1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ذرا "عمر" رفتہ کو آواز دینا

'آپ کے مضامین' میں موضوعات آغاز کردہ از عمر خیام, ‏28 مئی 2015۔

  1. عمر خیام
    آف لائن

    عمر خیام ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2009
    پیغامات:
    2,188
    موصول پسندیدگیاں:
    1,308
    ملک کا جھنڈا:
    زمانہ طالب علممی میں ہم کو ایک ایسے تعلیمی ادارہ میں جانے اور پڑھنے کا اتفاق بھی ہوا جہاں صرف بہت خوش قسمت، انتہائی ذہین یا تگڑا سفارشی ہی جاسکتا ہے ۔
    چلتے چلتے کچھ باتیں یاد آگئی ہیں جو ان دنوں کی یادگار ہیں ۔ یہ تعلیمی ادارہ بہت قدیم اور روایت پسند قسم کا تھا۔ قیام پاکستان سے پہلے کا قائم تھا ۔ اس کی اپنی روایات اور رواج رسمیں تھیں۔ جن پر یہ بہت سختی سے پابند رہتے۔ اور پابند رکھتے۔ اس کا سسٹم ایسا تھا کہ سب کو ہاسٹل میں رہنا پڑتا تھا ۔ کچھ لوگ بالکل نزدیک کے تھے۔ آسانی سے روز آجاسکتے تھے۔ لیکن ہاسٹل کا رہائشی ہونا شرط تھا۔ داخلے کا طریقہ بہت کڑا تھا۔ بہت چھان بین کے بعد رکھتے۔ پاکستان بھر میں کئی مراکز پر اس کے انٹرنس ٹیسٹ ہوتے ، انٹرنس ٹیسٹ میں اردو، انگلش اور ریاضی کے تحریری امتحانات ہوتے ۔ کامیاب امیدواروں کو میڈیکل ٹیسٹ کے لیے مختلف ہسپتالوں میں جانے کا کہا جاتا۔ ہمیں میڈیکل کے لیے تین دن تک ہسپتال جانا پڑا۔ آنکھ ، ناک ، کان ، قد، وزن ، یورین ٹیسٹ ، بلڈ ٹیسٹ ، گھٹنے ، پیر اور جانے کیا کچھ چیک کیا گیا ۔ یہاں سے بھی سرخرو ہونے کے بعد انٹرویو کا مرحلہ آتا اور اس کے بعد تمام امیدواروں کی میرٹ لسٹ بنتی ۔ ہمارا نام اس میرٹ لسٹ میں آگیا تھا ۔

    اس ادارہ کے بہت سے ہاسٹل تھے۔ ان کو ہاؤس کہا جاتا تھا ۔ اور یہ ہاؤس مسلم فاتحین یا سلاطین غزنوی ، شیرشاہ سوری ، بابر ، ٹیپو سلطان اور اورنگ زیب کے نام پر تھے ۔ ان میں سے بابر ہاؤس میں ہم رہتا تھا، ہاسٹل کی دونوں کونوں پر ہاسٹل کے وارڈن کی رہائش ہوتی تھی۔ وارڈن کو ہاؤس ماسٹر یا اسسٹنٹ ہاؤس ماسٹر کہا جاتا تھا۔ ایک طرف کا اسسٹنٹ ہاؤس ماسٹر فیصل آباد کا تھا، فزکس پڑھاتا تھا۔ نوجوان تھا، تازہ تازہ شادی شدہ۔ گھر میں وقت گذارنا پسند کرتا۔ کبھی کبھار چکر لگا جاتا، ہمیں زیادہ تنگ نہیں کرتا تھا، ہمیں بھی اس سے کوئی شکوہ شکایت نہیں تھا۔ لیکن دوسرا طرف والا ادھیڑ عمر کا پٹھان تھا، وہ بھی لکی مروت کا۔ اسلامیات پڑھاتے تھے ۔ پانچ یا چھ لڑکیوں کے باپ۔ نہ خود آرام سے سوتا، نہ ہم کو چین کا سانس لینے دیتا۔ ہر وقت سب پر نظر رکھتا۔ کہ کون کیا کررہا؟ کون کہاں جارہا؟ کون کہاں سے آرہا؟ اس کو معلوم ہونا چاہیے۔ ہم عمر کے اس حصے میں تھا جب کتنی ہی اچھی بات کرو تو سب لوگ ڈانٹ دیتے کہ بڑوں کی بات میں نہ بولو۔ اور غلط بات یا حرکت کرتے تو سب ڈانٹ دیتے کہ اتنے بڑے ہوگۓ ہو شرم نہی آتی بچوں کی سی سوچ اور حرکتیں کرتے ہو۔ گدھے کے سر پر ساری زندگی سینگ نہی اگتے تو کیا وہ ساری زندگی بچہ ہی رہتا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس عمر میں ہر چیز میں ایڈونچر ملتا ہے ۔ قانون توڑنے میں مزا آتا ۔ اصولوں پر کاربند نظام میں بے اصولی کی رخنہ داریاں ڈالنے میں۔۔ چوری چھپے ہاسٹل کی دیوار پھاندنے میں ۔۔ ہاسٹل کے کمرے میں کوکنگ کرنا ممنوع تھا، ہم بجلی کے چولہے پر حلوہ بنانے کا تجربہ کیا کرتا۔ وی سی آر پر پابندی تھا۔ ہم ساتھ کے قصبے سے کرایے پر لاکر دیکھنا چاہتا تھا۔ جو جو چیز منع تھا، ہم کو وہ کرنے میں مزا آتا۔ پکڑے جانے کا اور سزا پانے کا خوف اپنی جگہ۔ لیکن شوق اور ایڈونچر کا کوئی مُل نہی ہوتا۔ ایک بار ہم نے حلوہ بنایا۔ بنانے کے لیے دیگچی یا کوئی برتن میسر نہ آیا تو کسی کے ٹفن کیریئر کا ڈبہ استعمال کیا۔ ڈبہ تنگ تھا۔اور سوجی ، چینی اور گھی کا مرکب زیادہ ، اس میں چمچہ ٹھیک ٹھیک طرح سے پھر نہ سکتا تھا اس لیے حلوہ تین قسم کا بنا۔ سب سے نیچے والی تہہ جل گئ۔ درمیان والی ٹھیک رہی۔ اس میں سب چیز کا تناسب ٹھیک ٹھیک رہا۔ مزے میں بھی برا نہ تھا۔ لیکن سب سے اوپر والی بالکل کچی رہی۔۔

    ایک بار ہم سب کا دل چاہا کہ دیوار پھلانگ کر باہر کی سیر کیا جاۓ۔ دس بجے جب بتی بند ہونے کا آرڈر ہوا۔ ہم نے بستر کے اوپر تکیے سرھانے، کتابوں کا بستہ اور ایک جوتوں کا خالی ڈبہ جوڑ کر رکھے اور اوپر سے چادر ڈال دی تاکہ باہر سے دیکھنے والے کو یہی نظر آۓ کہ کوئی چادر تانے سویا ہوا ہے۔ پھر ہم چپکے سے باتھ رومز کی طرف گۓ۔ باتھ رومز ہاسٹل کی ایک کونے میں ہوتے تھے۔ ادھر شاور وغیرہ بھی تھے، ان کی کھڑکیوں میں سے کود کر باہر گۓ۔ دو گھنٹے تک شہر کی بتیاں دیکھ کر اور سموسہ چاٹ کر کھا کر واپس آگۓ۔ کسی کو کانوں کان خبر تک نہ ہوا۔ لیکن اس پٹھان ہاؤس ماسٹر کو ہمیشہ شک رہتا کہ کوئی گڑ بڑ ضرور ہے۔ وہ ایسا کرتا کہ اچانک چھاپا مارنے کے انداز میں آجاتا۔ کمرے کی پیچھے کی طرف سے آکر جاسوسی کرنے کی کوشش کرتا۔ کھڑکی کی پاس کان لگا کر سنتا کہ یہ لوگ کیا منصوبہ بنا رہا۔ ہم کو شک ہوا کہ کوئی پیچھے کی کھڑکی سے آتا تو ہم نے ایک ٹین کا ڈبہ ایک دھاگہ کے ساتھ کھڑکی اور ساتھ والے ایک درخت سے باندھ دیا۔ دھاگہ اتنا کمزور تھا کہ اگر کوئی اس می سے گذرتا تو وہ ٹوٹ جاتا۔ جس کا وجہ سے ٹین کا ڈبہ گر جاتا، ہم کو پتہ چل جاتا کہ باہر کوئی موجود ہے ۔۔ اور ہم سب اچھی اچھی باتیں کرنا شروع کردیتے ۔ نیک باتیں کرتے اور نیک منصوبے بناتے کہ اب جلدی سے سونا چاہیے، تاکہ صبح نماز کیلیۓ اٹھ سکیں۔ ہمارے ٹیچرز کتنے اچھے ہیں۔ خاص طور پر خان صاحب تو بہت نیک اور بیبے ہیں۔ ہمارا کتنا خیال رکھتے ہیں ، اللہ ان کا سایا بہت دیر تک ہمارے سروں پر رکھے اور ان کی ٹرانسفر نہ ہو ۔۔۔۔وغیرہ وغیرہ۔

    ایک بار ہم وی سی آر پر ایک نہایت اچھی فلم سے لطف اندوز ہورہے تھے ، فلم ایک نہایت سنسی خیز اور دلچسپ موڑ پر آئی ہی تھی کہ اوپر سے خان صاحب آگئے ۔ جلدی سے ٹی وی بند کیا گیا ، اس نے پوچھا کہ کیا ہورہا ہے؟ ہم نے کہا بیالوجی کے لیسن کی تیاری ہورہی ہے ۔ اس نے پوچھا کہ یہ ٹی وی ادھر کیوں؟ اور وی سی آر کی طرف اشارہ کرکے پوچھا کہ یہ ڈبہ کیا ہے ؟ ہم نے کہا اس ٹی وی کا کنکشن خودربین کی ساتھ اس پروجیکٹر کی مدد سے لگایا گیا ہے تاکہ خوردبین کی اندر والی چیز بڑا بڑا نظر آسکے اور سب کو ایک ساتھ نظر آسکے، ورنہ خوردبین میں سے تو سب کو باری باری دیکھنا پڑتا ہے۔ وقت کا ضیاع ہوتا ہے۔۔ پھر ان کو تفصیل سے بتانے کی کوشش کی گئی کہ بیالوجی میں خوردبین اور جراثیموں کا چولی دامن کا ساتھ ہے ، وہ اسلامیات کے استاد تھے ، ان سائنسی اصطلاعات سے مانوس نہیں تھے ، چکرا گئے اور مطمئن ہوکے رخصت ہوگئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شکر ہے کہ یہ نہیں پوچھا کہ خوردبین کہاں ہے؟

    ہم کو کبھی بھی سمجھ نہیں لگی کہ اس وارڈن کو ہم سے شدید ضد کیوں تھی؟ لیکن ہم کو کچھ دن میں ہی علم ہو گیا تھا کہ یہ ہم سے کوئی پرخاش ضرور رکھتا ہے ۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ ایک بار فروری کی زرد رتوں میں سب لوگ مارچ میں ہونے والے امتحان کی تیاری کرنے کی غرض سے ہاسٹل کے زرد لان میں بیٹھے کتابیں رٹ رہے تھے کہ کسی کا نظر سفید اجلی چادروں میں ملبوس اس وارڈن کی دو بڑی بیٹیوں کی طرف اٹھ گئی، جو سکول سے واپس آکر گھر کی دروازے میں داخل ہورہی تھیں، گھر کا یہ دروازہ ھاسٹل کے صحن اور کمروں سے نظر نہیں آتا تھا۔ لان سے نظر آگیا تھا۔ اب سب کو اشتیاق پڑ گیا کہ ان کا نام معلوم کیا جانا چاہیے۔ حالانکہ ان کو دوبارہ سے دیکھنے کا کوئی چانس نہیں تھالیکن وہ عمر ہی بس ایسی تھی کہ انہونی کو ہونی کرنے کا ایویں ہی شوق ہوجاتا ہے ۔ نام معلوم ہونے کا کوئی چارہ نہ تھا۔ مجھے ایک ترکیب سوجھی۔ جیسا کے پہلے بتایا جا چکا کہ اس وارڈن کی آدھ درجن کی لگ بھگ بیٹیاں تھیں ، دو چھوٹی بیٹیاں جو بمشکل چار پانچ اور چھ سات سال کے لگ بھگ کی ہوں گی ، اکثر ادھر ادھر ھاسٹل کے لان یا صحن میں گھوما پھرا اور کھیلا کرتی تھیں ، میں نے ان میں سے سب سے چھوٹی بیٹی کو چیڑنے کے لیے کہا کہ تم کیسا لوگ اے؟ تم کو تو اپنا باجی کا نام بھی نہی مالوم۔ وہ کہتی کہ ام کو مالوم۔ میں نے کہا اچھا مالوم اے تو بتاؤ تاکہ ام فیصلہ کر سکے کہ تم کو ٹھیک ٹھیک مالوم یا غلط غلط۔۔۔ اس معصوم سی لڑکی کو ہماری چال سمجھ نہ آئی اس نے جھٹ سے بتادیا۔ مجھے شک پڑتا کہ اس معصوم سی لڑکی نے معصومیت میں اپنے اباجی کو بھی بتا دیا ہوگا کہ دیکھو وہ کتنی سمجھدار اور ہوشیار ہے کہ فلاں فلاں نے اس سے ایسا سوال کیا اور اس نے اس کا کیسے ٹھیک جواب دیا۔
    یا دوسری وجہ یہ کہ ایک بار جب ہم سب لوگ سوئمنگ کے لیے تیار تین لائنوں میں " دوڑے چل" کرنے کو ہی تھے کہ اس وارڈن نے آرڈر دیا کہ سب لوگ جلدی اپنا سفید تولیہ لیکر نکلے۔ کوئی لڑکا سفید تولیے کے بغیر آیا تو اس کووہیں سوئمنگ پول میں ڈبکیاں دی جائیں گی ۔۔ شاید ان کے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ صاف تولیہ لانا۔ اور جلدی میں سفید کہہ دیا۔لیکن ڈسپلن کا تقاضا تھا کہ جو آرڈر دیا گیا ہے اس کی تعمیل لازمی ہو، آرڈر کے صحیح یا غلط کا فیصلے کا اختیار نہیں تھا ۔ ہم سب کو فکر پڑ گئی کیونکہ سفید تولیہ تو شاید کسی کے پاس نہ تھا۔ سفید تولیہ بہت جلدی گندہ ہوجاتا ہے ۔ گندہ تو باقی رنگ کا بھی اتنی جلدی ہوتا لیکن باقی رنگ کا فائدہ یہ کہ وہ گندہ ہوبھی تو اتنا نظر نہی آتا۔، ہم نے ہیڈ وارڈن یعنی ہاؤس ماسٹر صاحب کے سامنے فریاد کی کہ سفید تولیے لے کے آنے کا آرڈر ملا ہے ۔ یہ کہاں سے لائیں جائیں ۔ وہ بولے کہ کس گدھے نے تم لوگوں کو سفید تولیے کا کہا؟ کوئئ بھی تولیہ لے کے جانا۔ سفید رنگ ضروری نہیں۔ ہم نے جھوٹ بولنا اور مصلحت سے کام لینا مناسب نہ سمجھا اور اس وارڈن کا طرف اشارہ کردیا کہ ان صاحب نے کہا۔ اب ہیڈ وارڈن نے جس نظر سے اس کو دیکھا ، اور ہیڈ وارڈن کی نظر سے کہیں زیادہ کھاجانے والی نظر سے اس وارڈن نے ہمیں دیکھا۔ ایسی نظر کو صرف محسوس کیا جاسکتا۔ لفظ بیان نہیں کر سکتے ۔ جو کچھ بھی تھا۔ ہم اس کو موقعہ نہیں دیتے تھے کہ یہ ہمیں تگڑی سی سزا دے سکے۔ یا اس کے قابو میں آسکے۔ یہ خود اسلامیات پڑھاتے تھے۔ ہم اسلامیات کا سبق رٹ کر رکھتے۔ سب سورتیں یاد ۔ بمعہ ترجمہ کے ۔۔۔ حتی کہ ایک رات خوب جی جان سے محنت کرکے دعاۓ قنوت بھی ٹھیک سے رٹ رکھی تھی۔نصاب کی سب احادیث کے اردو میں ترجمے۔ والدین اور پڑوسیوں کے حقوق، مکی اور مدنی زندگی کے حالات، صلح حدیبیہ اور اس کی شرائط، فتح مکہ سب ازبر کر رکھی تھیں۔ یہ وارڈن بھی بڑا پکا تھا، ہر بار ہم سے ضرور پوچھتا اور سب سے مشکل سوال پوچھتا۔ اور چکر دے دے کر پوچھتا لیکن ہم اللہ کے خاص کرم سے صاف بچ جاتے ۔
     
    ملک بلال، پاکستانی55 اور ارشین بخاری نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. عمر خیام
    آف لائن

    عمر خیام ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2009
    پیغامات:
    2,188
    موصول پسندیدگیاں:
    1,308
    ملک کا جھنڈا:
    ہم جس کمرے میں تھے اس میں ہمارے علاوہ سات اور لڑکے بھی تھے، جو پاکستان کے مختلف علاقوں سے تھے۔ایک لس بیلا یا تربت کا تھا، ایک گجرات کا تھا، ایک راولپنڈی سے ،ایک ایبٹ آباد سے ، ایک چکوال سے، ایک ملتان سے ، اور ایک کراچی سے۔۔۔ کچھ لڑکوں کے ملاقاتی مہینے میں ایک بار آتے۔ ساتھ پھل لاتے، گھر کا بنا کھانا لاتے۔ وہ چلے جاتے تو ہم سب مل کر کھاتے۔ ایک بار کراچی والے لڑکا کا باپ جو سول سروس کا بڑا سا افسر تھا، کسی سرکاری کام سے اس علاقے سے گذرا تو لگے ھاتھوں اپنے فرزند ارجمند سے بھی ملتا گیا۔ وہ شاید اتنے سال میں پہلی بار آیا تھا، یا ہوسٹل کی روایات سے واقف تھا کہ وہ اپنے ساتھ سیب اور انار کا ایک ایک کریٹ بھی لے آیا۔ وہ خود تو ایک گھنٹا ملاقات کر کے چلا گیا۔ دن گذرا، شام ہوئی، رات بھی نکل گئ۔ اس لڑکے نے سیب اور انار کا کریٹ کھولنے کا اشارہ تک نہ دیا۔ دوسرا سارا دن ہم لوگ کلاسز می مصروف رہے، پھر کھیل کے میدان میں چلے گئے ۔ شام کو مغرب کی نماز سب ملکر مرکزی مسجد میں باجماعت پڑھتے تھے ۔ احمدی اور شیعہ سٹوڈنٹ مسجد کے الگ الگ حصوں میں چلے جاتے۔وہاں اپنی اپنی نماز پڑھتے۔ باقی کے بارے میں ہمیں اس وقت ابھی اتنی سمجھ نہیں تھی کہ ان میں دیوبندی، بریلوی، سنی، اہل حدیث یا کچھ اور بھی ہوسکتا۔ رات کا کھانا بھی کھالیا گیا۔ لیکن کراچی والا لڑکا ٹس سے مس نہ ہوا۔اور سیبوں اور اناروں کے کریٹوں کو کھولنے کا اشارہ تک نہ کیا ۔ باقی لوگ اب بے چین ہونے لگے۔ ہم سب کو انار کھاۓ عرصہ ہوگیا تھا۔ ہاسٹل کے کھانوں میں انار نہیں ملتا تھا۔ اوپر سے سیب کی خوشبو سب کو مزیدپاگل کرنے کو کافی تھا۔رات کو حسب معمول دس بجے بتی بند ہونے کا بگل بجا۔ ہم ذاتی طور پر بہت بے ضرر ہیں ۔ شرارتی نہیں۔ اور چور بالکل بھی نہیں ۔ لیکن اس دن وقت کے دھارے کے ساتھ بہہ گئے۔

    رات کا پچھلا پہر تھا، ہماری آنکھ کھلی ، ہم باتھ رومز کی طرف گیا۔ واپس آیا تو ہم کو کمرے کی باہر برآمدے میں دو سایے نظر آۓ، پھر سیب کی سوندھی سوندھی خوشبو آئی، انار کے چھلکے فرش پر پڑے دکھائی دیے۔ وہ سب کراچی والے لڑکے کے سیبوں اور اناروں پر ھاتھ صاف کررہے تھے۔ گجرات والا لڑکا دبلا پتلا اور لمبا سا تھا۔ لڑتا جھگڑتا نہی تھا، دبک کے رہتا تھا، وہ شاید ڈر کے شامل نہ ہوا۔ ملتان والا ہمیشہ سویا رہتا تھا۔ اس کو نیند بہت آتی تھی۔اکثر غنودگی کیا حالت میں رہتا ، اس کو ہم سوتل پانڈے کہا کرتے تھے ۔ لیکن اس کی ایک خوبی یہ تھی کہ اس کو ہزاروں شعر زبانی یاد تھے۔ علامہ اقبال کی درجنوں نظموں اور غزلوں کو پورا پورا رٹا ہوا تھا۔ کوئی بھی بیت بازی کا مقابلہ ہوتا تو یہی جیتتا۔ بہت سائنٹفک طریقے سے بیت بازی کرتا۔ خود اس کو تو بے شمار شعر یاد تھے لیکن یہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر شعر اس لفظ یا حرف پر ختم کرتا کہ مخالف زچ ہوجاتا۔ پچھلے سال یہ ایک مخالف ہاسٹل میں تھا۔ ہمارا اس سے مقابلہ پڑ گیا۔ بیت بازی صرف علامہ اقبال کے شعروں کی بارے میں تھی ۔ کل چار ٹیمیں تھیں۔ دو نکل گیئں۔ اب میدان میں تھیں تو ٹیمیں ہی لیکن اصل مقابلہ ہم دو کے درمیان براہ راست ہورہا تھا۔ اس نے تو ھارنا ہی نہی تھا، اور ہمیں جیتنا مشکل ہورہا تھا۔ بڑی مشکل سے برابری پر ختم ہوا کیونکہ جج حضرات نے کہا کہ یہ شام صرف بیت بازی کے لیے ہی نہیں ہے ۔ باقی آئٹمز بھی ہیں۔ اقبال کوئز ہے۔ اقبال کی غزلیں گانے کا مقابلہ ہے۔ اور اقبال کی بچوں کی نظموں پر ٹیبلو بھی پیش ہونے ہیں۔ اس لیے اس بیت بازی کو ادھر ہی ختم کرو۔ برابر برابر پوائنٹ دو۔۔ اب اس سال یہ ملتانی لڑکا اور ہم ایک ٹیم میں تھے۔ اندازہ لگا لیں کہ اس سال جو بھی بیت بازی کے دو تین مقابلے ہوۓ وہ کس ٹیم نے جیتے ہوں گے۔ کراچی والا لڑکا بہت ہٹا کٹا تھا ، بہت اچھا تیراک بلکہ تیراکی کی ٹیم کا کپتان تھا لیکن باقی چار بھی بہت تگڑے تھے ، جہلم والا باسکٹ بال کا کھلاڑی تھا اور بلوچستان والا بہت اچھا فٹبالر اور چکوال والے ملک صاحب دوڑنے کے ماہر۔۔ بلکہ لمبی دوڑوں کے چیمپئین ۔۔موصوف ایک مکمل کریکٹر تھے ۔ ان کو سب لوگ کمانڈو کہا کرتے تھے ۔ ان چاروں کو غصہ تھا کہ روایت کی مطابق یہ مال غنیمت ابھی تک تقسیم کیوں نہیں ہوا۔ اس لیے اپنی مدد آپ کے تحت انہوں نے خود ہی اپنا اپنا حصہ کھانا شروع کردیا تھا۔ ہم کو بھی دعوت میں شامل ہونے کی آفر کی گئی جو ہم نے برضا ورغبت قبول کرکے ان کی عزت افزائی کی اور تو ان کے ساتھ شامل ہوگیا۔ ہم سیب کا اتنا شوقین نہیں۔ البتہ انار اگر بہت میٹھا ہوتا تو رغبت ہوتی ۔ یہ ہمارے علاقے میں نہیں ہوتا اور دکاندار بھی اس کو شاذونادر ہی بیچنے کو لاتے ۔کیونکہ اس کے دام ہی اتنے زیادہ ہوتے کہ اسکی بکری کم ہی ہوتی ۔ لیکن جیسا کہ ہم نے کہا کہ بات صرف پسند و ناپسند کی نہیں ہوتی ، بات شرکت کی ہوتی ہے ۔ ماحول میں رچ بس جانے کی ہوتی ہے ۔اور لہر میں بہہ جانے کی ہوتی ہے ۔ ۔ اوپر سے جرم ہم نے یہ کیا کہ جب سب کھا چکے تو ہم نے چھلکے سمیٹ کر ایک پلاسٹک کے لفافے میں ڈالے اور اپنے کمرے سے دور ہاسٹل کے باہر لگے ایک ڈسٹ بن میں ڈال آۓ۔ اب ان چھلکوں کو اپنے کمرے کے سامنے والے ڈسٹ بن میں تو نہیں ڈالا جا سکتا تھا۔ صبح ہوتے ہی پکڑے جاتے۔۔ ہمارا برآمدے سے نکلنا اور باہر جاکر چھلکے ٹھکانے لگانا ہی ہمارے لیے قیامت کا ساماں بن گیا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب ہم برآمدے کے دھندلے کونے سے باہر صحن کی روشنی میں آیا، اور پہچانا گیا۔ وہ وارڈن جو کئ مہینوں سے ہماری تاک میں تھا۔ اس کے ھاتھ شکار آگیا۔ اس کے من کی مراد پورا ہوگئی ۔ وہ ظالم کا بچہ جانے کب سے اپنے کمرے کی کھڑکی کے اندر سے کچھ سایوں کو برآمدوں میں دیکھ رہا تھا۔ قانون قاعدے کی مطابق رات کے اس وقت کسی کو بھی کمرے کی باہر نہی ہونا چاہیے تھا۔ اور اوپر سے چوری کے سیب اور انار کھانا۔ یک نہ شد دو شد۔۔ آم کے آم گٹھلیوں کے دام۔۔ وغیرہ وغیرہ۔۔

    سب کمرے میں جا کر اپنے بستروں میں دبک کر سو گئے ، میں بھی سوگیا، کچی نیند سے جاگا تھا اور پیٹ بھرا ہوا تھا اس لیے اسی وقت آنکھ بھی لگ گئی ۔ کہ یکدم سے اچانک بتی آن ہوئی ۔ کوئی ہمارے سر پر کھڑا تھا۔ میرا نام لیا گیا۔ میں اٹھا۔ پوچھا گیا کہ پندرہ منٹ پہلے کدھر تھا؟۔ جواب دیا کہ ادھر یہیں سو رہا تھا۔ ایک زوردار زناٹے کا تھپڑ سیدھا منہ پر پڑا۔ سچ مچ کے تارے نظر آگئے ۔سیدھا بستر پر گر گیا۔ اٹھا۔ پھر سے پوچھا گیا۔ جسمانی سزا دینے کی اجازت کسی کو نہ تھی ۔ایک تھپڑ تو اس وارڈن نے جوش جذبات میں مار دیا تھا ۔ زیادہ زدوکوب نہیں کرسکتا تھا۔ ہم نے سارا قصہ بتادیا۔ لیکن یہ نہ بتایا کہ ہمارے ساتھ کون کون تھا۔ اس کا اصرار تھا کہ ساتھ دو اور لڑکے بھی تھے وہ کون تھے؟( اس کو سب سایے نظر نہ آئے ہوں گے ، دو ہی نظر آئے ) ہم بضد کہ ہم اکیلے تھے ۔ وہ مان نہی رہا تھا۔پھلوں کے اصل مالک کے علاوہ ہم سب کو باہر لے جاکر ڈنڈ نکلوائے ۔ بیٹھکیں نکلوائیں۔ فرنٹ رول۔ سائیڈ رول۔ فراگ جمپس، سر کے بل کھڑا کیا گیا۔ یہ سب سزائیں قانونی تھیں۔ اکثر دی جاتی تھیں۔ ہم سب کو ان کی پریکٹس تھی۔ لیکن آفرین ہے ہم پر کہ ہم نے زبان نہ کھولی۔ باقی سب لوگوں کو تو جلدی چھوڑ دیا گیا، گجرات والے لڑکے کی حالت بہت بری تھی۔ وہ مفت میں مارا گیا تھا۔ جبکہ ملتان والے نے بعد میں بتایا کہ وہ سمجھ رہا تھا کہ وہ شاید کوئی خواب دیکھ رہا ہے۔ اور یہ سب کچھ وہ خواب میں دیکھ رہا۔ ابھی آنکھ کھلے گی تو سب ٹھیک ہوجاۓ گا۔ البتہ ہمیں بہت سزا ملی۔ ہمارا کندھا ، گھٹنا، کہنی سب چھل گیا۔ دوسرا دن ہم کو ہیڈ وارڈن کی سامنے پیش ہونے کا کہا گیا۔

    ادھر چکوال، پشاور اور تربت یا لس بیلہ والے لڑکوں نے سیبوں اناروں کے مالک کو بہت دھمکایا کہ خبردار جو چوری کا الزام لگایا ۔ کہنا کہ یہ ان کا حصہ تھا۔اور وہ سب اپنا حصہ کھا رہے تھے اس لیے جب ہم دوسرے دن پیشی پر حاضر ہوئے تو صرف رات کو باہر نکلنے والا فرد جرم عائد ہوا۔ صرف ایک ہفتہ کا تفریح والا پیریڈ کینسل ہوا۔ ویسے بھی ہیڈ وارڈن ہمارے ساتھ اچھا سلوک کرتا تھا۔ کیونکہ ہم نے ہاسٹل کے لیئے بہت سے کوئز مقابلے جیت رکھے تھے ۔ اچھا تیراک ، واٹر پولواور کرکٹ کی ٹرافی جیتنے والی ٹیموں کا بھی سرگر م رکن تھا۔ مضمون نویسی اور تبصرہ نویسی کے مقابلوں میں ہر بار نمایاں پوزیشن لیتا تھا۔ ڈسپلن کا ریکارڈ بھی اچھا تھا۔ بھاگ ودوڑ میں بھی پھسڈی نہ تھا۔ اسالٹ کورس اور کراس کنٹری دوڑ کے دوران ہاسٹل کے نام کی لٹیا نہیں ڈبوتا تھا۔ اسی لیے ہیڈ وارڈن نے اس معاملے کو ہلکا پھلکا انداز میں لیا۔ ویسے بھی وہ بہت مرنجاں مرنج قسم کا اور صلح جو قسم کا افسر تھا۔


    فارغ التحصیل ہونے کے تین سال بعد ہم ایک بار راولپنڈی میں سی ایم ایچ کے سامنے سے گذر رہا تھا کہ ایسا لگا کہ شاید کسی نے آواز دیا ہو۔ "او عمر" ۔ سوچا کہ یہاں ہمیں کون جانتا ہے ؟ اگر ہمارے کان نہیں بج رہے تو کسی اور کو کسی اور نے آواز دی ہوگی ۔ ہم ناک کی سیدھ میں چلتے رہے ۔ دوسری بار زیادہ صاف آواز آئی ۔ " او عمر خیامہ "۔ ہم نے مڑ کر دیکھا تو وہی وارڈن اپنی طرف آتا نظر آیا۔اب اس کی ٹرانسفر جی ایچ کیو کی طرف ہوگئی تھی ۔ بہت گرمجوشی اور محبت سے ملا۔ بولا کہ " او لاکا، لگتا ہے تم اب بھی ام سے ناراض اے۔ ماڑا ادر ام کے گھر چلو، ناشتا پانی کھا کے جاؤ"۔
    ہمیں کہیں جانے کی بہت جلدی تھی۔ معذرت کردی۔
     
    ملک بلال، پاکستانی55 اور ارشین بخاری نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. عمر خیام
    آف لائن

    عمر خیام ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2009
    پیغامات:
    2,188
    موصول پسندیدگیاں:
    1,308
    ملک کا جھنڈا:
    خان صاحب کی ایک بہت بڑی خوبی بھی تھی ۔ محفلوں اور تقریبات کی روح رواں تھے ۔ وہ نورجہاں کے اردو گانے اپنے پٹھانی لہجے میں بہت لہک لہک کے گایا کرتے تھے ۔
    " نگائیں ملا کے بدل جانے والے ہمیں تم سے کوئی شکایت نہیں ہے " کی تو ان سے اکثر فرمائش کی جاتی تھی ۔
    ایک اور خانصاحب بھی استاد تھے ۔ ہماری کلاس کی سیکشن کو تو انہوں نے کبھی نہیں پڑھایا ، دوسری سیکشن کو کیمسٹری پڑھاتے تھے ۔ ان کی خوبی یہ تھی کہ کوئی ان کے سوال کا جواب نہ دے سکے تو یہ اس کو مختلف چیزوں کا بچہ کہتے تھے ۔ جو بھی ذہن میں یا نظر کے سامنے آجائے ۔ خرگوش کا بچہ ، پنکھے کا بچہ ، گاڑی نظر آئی تو گاڑی کا بچہ ، رات ٹی وی پر فٹبال دیکھا تو فٹبال کا بچہ ۔
    ایک بھٹی صاحب تھے انگریزی کے ٹیچر ۔۔۔۔۔ ہٹے کٹے اور تنو مند لیکن قد میں چھوٹے ۔ تڑیاں لگایا کرتے کہ میں یہ کردوں گا ، وہ کردوں گا ۔ ان کے نام کا مخفف این بی تھا اور خود کو این بی ہی کہتے اور کہلوانا پسند کرتے تھے ۔ ہم پس پردہ ان کو ننھا بدمعاش کہا کرتے تھے ۔
    ایک اور کیمسٹری کے پروفیسر تھے ، بوڑھے سے ، ریٹائر ہونے کے قریب ۔۔۔ سنا تھا کہ جوانی میں بہت خوبرو اور وجیہہ و شکیل ہوتے تھے ، جس کالج میں پڑھاتے تھے اس کے پرنسپل کی لڑکی جس کا نک نیم پنکی تھا، ان پر دل و جاں سے فدا ہوگئی تھی ، نتیجہ شادی نکلا۔ یہ واقعہ چوتھائی صدی پہلے بیتا ہوگا لیکن سینہ بہ سینہ روایت ہوتا ہم تک آن پہنچا تھا ۔ ایک دن کیمسٹری کی تجربہ گاہ میں جب پوٹاشیم اور سوڈیم وغیرہ کے فلیم ٹیسٹ کیے جارہے تھے ، پوٹاشیم نائیٹریٹ کو اردو میں پنکی بھی کہتے ہیں کیونکہ اس کو آگ لگائی جائے تو اس میں سے گلابی شعلہ نکلتا ہے ۔ ایک لڑکے نے اچانک پروفیسر صاحب سے سوال کردیا، " سر ! یہ پنکی کیا ہے ؟" ۔ پروفیسر صاحب نے عینکوں کی اوپر سے اس لڑکے کو دیکھا ، سوال کی نوعیت کو بھانپ گئے اور جواب دیا ، بیٹے ، پنکی تمہاری ماں ہے "۔
     
    پاکستانی55 اور ملک بلال .نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں