1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

دنیا کی پہلی ’’ہوائی کشتی ! ‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔ تحریر : انجینئر رحمیٰ فیصل

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏17 ستمبر 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    دنیا کی پہلی ’’ہوائی کشتی ! ‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔ تحریر : انجینئر رحمیٰ فیصل


    پہلی جنگ عظیم میں اڑنے والے جہازوں کے ذکر سے تو سبھی واقف تھے ،سفر سے محظوظ ہونے والے بھی کم نہ تھے۔ لیکن 1930ء میں بالکل نئی اطلاح عام ہوئی ،یہ اصطلاح تھی ''فلائنگ بوٹس ‘‘ یعنی اڑنیوالی کشتیاں۔کچھ نے انہیں ''سی بوٹس یعنی سمندر میں تیرنے والے جہاز بھی لکھا ہے۔کچھ نے انہیں ''سی پلین‘‘ کا نام دیا۔ 1930ء کی دہائی میں یہ اڑنے والی کشتیاں یا سمندر میں سفر کرنے والے جہاز پیمبروک ڈاک پر کثرت سے اترتے دیکھتے گئے۔ ان کی بناوٹ ایسی تھی کہ انہیں جہاز بھی لکھا جا سکتا تھا اور کشتی کہنے میں بھی حرج نہیں تھا، ان کے بالائی حصہ جہاز کا تھا، لیکن زیریں حصے میں کشتی فکس تھی۔ جہاں ضرورت پڑتی، یہ طیارہ نما کشتی اس بندرگا یا سمندر میں پہنچ جاتی۔پیمبروک کی گودی چونکہ نہایت اہمیت کی حامل تھی ،جنگ کا میدان بھی سجنے والا تھا لہٰذا پیش بندی کے طور پر یہ ابتدائی آبی طیارے وہاں کثرت سے پرواز کرتے دیکھتے گئے۔
    پہلی بار اڑان بھرنے کے بعد سمندر میں اترنے والا طیارہ یکم ستمبر 1937ء کو تیار کیا گیا۔لوگوں نے اس روز کچھ اور ہی منظر دیکھا۔ یہ ٹو ان ون تھا۔جہاز بھی تھا اور کشتی بھی، سمندر میں اترنے کی صلاحیت کے حامل یہ طیارے کسی بھی وقت جہازکی طرح اڑ سکتے تھے او ربوقت ضرورت انہیں سمندر میں کشتی کی طرح چلایا جا سکتا تھا۔ سمندر میں یہ کشتی کی مانند دوڑنا شروع کر دیتے تھے۔یہ دل چسپ سفر تھا، سابق فوجیوں کی لکھی گئی تحریروں میں اس اڑنے والی کشتی یا تییرنے والے جہاز کے سفر کو نہایت ہی سحر انگیز لکھا گیا ہے۔ وہ اس سفر کو بہت انجوائے کیاکرتے تھے۔
    دوسری جنگ عظیم میں اس قسم کے جہازوں کی سب سے زیادہ ضرورت امریکہ کو تھی۔امریکہ کے اکثر فوجی اڈے بندرگاہوں کے آس پاس قائم تھے ،دیگر ممالک میں واقع فوجی اڈے بھی ساحلوں پرہی قائم کئے گئے تھے۔ان بندگاہوں تک بروقت پہنچا ،وہاں سے فوجی ساز و سامان اور فوجیوں کی نقل و حمل امریکہ کی سب سے بڑی ضرورت تھا۔ اسی مقصد کے پیش نظر یہ ٹو ان ون جہاز بنائے گئے تھے۔ دوسری جنگ عظیم میں یہی جہاز امریکہ کی سب سے بڑی برتری تھے۔''سندر لینڈ ‘‘نامی جہاز نے دوسری جنگ عظیم میں نمایاں کردار ادا کیا تھا،لیکن یہ امریکی نہیں بلکہ برطانوی بحریہ کی ملکیت میں تھا، دشمن کو ناکوں چنے چبوانے میں اس کے کردار کو نظر انداز کرنا مشکل ہے۔اس کی ایک اور خوبی سبھی تھی وہ یہ کہ محض فضاء اور پانی میں سفر ہی نہیں کرتا تھا بلکہ ایک بڑا بمبار طیارہ ہونے کے باعث جہاںضرورت پڑتی ،بم گرانے کی صلاحیت بھی رکھتا تھا۔
    اسے کشتی اور جہاز کی طرح دیگر جہازوں سے کہیں زیادہ مرتبہ میں کام میں لایا گیا تھا۔یہاں ''Icon A5‘‘ کی مثال دینا بھی بے جا نہ ہو گا۔11فٹ کی بلندی پر پرواز کرنے والا یہ طیارہ پانی میں بھی طویل سفر کرنے کی صلاحیت کا حامل تھا۔
    جہاز کو ہر طریقے سے محفوظ بنانے کیلئے اضافی حفاظتی انتظامات کئے گئے تھے۔ اس پر بھی تحقیق کی گئی تھی کہ ان میں پانی میں اترتے وقت پہیے کھولے جائیں یا پھر تیرنے کیلئے باڈی بنائی جائے۔ تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ پہیے کھولنے کی صورت میں حادثات میں کمی ہو سکتی ہے ،اس صورت میں حادثات کا تناسب 10فیصد اور باڈی بنانے کی صورت میں 17فیصد تھا۔
    وقت کے ساتھ ساتھ ان کی تیاری بہت عام ہو گئی ،جنگ کی بندش کے بعد انہیں سیاحت کے لئے استعمال کیاجانے لگا، کوئی بھی شہری 21ہزار ڈالر میں اس جہاز نما کشتی کی سیر کر نے کا سوچیں بھی نہ۔جب تک 21ہزار ڈالر جمع ہوں گے اس وقت سیر مزید مہنگی ہو جائے گی۔ان جہازوں کی خوبی یہ ہے کہ انہیں اڑانا بھی آسان ہے ،پانی میں چلاتے وقت بھی دقت پیش نہیں آتی۔ان کا لائسنس بھی جلد ی مل جاتا ہے،دو نمبر لائسنسوں کے جھنجھٹ سے بھی نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں