1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ذیابیطس کنٹرول کرنے کے آسان طریقے

'میڈیکل سائنس' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏17 دسمبر 2019۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    ذیابیطس کنٹرول کرنے کے آسان طریقے
    upload_2019-12-17_1-54-59.jpeg
    سید اعجاز حسین
    طبی ماہرین نے ذیابیطس کے مرض کو قابو میں کرنے کے لیے چند آسان نسخے تجویز کیے ہیں جو حسب ذیل ہیں۔ ورزش ذیابیطس کے مریضوں کو ورزش پر اسی طرح عمل کرنا چاہیے جس طرح وہ ڈاکٹروں کی تجویز کردہ دوائیں نسخے کے مطابق استعمال کرتے ہیں۔ انہیں روزانہ کم از کم 20 سے 30 منٹ جسمانی حرکات و سکنات میں حصہ لینا چاہیے۔ میساچیوسٹس یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر بیری براؤن کے مطابق ذیابیطس کے مریض اگر کچھ دن جسمانی سرگرمیوں سے خود کو الگ تھلگ رکھیں یا بے حس و حرکت زندگی بسر کریں اور غذائی اشیا کے استعمال میں بدپرہیزی کرنے لگیں تو ان کے جسم میں انسولین کی مزاحمت کی صورتحال بگڑ سکتی ہے۔ انہوں نے مشورہ دیا ہے کہ ایسے مریضوں کو اس قسم کی ورزشوں میں زیادہ دلچسپی لینی چاہیے جن سے وہ زیادہ لطف اٹھاتے ہوں کہ وہ مسلسل پابندی سے انہیں جاری رکھ سکیں۔ وقتی طور پر زیادہ محنت مشقت کے کام کر کے اگر بعد میں انہیں ترک کر دیا جائے تو اس سے جسم کو زیادہ نقصان پہنچ سکتا ہے۔ دارچینی ہمارے باورچی خانوں میں عام طور پر استعمال ہونے والا یہ مسالہ ذیابیطس کے مریضوں کے لیے مفید پایا گیا ہے اور ان کا مشورہ یہ ہے کہ جن غذائی اشیا میں اس کا سفوف چھڑک کر استعمال کیا جا سکتا ہے، اسے استعمال کرنا چاہیے۔ طبی جائزے میں یہ دیکھا گیا ہے کہ دارچینی سے انسولین کی حساسیت بہتر ہو جاتی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ خون میں شکر کی سطح مناسب حد تک برقرار رکھنے کے لیے جسم کو ہارمون انسولین کی ضرورت کم پڑتی ہے۔ ایک ماہر جونی ہاؤڈن کا کہنا ہے کہ بازار میں آسانی کے ساتھ دستیاب ہونے والا یہ سستا مسالہ ذیابیطس کے مریضوں کو اسی طرح فائدہ پہنچاتا ہے جس طرح اس کے مہنگے سپلیمنٹ مستفید کرتے ہیں۔ ڈرنکس میساچیوسٹس یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے ایک تجربے کے دوران یہ دریافت کیا ہے کہ ورزش کے ذریعے ذیابیطس کے مریضوں میں 500کیلوری کم کر کے انسولین کی حساسیت 40 فیصد کی حد تک بہتر بنائی گئی تھی لیکن اس کا کوئی فائدہ اس لیے حاصل نہیں کیا جا سکا کہ جو توانائی جلائی گئی تھی، اسے فوری طور پر میٹھے اسپورٹس مشروبات کے ذریعے پورا کر دیا گیا تھا۔ یہ میٹھے مشروبات زیادہ تر کاربوہائیڈریٹس پر مشتمل ہوتے ہیں۔ گلوکوز مانیٹر خون میں شکر کی مقدار بتانے والا آلہ (گلوکوز مانیٹر) گھر پر رکھنا اس لیے ضروری ہے کہ اس سے ذیابیطس کے مریضوں کو بروقت یہ پتا چل جاتا ہے کہ کس قسم کے مخصوص کھانے یا مشروبات خون میں اس کے بلڈ شوگر کی سطح کو متاثر کرتے ہیں۔ آسان طریقہ یہ ہے کہ کھانے کے ٹھیک دو گھنٹے کے بعد انگلی کے پور پر سوئی چبھو کر گلوکوز مانیٹر کی مدد سے خون میں شکر کی مقدار معلوم کر لی جائے۔ میٹھے کدو اور سورج مکھی کے بیج خون میں گلوکوز کی سطح کو مناسب حد تک برقرار رکھنے میں میٹھے کدو اور سورج مکھی کے بیج مفید پائے گئے ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق اگر مٹھی بھر مقدار میں ان بیجوں کے چھلکے اتار کر مغز کھا لیے جائیں تو اس سے بلڈ شوگر کی سطح کنٹرول میں رہنے کے علاوہ اس میں موجود میگنیشیم انسولین کی مزاحمت سے مقابلہ بھی کر سکتی ہے۔ ہر دو، تین گھنٹے بعد کھانا ذیابیطس کے مریضوں کے خون میں شکر کی مقدار اچانک کم ہونے سے روکنے کے لیے بہتر ہے کہ وہ دن بھر میں دو یا تین مقرر اوقات کے علاوہ بھی تھوڑے وقفوں سے کچھ نہ کچھ کھاتے رہیں۔ ماہرین انہیں ہر دو یا تین گھنٹے کے بعد ہلکی پھلکی چیزیں کھانے کا مشورہ دیتے ہیں۔اس طرح ان کے خون میں شکر کی مقدار مناسب حد تک برقرار رہتی ہے اور شکر کی زیادتی سے انہیں چکر نہیں آتے۔ بلڈپریشر کی دوائیں ذیابیطس کے مریض اگر ہائی بلڈ پریشر میں بھی مبتلا ہوں اور اسے کنٹرول میں رکھنے کے لیے Thiazide گروپ کی پیشاب آور دوائیں لے رہے ہوں تو انہیں چاہیے کہ وہ اپنے ڈاکٹروں کے مشورے سے اسے تبدیل کر کے Ace Inhibitor گروپ کی دوائیں استعمال کریں۔ خیال رہے کہ اس بارے میں حتمی فیصلہ ڈاکٹر نے کرنا ہے، تاہم ایک سائنسی جائزے کے مطابق پیشاب آور دواؤں کی وجہ سے جسم میں پوٹاشیم کم ہونے کے ساتھ ساتھ خون میں گلوکوز کی سطح بھی بڑھ سکتی ہے۔​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں