1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

رقص و موسیقی پر احادیث

'تعلیماتِ قرآن و حدیث' میں موضوعات آغاز کردہ از زنیرہ عقیل, ‏11 نومبر 2017۔

  1. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    رقص و موسیقی:

    آج کل طوائف کے ناچنے، تھرکنے کا نام “رقص” ہے، اور ڈوم اور ڈومنیوں کے گانے بجانے کو “موسیقی” کہا جاتا ہے، اور یہ دونوں سخت گناہ ہیں۔

    صحیح بخاری میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ:
    “میری اُمت کے کچھ لوگ شراب کو اس کا نام بدل کر پئیں گے، کچھ لوگ زنا اور ریشم کو حلال کرلیں گے، کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو معازف و مزامیر (آلاتِ موسیقی) کے ساتھ گانے والی عورتوں کا گانا سنیں گے، اللہ تعالیٰ ان کو زمین میں دھنسادے گا اور بعض کی صورتیں مسخ کرکے ان کو بندر اور سوَر بنادے گا (نعوذ باللہ)۔

    اور ترمذی شریف میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:
    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: جب مالِ غنیمت کو شخصی دولت بنالیا جائے، اور جب لوگوں کی امانت کو مالِ غنیمت سمجھ لیا جائے، اور جب زکوٰة کو ایک ٹیکس اور تاوان سمجھا جانے لگے، اور جب علمِ دِین کو دُنیا طلبی کے لئے سیکھا جانے لگے، اور جب مرد اپنی بیوی کی فرمانبرداری اور ماں کی نافرمانی کرنے لگے، اور جب دوست کو قریب اور باپ کو دُور رکھے، اور جب مسجدوں میں شور و غل ہونے لگے، اور جب کسی قبیلے کا سردار فاسق و بدکار بن جائے، اور جب کسی قوم کا سردار ان کا رذیل ترین آدمی بن جائے، اور جب شریر آدمیوں کی عزّت ان کے شر کے خوف کی وجہ سے کی جانے لگے، اور جب گانے والی عورتوں کا اور باجوں گاجوں کا رواج عام ہوجائے، اور جب شرابیں پی جانے لگیں، اور جب اُمت کے آخری لوگ پہلے لوگوں پر لعنت کرنے لگیں تو اس وقت انتظار کرو سرخ آندھی کا، اور زلزلے کا، اور زمین میں دھنس جانے کا، اور صورتوں کے مسخ ہوجانے کا، اور قیامت کی ایسی نشانیوں کا جو یکے بعد دیگرے اس طرح آئیں گی جیسے کسی ہار کی لڑی ٹوٹ جائے اور اس کے دانے بیک وقت بکھر جاتے ہیں۔
     
  2. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    گانے حرام ہیں۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے:

    “من قعد الی قنیة یستمع منھا صبّ الله فی أُذنیہ الآنک یوم القیامة۔”

    (کنز العمال ج:۱۵ ص:۲۲۰، حدیث نمبر:۴۰۶۶۹)

    ترجمہ:… “جو شخص کسی گانے والی عورت کی طرف کان لگائے گا، قیامت کے دن ایسے لوگوں کے کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ ڈالا جائے گا۔”
     
  3. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    گانے بجانے کے متعلق ہادیٴ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے چند مبارک ارشادات ذیل میں ملاحظہ ہوں:

    ترجمہ:… “حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے گانا گانے اور گانا سننے سے منع فرمایا ہے۔”

    “قال علیہ الصلٰوة والسلام: الغناء ینبت النفاق فی القلب کما ینبت الماء البقل۔” (درمنثور ج:۵ ص:۱۵۹)

    ترجمہ:… “حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: گانے کی محبت دِل میں اس طرح نفاق پیدا کرتی ہے جس طرح پانی سبزہ اُگاتا ہے۔”

    “عن عمران بن حصین رضی الله عنہ أن رسول الله صلی الله علیہ وسلم قال: فی ھٰذہ الأُمّة خسف ومسخ وقذف۔ فقال رجل من المسلمین: یا رسول الله! ومتٰی ذٰلک؟ قال: اذا ظھرت القیان والمعازف، وشربت الخمور۔”(ترمذی شریف ج:۲ ص:۴۴)

    ترجمہ:… “حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: اس اُمت میں بھی زمین میں دھنسنے، صورتیں مسخ ہونے اور پتھروں کی بارش کے واقعات ہوں گے، اس پر ایک مسلمان مرد نے پوچھا کہ: اے اللہ کے رسول! یہ کب ہوگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: جب گانے والی عورتوں اور باجوں کا عام رواج ہوگا اور کثرت سے شرابیں پی جائیں گی۔”

    اسی طرح تصاویر کا معاملہ ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جانداروں کی عام تصویر کشی کو حرام قرار دے کر تصویر بنانے والوں کو سخت عذاب کا مستحق قرار دیا ہے، چنانچہ ارشاد ہے:

    ۱:… “عن عبدالله بن مسعود رضی الله عنہ قال: سمعت رسول الله صلی الله علیہ وسلم یقول: أشد الناس عذابًا عند الله المصوّرون۔ متفق علیہ۔”

    (مشکوٰة ص:۳۸۵)

    ترجمہ:… “حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا کہ فرما رہے تھے کہ: لوگوں میں سے زیادہ سخت عذاب میں تصویر بنانے والے ہوں گے۔”

    ۲:… “عن ابن عباس رضی الله عنہما قال: سمعت رسول الله صلی الله علیہ وسلم یقول: ․․․․․ من صوّر صورةً عذّب وکلّف ان ینفخ فیھا ولیس بنافخ۔ رواہ البخاری۔”(مشکوٰة ص:۳۸۶)

    ترجمہ:… “حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے کہ: جس نے تصویر (جاندار کی) بنائی، اللہ تعالیٰ اسے اس وقت تک عذاب میں رکھے گا جب تک وہ اس تصویر میں رُوح نہ پھونکے، حالانکہ وہ کبھی بھی اس میں رُوح نہیں ڈال سکے گا۔”

    پس جب اسلام میں اس قسم کی عام تصویرکشی حرام ہے تو فحش قسم کی تصاویر بناکر شائع کرنا کیونکر جائز ہوگا؟ اور پھر بہن بھائی کا ایک ساتھ کھڑے ہوکر اور کمر میں ہاتھ ڈال کر تصاویر نکلوانا تو بے حیائی کی حد ہے، جبکہ اسلامی تعلیمات کے مطابق بہن بھائی کا رشتہ بہت ہی عزیز اور بہت ہی نازک ہے، اس لئے خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں حکم دیا ہے:

    “اذا بلغ أولادکم سبع سنین ففرقوا بین فروشھم۔” (کنز العمال حدیث نمبر:۴۵۳۲۹)

    ترجمہ:… “جب تمہاری اولاد کی عمریں سات سال ہوجائیں تو ان کے بستر الگ الگ کرلو۔”
     
    ناصر إقبال، نعیم اور ھارون رشید نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    عمدہ تعلیماتی مضمون کے لیے بہت شکریہ ۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    زنیرہ عقیل صاحبہ کیا دینی و روحانی کلام یا ایسا کلام جس میں فحاشی و گمراہی نہ ہو ۔ ایسے کلام کو موسیقی کے ساتھ سننا بھی ناجائز ہوگا؟
     
    حنا شیخ 2 اور ناصر إقبال .نے اسے پسند کیا ہے۔
  5. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے گانا گانے اور گانا سننے سے منع فرمایا ہے اور ہمیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات میں جواز ڈھونڈنے کی جسارت نہیں کرنی چاہیے اب ہمیں پردہ کا حکم ہے ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ میں تو اسپتال میں مریضوں کی خدمت کرتی ہوں یا جو لوگ میرے ساتھ کام کرتے ہیں شریف ہیں تو مجھے پھر بھی پردہ کرنا چاہیئے؟
    نماز کا حکم ہے نا قائم نہ کرنا گناہ اور انکار کرنا کفر ہے
     
    آصف احمد بھٹی اور ناصر إقبال .نے اسے پسند کیا ہے۔
  6. ناصر إقبال
    آف لائن

    ناصر إقبال ممبر

    شمولیت:
    ‏6 دسمبر 2017
    پیغامات:
    1,670
    موصول پسندیدگیاں:
    346
    ملک کا جھنڈا:
    اچھی پوسٹ
     
    پاکستانی55 اور زنیرہ عقیل .نے اسے پسند کیا ہے۔
  7. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    شکریہ
     
  8. ناصر إقبال
    آف لائن

    ناصر إقبال ممبر

    شمولیت:
    ‏6 دسمبر 2017
    پیغامات:
    1,670
    موصول پسندیدگیاں:
    346
    ملک کا جھنڈا:
    اسلام میں موسیقی کی اجازت نہیں ہے کوئی بھی ایسا ہی کرتا ہے اس نے مسجد بنایا ہسپتال بنایا یہ قابل قبول ہے
     
  9. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    سوال صرف موسیقی کی حدتک تھا آپ کھینچ کر پردہ تک لے گئی۔ اوپر آپ کے خود اپنے تبصرہ جات اور حدیث پاک سے جو امر واضح ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ شیطنت، نفسانی شہوت کو ابھارنے، فحاشی و فسق کو فروغ دینے والی موسیقی اور بنا شرعی پردہ کے گانے والی عورتوں والی قسم کی موسیقی سے منع کیا گیا ہے۔
    لیکن میرا سوال تھا ایسا کلام، ایسی نغمگی جو اللہ و رسول صل اللہ علیہ وسلم کی طرف قلب و روح کو راغب کرتی ہو ۔ اس موسیقی و نغمگی کے بارے میں کیا حکم ہے۔
    اب چند احادیث موسیقی کے جواز والی بھی ملاحظہ فرما لیتے ہیں۔
    نکاح پر دف بجانے کا حکم تو خود رسول کریم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیا۔ اور بعض مواقع پر سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کو انصار کی بچیوں کی شادی پر نغمہ سرائی کرنے والی بچیوں کو ہمراہ بھیجنے کا حکم بھی فرمایا ہے۔

    حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنھا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
    أَعْلِنُوا هَذَا النِّکَاحَ وَاجْعَلُوهُ فِي الْمَسَاجِدِ وَاضْرِبُوا عَلَيْهِ بِالدُّفُوفِ.
    ’’نکاح کی تشہیر کرو، مسجدوں میں نکاح کرو اور ان مواقع پر دَف بجایا کرو۔‘‘
    (1. جامع الترمذی، ابواب النکاح، باب ما جاء فی اعلان النکاح، 3 : 398، رقم : 1089
    2. السنن الکبری للبيهقی، 7 : 290، رقم : 14476
    3. الفردوس بماثور الخطاب للديلمی، 1 : 101، رقم : 335)
    حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
    ’’حلال اور حرام نکاح کے مابین فرق آواز کا ہے یعنی (حلال نکاح کا اِعلان) دف بجا کر کیا جاتا ہے (جب کہ حرام چوری چھپے اور خاموشی سے کیا جاتا ہے)۔‘‘
    (1. مصنف ابن ابی شيبه، 3 : 2945.
    حاکم، المستدرک علی الصحيحين، 2 : 201، رقم : 32750.
    السنن الکبری للبيهقی، 7 : 289، رقم : 414471.
    المعجم الکبير للطبرانی، 19 : 242، رقم : 542)
    حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنھا روایت کرتی ہیں کہ ایک عورت کی انصاری مرد سے شادی ہوگئی۔ اس مو قع پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شادی کے گیت گانے کے بارے میں دریافت فرمایا۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنھا سے مروی حدیث مبارکہ کے الفاظ اس طرح ہیں :
    کان في حجري جارية من الأنصار، فزوجتها. قالت : فدخل علي رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم يوم عرسها، فلم يسمع غناء ولا لعبا. فقال : يا عائشة! هل غنيتم عليها أو لا تغنون عليها؟ ثم قال : إن هذا الحي من الأنصار يحبون الغناء.
    ’’میرے پاس ایک انصاری لڑکی رہا کرتی تھی، میں نے اس کی شادی کروائی۔ وہ فرما تی ہیں : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُس کی شادی کے روز میرے پاس تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کوئی نغمہ سنا نہ کوئی تفریح دیکھی۔ اِس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا : اے عائشہ! تم اس کے لیے شادی کے گیت کا اہتمام کر چکے ہو؟۔ یا فرمایا : کیا تم اس کے لیے شادی کے گیت کا اہتمام نہیں کرو گے؟۔ پھر فرمایا : یہ اَنصاری قبیلہ ایسے مواقع پر ترنم کے ساتھ کلام سننا پسند کرتا ہے۔‘‘
    1. صحيح ابن حبان، 13 : 18.
    2. موارد الظمآن للهيثمی، 1 : 494، رقم : 2016
    حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنھما روایت کرتے ہیں :
    أَنْکَحَتْ عَائِشَةُ ذَاتَ قَرَابَةٍ لَهَا مِنْ الْأَنْصَارِ، فَجَاءَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم، فَقَالَ : أَهْدَيْتُمْ الْفَتَاةَ. قَالُوا : نَعَمْ. قَالَ : أَرْسَلْتُمْ مَعَهَا مَنْ يُغَنِّي؟ قَالَتْ : لَا. فَقَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنَّ الْأَنْصَارَ قَوْمٌ فِيهِمْ غَزَلٌ، فَلَوْ بَعَثْتُمْ مَعَهَا مَنْ يَقُولُ : أَتَيْنَاکُمْ أَتَيْنَاکُمْ، فَحَيَانَا وَحَيَاکُمْ.
    ’’حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے اپنے قریبی ایک انصاری لڑکی کی شادی کا اہتمام کیا۔ اس موقع پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور پوچھا : کیا تم نے دلہن کو تیار کرلیا ہے؟ انہوں نے اس کا اثبات میں جواب دیا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مزید دریافت فرمایا : کیا تم نے شادی کا گیت سنانے کے لیے کسی کا بندوبست کیا ہے؟ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا نے نفی میں جواب دیا، تو اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ جملہ ارشاد فرمایا : اَنصار لوگ ترنم کے ساتھ کلام سننا پسند کرتے ہیں، بہتر ہے کہ تم کسی خوش آواز کا انتظام کرو جو یہ کہے کہ ’’ہم آپ کے پاس آئے ہیں، ہم آپ کے پاس آئے ہیں، اﷲ تعالیٰ ہمیں اور آپ کو عمر دراز عطا فرمائے۔‘‘
    1. سنن ابن ماجه، کتاب النکاح، باب الغناء والدف، 1 : 612، رقم : 1900
    2. السنن الکبری للنسائی، 3 : 332، رقم : 5566
    3. السنن الکبری للبيهقی، 7 : 289، رقم : 14468
    4. المعجم الاوسط للطبرانی، 3 : 135، رقم : 3265

    حضور نبی اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود سیدہ عائشہ صدیقہ کو اپنے ساتھ کھڑا کرکے حبشیوں کا کھیل کود دکھانے کی حدیث پاک۔
    حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ایک اور حدیث میں وہ بیان فرماتی ہیں :
    دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم، وَعِنْدِي جَارِيَتَانِ تُغَنِّيَانِ بِغِنَاءِ بُعَاثَ، فَاضْطَجَعَ عَلَی الْفِرَاشِ وَحَوَّلَ وَجْهَهُ. وَدَخَلَ أَبُو بَکْرٍ، فَانْتَهَرَنِي، وَقَالَ : مِزْمَارَةُ الشَّيْطَانِ عِنْدَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم؟ فَأَقْبَلَ عَلَيْهِ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم، فَقَالَ : دَعْهُمَا، فَلَمَّا غَفَلَ غَمَزْتُهُمَا فَخَرَجَتَا. وَکَانَ يَوْمَ عِيدٍ يَلْعَبُ السُّودَانُ بِالدَّرَقِ وَالْحِرَابِ. فَإِمَّا سَأَلْتُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم وَإِمَّا قَالَ : تَشْتَهِينَ تَنْظُرِينَ؟ فَقُلْتُ : نَعَمْ. فَأَقَامَنِي وَرَائَهُ خَدِّي عَلَی خَدِّهِ، وَهُوَ يَقُولُ : دُونَکُمْ يَا بَنِي أَرْفِدَةَ حَتَّی إِذَا مَلِلْتُ. قَالَ : حَسْبُکِ. قُلْتُ : نَعَمْ. قَالَ : فَاذْهَبِي.
    ’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور میرے پاس دو لڑکیاں جنگ بعاث (دو انصاری قبیلوں خزرج اور اَوس کے درمیان زمانۂ جاہلیت کی رزمیہ کہانی) کے ترانے گا رہی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بستر پر لیٹ گئے اور منہ پھیر لیا۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ آئے اور انہوں نے مجھے ڈانٹا اور فرمایا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس شیطانی باجہ۔؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی جانب متوجہ ہو کر فرمایا : انہیں کرنے دو۔ جب ان کی توجہ ہٹ گئی تو میں نے لڑکیوں کو باہر جانے کا اشارہ کیا۔
    یہ حبشیوں کی عید کا دن تھا جو ڈھالوں اور برچھیوں سے تفریح دکھاتے تھے۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا یا آپ نے خود فرمایا : تم دیکھنا چاہتی ہو؟ میں عرض گزار ہوئی : جی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے اپنے پیچھے کھڑا کر لیا اور میرا رخسار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رخسار پر تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے : اے بنی ارفدہ! اور دکھاؤ۔ یہاں تک کہ جب میں اُکتا گئی تو مجھ سے فرمایا : بس؟ عرض کی : جی۔ فرمایا : تو پھر جاؤ۔‘‘
    1. صحيح بخاري، کتاب العيدين، باب الحراق و الدرق يوم العيد، 1 : 323، رقم : 907
    2. صحيح بخاری، کتاب الجهاد والسير، باب الدرق، 3 : 1064، رقم : 2750
    3. صحيح مسلم، کتاب صلاة العيدين، باب الرخصة في اللعب لا معصية فيه، 2 : 609، رقم : 892

    ربیع بنت معاوض بن عرفہ بیان کرتی ہیں :
    ’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میری شادی کے موقع پر تشریف لائے اور دوسرے اَعزاء و اَقارب کی طرح میرے بستر پر فروکش ہوگئے۔ اتنے میں ہماری انصار بہنیں دف پر کوئی گیت گانے لگیں، وہ شہدائے بدر کی تعریف میں نغمہ سرا تھیں۔ جب ہم میں سے ایک لڑکی کی نظر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پڑی تو وہ آپ کے لیے مدح سرا ہوگئی۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے روکا اور فرمایا کہ وہ وہی (شہدائے بدر کی تعریف والا) گیت جاری رکھیں جو وہ گارہی تھیں۔‘‘
    (صحيح بخاری، کتاب المغازی، باب شهود الملائکة بدرا، 4 : 1469، رقم : 3779)
    جاری ہے ۔۔۔۔۔
     
    آصف احمد بھٹی، سعدیہ، ناصر إقبال اور 2 دوسروں نے اسے پسند کیا ہے۔
  10. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    ۔۔۔۔۔۔
    رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم جب مکہ سے ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لائے تو اِنصارِ مدینہ کی بچیوں نے آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کے موقع پر دف بجا کر ایک قصیدہ گایا جس کے درج ذیل اَشعار شہرتِ دوام پا گئے ہیں:

    طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَیْنَا
    مِنْ ثَنِیَّاتِ الْودَعِ

    وَجَبَ الشُّکْرُ عَلَیْنَا
    مَا دَعَا ِﷲِ دَاعٍ

    اَیُّهَا الْمَبْعُوْثُ فِیْنَا
    جِئْتَ بِالْاَمْرِ الْمُطَاعِ

    (ہم پر وداع کی چوٹیوں سے چودھویں رات کا چاند طلوع ہوا، جب تک لوگ اﷲ کو پکارتے رہیں گے ہم پر اس کا شکر واجب ہے۔ اے ہم میں مبعوث ہونے والے نبی! آپ ایسے اَمر کے ساتھ تشریف لائے ہیں جس کی اِطاعت کی جائے گی۔)
    1۔ قسطلاني، المواهب اللدنیة بالمنح المحمدیة، 1: 234، المکتب الاسلامي بیروت لبنان
    2۔ ابن کثیر، البدایة والنهایة، 3: 197، 5: 23، مکتبة المعارف بیروت
    3۔ بیهقي، دلائل النبوة ومعرفة احوال صاحب الشریعة، 2: 5۰7، دار الکتب العلمیة بیروت لبنان

    سلف میں سے جنہوں نے اس کو جائز قرار دیا ہے، ان میں مالک بن انس اور براء بن عازب رضی اللہ عنہما جیسے صحابی بھی ہیں اور اہل حجاز تو سب کے سب دف کے ساتھ کلام پڑھنے کو جائز قرار دیتے ہیں۔ حدی کے جائز ہونے پر بھی سب کا اتفاق ہے۔ اس کے متعلق احادیث اور آثار کثرت سے آئے ہیں۔

    ابو طالب مکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : صحابہ کرام رضی اللہ عنھم میں سے حضرت عبد اللہ بن زبیر، مغیرہ بن شعبہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنھم اور دیگر بہت سے نیک اسلاف، جن میں تابعین بھی شامل ہیں، نے سماع کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں : ہمارے ہاں مکہ مکرمہ میں سال کے اَفضل دنوں میں اہل حجاز سماع سنتے چلے آئے ہیں۔ یہ وہ ایام معدودہ ہیں جن میں اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو اپنے ذکر کا حکم دیا ہے، جیسے ایام تشریق (عیدالاضحی کے بعد تین دنوں) میں۔ اہل مکہ کی طرح اہل مدینہ بھی آج تک سماع سنتے چلے آرہے ہیں۔
    حاشیۃ البیجرمی میں امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کا موقف ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے :
    قال الغزالي : الغناء إن قصد به ترويح القلب علي الطاعة، فهو طاعة، أو علي المعصية، فهو معصية، أو لم يقصد به شيء فهو لهو معفو عنه.
    ’’امام غزالی فرماتے ہیں : ’’اگر غناء سے مقصود دل کو طاعت کی طرف مائل کرنا ہے تو اس طرح کے غناء کو طاعت کے زمرے میں شمار کیا جائے گا اور اگر دل اس غناء سے معصیت کی طرف مائل ہوتا ہے تو ایسا غناء معصیت کے ضمن میں شمار ہو گا، اور اگر اس غناء سے کچھ بھی مقصود نہیں تو اس صورت میں یہ لہو و لعب کا ایسا عمل ہے جو معاف ہے۔‘‘
    (بيجرمي، حاشيه، 4 : 375)

    امام قشیری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی معروف کتاب الرسالۃ القشیریۃ میں لکھا ہے :

    جان لو کہ عمدہ اِلحان اور پرذوق نغمگی کے ساتھ اَشعار کا سننا جائز ہے، بشرطیکہ سننے والا کسی ممنوع چیز کا معتقد نہ ہو اور کوئی ایسی بات نہ سنتا ہو جو شرعاً مذموم ہو اور نہ وہ اپنی خواہشات کی رَو میں بہہ جاتا ہو اور فضول چیز کی طرف بھی مائل نہ ہو۔


    اوپر بیان کیے گئے فرمودات نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آئمہ اسلاف کے اقوال کی روشنی میں یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ :
    1۔ نکاح و شادی کے موقعوں پر ڈھول بجانا اور خوشی کے تہواروں کی مناسبت سے صحت مند شاعری اور خوبصورت کلام عمدہ آواز کے ساتھ پڑھنا نیز تفریحی کھیل کود اسلامی احکام کی خلاف ورزی نہیں، یہ عمل حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی سنت بھی رہا ہے۔ یہ خوشی اور مسرت و شادمانی کا فطری اور بے ساختہ اظہار ہے، جس سے لوگوں کو اپنے جذبات طرب و مسرت کے اظہار کا جائز موقع فراہم ہوتا ہے۔ یہ لوگوں کی ثقافتی ضرورت بھی ہے، خاص طور پر ان کی جو دکھوں اور غموں سے پریشان حال ہوتے ہیں۔ ہر چیز جو قرآن و سنت سے مطابقت رکھتی ہے، قابل تحسین ہے اور اس پر کسی مزید جواز کی ضرورت نہیں کہ لوگوں کے جائز جذبات مسرت پر کوئی سند لائی جائے۔
    تاہم بعض احتیاطی اور انسدادی تقاضوں کو بہر صورت پورا کرنا لازمی و لابدی ہے۔ شائستگی کی حدوں کو پھلانگنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے اور اس بات کا خیال رکھا جائے کہ لغو، بے ہودہ اور فحش باتوں سے اجتناب برتا جائے اوربےپردگی اور مخلوط اجتماعات سے گریز کیا جائے کیونکہ اسلام اخلاق، میانہ روی اور توازن کا دامن ہاتھ سے چھوڑنے کی اجازت نہیں دیتا۔ اس لیے ایسے مواقع پر اچھائی اور نیکی کے کاموں سے پہلو تہی ہرگز نہ کی جائے۔
     
    آصف احمد بھٹی، حنا شیخ 2، سعدیہ اور 4 دوسروں نے اسے پسند کیا ہے۔
  11. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    محترم نعیم بھائی بچیوں کو دف کی اجازت دی گئی مخصوص مواقع پر اور آپ کی تحریر سے یہ ثابت ہے
    اور پردہ کاذکر ایک مثال کے طور پر کیا تھا کہ ہم اللہ کے حکم توڑنے کے لیے جواز پیدا کرتے رہے ہیں میرا مطلب یہ تھا کہ گناہ ہم کرتے ہیں لیکن گناہ کو گناہ نہ سمجھنا اس سے بھی بڑا گناہ ہے
    دف اور آج کل کے آلات موسیقی میں فرق ہے یہ تو سننے والے پر منحصر ہے کہ وہ جو سن رہا ہے اس کے بارے میں حکم کیا ہے
    دف کی اجازت ہے اس سے انکار نہیں

    گانے سننا حرام اور برا فعل ہے اور یہ دلوں کے مرض اور ان کی سختی اور اللہ کے ذکر اور نماز سے دور کرنے والے اسباب میں سے ایک سبب ہے اور اکثر اہل علم نے اللہ تعالی کے اس فرمان:

    {وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ (سورۃ لقمان:6)
    ﺍﻭﺭ ﺑﻌﺾ ﻟﻮﮒ ﺍﯾﺴﮯ ﺑﮭﯽ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﻟﻐﻮ ﺑﺎﺗﻮﮞ ﻛﻮ ﻣﻮﻝ ﻟﯿﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔}

    کی تفسیر میں فرمایا کہ اس سے مراد گانے باجے ہیں۔
    اور حضرت عبد اللہ بن مسعود - رضي الله عنه - اس بات پر قسم کھاتے تھے کہ لغو باتوں سے مراد گانا ہے۔ اور اگر گانے کے ساتھـ آلات لہو و لعب ہوں جیسے رباب، سارنگی، دو تارہ اور ڈھول تو اس کی حرمت اور زیادہ سخت ہوجائے گی۔ اور بعض علماء نے ذکر کیا ہے کہ گانا آلات لہو و لعب (موسیقی) کے ساتھـ ہو تو وہ بافاقِ علماء حرام ہے؛ لہذا اس سے بچنا چاہیے.

    اور رسول الله صلى الله عليه وسلم سے صحيح سند سے یہ ثابت ہے كہ آپ نے فرمایا: میری امت کے کچھـ اقوام زنا، ریشم، شراب اور موسیقی کو حلال سمجھیں گے۔[ابوداؤد:4039]


    صحیح بخاری میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ:
    “میری اُمت کے کچھ لوگ شراب کو اس کا نام بدل کر پئیں گے، کچھ لوگ زنا اور ریشم کو حلال کرلیں گے، کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو معازف و مزامیر (آلاتِ موسیقی) کے ساتھ گانے والی عورتوں کا گانا سنیں گے، اللہ تعالیٰ ان کو زمین میں دھنسادے گا اور بعض کی صورتیں مسخ کرکے ان کو بندر اور سوَر بنادے گا

    اللہ معاف فرمائے مجھ سے گانے سننے والا گناہ سر زد ہوا ہے۰
    حدیث شریف میں ہے:
    “من قعد الی قنیة یستمع منھا صبّ الله فی أُذنیہ الآنک یوم القیامة۔”
    (کنز العمال ج:۱۵ ص:۲۲۰، حدیث نمبر:۴۰۶۶۹)
    ترجمہ:… “جو شخص کسی گانے والی عورت کی طرف کان لگائے گا، قیامت کے دن ایسے لوگوں کے کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ ڈالا جائے گا۔”

    بہت سارے دلائل سے معلوم ہوا ہے کہ گانا سننا اور اس میں مشغول ہونا خاص طور پر جب تفریحی آلات کے ساتھـ ہو جیسے سارنگی اور موسیقی وغیرہ کے ساتھـ تو یہ شیطان کے بڑے فریبوں میں سے ہے، اور اس کے ان جالوں میں سے ہے جس سے وہ جاہلوں کے دلوں کو شکار کرتا ہے، اور اس کے ذریعے سے قرآن سننے سے روکتا ہے، اور ان کے لئے فسق اور نافرمانی میں مشغول رہنا محبوب کرتا ہے، نیز گانا اور اس کی بانسری، اور زنا کی منتر، اور لواطت کی اور شر اور فساد کے مختلف قسموں کو دعوت دینے والا ہے، اور یقیناً ابو بکر طرطوشى اور دیگر اہل علم نے ائمہ اسلام سے حکایت کی ہے کہ انہوں نے گانے کی مذمت کی اور تفریحی آلات کی، اور اس سے پرہیز کیا، اور علماء سے گانے کی حرمت نقل کی ہے، جو سارنگی وغیرہ جیسے تفریحی آلات میں سے کسی چیز پر مشتمل ہو، یہ اس لئے کیونکہ گانے اور ساز میں دل کی بیماریاں، اور اخلاق کا فساد، اور اللہ کی ذکر اور نماز سے رکاوٹ ہوتی ہے، اور یقینا گانا اس لغو میں شامل ہے جس کی اللہ نے مذمت اور عیب جوئی کی ہے،اور اس سے دل میں نفاق پیدا ہوتا ہے، جس طرح پانی سے دانہ اگتا ہے، خصوصی طور پر جب یہ ان گلوکار مرودوں اور عورتوں سے جو اس کے لئے مشہور ہوں، تو اس کا ضرر اور خطرناک اور دلوں کو فاسد کرنے میں زیادہ شدید ہوگا،
    اللہ تعالی فرماتا ہے:
    ﺍﻭﺭﺑﻌﺾ ﻟﻮﮒ ﺍﯾﺴﮯ ﺑﮭﯽ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﻟﻐﻮ ﺑﺎﺗﻮﮞ ﻛﻮ ﻣﻮﻝ ﻟﯿﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﻛﮧ ﺑﮯﻋﻠﻤﯽ ﻛﮯ ﺳﺎتھـ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻛﻮ ﺍﹴللہ ﻛﯽ ﺭﺍﮦ ﺳﮯ ﺑﮩﲀﺋﯿﮟﺍﻭﺭﺍﺳﮯ ﮨﻨﺴﯽ ﺑﻨﺎﺋﯿﮟ، ﯾﮩﯽ ﻭﮦ ﻟﻮﮒ ﮨﯿﮟ ﺟﻦ ﻛﮯ ﻟﺌﮯ ﺭﺳﻮﺍﻛﺮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﻋﺬﺍﺏ ﮨﮯ(سورۃ لقمان:6)

    ﺟﺐ ﺍﺱ ﻛﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺁﯾﺘﯿﮟ ﺗﻼﻭﺕ ﻛﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﺗﻜﺒﺮ ﻛﺮﺗﺎ ﮨﻮﺍ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﻣﻨﮧ ﭘﮭﯿﺮ ﻟﯿﺘﺎ ﮨﮯ ﮔﻮﯾﺎ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺳﻨﺎ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮔﻮﯾﺎ ﻛﮧ ﺍﺱ ﻛﮯﺩﻭﻧﻮﮞ کاﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﭦ ﻟﮕﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﯿﮟ، ﺁﭖ ﺍﺳﮯ ﺩﺭﺩ ﻧﺎﻙ ﻋﺬﺍﺏ ﻛﯽ ﺧﺒﺮ ﺳﻨﺎ ﺩﯾﺠﺌﮯ ۔ ، واحدی اور دیگر اکثر مفسریں نے کہا ہے، ابن مسعود رضی الله عنہ جو بڑے صحابہ اور ان کے علماء میں سے تھے، وہ اللہ جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، اس کی قسم کھا کر کہتے تھے کہ لغو بات سے مراد گانا ہے،اور آپ رضی اللہ عنہ فرماتے کہ: گانا دل میں ایسے ہی نفاق اگاتا ہے جیسے پانی زراعت کو اگاتا ہے، اور صحابہ اور تابعین میں اسلاف سے گانے اور تفریحی آلات کی مذمت، اور اس سے پرہیز کرنے کے بارے میں بہت سارے آثار وارد ہیں، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا:
    میری امت سےاقوام ہوں گے جو زنا، ریشم، شراب اور موسیقی کو حلال سمجھیں ۔ امام بخاری نے اسے روايت كيا ہے۔ اور الحر حرام شرمگاہ کو کہتے ہیں، اور اس سے مراد زنا ہے، اور ساز سے مراد ہر تفریحی آلہ ہے جیسے موسیقی، طبلہ، سارنگی، رباب، اور تانت وغیرہ، علامہ ابن قیم رحمہ الله "كتاب الإغاثة" میں لکھا ہے کہ: المعازف کی تفیسر ہر تفریحی آلات سے کرنے میں اہل لغت کے درمیان اختلاف نہیں ہے۔
    اور ترمذی نے عمران بن حصین رضی الله عنہ سے روایت کی ہے کہتے ہیں کہ: رسول الله صلى الله عليہ وسلم نے فرمايا: میری امت میں سنگ باری اور خسف ومسخ (زمین میں دھنسنے اور اشکال کی تبدیلی) کے واقعات ہوں گے، تو ایک مسلمان شخص نے کہا کہ : اے اللہ کے رسول! یہ سب کب ہوگا؟ تو آپ نے فرمایا: جب لونڈی بازی اور موسیقی عام ہو جائے، اور شراب نوشی کھلے عام ہونے لگے۔[ترمذی:2212]
     
    آصف احمد بھٹی، سعدیہ اور ناصر إقبال نے اسے پسند کیا ہے۔
  12. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    شریعت مطہرہ نے موسیقی سے منع فرمایاہے۔ چنانچہ اس کی ممانعت کس قدر سختی سے کی گئی اس کا اندازہ اس واقعہ سے بخوبی ہوسکتا ہے ،ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن عمر کہیں تشریف لے جارہے تھے کہ راستے میں طبل کی آواز آنا شروع ہوگئی آپ نے اپنے کانوں میں انگلیاں ڈال لیں تاکہ یہ آوا ز غیر اختیاری طور پربھی آپ کے کانوں میں نہ پڑے، پھر آپ وہاں سے ہٹ گئے اور تین دفعہ ایسا ہی کیا پھر فرمایا کہ نبی ﷺنے بھی اسی طرح کیاتھا۔ کیا یہ واقعہ اس بات پر دلالت کرنے کیلئے کافی نہیں ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور ان کے صحابہ کو موسیقی سے کس قدر نفرت تھی۔

    اس کے علاوہ ایک روایت میں فرمایاکہ جب میری امت پندرہ چیزوں میں مبتلا ہو جائے گی تو ان میں مصائب کا نزول شروع ہوجائے گا ان چیزوں میں سے ایک چیز آپ نے یہ بھی ذکر فرمائی کہ جب ان میں گانے والیاں اور آلات موسیقی عام ہوجائیں گے۔
     
    ناصر إقبال نے اسے پسند کیا ہے۔
  13. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    میرا خیال ہے میں نے بھی اوپر احادیث مبارکہ ہی پیش کی تھی جس کی روشنی میں امت مسلمہ کے مستند آئمہ کرام اور علمائے کرام کی آراء بھی عرض کردی تھی
    مزید برآں دنیا بھر میں اہل اسلام دف یا اس کی مثل دیگر آلات موسیقی پر قوالی، نعت، عارفانہ روحانی کلام سنے سنائے جاتے ہیں وہ سب بھی اسی قرآن و حدیث سے دلائل لیتے ہیں
    اب ان شرعی امور پر اپنی سوچ کے مطابق تشریحات و تاویلات پیش کرنا ۔۔ مثلا
    دف کا حکم صرف بچیوں کے لیے جائز تھا ۔۔
    موجودہ آلات موسیقی دف نہیں ۔
    ڈھول طبلہ دف کی جدید شکل نہیں ۔۔
    یا پھر تصویر والے مسئلہ پر بھی امت مسلمہ کے آئمہ و فقہاء کی مختلف آراء ہیں ۔ دونوں طبقات کے پاس قرآن و سنت ہی سے اپنے دلائل ہیں ۔ ایک طبقہ کہتا ہوں رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم نے تصویر سے منع کیا تو کلیتا منع ہے۔
    دوسرا طبقہ کہتا ہے بھائی وہ تصویر منع ہے جس میں شرکیہ عبادت کا پہلو پایا جائے۔ اسکے علاوہ یاد گار یا دفتری ضروریات کے تحت تصویر بنانا منع نہیں۔
    لیکن ایسے مباحث دراصل علمائے دین اور آئمہ اسلام مفسرین و محدثین اور متحقیقن کا کام ہوتا ہے۔اور انہی کو سجتے ہیں۔

    اس لیے میری عرض یہی ہے کہ جس مسئلہ پر آئمہ و فقہائے کرام مختلف الآرا ہوں وہاں اپنا موقف پیش کرکے خاموش ہوجانا بہتر ہوتا ۔ خواہ مخواہ بحث تکرار سے ماحول متاثر ہوتا ہے۔
    شکریہ
     
    پاکستانی55، سعدیہ اور ناصر إقبال نے اسے پسند کیا ہے۔
  14. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    ہمیں صحابہ کرام نے جو عمل کیا وہ بھی یاد رکھنے چاہیے جس طرح یہ واقعہ ہے

    ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن عمر کہیں تشریف لے جارہے تھے کہ راستے میں طبل کی آواز آنا شروع ہوگئی آپ نے اپنے کانوں میں انگلیاں ڈال لیں تاکہ یہ آوا ز غیر اختیاری طور پربھی آپ کے کانوں میں نہ پڑے، پھر آپ وہاں سے ہٹ گئے اور تین دفعہ ایسا ہی کیا پھر فرمایا کہ نبی ﷺنے بھی اسی طرح کیاتھا۔ کیا یہ واقعہ اس بات پر دلالت کرنے کیلئے کافی نہیں ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور ان کے صحابہ کو موسیقی سے کس قدر نفرت تھی۔

    آپ نے درست فرمایا ہمیں اپنا موقف پیش کرکے خاموش ہوجانا چاہیے
     
    آصف احمد بھٹی، سعدیہ اور ناصر إقبال نے اسے پسند کیا ہے۔
  15. راشد
    آف لائن

    راشد ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2018
    پیغامات:
    35
    موصول پسندیدگیاں:
    17
    ملک کا جھنڈا:
    بہت عمدہ مضمون ھے
    موجودہ زمانے میں انٹرٹینمنٹ کے نام پر بہت بے ھودگی مچائی جارھی ھے
     
    زنیرہ عقیل نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں