1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

دھرنا ۔۔۔ دا سنگہ آزادی دہ ؟ (فرنود عالم )

'کالم اور تبصرے' میں موضوعات آغاز کردہ از زنیرہ عقیل, ‏6 فروری 2018۔

  1. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    نقیب اللہ محسود کا خون قبائلیوں کے لیے اپنے سارے حساب یکبارگی بے باق کردینے کا وسیلہ بن گیا ے۔ تازہ صورت حال یہ ہے کہ راو انوار کسی گمنام سیارے پر دم سادھے ہوئے ہیں اورشملہ بلند پختون دارالحکومت میں بیٹھے ہرآتے جاتے کو مسکراکرسلام کررہے ہیں۔وزیرستان کے محسود قبیلے میں بیٹھنے والے جرگے نے دھرنے کی صورت اختیار کرلی ہے اور ایک قبیلے کا احتجاج “آل پختون قومی جرگہ ” کا روپ دھار چکا ہے۔ ہزاروں پختونوں کو اسلام آباد میں ٹھنڈے آسمان کے نیچے بیٹھے آج پانچواں دن ہے۔ حکام کی بے حسی کو تو پندرھواں برس ہے مگر میزبانی کے آداب کو یکسر بھلائے پانچواں ہی دن ہے۔

    اسی اسلام آباد میں علامہ طاہرالقادری اور عمران خان کے دھرنوں کا مشاہدہ ہم کرچکے ہیں۔علامہ خادم رضوی کا دھرنا دیکھنے پہ طبعیت آمادہ نہ ہوسکی، مگراس کے روحانی اثرات ہم ٹریفک کی اذیت کی صورت میں بھگت چکے ہیں۔ساکنانِ شہر نے شکایت کی تو علامہ نے کہا ،تمہارا سکون اور تمہارے بچوں کا اسکول ہمارے مطالبات سے زیادہ اہم نہیں ہے۔پختون جرگے (دھرنے) کے لیے نکلا تو سوچ رہا تھا کہ بہت لمبارستہ پیدل طے کرنا پڑے گا۔ سپر مارکیٹ کا نواحی علاقہ تو سارا بند ہوگا۔یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ یہ دھرنا سرے سے سڑک پر ہوہی نہیں رہا۔ یہ تو اسلام آباد پریس کلب کے سامنے والے میدان میں ہورہا ہے۔ سٹیج کے عقب سے ہوتا ہوا دھرنے میں پہنچا تو شوکت وزیر کاترانہ فضاوں میں گونج رہا تھا۔پنڈال میں داخل ہوا تو ایک مجذوب نوجوان بے خودی میں جھوم رہا تھا اور ترانے کے یہ بول سماعتوں پر پڑرہے تھے

    زنزیر رانہ اتاویگی
    دا سنگہ آزادی دہ ؟
    آواز مو نہ راسیگی
    دا سنگہ آزادی دہ؟
    زوانان مو قتل کیگی
    دا سنگہ آزادی دہ ؟
    کورونہ مو روانیگی
    دا سنگہ آزادی دہ؟
    پختون پکی غرقیگی
    داسنگہ آزادی دہ ؟

    زنجیر وں میں کس دیا ہمیں، یہ کیسی آزادی ہے۔ فریاد ماری جا رہی ہے، یہ کیسی آزادی ہے۔ ہمیں لاشیں مل رہی ہیں، یہ کیسی آزادی ہے۔ آنگن اجڑ رہے ہیں ، یہ کیسی آزادی ہے۔ پختون کی سانسیں ڈوب رہی ہے، یہ کیسی آزادی ہے۔

    روح چیردینے والے ترانے پر مجذوب کا رقص دھول اڑارہا تھا۔میں مجذوب کی بے خودی میں محو یہ سوچ رہا تھا کہ کتنے ایام کی گردشِ نے کتنے درد سے گزار کر اس کو یہ درجہ سونپا ہے۔ اس کا دماغ اس کا ساتھ چھوڑ چکا ہے، یہ نہیں جانتا کہ میں کہاں ہوں، مگر اس کواحساس ہے کہ یہ قافلہ درد کا ترجمان قافلہ ہے۔ چاک گریبان مجذوب کو دیکھ کر کبھی خیال کے پردے پر عنایت علی شاہ کا آستانہ سج جاتا ،جس میں بابا بلھے شاہ نچ کے یار منارہے ہیں ،کبھی خواجہ عثمان ہارونی کا یہ شعر ابھرآتا

    تو آں قاتل کہ از بہر تماشہ خونِ من ریزی
    من آں بسمل کہ زیرِخنجرِ خونخوار می رقصم

    دھرنے میں ایک جانب خیمہ لگا ہوا ہے جہاں محسود اور وزیر عمائدین و مشران ایک وسیع دائرے میں جرگے کی صورت بیٹھے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ اس جرگے میں لب خاموش ہیں آنکھیں بول رہی ہیں۔ یہ چار دن سے اپنی روایت نبھانے یونہی بیٹھتے ہیں اور نہ آنے والے ذمہ داروں کی راہ تکتے ہیں۔ زمانے کی جھریاں چہرے پر لیے ایک مشر سے میں نے پوچھا، کیا کر رہے ہیں؟ کہنے لگے، حجت پوری کررہے ہیں۔ لوگوں کو چاہیے تھا کہ آکر ہماری خبر لیتے، مگر بہت انتظار کے بعد اب ہم آ گئے ہیں۔ کل کسی کو شکوہ نہ رہے کہ ہم دروازے پہ دستک دینے نہیں آئے تھے۔ میں نے کہا، آپ کے ان الفاظ کو میں دھمکی سمجھوں؟ ہنس کر بولے، میرے تو یہ الفاظ بھی آپ کو دھمکی لگیں گے، مگر جنہوں نے پارلیمنٹ کے دروازے توڑے پی ٹی وی کا گھیراو کیا ابھی پچھلے دنوں سارا شہر بند کرکے آپ کو گالیاں دیتے رہے ان سب کی راہوں میں تو سرکار بچھ گئی تھی۔

    ابھی یہ بزرگ مشر بات کررہے تھے کہ ساتھ ہی بیٹھے محسود قبیلے کے سفید ریش مشر محمد اقبال بول پڑے”اب تو ہمیں ایسا ہی محسوس ہورہا ہے کہ اگر ہم اچھے شہری ہونے کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہاں میدان میں آکر نہ بیٹھتے تو آرمی چیف کے نمائندے حکومتی وزرا اور میڈیا ہمارے خیموں میں پہنچ چکے ہوتے۔ ہمیں یہاں مشورہ دیا جارہا ہے کہ ہم بھی سڑکیں بلاک کردیں لیکن ہمیں پتہ ہے کہ یہاں ہمارے کسی بچے نے ایک چھوٹی سے غلطی بھی کردی تو حکام کو ہمارے خلاف کارروائی کا موقع مل جائے گا۔ پھر شاید آرمی چیف یہ بھی نہیں کہیں گے کہ لوگ ہم سے پیار کرتے ہیں ہم ان کے خلاف کارروائی کیوں کریں؟”

    سپیکر پر گونجنے والی آفتاب خان شیرپاو کی آواز سے کان کے پردے لرزرہے تھے۔ میں نے مشراقبال سے کہا، یہاں شور ہے کیا ہم باہر جاکر بات کرسکتے ہیں؟ چھیاسٹھ سالہ اقبال محسود نے چادر کندھے پہ رکھی اٹھ کھڑے ہوئے۔ ہم پنڈال سے باہر آرہے تھے تو ہجوم میں ایک شور اٹھا۔ مجمع شیرپاو صاحب کو کسی جملے پر باواز بلند ٹوک رہا تھا اور شیرپاو صاحب جملے کا معذرت خواہانہ دفاع کررہے تھے ۔ میں نے دھیان دیا تو پختونوں نے شیرپاو صاحب کے جملے”ہم آئندہ بھی قربانی دیں گے” پہ گرفت کی ہوئی تھی۔ سارے پختون بیک آواز مسلسل نعرے لگارہے تھے ، ہم مزید قربانی نہیں دیں گے، نہیں دیں گے، نہیں دیں گے۔

    مشر اقبال محسود نے مسکرا کر مجھ سے کہا “دیکھ رہے ہو پختونوں کی بیداری؟” میں مسکرایا تو بولے “اس اشرافیہ کو اندازہ نہیں ہے کہ انہوں نے ہمیں نظر انداز کرکے کیا کھودیا ہے۔ افسوس تو یہ ہے کہ اس آخری موقع کا فائدہ بھی نہیں اٹھانا چاہتے”۔ میں نے مشر اقبال محسود سے پوچھا کہ آپ کے مطالبات کیا ہیں؟ کہنے لگے ہمارے مطالبات تو اتنے معصوم ہیں کہ ان کے لیے ہمیں یہاں آنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ افسوس تو یہ ہے کہ یہاں آئے تو ذمہ داروں اور میڈیا کی بے التفاتی سے اجنبیت کا احساس اور بھی گہرا ہوگیا۔ ہمارے تمام مطالبات کا خلاصہ ہی یہ ہے کہ ہم اپنی ہی سرزمین پر اجنبی ہیں، آخر کیوں؟ مجھے اپنے ہی گاوں جانے کے لیے شناختی کارڈ کے علاوہ ایک وطن کارڈ دکھانا پڑتا ہے، آخرکیوں؟اور جب یہ وطن کارڈ منسوخ کردیں میں اپنے ہی وطن نہیں جاسکتا، یہ کوئی انصاف ہے؟

    مشر محمد اقبال محسود کا دکھ سن رہا تھا کہ پس منظر میں پشتو ترانہ پھرسے لہو گرمانے لگا تھا۔ اقبال محسود سے اجازت لی، انہوں نے قہوہ کی پیشکش کی، میں نے منع کیا اور چل دیا۔میں میڈیا کے لیے مختص مقام پر پہنچا۔ پنڈال کے باہر سڑک پر پانچ گاڑیاں کھڑی تھیں۔ قریب جاکر دیکھا تو احساس ہوا کہ یہ بھی شاید اس لیے موجود ہیں کہ کل کو قسم کھائی جاسکے کہ ہم دھرنے میں موجود تھے۔ نقیب محسود کے قتل پر آنے والے رد عمل سے لیکر اب تک کے اس دھرنے تک، ابلاغ کا ذریعہ صرف اور صرف سوشل میڈیارہا ہے۔ اسفندیار ولی خان اپنے قافلے کے ساتھ پہنچے تو میں نے ان کی آواز دوستوں تک پہنچانے کے لیے فیس بک لائیو کا بٹن دبادیا۔

    اسرار نامی ایک نوجوان نے کندھے پہ ہاتھ رکھا، دیکھا تو مسکرا کر یوں گلے لگا جیسے برسوں کا شناسا ہو۔ اپنے موبائل کی اسکرین سامنے کرتے ہوئے معصومیت سے کہا “یہ دیکھیں میں آپ کی لائیو ویڈیو پر نظر آنے والے مقام کا پیچھا کرتا ہوا آپ تک پہنچاہوں”۔ خان ظفراللہ خان حضرتِ ید بیضا نے کہا، یہ نوجوان آدھے گھنٹے سے تجھے ڈھونڈ رہا ہے۔اس نوجوان کا نام اسرار تھا۔ محسود قبیلے سے تعلق بتایا۔ میں نے ابھی اس سے کچھ بھی تو سوال نہیں کیا تھا، خود سے کہنے لگا”ہماری مشکل یہ ہے کہ میڈیا کو ہمارے علاقوں تک رسائی نہیں دی جاتی، میڈیا نمائندے آتے بھی ہیں تو ریاستی اداروں کے ہیلی کاپٹر میں آتے ہیں، جو انہیں ہم بتاتے ہیں وہ آپ تک نہیں پہنچاتے، جو ہیلی کاپٹر والے بتاتے ہیں وہی کچھ پہنچارہے ہوتے ہیں، ہمارے پاس آخری ذریعہ سوشل میڈیا کا رہ جاتا ہے، اور اب سوشل میڈیا ایکٹیوسٹوں پر بھی نظر ہے، جو فریاد کرتا نظرآئے اس کو وطن کارڈ منسوخ کرنے کی دھمکی دیتے ہیں، پچھلے دنوں میرا کارڈ منسوخ ہونے والا تھا، معافیاں مانگیں تو آخری موقع دیا گیا ، آپ کو پتہ ہے کہ اگر میرا وطن کارڈ منسوخ ہوجائے تو میں اپنے گھر نہیں جاسکتا۔ایسے بہت سارے لوگ ہیں جن کے وطن کارڈ وجہ بے وجہ منسوخ ہوگئے ہیں اور کراچی یا لاہور میں دربدر ہیں۔ لاہور جاتے ہیں تو پنجاب حکومت ان کی پروفائلنگ شروع کردیتی ہے کراچی جاتے ہیں تو پولیس مقابلوں میں مارے جاتے ہیں “۔ اسرار کی آنکھیں اداس تھیں مگر لب مسکرارہے تھے۔ ہنس ہنس کر وہ یہ داستان سنائے جارہا تھا اور اقبال کا مصرع سامنے آرہا تھا ،یہ بندہ وقت سے پہلے قیامت کر نہ دے برپا…

    میری نظر پنڈال کے آخر میں کچھ بچوں پر پڑی۔ یہ حلیے سے دینی مدارس کے طلبا معلوم ہورہے تھے۔ میں ان کے پاس یہ جاننے کے لیے گیا کہ ازراہ تماشہ یہاں بیٹھے ہیں یا پھر سوچ سمجھ کر آئے ہیں۔ میں نے ایک بچے سے پوچھا پشتو جانتے ہو؟ اس نے ساتھ والے پراگندہ حال بچے کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا، یہ جانتا ہے۔ میں بچے کو شور سے کچھ دورمشران کے خیمے میں لے گیا۔

    اس بچے نے اپنی عمر تیرہ سال اور نام نسیم اللہ بتایا۔ پوچھنے پر بتایا کہ یہیں اسلام آباد میں ایک مدرسے میں پڑھتا ہوں۔ میں نے اس کا نام ڈائری میں لکھتے ہوئے کہا، تم چاہو تو میں تمہارا یہاں فرضی نام بھی نوٹ کرسکتا ہوں۔معصوم سی مسکراہٹ مسکراکر بولا، نام میرا ہی لکھ دیں مدرسے کا نام البتہ رہنے دیں۔ میں نے مدرسے کے نام پر خطِ تنسیخ پھیرتے ہوئے اس کا نام بھی نسیم اللہ کی جگہ رحیم اللہ کردیا۔ فورا کہا”نہیں نہیں، نسیم اللہ ٹھیک ہے نسیم اللہ لکھو”۔ میں نے اس سے صرف ایک سوال کیا، تمہیں کیا بات یہاں کھینچ لائی ہے؟ نسیم اللہ اپنے رومال میں ابھرے ہوئے ایک دھاگے سے کھیلتے ہوئے بتانے لگا “ہم تکلیف میں ہیں، بہت تکلیف میں ہیں، ہمارا طالبان سے کوئی تعلق نہیں ، مگر تھوڑا سا کوئی واقعہ ہوتا ہے ہمارے گھروں پہ چھاپے پڑجاتے ہیں، ہمارے ماں باپ بہن بھائی جو بھی ہاتھ آتے ہیں گھسیٹ کے لے جاتے ہیں، زور سے کوئی دروازہ بجاتا ہے ہم ڈرجاتے ہیں، ابھی جب میں مدرسے کی چھٹیوں پہ گیا تو یہی واقعہ ہوا، اچانک چھاپے شروع ہوگئے، ہماری امی صرف ایک پتیلا اور تھوڑے سے چاول اٹھاکر ہمیں گوؤرا نام کا ایک پہاڑ ہے اس پر لے گئیں، امی پتھروں پہ تیز ہوا میں مشکل سے چاول ابالتی تھی، ہم کھاتے تھے، ہم تکلیف میں ہیں، اس لیے میں یہاں آیا ہوں، میں روزانہ شام کو مدرسے کی چھٹی کے بعد یہاں آوں گا”۔ نسیم بے تکان بولے جارہا تھا۔ دل درد سے کچھ ایسے بھر آیا کہ جی چاہا اس کے منہ پہ ہاتھ رکھ دوں کہ بس ۔ غالب کچھ بے طرح یاد آگئے

    تیرے دل میں گر نہ تھا آشوب غم کا حوصلہ
    تونے پھر کیوں کی تھی میری غمگساری ہائے ہائے

    میں نسیم اللہ کی گفتگو سن کرسوچ رہا تھا کہ حالات نے اس بچے کو وقت سے پہلے کس قدر بالغ کردیا ہے۔ نسیم اللہ کمسن ہے، مگر اس کے لہجے میں پختگی ہے۔ اس کے رویے میں انتقام نہیں ہے،مگر تھمے ہوئے جذبات بہت بڑے طوفان کا پیش خیمہ ضرور ہیں۔

    نسیم اللہ اپنی بات کررہا تھا کہ مائک پر کسی ادھیڑ عمر ماں کی لرزتی ہوئی آواز گونجی۔ میں بے ساختہ نسیم کو چھوڑ کر خیمے سے باہر آیا۔ ایک خاتون شٹل کاک برقعہ پہنے سٹیج پر فریاد کررہی تھی۔ “میں سوات سے ہوں۔ مدت سے کراچی میں رہتی ہوں۔غریب ہوں۔ میرے تین بیٹے پولیس مقابلے میں ماردیے گئے ہیں اور دو بیٹے ابھی بھی جیل میں ہیں۔ مجھے نیند نہیں آتی، میرا گھر ویران کردیا گیا ہے۔ تم سب میرے بیٹے ہو،تم سے ایک ہی فریاد ہے، میرے تین بیٹے ماردیے گئے ان کاتو کچھ نہیں ہوسکتا مگر جو دو جیل میں بے گناہ پڑے ہیں وہ تو مجھے دلوادو، دلوا نہیں سکتے تو مجھ غریب کو ان سے ملوادو “۔ اس ماں کی فریاد نے مجمع پر ایساسکوت طاری کردیا کہ پختونوں کی خوددار سسکیاں بھی واضح سنائی دے رہی تھیں۔

    بولتے بولتے جب اس ماں کی آواز رندھ گئی تو یکایک مجمع کھڑا ہوگیا، نعرے بلند ہوئے “موری! چی تر سو ستا بچو تہ انصاف ملاو نہ شی مونگ ستا بچی دلتہ ناست یو”۔ ماں ! جب تک تمہیں انصاف نہیں مل جاتا ہم یہیں بیٹھے ہیں، ہم تمہارے بیٹے ہیں۔مجذوب جو کچھ دیر پہلے رقص کررہا تھا، چلاکر بولا “اے لڑزیدلی ! ولی جاڑا کوی،مونگ دلتہ نور سہ کوو، خوتالہ راغلی یوکنہ”۔ اے دکھیاری! اک ذرا صبر،ہم یہاں کیا لینے آئے ہیں، تیرے دکھوں کا حساب ہی تو مانگنے آئے ہیں۔
     
    نعیم اور ناصر إقبال .نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. ناصر إقبال
    آف لائن

    ناصر إقبال ممبر

    شمولیت:
    ‏6 دسمبر 2017
    پیغامات:
    1,670
    موصول پسندیدگیاں:
    346
    ملک کا جھنڈا:
    اور قبلہ پیا گھر سُدھار گئے۔۔۔!!
    قربان جاوں قبلہ کی شان پر۔۔ کتھے میں نکما ،،تے کتھے قبلہ دی روح پرور شخصیت۔۔ سبحان اللہ۔۔ اللہ اللہ۔۔۔ شاید انہی کے بارے احمد فراز کہہ گئے تھے۔۔
    سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں۔۔
    لیکن۔۔ میرے قبلہ۔۔ جب بولیں تو لفظ سننے والوں کے کانوں میں رس گھولیں۔۔ پہروں سن لیں ۔۔ مجال ہے۔۔ جو قبلہ وما علینہ پر اتفاق کریں۔

    ۔ چہرے پر کبھی تھکاوٹ کے آثار نہیں دیکھے۔۔ مائیک دیکھتے ہی قبلہ کے ہاں جیسے 'کرنٹ' دوڑ جائے۔۔ انگ انگ میں جیسے شرارے بھڑک اٹھیں۔۔ طبیعت ایسی جلالی کہ دوران خطاب 'تھوک' کی بوندیں مریدین کو معطر کریں۔۔ استغفراللہ۔۔
    کرامات کا ذکر کیا کیجیے۔۔ ایک عمر چاہیے کہ جلد در جلد آپ کے معجزات و کرامات پر کتب لکھی جائیں۔۔ ۔۔ چہرہ مبارک ایسا کہ بس ۔

    ۔ جس نے درشن کر لیے۔۔ وہ پھر تا حیات ۔۔ سرکار کا 'رخ روشن' کبھی نظروں سے اوجھل نہ کر پائے۔۔ یعنی عالم یہ کہ فقط اک تجلی اور ہزار تسلی۔۔ ۔۔!! میرے قبلہ۔۔ مرشد پاک۔۔ ٹوپیوں والی سرکار۔۔ بچپن سے ہی 'گُرو' واقع ہوئے ہیں۔۔ کچھ روایات کے مطابق تو آپ سرکار پیدا ہی مہان ہوئے تھے۔۔ نور ایسے ٹپکتا تھا کہ دیکھنے والے تاب نہ لا پاتے، شاید یہی وجہ ہے موتیاں والے اوائل عمری میں بقول جعفرراہی 'گوری' کے لقب سے جانے جاتے تھے۔

    ۔ جس طرف نگاہ اٹھی ، مریدین کو 'تڑفا' کہ رکھ دیا۔۔ حتی کہ مشرکین اور کفار کی ایک بہت بڑی تعداد بھی آپ جناب سے فیض یاب ہوئے بغیر نہ رہ سکی۔ ۔ جس راہ سے گزرے اسے لازوال بنا دیا۔۔ یعنی۔۔
    یعنی رہ یار ہم نے قدم قدم تجھے انقلابی بنا دیا۔۔
    چاہے وہ ضلع جھنگ ہو 'اتفاق' سے لاہور ہو، ولایت ہو یا ملکہ کے تاج تلے بسنے والا کوئی اور سرد ملک ہو۔

    ۔ جناب کی تپش سے ٹھٹرتے بشر دھمال ڈالتے دیکھے گئے۔۔ سرکار بنیادی طور پر مادی دنیا میں کم و بیش ہی پائے جاتے ہیں، عموما آپ کو عالم ارواح میں شطرنج کھیلتے دیکھا گیا۔۔ کئی جن بھوت جناب کے مرید ہوئے ہیں۔۔ پندرہ بیس سال مختلف جید ہستیوں نے آپ کی 'عالم رویا 'میں تربیت کی۔ ۔۔ بیچ میں کبھی کبھار تڑپتے مریدین کے جگرے ٹھنڈے کرنے کے کارن قبلہ زمین کا رخ بھی کرتے۔

    ۔ لیکن قیام ہمیشہ مختصر رہا۔۔ دہائیاں بیت گئیں۔۔ سرکار کی بشارتیں سنتے سنتے۔۔ مجال ہے کوئی اک خواب جھوٹا ثابت ہوا ہو۔۔ حاسدین نے ایڑ ی چوٹی کا زور لگا لیا کہ آپ جناب کو جھوٹا ثابت کرسکیں لیکن یہ جناب کی ہی کرامات ہیں کہ سائنس بھی آپ کی وسعت تخیل کی بلندیوں کو نہ چھو پائی۔۔ اللہ اللہ۔۔
    ناچیز کی بدقسمتی دیکھیے۔۔ ایک مدت ہوئی قبلہ کے عاشق ہوئے۔

    ۔لیکن دیدار فقط تین بار نصیب ہوا۔۔ ہربار دیدار کی تڑپ پہلے کی نسبت دوگنا ہوئی۔۔ بہت قریب سے چہرہ پر نور دیکھا۔۔ لباس ایسا کہ جس کی کوئی مثال نہیں۔۔ اور ٹوپیاں ایسی۔۔ کہ اک سے بڑھ کر اک۔۔ مخروطی، گول، سندھی، چپکی، انگریزی، دیسی، مستطیل ، چوکور، مکعب نما، اور نہ جانے جانے کس کس ذات کی ٹوپیاں آپ کی زنبیل میں پائی جاتی ہیں۔۔
    قبلہ کے جملہ اوصاف پر بات نکلی تو پھر درجنوں کالم لکھنا پڑیں گے(جناب نذیر ناجی صاحب بھی دسمبر دو ہزار بارہ میں جناب کی شان میں ایک کالم لکھ بیٹھے، بس پھر کیا تھا، تقریبا ایک درجن کالموں کی سیریز بھی کم پڑ گئی، حالانکہ ناجی صاحب گذشتہ نصف صدی سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں، دو چار برس کی بات نہیں) لہذا ناچیز صرف اسی 'حقیقت' پر ہی اکتفا کرے گا کہ سرکار کو میڈیا کوریج کی کبھی بھوک نہ رہی، آپ ہمیشہ کیمروں سے دور رہنا ہی پسند کرتے ہیں۔

    ۔ہمیشہ آپ کو خود نمائی اورتعریف پر لعنت بھیجتے دیکھا۔۔ خیر۔۔!! فصاحت و بلاغت اور زبان و بیان پر تو سرکار کو کمال ملکہ حاصل ہے، د ن کو رات اور رات کو دن ثابت کرنا تو گویا دائیں ہاتھ کا کھیل واقع ہوا ہے۔ ۔۔ یعنی
    موسم کی طرح بدلتے ہیں اس کے عہد
    اوپر سے یہ ضد کہ مجھ پہ اعتبار کرو
    ابھی حالیہ دنوں قبلہ(غالب امکان یہی ہے کہ 'آقاوں' کے حکم پر) چلہ کشی کی ایک مہم پر پاکستان تشریف لائے تھے، واہ واہ۔

    ۔ قربان جاوں کہ شاہراہ دستور پر جنگل میں منگل کا سماں باندھ دیا۔۔ عموما چلے چالیس روزہ ہوا کرتے ہیں، لیکن یہ جناب کی حکمت تھی کہ چلہ طویل ہوا، اور بالاخر ستر ویں دن حکم ہوا کہ سامان باند ھ لو، اب شہر شہر چلہ کشی کی جاوے گی، ویسے قبلہ نے اپنے دھرنے کے دوران ببا نگ دہل کہا تھا کہ اگر کوئی اس دھرنے سے واپس جائے تو شہید کر دیا جائے، پورے پاکستان نے دیکھا کہ ایک بار تو انہوں نے اپنا کفن بھی فضا میں لہرایا کہ نظام کے خاتمے تک وہ مقام دھرنا سے نہیں ہلیں گے۔

    ۔ ارے۔۔۔آپ کیا سمجھ رہے ہیں۔۔؟؟ آہاں۔؟؟ ہرگز نہیں۔۔ بالکل بھی نہیں۔۔ قبلہ تو ابھی چند روز ہوئے پیا گھر سُدھار چکے۔۔ آپ کس چکر میں ہلکان ہوئے جا رہے ہیں۔۔ چھوڑیئے ایسی تحریروں کو۔۔ انقلاب آتے جاتے رہتے ہیں۔۔ فی الحال میر کے اس شعر پر ہی گزارا کیجیے۔۔ کہ۔۔
    میر کیا سادے ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
    اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں۔
    (جی ہاں۔۔!! خاکسار نے بالکل درست شعر لکھا ہے، جو آپ سنتے آئے ہیں وہ غلط العام ہے، تفصیل کے لیے لنک ملاحظہ کیجیے۔۔ )
    http://bit.ly/13cUwrx
    باقی جہاں تک تعلق ہے انقلاب کا، تو بے فکر رہیے ، انشااللہ اگلے برس پھر سہی،، کیونکہ پکچر ابھی باقی ہے۔۔۔

     

    منسلک کردہ فائلیں:

    نعیم نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. ناصر إقبال
    آف لائن

    ناصر إقبال ممبر

    شمولیت:
    ‏6 دسمبر 2017
    پیغامات:
    1,670
    موصول پسندیدگیاں:
    346
    ملک کا جھنڈا:
    جب پاکستان میں اکلوتا پی ٹی وی ہوا کرتا تھا تو ہم اُس کے قسط وار ڈرامے بڑے شوق سے دیکھتے تھے ۔یہ ڈرامے ہفتہ وار ہوتے تھے اورہم پوراہفتہ بڑی بے چینی سے اگلی قسط کے منتظر رہتے۔ اب تو تفریحی چینلز کی بھرمار ہوگئی ہے اِس لیے ڈراموں میں وہ کشش باقی نہیں رہی ۔شایدانہی ڈراموں سے متاثر ہوکر محترم عمران خاں نے بھی اپنی قسط وار سیاست کاآغاز کیا ۔


    2011ء میں اُن کے مینارِ پاکستان میں کیے گئے سیاسی ڈرامے کی پہلی قسط اتنی زبردست تھی کہ باقی سیاسی اداکاروں کے چھکے چھوٹ گئے اورہر کوئی اپنے سیاسی تھیٹربند ہوجانے کے خوف میں مبتلاء ہوگیا ۔اُس وقت صرف ہم ہی نہیں پوراملک ہی خاں صاحب کے ڈرامے کی اگلی قسط دیکھنے کے لیے بے چین رہتا۔نیوزچینلز کوتو ریٹنگ چاہیے ،خواہ وہ کہیں سے بھی ملے اِس لیے وہ گھنٹوں بلکہ پہروں خاں صاحب کے اِس سیاسی ڈرامے کی قسطیں دکھاتے رہتے ۔


    طلسماتی شخصیت محترم عمران خاں کا یہ ڈرامہ اتنا مقبول ہوا کہ گھرگھر اِس پر تبصرے ہونے لگے ۔اِس ڈرامے کی خصوصیت یہ تھی کی اِس میں موسیقی بھی تھی ،ماردھاڑ اوربڑھکیں بھی لیکن آہستہ آہستہ یہ ڈرامہ اپنی کشش کھوتا چلاگیا اور اُس وقت تو اِس ڈرامے میں بالکل ہی جان باقی نہ بچی جب ایک کہنہ مشق فنکار نے ”اندرکھاتے“ ہی میدان مارلیا ۔کچھ عرصے کے لیے تو سارے سیاسی تھیٹربند ہوگئے لیکن پھر عمران خاں نے ”دھرنا“ نامی ایک ایسی قسط پیش کی کہ سارے سیاسی تھیٹروں کے دَر آہستہ آہستہ وا ہونا ہونے لگے اور پھر ایک وقت ایسابھی آیا کہ ایک طرف اکیلے عمران خاں اوردوسری طرف سارے سیاسی تھیٹرمالکان ۔


    شنید ہے کہ اب خاں صاحب دھرناپارٹ ٹو کاآغاز کرنے جارہے ہیں ۔
    ہم توخوش تھے کہ چلو ہمارے سیاسی تھیٹروں کی رونقیں ایک دفعہ پھربحال ہوجائیں گی اور سونامیوں نے بھی دھوم دھڑکے کے لیے ”لنگوٹ“ کَس لیے تھے لیکن بُراہو پی آئی اے کے ملازمین کی جوائنٹ ایکشن کمیٹی کاجس نے ہڑتال ختم کرکے فلائٹ آپریشن بحال کردیا حالانکہ اُسے حکومت کی جانب سے ملا ”کَکھ“ بھی نہیں ۔


    جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے چیئرمین نے تویہ کہہ دیاکہ معاملات سلجھ گئے اِس لیے احتجاج کاجواز باقی نہیں رہا لیکن حقیقت یہی ہی کہ حکومت ڈَٹی رہی اورہڑتالیوں کوہی ”نیویں نیویں“ ہوکر گھر لَوٹنا پڑاجس سے خاں صاحب کے دھرنا پارٹ ٹو کو بھی یقیناََ بہت بڑا دھچکا لگاہوگا ۔وہ توہڑتالیوں کے ساتھ ڈَٹ کر کھڑے ہوگئے تھے حالانکہ اُن کے اپنے منشورمیں بھی پی آئی اے کی نِجکاری شامل تھی لیکن اُنہوں نے دھرنا پارٹ ٹوکو کامیاب بنانے کے لیے ایک دفعہ پھریوٹرن لے لیا۔


    یہ پی آئی اے والے بھی عجیب ہیں کہ جب اُنہیں بہت کچھ مل رہاتھا اور وزیرِاعظم صاحب نے ملازمین کے مکمل تحفظ کے ساتھ اگلے چھ ماہ تک نجکاری پروگرام کو ”فریز“ کرنے کی گارنٹی بھی دے دی تھی تاکہ پی آئی اے اپنی کارکردگی دکھاسکے ، اُس وقت یہ ”ھِل مَن مذید“ کے نعرے لگاتے رہے لیکن جب حکومت ڈَٹ گئی تویہ پیچھے ہَٹ گئے ۔ہم توہمیشہ پی آئی اے کی نجکاری کے خلاف رہے ہیں اوراب بھی ہیں کیونکہ ہمارا نظریہ تویہ ہے کہ گھرکا سامان بیچنے سے گھربستے نہیں ،اُجڑ جاتے ہیں ۔


    ہم نے انہی کالموں میں عرض کیاتھا کہ پی آئی اے کو بھی خواجہ سعدرفیق جیسا کوئی پُرعزم وزیرمِل جائے توایک دفعہ پھرپی آئی اے لاجواب لوگوں کی باکمال سروس بن سکتی ہے ۔ہوسکتا ہے کہ حکومت کے ذہن میں بھی کوئی ایسی ہی پلاننگ موجودہو لیکن ہڑتال نے سب کچھ ملیامیٹ کرکے رکھ دیا ۔یہ ہڑتال شایدایک آدھ دِن بعدہی ختم ہوجاتی لیکن سیاسی جماعتوں کی” مہربانیاں “ جلتی پرتیل کاکام کرتی رہیں اورکپتان صاحب کی توآنکھوں کی چمک دوگنی ہوگئی ۔


    وہ پی آئی اے ملازمین کے ساتھ اظہارِیکجہتی کے لیے ہفتے کواحتجاج میں شامل بھی ہوئے اوراپنے 5 نکات پرمشتمل مطالبات بھی پیش کردیئے ۔پتہ نہیں اُنہوں نے شیخ مجیب الرحمٰن کی طرح 6 نکات پیش کیوں نہیں کیے ۔شاید اُن کے ذہن میں ہوکہ 6 نکات بہت بدنام ہوچکے اِس لیے چلو ایک کم نکتے پرہی اکتفا کرلیتے ہیں ۔
    خاں صاحب نے 2011ء میں اپنے آپ کو ”تھرڈآپشن“ کے طورپر پیش کیااوراِس میں کوئی شک نہیں کہ اِس میں اُنہیں کامیابی بھی حاصل ہوئی کیونکہ وہ پیپلزپارٹی کو پیچھے چھوڑکر آگے بڑھنے کے ساتھ ساتھ خیبرپختونخوا کی حکومت بھی لے اُڑے لیکن وہ اسی پراکتفا کرنے کی بجائے سڑکوں پر نکل آئے کیونکہ اُنہیں وزیرِاعظم بننے کی جلدی ہی بہت ہے ۔


    اب سوال یہ پیداہوتا ہے کہ کیاخاں صاحب مضبوط ترین پوزیشن پرموجود میاں نواز شریف صاحب کی حکومت کامقابلہ کرپائیں گے؟۔۔۔۔ یہ بجاکہ 2014ء کے دھرنے نے میاں صاحب کودفاعی پوزیشن اختیارکرنے پرمجبور کردیا تھا لیکن اب صورتِ حال یکسر مختلف ہے ۔اب خاں صاحب نہ تواُتنے ہردلعزیز رہے جتنے وہ 2011ء سے 2013ء کے دَوران تھے اورنہ ہی تحریکِ انصاف میں وہ اتحادنظر آتاہے جوپہلے تھا۔


    اُنہوں نے مطالبات منظورنہ ہونے کی صورت میں احتجاجی تحریک شروع کرنے اوردھرنا دینے کااعلان توکر دیالیکن اب اُن کے اندازمیں وہ قطعیت نظرنہیں آتی جو کبھی ہواکرتی تھی ۔یوں تو پیپلزپارٹی نے ”اندرکھاتے“ اپنی بھرپور حمایت کایقین دلارکھا ہے لیکن خاں صاحب تذبذب میں کیونکہ اُن کے ساتھ پہلے بھی ”ہَتھ“ ہوچکا ہے ۔وہ امپائرکی انگلی کھڑی ہونے کاانتظار کرتے ہی رہ گئے اورامپائر کی انگلی توکجا ،پوراامپائر ہی”پھُر“ ہوگیا۔


    ویسے بھی پیپلزپارٹی کے ساتھ ہاتھ ملانے میں تحریک ِانصاف میں ٹوٹ پھوٹ کاخدشہ ہے کیونکہ سونامیے تو”ہتھ جوڑی“ کے قائل ہیں ہاتھ ملانے کے نہیں۔ شایدیہی وجہ ہے کہ ابھی تک نہ توخاں صاحب نے دھرناپارٹ ٹو کے لیے کسی حتمی تاریخ کااعلان کیا اورنہ ہی احتجاجی تحریک کاحالانکہ اُن کی اتحادی جماعت اسلامی 23 مارچ کواحتجاجی تحریک کااعلان کربھی چکی۔
     
    نعیم نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. ناصر إقبال
    آف لائن

    ناصر إقبال ممبر

    شمولیت:
    ‏6 دسمبر 2017
    پیغامات:
    1,670
    موصول پسندیدگیاں:
    346
    ملک کا جھنڈا:
    پاکستانی سیاست میں محترم جاوید ہاشمی صاحب کا نام بہت عزت ،احترام سے لیا جاتاہے۔ ۔ ۔۔ جاوید ہاشمی صاحب کی جمہوریت اور جمہوری و اخلاقی رویوں کے بارے میں چند حقائق پیش خدمت ہیں ۔ ۔۔۔ کچھ حقائق اور کچھ باتیں مفروضوں پر مبنی ہیں، اپنے سیاسی کیرئیر میں وہ آج کہاں کھڑے ہیں اس کا فیصلہ آپ خود کریں۔ ۔ ۔۔ کیونکہ وہ بیچ میدان جنگ میں اپنے سپہ سالار کو چھوڑ کر میدان جنگ سے بھاگ نکلے۔



    جاوید ہاشمی صاحب جرنل ضیاء الحق صاحب کی مارشل ء لا میں ان کی کا بینہ کے وفاقی وزیر رہے۔ ۔انہوں نے یونس حبیب سے رقم لے کر IJI بنائی۔ ۔ نون لیگ میں تھے تو ان کے معاشی حالات خراب ہونا شروع ہوئے ، پھر لیگ والوں نے ان کے لئے کاروبار کا بندوبست کیا ، میڈیکل فارمیسی کے بزنس کے ذریعے ان کو کروڑوں کا فائدہ پہنچا ۔ ۔ان کے حالات بہتر ہونا شروع ہوگئے۔


    ۔عالی شان گھر بن گیا اور بینک بیلنس بھی۔ ۔پھر مشرف صاحب کے مارشلء لا میں پاکستان مسلم لیگ نون کے لئے بہت جدوجہد کی،جب میاں نواز شریف ایک معاہدہ کے ذریعے سعودی عرب چلے گئے تو پیچھے پارٹی کو لیڈ کیا۔ ۔قید وبند کو صعوبتیں برداشت کیں ۔ ۔ سلاخوں کے پیچھے باغی کے عنوان سے ایک کتاب بھی لکھی اور باغی کے نام سے مشہور ہوگئے۔ ۔ ۔ ۔ نواز شریف صاحب نے سعودی عرب سے واپس آکر جب پارٹی پر دوبارہ قبضہ جمایا تو جاوید ہاشمی صاحب کو کو اپنی پوزیشن گرتی ہوئی نظر آنے لگی ۔


    ۔ پھر جاوید ہاشمی صاحب نے مسلم لیگ نون کو چھوڑتے ہوئے یہ کہا کہ میں نے مسلم لیگ نون کے لئے بڑی قربانیاں دیں مگر مجھے زندہ درگور کیا جارہا ہے۔ ۔ہاشمی صاحب کو راضی کرنے کے لئے پاکستان مسلم لیگ نون کے رہنماؤں نے بہت کوششیں کیں جن میں سعد رفیق قابلِ ذکر تھے مگر کامیابی ناں مل سکی ۔۔ ایک بہت بڑے سیاستدان نے پاکستان مسلم لیگ نون کو چھوڑ کر پاکستان تحریک انصاف کو جوائن کرنے کا فیصلہ کر لیا۔


    ۔پاکستان تحریک انصاف نے بڑی گرمجوشی سے جاوید ہاشمی صاحب کا استقبال کیا۔ ۔ پاکستان تحریک انصاف نے بے پناہ عزت دی اور بڑے پارٹی عہدے(پارٹی کی صدارت) سے نوازا۔ ۔ الیکشن 2013 میں پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے ، مگر آپ اسمبلی کے فلور پرکہتے ہیں نواز شریف میرا لیڈر ہے۔
    حالیہ آزادی مارچ کے حوالے سے آپ کی ذات پرکچھ سوال اٹھنا شروع ہوگئے ہیں ۔


    ۔سب سے پہلا الزام یہ ہے کہ جاوید ہاشمی صاحب نے آزادی اور انقلاب مارچ کو سبوتاژ کرنے کو کوشش کی۔۔ عمران خان نے آزادی مارچ کے لئے چودہ اگست کا اعلان کردیا ، بعد ازان مولانا طاہرالقادری صاحب نے بھی چودہ اگست کا اعلان کردیااور کہا کہ آزادی اور انقلاب مارچ ساتھ ساتھ چلیں گے۔ ۔ حکومت نے گیارہ اگست کوانقلاب مارچ کے شرکاء کو کنٹینر کے حصار میں قید کردیا ۔


    ۔ بارہ اگست کو جب عمران خان نے یہ کہا کہ ہم چودہ اگست کو مارچ کے لئے نکلیں گے اور سب سے پہلے ماڈل ٹاؤن جاکر علامہ صاحب اور انقلاب مارچ کے شرکاء کو وہا ں سے نکال کر آگے بڑھیں گے۔۔ عمران خان کے اس فیصلے پر ہاشمی صاحب بارہ اور تیرہ اگست کی شب ناراض ہوکر ملتان چلے گئے۔۔بعد ازاں PTI کے لوگ ملتان پہنچے اور ہاشمی صاحب کو راضی کرکے واپس لے آئے ۔


    ۔آزادی اور انقلاب مارچ علیحدہ علیحدہ اسلام آباد روانہ ہوئے۔ ۔پاکستان تحریک انصاف کے دھرنے میں ہاشمی صاحب کنٹینر پر موجود ہوتے تھے ، دھرنے کے تقریبا سولہ دن بعد جب دھرنے کے سپہ سالار نے دھرنے کو وزیرآعظم ہاؤس کے سامنے لے کر جانے کا احکامات جاری کئے تو ہاشمی صاحب نے ساتھ دینے سے انکار کردیا، ہاشمی صاحب دھرنا چھوڑ کر چلے گئے۔ ۔ہاشمی صاحب کی اس حرکت سے تحریک انصاف کو بہت نقصان ہوا۔


    ۔ ہاشمی صاحب کے جانے کے بعد مختلف آراء سامنے آنے لگیں۔ ۔ کچھ لوگوں کی رائے میں پاکستان تحریک انصاف کا ساتھ چھوڑنے سے پہلے ہاشمی صاحب کی بیماری کو بھی ایک بہانہ قرار دے رہے ہیں ، ان کی رائے ہے کہ ہاشمی صاحب نے سعد رفیق سے ہدایات لینے کے لئے بیماری کا بہانہ بناکر ہسپتال میں داخلہ لیا تھا۔ ۔ہسپتال میں خواجہ سعد رفیق نے یہ ہدایت دی تھی کہ آپ عین موقعہ پرتحریک انصاف کا ساتھ چھوڑ دیں گے جس پر جاوید ہاشمی صاحب نے عمل کیا ۔


    ۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے دھرنے سے واپسی کے بعد سعد رفیق اور جاوید ہاشمی صاحب مسلسل رابطے میں رہے اور خواجہ سعد رفیق کی ہدایت پر ہاشمی صاحب نے پریس کانفرنس کی ۔ ۔ پریس کانفرنس میں جاوید ہاشمی صاحب نے عمران خان پر الزام لگایا کہ اوپر سے حکم آیا ہے دھرنا آگے بڑھے گا ۔ ۔بعد میں آئی ایس پی آر کی وضاحت کے بعد جاوید ہاشمی صاحب نے یو ٹرن لیا اور کہا کہ میرا نئیں خیا ل فوج عمران خان کے ساتھ ہے،تاہم انہوں نے قومی اسمبلی کی رکنیت سے اپنا استعفی جمع کروادیا جسے منظور کرلیا گیا۔
     
    نعیم نے اسے پسند کیا ہے۔
  5. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    ناصر إقبال بھائی
    مسئلہ یہ ہے کہ بات ہورہی تھی حالیہ پختون جرگہ کی جو نقیب اللہ شہید کو انصاف دلانے کے لیے دیا جارہا ہے اور آپ نے وہ تنقیدی کالم لکھ ڈالے جو عمران خان اور طاہرالقادری کے دھرنوں پر لکھے گئے ہیں
    ہوسکتا ہے آپ یہ کہنا چاہتے ہوں کہ دھرنا دھرنا ہوتا ہے چاہے سیاسی ہو ، ماڈل ٹاون پر ہو ، لبیک والوں کا ہو یا پختون جرگہ ہو ۔ ۔ ۔ دھرنے سے نہ مسائل حل ہوتے ہیں اور نہ ہی کوئی انقلاب نامی چڑیا نمودار ہوتی ہے ، تو موجودہ دھرنا بھی لاحاصل اختتام پزیر ہوجائے گا
    مگر یہ بات تو آپ سیدھا سیدھا بھی لکھ سکتے تھے ، کان گھما کر پکڑنے کا کیا فائدہ
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    زنیرہ عقیل جی
    ایک خاتون ہیں ، غالبا ڈاکٹر فرحت تاج صاحبہ ۔ ۔ ۔ پختون اسکالر معلوم ہوتیں تھیں
    ان کا ویڈیو سنا تھا اس دھرنے پر اور نقیب اللہ کی شہادت پر اور پختون قوم کو کیا لائحہ عمل اختیار کرنا چاہیے آگے ، کچھ ماضی کی بھی باتیں کی تھیں انہوں نے
    ہمیں بہت پسند آیا اور شاید ہمارے خیالات بھی کافی مطابقت رکھتے ہیں ان سے
    موقع لگے تو آپ بھی سن لیجئے گا
     
    نعیم اور زنیرہ عقیل .نے اسے پسند کیا ہے۔
  6. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    محترم نعیم صاحب
    آپ فرماتے ہیں کہ " ناصر اقبال صاحب نے ایک سادہ سوال پوچھا ہے آپ شائستگی سے اسکا جواب مرحمت فرما دیں۔ پوسٹ پڑھنے کے باوجود اگر کسی کو ابھی تک جواب کی وضاحت مطلوب ہے تو آپ مہربانی فرما کر طعن و تشنیع کیے بغیر اپنے موصوف رہنما کی طرف سے چند جملے ارشاد فرما دیں۔ "

    آپ اس لڑی کو اور اس شخص کے کمنٹس میں دیے گئے کالم دیکھ لیجیے جو شاید ڈاکٹر طاہر القادری صاحب اور عمران خان صاحب کے خلاف لکھے گئے ہیں یا یوں کہیں کہ انکی تذلیل کی گئی ہے تو آپ شائستہ جواب کا مستحق سمجھتے ہیں انکو دیجئے آپ جواب؟
     
    نعیم نے اسے پسند کیا ہے۔
  7. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    موقع ملا تو ضرور انکو بھی سن لینگے
     
    نعیم نے اسے پسند کیا ہے۔
  8. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    دل کو چھو جانے والی تحریر ہے۔
    بلاشبہ ایک انسان کا دل نقیب اللہ محسود سمیت ہربےگناہ کی جان جانے پر خون کے آنسو روتا ہے۔
    اور ہمیں بطور قوم متحد ہوکر " ظلم کے اس نظام" کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ میرا ماننا ہے کہ پاکستان پر 30-40 یا 50 ہزار اشرافیہ کا قبضہ ہے۔ جو کرپٹ بھی ہے، ظالم بھی ہے اور اس کرپٹ سیاسی نظام کے ذریعے ایوانِ اقتدار اور دیگر اہم ادارے بھی انہی کی دسترس میں رہتے ہیں۔ جبکہ باقی 20 کروڑ عوام مظلوم، محکوم کیڑے مکوڑے ہیں جن کو ظالم اشرافیہ جب چاہے جہاں چاہے اپنے ظلم کا نشانہ بنا ڈالے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ہمیں اس نظام کو متحد ہوکر بدلنا ہوگا
     
    زنیرہ عقیل نے اسے پسند کیا ہے۔
  9. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    بالکل درست فرمایا آپ نے لیکن ہماری بد قستمی ہے کہ چند گنے چنے لوگوں کے جو بار بار ہمیں ڈس رہے ہیں ہمارے ملک کو کھوکھلا کر رہے ہیں ملک کی شریانوں سے خون چوس رہے ہیں ایسے ہی لوگوں کو ہم دوبارہ منتخب کر کے اقتدار کی کرسی پر بٹھا کر 5 سال کے لیے دوبارہ رونا شروع کر دیتے ہیں
     
    نعیم نے اسے پسند کیا ہے۔
  10. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    اب ہم (مطلب پاکستانی ووٹرز کی اکثریت) ان اشرافیہ کو منتخب نہ بھی کرنا چاہے لیکن اشرافیہ نے موجودہ انتخابی نظام ایسے مکارانہ انداز میں ایک جال کی صورت میں ڈال دیا ہے جس میں عوام پھنس چکی ہے۔ پچھلے تیس چالیس سال سے عوام الناس کو غربت و مفلسی ، لوڈ شیڈنگ، بےحیائی کی چکی میں پیسا ہے اور دوسری جانب ہر اہم محکمے اور ادارے میں اپنے وفادار بھرتی کیے ہیں ۔۔ اب انتخابات جیتنے کےلیے عدلیہ و پولیس سمیت بہت سے ادارے بھی اشرافیہ کے ساتھ ہوتے ہیں اور کہیں عوام پھر بھی قابو نہ آئیں تو بھوکے عوام کو بریانی پلیٹ سے لے کر 5 تا 10 ہزار فی ووٹ کے حساب سے کیش دے کر انہیں خریدا جاتا ہے۔ یہ نظام ہی اشرافیہ کا محافظ ہے۔ جب تک یہ انتخابی نظام نہیں بدلے گا ملک کو کبھی بھی اہل، شریف، دیانتدار پارلیمنٹ اور قیادت نصیب نہیں ہوسکے گی۔
     
    زنیرہ عقیل نے اسے پسند کیا ہے۔
  11. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    دراصل ایک طرف لیڈر شپ کا بحران ہے دوسری اپنی غربت کو ہم نے اپنے اوپر سوار کر لیا ہے
    ایسے میں مکارانہ نظام نے اپنے جوہر خوب دکھائے ہیں
    لیکن
    عوام کی بیداری اور ان میں قربانی کا جذبہ ہی نظام کو تبدیل کر سکتی ہے
    عوام کشمکش میں مبتلا ہے کہ کوئی بے داغ شخصیت ان کی رہنمائی کرے جو ناپید ہے
    جس قوم کو اپنی بری حالت کی اصلاح کی فکر نہ ہو، خدا بھی ان کی کوئی مدد نہیں کرتا

    خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
    نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
     
  12. ناصر إقبال
    آف لائن

    ناصر إقبال ممبر

    شمولیت:
    ‏6 دسمبر 2017
    پیغامات:
    1,670
    موصول پسندیدگیاں:
    346
    ملک کا جھنڈا:
    عوام کی بیداری اور ان میں قربانی کا جذبہ ہی نظام کو تبدیل کر سکتا ہے ،،،،،
    عوام کی بیداری اور ان میں قربانی کا جذبہ ہی نظام کو تبدیل کر سکتی ہے ،،،،،
     
  13. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    وحشت میں ہر ایک نقشہ الٹا نظر آتا ہے
    مجنوں نظر آتی ہے، لیلی نظر آتا ہے
     
  14. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    قیادت کے بحران کی شکایت عبث ہے۔
    کیونکہ قرآن و سنت کی رو سے اللہ کریم نے کبھی کوئی بستی یا علاقہ ایسا نہیں چھوڑا کہ وہاں "ڈر سنانے والا" یا "راہ ہدایت دکھانے والا" نہ بھیجے ۔ سلسلہ نبوت کے بعد بھی اللہ پاک کے صالح بندے ہر دور میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ سرانجام دیتے رہتے ہیں۔
    دوسری بات "بےداغ قیادت" ۔۔۔۔۔ انبیاء کرام علیھم السلام کے بعد "بےداغ" قیادت کا تقاضہ ہی نادانی ہے۔
    اور پھر جب قوم خود ہاتھوں ، زبانوں اور ذہنوں میں گند اٹھائے پھرتی ہو تو ایسی قوم کو انبیائے کرام بھی (معاذ اللہ) داغدار نظر آتے ہیں ۔ قرآن اٹھا کر دیکھ لیں کس کس نبی پر کیا کیا الزام اور کیا کیا داغ انکی قوم کی جانب سے لگائے گئے۔ خود ہمارے نبی مکرم صل اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس پر کیسے کیسے الزامات لگائے گئے۔ جاہل، بےشعور قوم کا رویہ ہی الزام لگانا ہوتا ہے۔
    جبریل علیہ السلام یا انکی قبیل سے کوئی قیادت نہ کبھی اتری ہے اور نہ کبھی اترے گی ۔
    البتہ بےداغ قیادت کے قریب ترین کی خوبیوں کو ضرور پرکھا جا سکتا ہے۔ اور ایسا کرنا بھی چاہیے۔ کہ :
    علم، تقوی، کردار ، دیانتداری، حب الوطنی، خدمتِ قوم، خدمتِ انسانیت وغیرہ جیسی خوبیاں زیادہ سے زیادہ کس شخصیت کے پاس ہیں۔ اور پھر سب سےبڑھ کر قوم کو موجودہ بحران سے نکالنے کی بصیرت اور صلاحیت کس کے پاس ہے۔ ایسی شخصیت یا شخصیات کا ساتھ دینا چاہیے۔
    میں آپ کے آخری شعر سے مکمل طور متفق ہوں۔
     
  15. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    قیادت کے بحران کو تبلیغ دین سے آپ نے جوڑ دیا
    انبیاء کرام علیہ السلام نورِ ہدایت لے کر آئے تاج و تخت کی بجائے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ سرانجام دیتے رہے ان کی برابری کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا
    الحمدلللہ اس وقت بھی پاکستان میں دینی خدمت سے سرشار عوام سے جڑی ایسی بے داغ شخصیات موجود ہیں جو تاج و تخت کی بجائے تبلیغ دین میں اپنی زندگیاں وقف کیے بیٹھے ہیں پوری زندگی سفر کی حالت میں گزارتے ہیں اور پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری خطبہ میں جو حکم ملا اسے پورا کرنے پر عمل پیرا ہیں گھر گھر شہر شہر ملک ملک جا کر پیغامِ رسالت عام کرتے ہیں.

    سیاسی لیڈر شپ کا فقدان ہے جو پاکستانی عوام کی خواہشات کے مطابق ہو جو خلافت کے کم از کم خواب تو دکھا دے مگر یہ لفظ کبھی زبان سے ادائیگی کا سوچا بھی نہیں کسی نے.

    نواز شریف صاحب زرداری صاحب عمران خان صاحب اور باقی چھوٹی پارٹیوں کے صاحبان کس پر لو گ بھروسہ کریں تھوڑی بہت آس جو عوام نے عمران خان سے باندھنی شروع کی وہ بھی انکے ساتھیوں کی نا اہلی سے ختم ہو گئی

    باچاخان جیسے لیڈر جو زمین پر عوام کے ساتھ مارچ اور دھرنوں میں بیٹھ کر عوام کا بھلا سوچتے تھے وہ اب نا پید ہیں

    آپ مجھے بتائیں کہ اس وقت پاکستان میں ایسا کونسا لیڈر ہے جو اس قابل ہے کہ وہ پاکستان کے تمام صوبوں سے عوام کو لیڈ کرے اور ووٹ حاصل کرکے عوام کی رہنمائی کرے اور انکا حال سدھارے؟

    پھر الیکشن سر پہ ہیں وہی نواز وہی زرداری اورعمران اور انکے حواری ہونگے اور میڈیا پر تبصرے ہونگے اپنے کارنامے گردانے جائینگے عمران خان نے وزارت تو حاصل نہیں کی اب تک لیکن صوبائی سطح پر کچھ اصلاحات کیے ہیں جن کی وجہ سے باقی سے تھوڑے سے بہتر ہیں

    جو چاہیے وہ نہیں ہے عوام کے پاس انقلابی لیڈر نہیں ہے مذہبی جماعتیں بھی ناکام نظر آتی ہیں
    لگتا یہی ہے کہ امام مہدی کے ظہور تک انتظار کرنا پڑےگا
    تب کہیں جا کر پاکستانی نہیں لیکن مسلمان تو ایک ہو ہی جائینگے
    بقول علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ

    اللہ کے دین کے بغیر ، اللہ کی ذات سے تعلق کے بغیر ضعیف قوموں کو شفا نہیں مل سکتی
    لادینی و لاطینی کس پیچ میں الجھا تو
    دارو ہے ضعیفوں کا لا غالب اِلّا ھُو
     
    Last edited: ‏16 فروری 2018
  16. ناصر إقبال
    آف لائن

    ناصر إقبال ممبر

    شمولیت:
    ‏6 دسمبر 2017
    پیغامات:
    1,670
    موصول پسندیدگیاں:
    346
    ملک کا جھنڈا:
    ڈاکٹر طاہر القادری صاحب اور عمران خان صاحب شاھد دودھ کے دھولے ھیں
     

اس صفحے کو مشتہر کریں