1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ریت کے ذرے ہیں

'آپ کے مضامین' میں موضوعات آغاز کردہ از محبوب خان, ‏3 ستمبر 2012۔

  1. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    ریت کے ذرے بے شمار ہوتے ہیں اور ان میں کچھ یادیں اور بس باتیں بس جاتی ہیں۔رہ جاتی ہیں۔۔۔اور ہمہ وقت ایک ہالا سا بنا کر بقعہ نور بنا کے مانند کہکشاں بس کچھ بس کچھ پنہا ہے کی صورت ضوفشانی بکھیرتے رہتے ہیں۔

    زندگی ریت کے ذرّات کی گِنتی تھی ندیم
    کیا ستم ہے! کہ عدم وہی صحرا نِکلا

    بس زندگی کے صحرا میں کئی ٹیلے بنتے اور بگڑتے رہتے ہیں۔۔۔۔۔۔اور ان ٹیلوں‌کا بننا، بگڑنا اور پھر نئے سرے سے بننا ہی صحرا کی زندگی ہے۔۔۔۔۔۔۔اور ریت کے یہی ذرے ہم ایسے لوگوں کی زندگی کے اوراق ہیں۔۔۔۔جس کے ہر صفحے پر ہر روز نیا کچھ لکھا گیا اور لکھا جارہا ہے۔۔۔۔۔کوشش ہوگی کہ اس لڑی میں‌ حرف و لفظ کی مدد سے کچھ ٹیلے بنا کے آپ کے سامنے پیش کیے جائیں کہ زندگی کی صحراؤں میں بہت کچھ ہے لیکن یہ بھی بس کچھ کچھ ہے۔
     
    واصف حسین, غوری, نعیم اور مزید ایک رکن نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ریت کے ذرے ہیں

    بہت خوب جناب ، انتظار رہے گا
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام ممبر

    شمولیت:
    ‏14 اپریل 2012
    پیغامات:
    33,894
    موصول پسندیدگیاں:
    64
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ریت کے ذرے ہیں

    لیکن لمبا انتظار نا ہو
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ریت کے ذرے ہیں

    بہت بہت بچپن کی بات ہے۔۔۔۔۔۔۔یہاں تک ہم بھی بڑی مشکلوں سے ان گزرے دنوں‌کو یاد کرنے کی کوشش میں‌پسینہ پسینہ ہوجاتے ہیں۔۔۔۔۔مگر کیا کریں کہ یاد پڑتا ہے اور خوب۔۔۔۔۔۔۔ابھی آوازوں کا گر نہیں سیکھا تھا۔۔۔۔۔ابھی روانی دریاوں‌میں تو تھیں۔۔۔۔۔۔۔صحرا کے بگولوں‌میں تھی مگر ہماری ادائیگی روانگی سے خالی بس ہمہ وقت سوالوں کے پرچیاں یہاں وہاں گھما رہے تھے۔۔۔سوال بہت آسان اور جواب اس بھی زیادہ آسان مگر ہمیں حیرتوں کے ٹیلوں میں اس قدر گم کردیتے ہیں کہ کبھی کبھی تو خیال آتا ہے کہ کیا سوال تھے اور کیا ہی جواب تھے۔۔۔۔۔۔۔تو سنیے کہ ہمارے بچپن سے بھی پہلے کا پہلا معصوم سوال کے یہ "ستارے کیا ہوتے ہیں؟"۔۔۔۔۔اب جواب کہ یہ بھیڑیں ہیں جو آسمان پر چرتی ہیں ۔۔۔۔ہم حیران ہوکے پھر دیکھیں اور چاروں ٹانگیں اور دم اور سر کو تلاش کرنے کی کوشش کریں۔۔۔۔۔مگر ہمیں یہ سب کچھ نظر آنے کی بجائے ستارے ہی چمکتے نظر آرہے تھے۔۔۔۔۔۔اب پھر پوچھا کہ جیسی بھیڑیں ہوتی ہیں۔۔۔۔وہاں تو اس کا شائبہ تک نہیں۔۔۔۔۔۔پھر کہا گیا۔۔۔۔۔پگلے یہ ستارہ تو ان کے ماتھے کا جھومر ہیں۔۔۔۔۔۔اور خوب چمکیلے ہیں۔۔۔۔۔جبھی تو اتنی دور سے نظر آرہے ہیں۔۔۔۔۔۔ہم نے پھر کہا کہ کسی نے قریب سے بھی دیکھا یا بس ہماری طرح ستاروں میں بھیڑیں ہی تلاش کرتے رہتے ہیں۔۔۔۔کہا گیا کہ گئے زمانوں میں ان کو اتارہ گیا۔۔ مگر یہاں کا موسم ان کے لیے مناسب نہیں۔۔۔۔جس کی وجہ سے اتارنے کے فورا بعد انھیں واپس بھیج دیا گیا ہے۔۔۔۔۔۔ہم خاموش۔۔۔۔کہ دل نہیں مانا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مگر ہمیں جواب دینے والے مطمئن ہوگئے کہ دیکھا پھر اس منے کو کیسے چپ کیا۔۔۔۔۔۔اب وہ کیا جانیں کہ منا تو اگلا سوال بھی تیار کرچکا تھا۔۔۔۔۔مگر ایک ہی نشست میں سب سوال کرکے ہم ڈانٹ بھی نہیں کھانا چاہتے تھے۔۔۔۔۔کہ لوگ کیا کہیں گے۔۔۔۔کہ یہ تو بہت ہی بدتمیز ہے۔۔۔۔۔کہ سوال پہ سوال کیے جارہا ہے۔۔۔۔۔۔۔سوچا کہ اگلی شام کو پھر آئیں گے ۔۔۔۔۔۔ اور نیا سوال پوچھیں گے۔۔۔۔۔کیونکہ ہمارا اس وقت بھی یہی خیال تھا۔۔۔۔کہ ستارے تو ستارے ہوتے ہیں۔۔۔۔۔اور خوب چمکدار ہوتے ہیں۔۔۔۔۔مگر بھیڑیں ہرگز نہیں ہوسکتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔اب جو اگلے سوال کی روداد اور کچھ اپنے پچپن کے احساسات اگلی قسط میں لکھ دیں گے۔۔۔۔امید ہے یہ ریت کے زرے اڑتے ہوئے آپ سب کو اچھے لگیں گے۔
     
    واصف حسین, غوری, نعیم اور مزید ایک رکن نے اسے پسند کیا ہے۔
  5. خوشی محمد
    آف لائن

    خوشی محمد معاون

    شمولیت:
    ‏24 اگست 2012
    پیغامات:
    15
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ریت کے ذرے ہیں

    بہت خوب لڑی ہے
    یقینا مجھے انتظار رہے گا
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  6. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ریت کے ذرے ہیں

    بچپن اور اس سے جڑی یادوں کو یاد کرنا جس قدر مشکل ہوتا ہے انھیں لفظوں کی صورت دینے میں‌مشکلات دوچند ہوجاتی ہیں۔۔۔۔مگر انسان بھی عجیب ہے کہ اپنے پر بیتی کو جب دوسرے تک پہنچاتا ہے تو سمجھتا ہے کہ ہفتم اقلیم سر کردیے اور مسرور اس قدر کہ جیسے کوئی دفینہ مل گیا۔۔۔۔۔مگر یہ سب سوچ سے شروع ہوکر اور سوچ پر ہی ختم ہوتا ہے۔۔۔۔جیسے ریت کے ذرے یہاں‌سے اڑے اور وہاں جا پڑے۔۔۔۔مگر رہتے اپنے صحرا میں۔۔۔۔۔کہ وہی پہچان ہے۔۔۔۔۔۔۔بقا ہے۔۔۔۔خوبصورتی ہے۔۔۔۔اورشاید اپنا اپنا انداز ہے۔۔۔۔۔سو ہم جب بھی اپنے ماضی اور معصوم بچپنے میں غوطہ لگاتے ہیں تو لکھتے ہوئے ہم بھول جاتے ہیں کہ کچھ لکھ رہے اور جب لکھے ہوئے کو پڑھتا ہوں تو یوں‌لگتا ہے کہ جیسے بیان ہی نہیں ہوپایا۔۔۔۔۔۔احساسات کو کون لکھ سکتا ہے؟۔۔۔۔مگر کوشش۔۔۔ہاں کوشش کی جاسکتی ہے۔۔۔۔اور یہی ہم کررہے ہیں۔۔۔۔اگر قبول ہوں۔
    ہم گورنمنٹ پرائمری مسجد سکول۔۔۔ اپنے محلے کے۔۔۔ کب داخل ہوئے؟ ہمیں یہ تویاد نہیں۔۔۔مگر اس سکول سے جڑی بہت ساری یادوں کا سرمایہ ہے۔۔۔۔۔اور وہ خوب ہے۔۔۔۔۔۔بارشیں جب بھی ہوتیں۔۔۔۔خاص طور پر ساون اور بھادوں کے موسم میں‌سکول کے در دیوار کو ہلا کے رکھ دیتی۔۔۔۔۔۔یعنی چار دیواری میں سے کچی دیوار کئی جگہ سے یوں‌ٹوٹ کے گر جاتا کہ ہمیں بے اختیار آج کل مختلف قسم کے ماہر دندان کے اشتہار ذہن میں آرہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔یعنی کہیں‌کہیں سے ۔۔۔کوئی کوئی دانت ندارد۔۔۔۔۔۔۔۔گو کہ یہ سرکاری سکول تھا۔۔۔۔مگر سرکار صرف ہر مہینے اساتذہ کو تنخواہ دینے کی زمہ داری پوری کرنے کو ہی اہم سمجھ کے ادا کرنے پر بضد تھی۔۔۔۔۔۔۔سو دیوار وغیرہ سرکار کے مسائل میں شامل ہی نہیں‌تھے۔۔۔۔۔۔۔اس لیے مرمت کا کام بھی ہم سب یعنی ہمارا عربی معلم جو قرآن ناظرہ پڑھاتا تھا جس کو ہم لوگ ملا کھلیری کے نام سے یاد کرتے تھے۔۔۔۔اللہ تعالی غریق رحمت کرے۔۔۔۔عجیب آزاد انسان تھا۔۔۔۔۔ہمارے پڑوس میں رہتے تھے۔۔۔۔۔۔ملا کھلیری دیوار کو گرتے ہی سکول میں اعلان کردیتے تھے کہ کون کون رضاکارانہ میرے ساتھ ہاتھ بٹائے گا تاکہ سکول کے گرے ہوئے دیواروں کو پھر سے تعمیر کرسکیں۔۔۔۔۔۔دیواریں بھی کیا خوب کہ گارے سے بنی اور درمیان میں پتھر ہی پتھر۔۔۔۔۔۔۔موٹائی ، رخ اور اونچائی ہر فٹ بلکہ اس سے بھی پہلے تبدیل ہوتا رہتا تھا۔۔۔۔۔۔۔اور تو ہمیں‌کوئی یاد نہیں۔۔۔مگر ہم اس کام میں بڑے دل جمعی سے حصہ لیتے اور اپنے ننھے ننھے ہاتھوں‌اس کی تعمیر میں اپنا حصہ ڈالتے۔۔۔۔۔۔ہم اس کام کو اس لیے نہیں‌کرتے تھے کہ اس کے کرنے کا ہمیں شوق تھا۔۔۔۔بلکہ ہمارے سکول کے ہیڈ ماسٹر صاحب دیوار کے تعمیر کے بعد انعام و کرام سے نوازتے۔۔۔۔۔۔تعمیرکا کام سرانجام دینے کے لیے سب سے پہلے مناسب سائز کے ۔۔۔۔بلکہ یوں کہیں کہ ہرسائز کے پتھر تلاش کیے جاتے اور ان کا ڈھیر لگا دیا جاتا۔ ۔۔۔۔ اس کے بعد پانی۔۔۔جو کہ سکول کے صحن میں‌وافر مقدر میں موجود ۔۔۔ بلکہ آئندہ کئی ہفتوں‌تک موجودگی کسی شک و شبہ سے بھی بالا تر۔۔۔۔۔۔اس کےبعد ٹوٹے ہوئے دیواروں پر پتھر چنے جاتے۔۔۔۔اس پر گارا ڈالا جاتا ۔۔۔ یوں‌چند دنوں میں ہی دیواریں‌پھر بہاریں دکھا رہی ہوتی مگر رخ سب کے جدا اور درمیاں‌میں‌کئی کے کب اور کئی حصوں‌کے پیٹ نکلے ہوئے نظر آتے۔۔۔۔۔مگر غنیمت جان کے ہمارے ہیڈ ماسٹر صاحب ایک عدد تقریر سے ہمیں نوازتے۔۔۔۔پھر سکول میں‌موجود واحد کمرے کو کھلواتے۔۔۔۔۔خود ماچس کی کئی تیلیاں مسلسل جلاتے جاتے اور کہتے جاتے کہ ملا صاحب اتنے عدد سلیٹ، تختی اور کانے کے قلم سیاہی نکال کر باہر لے آؤ۔۔۔۔۔کام کرنے والے بچوں کو یہی چیزیں‌بطور انعام اپنے مبارک ہاتھوں‌سے بانٹتے۔۔۔۔بس جی ہمارا مطمح نظر اس وقت یہی‌چیزیں تھی۔۔۔۔کہ کام نہ کرنے والوں‌کے مقابلے ہمار ے پاس یہ سب چیزیں‌نئی نویلی آجاتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور ہم سب کئی روز تک آپے سے باہر رہتے اور اس کے بعد پھر وہی سکول اور مستیاں۔۔۔۔یوں ہم ثابت کرتے رہے کہ ہم لوگ مستقل کے معمار ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہم چار جماعتیں پاس کرکے قریبی ہائی سکول چلے گئے۔۔۔۔۔پھر میڑک کرکے ایف ایس سی کے لیے کوئٹہ چلے گئے تو جب سردیوں کے چھٹیوں میں ۔۔۔۔۔۔کوئٹہ سرد علاقہ ہے اس لیے چھٹیاں دسمبر سے فروری تک ہوتی ہیں۔۔۔۔۔واپس گاؤں آئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ سکول کو نئے سرے سے پکا بنایا جارہا ہے۔۔۔۔۔یعنی گورنمنٹ پرائمری مسجد سکول کو اب جدید انداز میں تعمیر کیا جارہا ہے۔۔۔۔۔دل بہت خوش ہوا مگر افسوس کہ سکول کی تعمیر تو کی گئی مگر اس کے بعد نہ تو اس سکول میں کوئی استاذ آیا اور نہ کوئی شاگرد۔۔۔۔۔۔ہم اب بھی جب گاؤں جاتے ہیں تو اس پکے سکول کو ویران دیکھ کر دکھی ہوتے ہیں مگر کیا کریں۔۔۔۔۔۔۔۔کہ یہاں تو تعلیم حاصل کرنا ہی سب سے بے قدر چیز ہے۔
     
    واصف حسین, غوری, نعیم اور مزید ایک رکن نے اسے پسند کیا ہے۔
  7. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ریت کے ذرے ہیں

    محبوب بھائی کوئی نظر الفت ادھر بھی
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  8. محمد نبیل خان
    آف لائن

    محمد نبیل خان ممبر

    شمولیت:
    ‏31 مئی 2012
    پیغامات:
    656
    موصول پسندیدگیاں:
    4
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ریت کے ذرے ہیں

    بہت خوب جناب ۔ زبردست
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  9. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ریت کے ذرے ہیں

    حاضر ہوں ھارون بھائی :6:

    بہت بہت شکریہ نیبل بھائی۔
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  10. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ریت کے ذرے ہیں

    اچھی شئیرنگ کا شکریہ
     
  11. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ریت کے ذرے ہیں

    اگلی قسط جاری کریں
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  12. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ریت کے ذرے ہیں

    کچھ لکھا ہے مزید لکھ رہا ہوں تو جلد ہی انشاء اللہ ارسال کردونگا۔
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  13. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    سوچا تھا کہ ریت کے ذروں کو ہم خوب اڑائیں گے۔۔۔۔مگر کہاں۔۔۔۔۔۔۔۔ریت کے ذرے تو بس خود ہی اڑتے ہیں۔۔۔۔ہم کیا اور ہماری بساط کیا۔۔۔۔۔۔اس لیے اگر اس لڑی میں طویل عرصے تک کوئی تحریر موجود نہ ہو تو اس میں ہماری نارسائی اور کمزوریوں سے کوتاہ نظری کیا کریں کہ ہم جب صحرا میں تھے تو زیادہ آزاد تھے۔۔۔۔۔مگر شہر کی گلیوں نے ہمیں تو بس جکڑ ہی لیا ہے۔۔۔۔۔اب کوشش کے باوجود نظروں میں اور اردگرد میں ریت کو اڑانا ہمارے بس سے باہر ہے۔۔۔۔۔۔۔۔بہرحال اس لڑی میں تو ہم نے بس یونہی کچھ نہ کچھ لکھنا ہی ہے۔۔۔۔سو لکھنے کی کوشش کرتے رہیں گے۔۔۔۔۔۔سکول سے واپسی پر۔۔۔۔جی اپنے سکول کا ذکر تو اوپر ایک مراسلے میں ہم تفصیل سے کرچکے ہیں۔۔۔۔۔۔۔کچھ مزید بھی بعد میں لکھتے رہیں گے۔۔۔۔۔ہم دو کلومیٹر دور مسجد میں قرآن پاک ناظرہ پڑھنے جاتے تھے۔۔۔۔۔۔۔بچپن میں دو کلومیٹر کا سفر اور ویران راستہ۔۔۔دوپہر کا وقت ہو۔۔۔۔۔۔آپ سب سمجھ گئے ہیں۔۔۔کہ ہماری حالت کیا ہوگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔روز جانا ہوتا تھا۔۔۔جمعہ کے دن کو چھوڑ کر اور گھر سے نکل کر کچھ فاصلہ تو اپنے قدموں پر طے کرتے تھے۔۔۔۔ہمارے ساتھ ہمارا چھوٹا بھائی بھی ہوتا۔۔۔۔۔۔۔۔اس کے بعد ہم اڑنے لگتے۔۔۔۔اس قدر تیزی سے دوڑتے کہ ہمیں لگتا کہ ہم بس اڑ رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔بلکہ اکثر اپنی رفتار بڑھانے کے لیے جوتے ہاتھ میں پکڑتے تھے۔۔۔نیچے ریت کے ذرے ہوں اور سورج نصف النہار سے بھی زرا آگے۔۔۔۔اور گرمیوں کا موسم ہو تو ایسے لگتا تھا کہ اگر پیر زمین پر زیادہ دیر تک لگتے رہے۔۔۔۔تو چلنا تو چھوڑیں ۔۔۔کہیں ہم گر نہ جائیں۔۔۔۔۔۔۔سو جیٹ طیارے کی طرح زمینی گرمی اور بچپن کی ڈر کی وجہ سے ۔۔۔جو ہم دوڑتے ۔۔۔۔وہ بس ہم ہی جانتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔اور دم جاکر مسجد کے وضوخانے میں لیتے کہ کچھ ٹھنڈے ہوجاتے۔۔۔۔۔مگر ہفتے میں تین دن پانی کا نہ ہونا ایک درد سر ہی نہیں درد پیر اور جان بھی تھا۔۔۔۔۔۔۔یعنی گرم گرم دوڑتے ہوئے۔۔۔۔بس اندر چلو اور نماز ظہر ادا کرکے قرآن پڑھنے بیٹھ جاؤ۔۔۔۔۔اور پھر عصر سے زرا پہلے چھٹی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہمارے استاد جی کا اصول تھا کہ ہر آدھ گھنٹے کے بعد اٹھتے اور تمام طالب علموں کی پیٹھ پر پتلی سے چھڑی سے سینکتے۔۔۔۔۔۔پڑھنے والو پر زرا آہستہ اور نا پڑھنے والے شیروں پر ایک دم جھپٹا مارنا۔۔۔۔۔۔اس لیے اس تمام وقت میں ہوشیار بھی رہنا پڑتا تھا کہ ادھر خیال قاعدہ یا سیپارہ سے ہٹا وہیں با آواز بلند۔۔۔۔ہت تیرے کی ۔۔۔کا نعرہ اور ساتھ ہی کوئی چیز۔۔۔۔جس میں عام طور پر لاٹھی۔۔۔۔۔کوئی پلاسٹک کی ٹوپی وغیرہ خاص ہتھیار کے طور پر استعمال ہوتے تھے۔۔۔۔۔کا جسم کے کسی حصے سے ملاقات۔۔۔۔۔۔۔اس لیے اس مسجد سے بچے ناظرہ قرآن کچھ زیادہ سے تیزی سے ختم کرتے تھے۔۔۔۔۔۔واہ جی واہ۔۔۔۔۔جس دن کسی بچے کا قرآن ختم ہوجاتا تھا۔۔۔۔۔۔اس دن ہمارے تو وارے نیارے تھے۔۔۔۔۔خوب مٹھائی اور کجھوریں کھانے کو ملتی تھی۔۔۔۔۔اور مولانا صاحب کے لیے کپڑے، پگڑی اور ان گھر والوں کے لیے الگ سے مٹھائی کا ڈبہ اور کجھوریں۔۔۔۔۔۔۔بس بہاریں لگی رہتی تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔معصوم سی ۔۔۔۔انجانی سے خوشیاں ہوتی تھی۔۔۔۔۔سب کے خوشی میں ہم بھی اس قدر نہال ہوتے تھے۔۔۔۔بس کچھ ہی دیر کے لیے۔۔۔۔کہ نہ پوچھیں۔۔۔۔۔۔۔مگر ہمیں ایک چیز کا افسوس رہے گا۔۔۔۔کہ جب ہم قرآن ناظرہ ختم کرچکے تو ہم زرا نزدیکی مسجد میں تھے۔۔۔۔کہ وہاں پہلے مولانا پڑھاتے نہیں تھے۔۔۔۔بعد میں درس شروع کی تو ہم بھی وہیں پہنچ گئے۔۔۔۔۔۔۔اور سب کو خوب کجھوریں کھلائی۔۔۔۔مولانا صاحب تو نہال ہوگئے تھے۔۔۔۔اور بچے کئی دن تک تعریفوں کے پل باندھتے رہے۔۔۔۔کہ مزہ آگیا۔۔۔۔مگر ہماری بھی سنیں۔۔۔۔۔ہم بہت خوش ہوئے کہ لو جی آئندہ سے ہماری دوپہریں ہماری ہونگی۔۔۔۔۔۔اور مسجد جاکے پڑھنے سے جان چھوٹھی۔۔۔۔۔۔مگر کہاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہم نے خاموشی سے ختم قرآن کے بعد مسجد جانا بند کیا۔۔۔۔۔۔۔۔ایک ہی دن گزرا۔۔۔کہ چھوٹے بھائی نے ابو سے شکایت لگائی کہ ابو محبوب بھائی نے تو مسجد جان چھوڑ دیا ہے ظہر کو۔۔۔۔۔۔ابو نے پوچھا کیوں؟ چھوٹے سے جواب دیا کہ قرآن جو ختم کرلیا ہے۔۔۔۔۔۔۔بس جی۔۔۔۔ہمیں اسی وقت بلایا گیا اور حکم ہوا کہ دوبارہ سے مکتب میں داخل ہوجاؤ اور پھر سے قرآن پڑھنا شروع کرو۔۔۔روزانہ کی بنیاد پر۔۔۔۔۔ایک دن کی خوشی۔۔۔۔۔ختم اور ہم پھر سے ۔۔۔۔۔دوسرے دن مسجد پہنچ گئے۔۔۔۔۔وہاں موجود بچوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ لو جو پھر سے شکار ہوئے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔دل میں سوچا کہ اب تو دنوں کی بات ہے۔۔۔۔مولانا صاحب کو قرآن خوب سنائیں گے۔۔۔۔تاکہ جلد سے جلد پھر ختم کرلیں۔۔۔۔مگر کہاں۔۔۔۔۔مولانا نے آدھ رکوع سن کے روک دیا کہ آپ کے ابو نے ہم سے خاص طور پر کہا ہے کہ زیادہ آپ سے نہ سنا جائے۔۔۔۔۔یوں کچھ دنوں کی بات مہینوں بلکہ سالوں پر چلی گئی۔۔۔۔۔۔۔۔اور اس طرح ہم نے ناظرہ قرآن تین بار ختم کیا کہ دوسری کے بعد تیسری دفعہ بھی پڑھنے کے شاہی احکام صادر ہوئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اب جب پلٹ کے دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ اچھا ہوا کہ بعد میں جماعت ششم سے ہشتم تک بطور مضمون عربی کو پڑھنا پڑا۔۔۔۔۔اور ناظرہ اچھا ہونے کی وجہ سے بغیر ترجمے کے ہم کم از کم عربی تو پڑھ لیتے تھے ۔۔۔۔۔کچھ آسانی سے۔۔۔۔۔یوں ہم نے قرآن ناظرہ پڑھا۔۔۔۔۔۔۔۔امید ہے کہ اس طرح کی صورت حال یا اس سے کچھ ملتے جلتے سے آپ میں سے کئی گزرے ہونگے۔

    امید ہے کہ ہمارا ریت پر۔۔۔گرم ریت پر دوڑنا بلکہ اپنی طرف سے اڑنا آپ احباب کو پسند آئے گا۔
     
    واصف حسین، غوری، ھارون رشید اور 2 دوسروں نے اسے پسند کیا ہے۔
  14. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    بہت زبردست محبوب بھائی شکریہ
     
    محبوب خان نے اسے پسند کیا ہے۔
  15. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    @محبوب خان بھائی آپ کے دلکش طرزِ تحریر کا ہمیشہ سے ہی دلدادہ ہوں۔
    جاری رکھنے کی التماس ہے
     
    محبوب خان نے اسے پسند کیا ہے۔
  16. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    واہ ۔ دل خوش ہوگیا
     
    محبوب خان نے اسے پسند کیا ہے۔
  17. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    نعیم بھائی پسندیدگی کا بے حد شکریہ۔۔۔۔۔بس ریت کے کچھ ذرے ہیں جنھہیں ہم اڑانے کی کوشش کررہے ہیں۔۔۔۔آپ نے پسند کی ۔۔۔۔محنت وصول ہوگئی۔ اللہ کریم آپ کو خوش و خرم رکھے۔ آمین۔
     
    نعیم اور پاکستانی55 .نے اسے پسند کیا ہے۔
  18. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    شکریہ ھارون بھائی۔۔۔۔لگتا ہے کہ گرم ریت پر ننھی سی جان کے دوڑنے یا اڑنے پر آپ خوش ہوئے ہیں :ida: لیکن خوشی تو خوشی ہے چاہے گرم ریت کی وجہ سے آئے یا گرم سڑک کی وجہ سے۔۔۔۔:wink:
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  19. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    محبوب بھائی آپ تو تارے زمین پر لے آئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ماشااللہ

    زور قلم اور زیادہ۔۔
     
    محبوب خان نے اسے پسند کیا ہے۔
  20. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    بہت بہت شکریہ غوری بھائی۔۔۔۔۔۔آپ کا تبصرہ درست ہے کہ بچے تو تارے ہی ہوتے ہیں اور زمین میں اپنی جگمگھاہٹ سے روشنی بکھیرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔اور اسی روشنی سے ہی رنگ نظر آتے ہیں۔۔۔۔اور یہ سب مل کر خوشیوں کو دوبالا کرتے ہیں۔۔۔۔اللہ کریم آپ کو خوش و خرم رکھے۔۔۔۔لیکن یاد رہے ۔۔۔۔۔۔۔ اب ہم دیو ہیں۔۔۔۔۔:khudahafiz:
     
    پاکستانی55 اور غوری .نے اسے پسند کیا ہے۔
  21. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    رات تاریک اس وقت ہوتی ہے جب گھپ اندھیرا ہو۔ اور سورج غروب ہونے کے بعد بھی رات تاریک ہونا شروع ہوجاتی ہے مگر اسے حیات کا حسن دینے کے لئے اس میں تاروں کی چادر سجائی گئی ہے جس کی تھوڑی سی روشنی ہمیں زندگی کی امید بن کر دکھائی دیتی ہے اور جب چاند آسمان پر راج کررہا ہوتو اسے چندا ماموں کہتے ہیں۔زمین دھرتی ماں ہے اور چاندا ماموں ہمارے لئے ایک مضبوط سہارا محسوس ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔

    اور بچپن ہر انسان کا تاروں کی طرح روشن اور امیدوں میں لپٹا ہوا میٹھا پان ہوتا ہے جس کی مٹھاس اور خوشبو سے ناصرف ہم لطف اندوز ہوتے ہیں بلکہ محفل میں بھی خوشگوار تبدیلی کا باعث ہوتا ہے۔

    آپ نے بچپن اور سادہ زندگی کی جس طرح عکاسی کی ہے اسے پڑھتے ہوئے مجھے اپنے بچپن کے دن یاد آگئے۔ گویا آپ کی حسین یادیں میرے ذہن میں بھی (لو آج کل کی طرح) دو دو کرداروں کی شکل میں گھومنے لگے۔۔۔۔

    اور مجھے بے ساختہ کہنا پڑا کہ تارے زمیں پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    اگر ہم کل تارے تھے تو آج کھلتا ہوا چاند ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔





    دیو کہانیوں میں کھوکر رہ گئے ہیں اب!
     
    واصف حسین اور محبوب خان .نے اسے پسند کیا ہے۔
  22. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    بہت ہی خوبصورت اور دیو کی جگہ پورے چاند سے تشبیہ ۔۔۔۔ آپ نے تو ہماری رہنمائی فرمائی۔۔۔۔لفاظی سے آگے خیال کی دنیا تک۔۔۔۔خوش رہیں۔
     
    پاکستانی55 اور غوری .نے اسے پسند کیا ہے۔
  23. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    اللہ تعالی آپ پر بھی اپنی مہربانیاں اور عنایت کی بارش کریں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آمین

    خوش رہیے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سدا
     
    محبوب خان نے اسے پسند کیا ہے۔
  24. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    محبوب بھائی بہت دنوں بعد آنا ہوا اور ریت کے ذروں کو پڑھ کر دل خوش ہو گیا۔ آپ کا انداز تحریر یقین کریں کہ دل میں اترنے والا ہے ۔۔۔ بہت سی داد قبول کریں۔۔۔۔۔
     
    محبوب خان نے اسے پسند کیا ہے۔
  25. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    شکریہ غوری بھائی۔
     
    غوری اور پاکستانی55 .نے اسے پسند کیا ہے۔
  26. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    بہت بہت شکریہ واصف بھائی۔
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں