زندگی اس طرح سے لگنے لگی رنگ اڑ جائے جو دیواروں سے اب چھپانے کو اپنا کچھ نہ رہا زخم دکھنے لگے دراڑوں سے اب تلک صرف تجھ کو دیکھا تھا آج تو کیا ہے یہ بھی جان لیا آج جب غور سے تجھے دیکھا ہم غلط تھے کہیں یہ مان لیا تیری ہر بھول میں کہیں شائد ہم بھی شامل ہیں گنہگاروں سے اب چھپانے کو اپنا کچھ نہ رہا زخم دکھنے لگے دراروں سے آ میرے ساتھ مل کے غم پھر سے اپنی خوابوں کا گھر بناتے ہیں جو بھی بکھرا ہے وہ سمیٹتے ہیں ڈھونڈ کر پھر خوشی کو لاتے ہیں بوجھ تو زندگی کا کٹتا ہے ایک دوجے کے ہی سہاروں سے زندگی اس طرح سے لگنے لگی رنگ اڑ جائے جو دیواروں سے
تمھیں مجھ سے محبت ہے! میرے غم ڈھیر سارے ہیں تمھیں خوشیوں کی خواہش ہے میرے شانوں سے لپٹی ہے اندھیری رات کی چادر تمھیں لیکن میری جاناں ستارے اچھے لگتے ہیں میری راہوں میں دیکھو گے تو تا حد نظر کانٹے ہی کانٹے ہونگے میں اک ویران رستہ ہوں تمھیں تو خوشبوؤں،رنگوں،گلابوں کی تمنا ہے میں اک جلتا ہوا سورج،میں اک تپتا ہوا صحرا مگر تم پیار کا دریا،محبت کا حسیں لمحہ میں اک ٹوٹا ہوا تارا، میں اک ہارا ہوا شاعر میرے جو خواب ہیں جاناں وہ سارے درد والے ہیں تمھیں ہنستی ہنساتی زندگی کی جستجو ہر پل مگر اک بات ہے جاناں! اک ایسی بات جو ہم دونوں میں مشترک ہے جاناں! مجھے تم سے محبت ہے! تمھیں مجھ سے محبت ہے! نوید اکبر
زندگی اس طرح سے لگنے لگی رنگ اڑ جائے جو دیواروں سے اب چھپانے کو اپنا کچھ نہ رہا زخم دکھنے لگے دراروں سے میں تیرے جسم کی ہوں پرچھائیں مجھ کو کیسے رکھو گے خود سے جدا بھول کرنا تومیری فطرت ہے کیونکہ انساں ہوں میں نہیں ہوں خدا مجھ کو ہے اپنی ہر خطا منظور بھول ہو جاتی ہے انسانوں سے اب چھپانے کو اپنا کچھ نہ رہا زخم دکھنے لگے دراروں سے جب کبھی شام کے اندھیروں میں راہ پنچھی جو بھول جاتے ہیں وہ صبح ہوتے ہی میلوں چل کر اپنی شاخوں پہ لوٹ آتے ہیں کچھ ہمارے بھی ساتھ ایسا ہوا ہم یہی کہہ رہے اشاروں سے زندگی اس طرح سے لگنے لگی رنگ اڑ جائے جو دیواروں سے