہ ہمارا ملک اس وقت بہت ہی نازک دور سے گزر رہا ہے اور بدقسمتی سے حکمراں طبقہ کے کان پر جوں نہیں رینگ رہی ، یہ وہی ضرب المثل والی بات ہے کہ روم جل رہا ہے اور نیرو بانسری بجا رہا ہے۔ مگر حکمرانوں کواپنا اقتدار ملک و قوم کے فوائد سے زیادہ عزیز ہے۔ میری بات یا مشورہ مان لینگے تو تباہ و برباد ہو جائینگے۔

    مغربی اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک میں ایک ہی چیز مشترک ہے، ایمانداری، محنت، تعلیم، سائنس اور ٹیکنالوجی میں مہارت۔ یہ وہی اصول ہیں جن کی تعلیم اسلام ہمیں دیتا ہے۔ کلام مجید میں سورۃ طہٰ آیت 114 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

    ’’دعا کرو کہ اے میرے پروردگار مجھے اور زیادہ علم دے‘‘

    اگرچہ یہ بہت ہی مختصر پیغام ہے مگر اس کی وسعت ہمارے قیاس سے کہیں زیادہ ہے اور قرآن کی علم و تعلیم پر احاطہ کی وسعت ظاہر کرتا ہے اور ہمارے پیارے نبیؐ نے خود فرمایا ہے کہ اے رب العزّت مجھے تمام چیزوں کا مکمل علم عطا فرما۔ یہاں علم کا مطلب صرف معلومات نہیں ہے بلکہ دنیا کی مادی حیثیت کی حقیقت و سچائی کو بھی جاننا ہے۔ دنیا میں اس وقت جس قدر معلومات ہیں ان کے پیچھے ہزاروں لوگوں کی محنت و مشقت، جستجو ہے۔ لاتعداد سائنسدان، انجینئر (حقیقی معنوں میں) گمنام رہ کر خالق حقیقی سے جاملے۔ عصر جدید میں آپ کو انسان کی سخت جستجو، محنت نظر آتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرے۔

    ارسطو نے کہا تھا کہ ’’تمام بنی نوع انسان کی قدرتی فطرت ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ جاننے کی کوشش کرے‘‘۔

    اور ہمارے پیارے نبی ؐ نے فرمایا کہ’’ تم کو اگر علم حاصل کرنے کے لئے چین
    (یعنی دور دراز ملک) بھی جانا پڑے تو جائو‘‘۔

    اس پیغام میں رسول اللہ ؐ نے یہ بتانے اور سمجھانے کی کوشش کی کہ تعلیم و علم کے حصول میں نہ تو لِسّانی اور نہ ہی مذہبی اور نہ ہی ثقافتی رکاوٹوں کی گنجائش رکھی گئی ہے۔ اس کا مطلب صاف ظاہر ہے کہ علم و تعلیم اور چیزوں کو جاننے اور سمجھنے کا علم اسلام کا اہم اور ناقابل علیحدگی جز ہے۔

    جب مسلمان اپنے عروج پر تھے اس وقت بھی انھوں نے بیت الحکمہ جات اور نعیمیاز قائم کئے تھے اور یہاں پر اعلیٰ تعلیم دی جاتی تھی۔ اس وقت ستارے اور فلک بینی تجربہ گاہیں قائم کیں اور اعلیٰ ریسرچ اسکالرز جمع کئے تھے ان میں فلسفی، سائنٹسٹ، اور انجینئرز وغیرہ پوری دنیا سے جمع کئے گئے تھے۔ اس زمانہ کے چند معروف نام آپ کی خدمت میں پیش ہیں۔

    الفارابی، ابن سینا، ابن رُشد، خوارزمی، راضی، مسعودی، وفا، البیرونی، طوسی، نصیرالدین، ابن نفیس، ابن باجہ، ابن طفیل، الکندی وغیرہ نے تاریخ میں اپنے نام اور شاندار کام چھوڑے ہیں ۔ اس وقت پورے یورپ میں ان کی دھوم تھی اور ان کے کاموں کی تقلید کی جاتی تھی اور آج بھی ان کے کاموں کا ریکارڈ موجود ہے۔

    مسلمان ساتویں صدی عیسوی سے گیارویں صدی عیسوی تک عروج پر تھے اس کے بعد ان کی تمام توجہ محلات اورباغات پر مبذول ہو گئی اور نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ آہستہ آہستہ ہم نے اسپین، مشرق وسطیٰ، سینٹرل ایشیا، مشرق بعید، افریقہ سب حکومتیں کھو دیں۔ اسپین میں الحمرا محل آج بھی عجوبہ ہے اور دنیا کا سب سے زیادہ سیاحوں کی آمد کا مرکز ہے۔ عجوبہ تو قائم ہے مگر عجوبہ پیدا کرنے والے ذلیل و خوار اور شکست خوردہ ہو کر گمنام ہو گئے۔

    سورۃ جاثیہ، آیت 13 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔

    ’’(اے محمدؐ!) مومنوں سے کہدو جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب کو اپنے حکم سے تمھارے کام میں لگا دیا ہے جو لوگ غور و خوض کرتے ہیں ان کے لئے اس میں قدرت کی نشانیاں ہیں‘‘۔

    اتنے اعلیٰ ماضی اور ورثے کے وارث ہونے کے باوجود مسلمان آجکل انتہائی پسماندگی کا شکار ہیں۔ ہم ہر ٹیکنالوجی، سائنس، علم کے لئے مغرب، جاپان، چین کے محتاج ہیں۔ ہم روزمرّہ کی معمولی سے معمولی چیز نہیں بنا سکتے۔ ہم ذرا اپنی حالت زار پر غور کریں۔ ہم ایٹمی اور میزائل قوت ہیں مگر قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں، ہماری درآمدات ہماری برآمدات کے 50 فیصد سے بھی کم ہیں۔ ایک زرعی ملک ہو کر ہم ٹماٹر، پیاز، لہسن، ادرک درآمد کر رہے ہیں۔ یہ ہمارے لئے
    (بلکہ ہمارے حکمرانوں کے لئے بھی) قابل مذمت اور قابل شرم مقام ہے۔

    آج کل مغرب، جاپان اور چین ترقی کی رفتار اور سمت طے کررہے ہیں اور ہم یعنی ہمارے حکمراں ہر وقت اس کوشش میں رہتے ہیں کہ وہ کونسی اشیاء ہیں جن کی خریداری میں آمدنی کے امکانات زیادہ ہیں۔ خاص طور پر ہتھیاروں کی خریداری پر اربوں ڈالر خرچ ہوتے ہیں گویا یہ حالت جنگ میں ہیں اور چند سال بعد وہ ہتھیار فرسودہ ہو جاتے ہیں تو نئے خریدنے میں مہارت قابل دید ہے۔ میں نے ابھی ذکر کیا تھا کہ ہم اتنے نااہل ہیں کہ زرعی ملک ہو کر ہم ٹماٹر، پیاز، لہسن، ادرک منگواتے ہیں۔ اس سے بھی بڑی برائی جس سے عوام واقف نہیں ہیں وہ یہ ہے کہ ہم اربوں روپیہ کی دالیں درآمد کرتے ہیں۔آپ زرا ان نااہل اور حکمرانوں کو دیکھئے کہ صبح سے شام تک ڈینگیں مارتے ہیں کہ جیسے اس پسماندہ ملک کو ٹاپ ٹین میں لاکھڑا کیا ہے۔ قرض لے لے کر قوم کو تباہ کردیا ہے اور ملک کو بیچ دیا ہے۔

    آج سے 40 سال پیشتر چین ہمارے مقابلے میں بے حد غریب تھا آج وہ دنیا کی دوسری بڑی معاشی طاقت ہے وجہ تعلیم، سائنس، ٹیکنالوجی میں ترقی، ایمانداری، سخت محنت، رشوت خوری اور جرائم کا خاتمہ ہے۔ ہمارے یہاں بدعنوانوں کی بھرمار ہے۔ ان خراب حالات کے ہم خود ذمّہ دار ہیں دوسروں کو الزام دینا غلط ہے۔

    (جاری ہے)


    ڈاکٹر عبدالقدیر خان
    NOVEMBER 13, 2017 | 12:00 AM
     
    Last edited: ‏20 نومبر 2017
    زنیرہ عقیل نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. کنعان
    آف لائن

    کنعان ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جولائی 2009
    پیغامات:
    729
    موصول پسندیدگیاں:
    977
    ملک کا جھنڈا:
    سائنس اور ٹیکنالوجی
    (گزشتہ سے پیوستہ)

    پچھلے کالم میں اس موضوع پر کچھ روشنی ڈالی تھی۔ آج وہیں سے شروع کرتے ہیں جہاں پچھلا کالم ختم کیا تھا۔

    سب سے پہلے تو یہ جاننا ضروری ہے کہ معاشی ترقی کم ترقی یافتہ یا پسماندہ ممالک کے پاس سے گزر گئی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ مغربی ممالک نے ان ممالک پر پابندی عائد کردی تھی کہ وہ صرف ضروریات زندگی کی اشیا ہی تیار کرسکیں گے۔ چونکہ عام روز کے استعمال کی اشیا کی مارکیٹ بدلتی رہتی ہے اس لئے مغربی ممالک کے لئے یہ بہت آسان تھا کہ وہ بین الاقوامی طریقہ کار رائج کرکے اور کوٹا مقرر کرکے تجارت کا توازن ہمیشہ اپنے حق میں قائم رکھتے رہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک ہی وقت میں پسماندہ ممالک مناسب فنڈز پیدا نہ کرسکے کہ صنعتیں قائم کرتے اور نہ ہی وہ مغربی ممالک کے مقابلہ کی ٹیکنالوجی بنا سکے۔ یہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مغربی ممالک نے کیا تھا کہ اس طرح پسماندہ ممالک ان کے مقابلہ میں ترقی نہ کرسکیں۔

    نتیجہ یہ نکلا کہ اسلامی ممالک کامکمل طور پر مغربی ممالک کی فنّی مدد اور ہتھیاروں کی درآمد پر مجبوراً انحصار ہو گیا اور نتیجہ یہ نکلا کہ ان ممالک کی شکستہ، ٹوٹی پھوٹی معیشت کا مزید جنازہ نکل گیا۔ ان ممالک میں جہاں قدرتی وسائل تھے مثلاً عرب ممالک میں تیل کی کثیر دولت تھی، حکمرانوں نے مغربی سامراج کی غلامی اور دبائو قبول کرکے ناہی تعلیم اور نا ہی ٹیکنالوجی کو فروغ دیا۔

    اسی طرح آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک نے جس طرح ترقی پذیر ممالک کو قرض اور سود میں جکڑا اس نے ترقی پذیر ممالک کی ترقی کے تمام راستے بند یا محدود کر دیئے۔

    اگرچہ مسلم ممالک دنیا کا سب سے زیادہ تیل پیدا کرتے ہیں اور تقریباً آدھی گیس ، تین چوتھائی ربر اور تین چوتھائی جوٹ پیدا کرتے ہیں پھر بھی 50 فیصد تجارتی حجم کے باوجود ان تمام اسلامی ممالک کی جی این پی چھوٹے سے یورپی ملک فرانس سے بھی کم ہے۔ یہ اعداد و شمار اس حقیقت کی عکّاسی کرتے ہیں کہ اسلامی دنیا نے کبھی تعلیم، سائنس و ٹیکنالوجی کو اہم نہیں سمجھا اور اسی وجہ سے اپنی خام اشیا کو تیار شدہ اشیا میں بدلنے میں ناکام رہے اور خام اشیا مغربی دنیا کو کوڑیوں کے دام فروخت کرتے رہے۔

    تعلیم کی صحیح سرکاری سرپرستی کا فقدان ہمارے ملک میں اسی پسماندگی کی وجہ ہے۔ تعلیمی نظام ناقص اور سائنس و ٹیکنالوجی کا استعمال ناپید ہے۔

    دعوے کرنے کے باوجود ہمارا اعلیٰ تعلیمی نظام فرسودہ ہے۔

    ہم اگر مقابلہ کریں تو ترقی یافتہ ممالک کے مقابلہ میں ہمارے ملک میں سائنسدانوں اور انجینئروں کی تعداد نا ہونے کے برابر ہے۔ سوائے افغانستان کے ہمارے سب پڑوسی ممالک ہم سے بہتر ہیں۔ یہ نااہلی ریسرچ آرٹیکل اور کتابوں کی شائع شدہ تعداد کی کمی سے بھی عیاں ہے۔

    ہمارے مقابلہ میں ہندوستان اور اسرائیل بھی بہت آگے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ سامراجی نظام نے ہماری ترقی کی راہیں بند کر دیں مگر تقریباً ساٹھ ستر سال بعد ِ آزادی ہم تمام الزام مغربی سامراجی قوتوں پر نہیں ڈال سکتے۔

    چین ہمارے بعد آزاد ہوا تھا اور آج ہم اس کے مقابلہ میں پسماندہ ملک نظر آتے ہیں۔ ہماری پہنچ آسانی سے مغربی ٹیکنالوجی تک تھی اور ہے اور چین کے اوپر مغرب نے ہر قسم کی پابندیاں لگا دی تھیں مگر اس باہمت قوم کو دیکھیں 60 سال میں کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔

    ہم ڈینگیں مارتے ہیں اور ہمارے شہروں میں غلاظت کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ ذرا شہباز شریف کا حلقہ انتخاب جا کر دیکھ لیں، پورے ملک کے اسکول اور اسپتال دیکھ لیں شرم آتی ہے۔ مسلمان ممالک میں صرف ترکی اور ملیشیا نے بہترین کارکردگی دکھائی ہے وجہ صاف ظاہر ہے ان کے لیڈرایماندار، محنتی، دوراندیش اور تعلیم، سائنس اور ٹیکنالوجی کے فوائد سے پوری طرح واقف ہیں۔

    ملک کی ترقی کے لئے نہ صرف تعلیم، سائنس و ٹیکنالوجی میں ترقی ضروری ہے بلکہ اس کے ساتھ قوم کا کردار و اخلاق سُدھارنے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ اس ملک میں جھوٹ، رشوت ستانی، ملاوٹ، بے ایمانی سرکاری پالیسی بن چکی ہے قوم کو لیڈروں پر قطعی بھروسہ نہیں۔ بدقسمتی سے بعض مذہبی جماعتوں نے اسلام کے بجائے اسلام آباد کو اپنی منزل بنا لیا ہے۔

    میں نے کئی ملاقاتوں میں مرحوم عزیز دوست قاضی حسین احمد صاحب سے اس موضوع پر شکایت کی تھی کہ جماعت اسلامی نے قوم کے ساتھ بہت ظلم کیا کہ بجائے کردار و اخلاق کی اصلاح و بہتری کے اُنھوں نے سیاست کو اپنا لیا اور اس طرح قوم ملاوٹ، رشوت ستانی، جھوٹ، بدکرداری اور غیراخلاقی حرکات کا شکار ہو گئی اور اس نے ان بداعمالیوں کو بُرا نہیں سمجھا اور سب ایک جیسے ہو گئے ۔

    میری تو اب بھی ان جماعتوں سے مودبانہ درخواست ہے کہ سیاست سیاست دانوں پر چھوڑیں قوم کے کردار اور اخلاق کی اصلاح کریں۔

    اگر قوم ٹھیک ہو گئی تو حکمرانوں کی مجال نہیں کہ کسی قسم کی بداعمالی کریں۔ میں شاید دن میں چاند کی روشنی کی خواہش کر رہا ہوں لیکن خواہشات اور خواب ہی قوموں کی تقدیر بدلتے ہیں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ تعلیم، سائنس، ٹیکنالوجی میں ترقی اور مہارت کے لئے قوم کے کردار اور اخلاق کو سنوارنا بے حد ضروری ہے۔ ہم شرح تعلیم تو بڑھا سکتے ہیں مگر یہ گارنٹی نہیں ہے کہ اس سے ملک ترقی یافتہ ہو جائے۔ دنیا میں کئی ممالک میں شرح خواندگی بہت زیادہ ہے مگر پھر بھی وہ پسماندہ ہیں۔

    سائنس و ٹیکنالوجی میں ترقی کے ساتھ یہ بے حد ضروری ہے کہ اس کا معیار بھی اعلیٰ ہو۔ میں ایک مرتبہ چین میں ایک بڑے کارخانے میں گیا اس میں کئی درجن مشینیں کام کر رہی تھیں۔ انچارچ نے حسب چینی عادت مجھ سے درخواست کی کہ کچھ تنقید کیجئے۔

    میں ہال میں ان کو دو مشینوں کے پاس لے گیا جو جاپانی تھیں۔ بے حد اچھی فنش، اعلیٰ رنگ۔ میں نے کہا کہ آپ کی تمام مشینیں ٹھیک کام کر رہی ہیں مگر ان مشینوں اور جاپانی مشینوں میں فرق دیکھئے یہ اسی طرح ہے کہ ایک بغیر میک اپ کے خاتون اور ایک میک اپ کے ساتھ۔ میں نے مشورہ دیا کہ آپ اپنے بہت سے انجینئروں کو جاپان اور جرمنی بھیج دیں تاکہ وہاں دیکھیں کہ کوالٹی کو کس طرح اعلیٰ بنایا جا سکتا ہے۔ خدا جانے اس کا اثر ہوا یا نہیں مگر آج چین کی تیارکردہ مشینیں کسی بھی طرح جاپان اور جرمنی کی مشینوں سے کم نظر نہیں آتیں۔ ہندوستان نے اس میں کافی ترقی کی ہے اور اپنے سائنسدانوں اور انجینئروں کو اچھی سہولتیں دی ہیں۔ 1976 میں جب میں چین گیا تو انجینئر کی تنخواہ 50 یوآن یعنی 5 ڈالر تھی، گھر، بجلی، پانی، مفت اور غذا بھی بہت سستی۔ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے چند سال میں انجینئروں کی تنخواہ تین ہزار یوآن ہوگئی تھی۔ اب تو اندازاً دس ہزار ہوگی۔

    فنڈز کی بہتات کے ہوتے ہوئے بھی کئی اسلامی ممالک ترقی کی راہ میں بہت پیچھے ہیں۔ بڑی بڑی عمارتیں، اعلیٰ سڑکیں اور ہوٹل تو بن گئے ہیں مگر صحیح معنوں میں نہ ہی اعلیٰ یونیورسٹیاں اور نہ ہی اعلیٰ فنّی ادارے بنے ہیں۔ یہ لوگ صرف مغربی ممالک کو خوش کرنے کے لئے ہر سال اربوں ڈالر کے ہتھیار خریدتے ہیں جو چند برسوں میں فرسودہ اور بیکار ہو جاتے ہیں۔

    ہماری ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ اعلیٰ سائنٹفک اور ٹیکنیکل ریسرچ میں ہمارے لوگوں کی پہنچ بہت محدود ہے جہاں اُنھیں موقع ملا انھوں نے اپنی کارکردگی سے خراج تحسین حاصل کیا۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ چین کی طرح جب تک ہم اعلیٰ ریسرچ ادارے قائم نہ کرینگے اور اچھے اساتذہ اور اچھے فنڈز مہیا نہ کرینگے ہم ڈینگیں اور بڑ مارنے والے پسماندہ ملک ہی رہیں گے۔ ہمارے حکمرانوں نے جب بھی دوربینی کا مظاہرہ کیا اور فنڈز مہیا کئے اور اہل لوگوں کو سربراہی دی تو انھوں نے معجزات دکھا دیئے۔ بدقسمتی سے اب نہ ہی حکمراں دوربین ہیں اور نہ ہی وہ فنڈز دیتے ہیں۔ ملک دن بدن پیچھے جاتا جا رہا ہے۔ ایک برطانوی ؍امریکن ماہر ریاضی اور فلسفی پروفیسر الفریڈ نارتھ وائٹ ہیڈ نے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے یہ اہم پیشگوئی 100 سال پہلے کی تھی وہ آج بھی اسی طرح سچ ہے ۔

    انھوں نے کہا تھا کہ ’’موجودہ دور کے جدید اور ترقی یافتہ طرز زندگی میں یہ قانون حرف آخر ہے کہ وہ قوم جو اپنے ذہین لوگوں کی قدر نہیں کرتی وہ ذلیل و خوار و تباہ ہوگی۔ اس قوم کی تمام بہادری، تمام سوشل دلکشی و جادوگری، تمام عقلمندی اور تمام بحری اور زمینی فتوحات تاریخ کو ایک قدم پیچھے ہٹا سکیں گی۔آ ج ہم اپنا اچھا طرز زندگی قائم کئے ہوئے ہیں لیکن کل سائنس ایک اور قدم آگے بڑھ جائے گی اور پھر آپ کی کوئی سنوائی نہیں ہو گی اس فیصلہ کیخلاف جو جاہلوں، کم عقلوں کے خلاف سنایا جائیگا‘‘۔

    لیکن ہم مسلمانوں کیلئے حکم اِلٰہی بہت صاف اور غیرمبہم ہے۔

    سورۃ الرعد، آیت 13 میں، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

    ’’اللہ ربّ العزت کسی قوم کی حالت جس میں وہ ہے اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود
    (محنت، علم، عقل فہم سے) اپنی حالت کو نا بدلے۔ اور جب اللہ کسی قوم کو تباہ و ذلیل و خوار کرنا چاہتا ہے تو پھر وہ پھِر نہیں سکتی اور اللہ کے سوا اس کا کوئی مددگار نہیں ہوتا‘‘۔

    [​IMG]
    ڈاکٹر عبدالقدیر خان
    NOVEMBER 20, 2017 | 12:00 AM
     
    زنیرہ عقیل نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں