1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

زندگی کا ایک سبق

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏19 ستمبر 2019۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    زندگی کا ایک سبق
    [​IMG]
    بینش جمیل

    بہت مدت پہلے کسی دوردراز ملک میں ایک اصول تھا کہ اُس ملک کے لوگ ہر سال اپنا بادشاہ تبدیل کرتے تھے۔ جو بھی شخص بادشاہ بنتا وہ ایک عہد نامے پر دستخط کرتا کہ اُس کی حکومت کا ایک سال مکمل ہونے کے بعد وہ اس عُہدے سے دستبردار ہو جائے گا اور اُسے ایک دور دراز جزیرے پر چھوڑدیا جائے گا جہاں سے وہ کبھی واپس نہیں آسکے گا۔ جب ایک بادشاہ کا ایک سالہ دورِحکومت مکمل ہو جاتا تو اُسے ایک مخصوص جزیرے پر چھوڑ دیا جاتا جہاں وہ اپنی بقیہ زندگی گزارتا۔ اس موقع پر اُس بادشاہ کو بہترین لباس پہنایا جاتا اور ہاتھی پر بِٹھا کر اُسے پورے ملک کا الوداعی سفر کروایا جاتا جہاں وہ سب لوگوں کو آخری بار خیرباد کہتا۔ وہ بہت ہی افسوسناک اور غمزدہ لمحات ہوتے اور پھر وہاں کے لوگ بادشاہ کو اُس جزیرے پر ہمیشہ کیلئے چھوڑآتے۔ ایک مرتبہ لوگ اپنے پُرانے بادشاہ کو جزیرے پر چھوڑ کرواپس آرہے تھے کہ اُنہوں نے ایک ایسا سمندری جہاز دیکھا جو کچھ دیر پہلے ہی تباہ ہوا تھا اور ایک نوجوان آدمی نے خود کو بچانے کیلئے لکڑی کے ایک تختے کا سہارا لے رکھا تھا۔ چونکہ اُن لوگوں کو ایک نئے بادشاہ کی بھی تلاش تھی، لہٰذ اُنہوں نے اُس نوجوان شخص کو اُٹھا لیا اور اپنے ملک لے گئے اور اُس سے ایک سال حکومت کرنے کی درخواست کی۔ پہلے تووہ نوجوان نہ مانا لیکن پھر وہ ایک سال کیلئے بادشاہ بننے پر رضامند ہو گیا۔ وہاں کے لوگوں نے اُسے بادشاہت کے تمام اُصول اور طریقے سمجھا دئیے اور یہ بھی بتایا کہ ایک سال کے بعد وہ اُسے فلاں مخصوص جزیرے پر چھوڑ آئیں گے۔ بادشاہت کے تیسرے دن ہی اُس نوجوان بادشاہ نے اپنے وزیر سے کہا کہ مجھے وہ جگہ دِکھائی جائے جہاں گزشتہ تمام بادشاہوں کو بھیجا گیا تھا۔ نئے بادشاہ کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے اُسے وہ جزیرہ دکھانے کا اہتمام کیا گیا۔ وہ جزیرہ مکمل طور پر جنگل تھا اور جنگلی جانوروں سے بھرا ہوا تھا۔ اُن جانوروں کی آوازیں جزیرے کے باہر تک سُنائی دے رہی تھیں۔ بادشاہ جائزہ لینے کیلئے تھوڑا سا جنگل کے اندرگیا اور وہاں اُس کو پچھلے تمام بادشاہوں کے ُمردہ جسم اور ڈھانچے پڑے نظر آئے۔ وہ سمجھ گیا کہ بہت جلد اُس کا بھی یہی حال ہو گا اور جنگلی جانور اُس کو چیر پھاڑ کر کھا جائیں گے۔ ملک واپس پہنچ کر بادشاہ نے مضبوط و توانا جسم کے سو مزدور اکھٹے کئے، اُن سب کو اُس جزیرے پر لے گیا اور حکم دیا کہ جنگل کو ایک ماہ میں مکمل طور پر صاف کر دیا جائے، تمام خطرناک جانوروں کو مار دیا جائے اور سب فالتو درخت کاٹ دیے جائیں۔ وہ ہر ماہ خود جزیرے کا دورہ کرتا اور کام کی نگرانی کرتا۔ پہلے مہینے میں ہی تمام جنگلی اور خطرناک جانوروں کو جزیرے سے نکال کر مار دیا گیا اور پھر بہت سے درخت بھی کاٹ دئیے گئے۔ دوسرے ماہ تک جزیرہ مکمل طور پر صاف ہو چکا تھا۔ اب بادشاہ نے مزدوروں کو حکم دیا کہ جزیرے پر مختلف مقامات پر خوبصورت باغات تعمیر کئے جائیں۔ گزرتے مہینوں کے ساتھ ساتھ وہ جزیرہ ایک خوبصورت شہر میں بدلتا جا رہا تھا۔ وہ نوجوان بادشاہ بہت سادہ لباس زیب تن کرتا اور اپنی ذات پر بہت کم خرچ کرتا۔ اپنی بادشاہت کی زیادہ تر کمائی وہ جزیرے کو بنانے میں لگاتا رہا۔ بالآخر بادشاہت کا ایک سال ختم ہو گیا۔ حسبِ روایت وہاں کے لوگوں نے اپنے بادشاہ کو شاندار لباس پہنایا اور ہاتھی پر بٹھایا تا کہ وہ اپنی رعایا کو خیرباد کہہ سکے۔ خلافِ توقع یہ بادشاہ اپنی الوداعی تقریب پر بہت ہی خوش تھا۔ لوگوں نے اُس سے پوچھا کہ ’’اِس موقع پر تمام گزشتہ بادشاہ تو رو رہے ہوتے تھے لیکن آپ ہنس رہے ہیں۔ آپ کے اس قدر خوش ہونے کی وجہ کیا ہے ؟‘‘ اُس نوجوان بادشاہ نے جواب دیا: ’’تم لوگوں نے دانائوں کا وہ قول نہیں سُنا ہوگاکہ جب تم ایک چھوٹے بچے کی صورت میں اس دُنیا میں آتے ہو تو تم رو رہے ہوتے ہو اور باقی سب ہنس رہے ہوتے ہیں۔ ایسی زندگی جیو کہ جب تم مرو تو تم ہنس رہے ہو اور باقی دُنیا رو رہی ہو، میں نے ایسی ہی زندگی گزاری ہے۔ جس وقت تمام بادشاہ محل کی رنگینیوں میں کھوئے ہوئے ہوتے تھے تو میں نے اُس وقت اپنے مستقبل کے بارے میں سوچا اور اُس کے لئے لائحہ عمل تیار کیا۔ میں نے اُس جزیرے کو ایک خوبصورت رہائش گاہ میں تبدیل کر دیا ہے جہاں اب میں اپنی باقی زندگی نہایت چین، آرام و سکون سے گزار سکوں گا‘‘۔ اس کہانی سے یہ سبق ملتا ہے کہ ہم اپنی یہ چند روزہ دُنیاوی زندگی کیسے گزارتے ہیں۔ اس دُنیا کی زندگی دراصل آنے والی اخروی زندگی کی تیاری ہے۔ اس زندگی میں ہمیں روشنیوں اور پُرکشش اشیا کے پیچھے بھاگنے کی بجائے اگلی زندگی پر دھیان دینا چاہیے۔ ہم اپنی زندگی کے مختار کل بادشاہ ہیں، اس کے ساتھ جو اچھا بُرا چاہیں ہم کر سکتے ہیں۔ ہم چاہیں تو غفلت اور عیش و عشرت میں اس کو گزاریں اور چاہیں تو اسے اپنی آنے والی زندگی کے لئے سنبھال کر رکھیں۔ (کتاب ’’زندگی کے انمول موتی ‘‘سے منقبس)

     

اس صفحے کو مشتہر کریں