زندگی کیا ہے اور اس کی حقییقت کیا ہے اللہ پاک نے زمین پر زندگی دی ہوسکتا ہے کسی اور سیارے یا کسی کونے میں بھی زندگی کا وجود ہے بھی یا نہیں لیکن یہاں جو زندگی ہے اس کی حقیقت تو ہے ہی ہے اور تو اور زندگی کیا ہے اس کو کیسے گزارا سنوارا جائے- دیکھا جائے اگر زندگی کو سلیقہ سے نہ گزارجائے تو ہماری مثال اس باغ کی مانند ہے جو کہ بناء مالی کے ہوتا ہے - زندگی قائم ہوئی ہے اور اس کے ساتھ رشتہ داریاں ماں ،باپ ، بہن ، بھائی اور دیگر رشتہ داریاں ماموں ۔ خالہ۔ پھوپھی چاچا وغیرہ وغیرہ یہ سب ان کے درمیاں اور بھی رشتہ قائم ہیں ان سب کو لے کر ساتھ چلنا ہے لیکن بعض اوقات ایسے حالات قائم ہوجاتے ہیں کہ کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی دراڑ پر ہی جاتی ہے اور ہم منہ دیکتھے رہ جاتے ہیں ۔۔۔۔۔ اس میں سب سے نازک رشتہ ساس اور بہو کا ہے اگر اس میں ایک بار بھی دراڑ پرگئی تو تمام رشتہ داریاں خطرہ میں پرجاتیں ہیں ۔ ان سب کوساتھ لے کر چلنا بہت ہی کٹھن ہے لیکن اگر آپ چاہو تو زندگی کو پرسکون لے کر چلنا ہے تو عقلمندی کا تقاضا ہے کہ ان رشتہ کو نبھانے میں ہی عافیت ہے اگر یہ ممکن نہیں ہے تو خاموشی کے ساتھ اپنا الگ مسکن قائم کرلیا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ زندگی میں کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی موڑ پر امن قائم ہوہی جاتا ہے یہ زندگی کا اصول ہے سب راستے بند نہیں کرنے چاہئے یہ میرا اپنا ذتی تجربہ ہے ۔ __________________
رشتے داروں کے ہم پر بہت زیادہ حقوق ہیں درج ذیل حدیث سے اندازہ لگا سکتے ہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! حسن سلوک (اچھے برتاؤ) کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہاری ماں“، پھر پوچھا: اس کے بعد کون؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہاری ماں“، پھر پوچھا اس کے بعد کون؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارا باپ“، پھر پوچھا: اس کے بعد کون حسن سلوک (اچھے برتاؤ) کا سب سے زیادہ مستحق ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر جو ان کے بعد تمہارے زیادہ قریبی رشتے دار ہوں، پھر اس کے بعد جو قریبی ہوں“۔ تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۱۴۹۲۰، ومصباح الزجاجة: ۱۲۷۰)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الأدب ۲ (۵۹۷۱ تعلیقاً)، صحیح مسلم/البر والصلة ۱ (۲۵۴۸)، مسند احمد (۲/۳۹۱) (صحیح)