1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

دل کے علاج میں اہم پیش رفت ۔۔۔۔۔ ڈاکٹر سید فیصل عثمان

'میڈیکل سائنس' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏5 اکتوبر 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    دل کے علاج میں اہم پیش رفت ۔۔۔۔۔ ڈاکٹر سید فیصل عثمان

    دل کی بیماریاں انسان کے قابو میں نہیں ہیں، مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد امریکہ اوریورپ میں باعث تشویش ہے۔ہمارے ہاں ڈھائی لاکھ سالانہ سے زائد افراد دل کی بیماریوں سے جاں بحق ہو جاتے ہیں، یہ تعداد دنیا بھر میں ہونے والی اموات کا پانچواں حصہ ہیں۔ بڑھتی ہوئی اموات کے باوجود دل کے تمام خلیوں کی ساخت کو سمجھے بغیر علاج ناممکن ہے۔ دل کے خلیوں ،خلیوں کے انفرادی اور اجتمائی افعال اور سالمیاتی عمل اور جین کی فعالیت یا میکانزم کو پورے طورپر جانے بغیر جامع علاج نہیں کیا جا سکتا ۔ دل کی دھڑکن پیدا کرنے والے اور خون منتقل کرنے والے خلیوں کی الگ الگ جانچ اور مرض یا وائرس کی صورت میں دل کے مدافعتی نظام کی کارکردگی کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔
    دل پر تحقیق کے لئے مارک زکربرک اوران کی اہلیہ کی فائونڈیشن نے امریکہ، برطانیہ ،کینیڈااور جرمنی سمیت کئی ممالک سے تعلق رکھنے والے سائنسدانوں کے ایک بڑے گروپ کواکھٹا کیا۔ ان ماہرین نے خلیوں کا مکمل اور جامع نقشہ بنالیا ہے۔ یہ اس سمت میں بہت بڑی پیش رفت ہے ، مزید کامیابی کی صورت میں دل کے مریضوں کے لئے الگ یا مخصوص علاج کی سہولت بھی مل جائے گی ۔ماہرین نے رپورٹ میں لکھا کہ،
    ''ہم دن بھر دل کی دھڑکن سنتے رہتے ہیں، کسی آرکسٹرا کی مانند ،ایک ردھم کے ساتھ دل ہر وقت کام کرتا رہتاہے،لاتعداد خلیے یہ کام مل جل کر کرتے رہتے ہیں۔ دل انسانی جسم کا انتہائی پیچیدہ عضو ہے، لیکن دل کے خلیوں کا کام اس سے بھی زیادہ پیچیدہ ہے۔ ہم دل کے خلیوں کے تمام کاموں سے واقف نہیں ہیں۔ہماری تحقیق ایک مرکزی نکتے پر آکر ر ک جاتی تھی، دل کے کچھ خلیے مل جل کر کام کرتے ہیں، کچھ خلیے دوسرے خلیوں سے الگ تھلگ رہ کر تن تنہا کام کرتے ہیں،ایسا کیوں ہے؟ اس سوال کا جواب ہمارے پاس پہلے نہیں تھا، اب مل گیا ہے۔ جسم کے کئی متعدد اعضاء کے خلیوں کی تھری ڈی پرنٹرز پر تیاری ممکن ہو گئی ہے ،یہ خلیے حسب ضرورت بنائے جا سکتے ہیں لیکن د ل کے خلیے پیچیدہ ہیں، انہیں تھری ڈی پرنٹرز کی مددسے حسب ضرورت تعداد میں نہیں بنایا جا سکتا ،ایسا کیوں ہے؟اس سوال کا جواب بھی مل چکا ہے۔
    ہارودڈ یونیورسٹی کی کرسٹائن سیڈمین کا کہنا ہے کہ ''بیمار دل کو سمجھنے سے پہلے صحت مند دل کے اسرا رجاننا ضروری ہیں،ا گرچہ کچھ افراد کے دل اور ان کے خلیات پر تحقیق کو پوری انسانیت پر نافذ نہیں کیا جا سکتا لیکن پھر حاصل کردہ معلومات کو ناقابل یقین کہا جا سکتا ہے‘‘۔بات کو آگے بڑھاتے ہوئے واشنگٹن یونیورسٹی کے کارڈیالوجسٹ ڈوگلس مان کا کہنا ہے کہ ''اس سمت میں نئی تحقیق میں بیش بہا کامیابی حاصل کر لی گئی ہے۔ بالغ مردوں اور عورتوں کے دلوں کے خلیوں پر ہونے والی تحقیق کافی کامیاب رہی ہے‘‘۔دوران تحقیق انہوں نے یہ جاننے کی کوشش بھی کی کہ مردوں اور عورتوں کے دل کے علاج میں کوئی فرق لایا جا سکتا ہے یا نہیں؟ انہوں نے 40برس اورا س عمرکے بعد دل میں ہونے والی تبدیلیوں کا بھی جائزہ لیا۔
    سائنس دانوں نے دل کے ایک ہی قسم کے خلیوں ، نیوکلئس اور CD 45 خلیوں کو یکجا کیا، دل کی دائیں اور بائیں آرٹریم کی اندرونی جھلیوں اور مدافعتی نظام کے خلیوں، لمفائڈز اور ایڈیپوسائڈز پر الگ الگ تحقیق کی۔ ا ن خلیوں کی تعداد5لاکھ تک تھی۔مختلف ممالک کے 14ڈونرز نے یہ خلیے برائے تحقیق پیش کئے تھے ، اس میں آرٹریل خلیے 30.1فیصد اور دیگر اقسام کے خلیے 35فیصد سے 49فیصد تک تھے۔ طبی ماہرین نے امریکہ اور برطانیہ میں جن لوگوں کی موت واقع ہو گئی تھی، ان کے خلیے دو مرحلوں میں لئے ، ایک اس وقت جب ان کی دل کی دھڑکن بند ہو چکی تھی ، دوسری مرتبہ اس وقت خلیے لئے گئے جب ان کا دماغ مر چکا تھا۔ وہ یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ دل کی دھڑکن بند ہونے کے بعد سے دماغ کے کام بند کرنے تک دل کے خلیوں میں کون کون سی تبدیلیاں رونما ہو تی ہیں۔اس سے انہیں یہ جاننے میں مدد ملی کہ اگر کسی فرد کے دل کی دھڑکن ختم ہو چکی ہو لیکن اس کا دماغ ابھی ''ڈیڈ‘‘نہ ہوا ہو، تو اس کا علاج کیونکر کیا جا سکتا ہے؟ یوں دوران خون کے رکنے سے دماغ کے ڈیڈ ہونے تک خلیوں میں ہونے والی تبدیلیوں کا مکمل نقشہ بنا لیا گیا ہے۔
    ٹیم نے دل کی اندرونی بناوٹ کو جاننے کے بعدعلاج میں بڑی پیش رفت کا اعلان کیاہے۔ بہت ہی زیادہ پیچیدہ اور عام آدمی کی سمجھ میں نہ آنے والی تحقیق میں انہوں نے کہا کہ '' ہم اب ایسے کئی سوالوں کا جواب دینے میں کامیاب ہو گئے ہیں جن سے پہلے لاعلم تھے‘‘۔اپنی تفصیلی رپورٹ بعنوان ''Cells of the adult human heart‘‘ میں انہوں نے کہا ہے کہ وہ اب CD45سمیت دیگر خلیوں کی اصل ساخت کو سمجھنے میں کامیاب ہو گئے ہیں لہٰذا نئی معلومات کی روشنی میں انفرادی علاج کی تیاری بھی ممکن ہو سکتی ہے۔ انہوں نے تجربہ گاہ میں ان خلیوں کی تیاری پر بھی کام کیا۔اور کافی حد تک کامیاب رہے، انہوں نے دیکھا کہ تھری ڈی ٹیکنالوجی بھی اس طبی کام میں ان کی مدد کرسکتی ہے۔
    عالمی طبی جریدے نے مذکورہ تحقیق کو ترجیحی بنیادوں پر اپنے صفحات پر جگہ دیتے ہوئے مزید تحقیق اور جانچ کرنے کا مشورہ دیا ہے۔جریدے اور سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اگر ''ہم تحقیق پر مزید کام کرنے میں کامیاب ہو گئے تو ہر انسان کی نالیوں اور دل کی حالت کومد نظر رکھتے ہوئے منفردطبی سہولت مہیا کی جا سکے گی‘‘۔انہوں نے مثال دیتے ہوئے لکھا کہ
    '' خون کی گردش کو تندرست حالت میں رکھنے کے لئے ہمارے پاس زیادہ آپشنز نہیں ہیں اسی لئے ایک جیسا علاج تجویز کیا جاتا ہے لیکن مستقبل میں تھری ڈی ٹیکنالوجی کی مدد سے سائنس دان ہر کسی کے دل کی مطابق اس کا الگ علاج کر سکیں گے۔اسی لئے رپورٹ کا ٹائٹل کچھ یوں رکھا گیا ہے ، ''اے دل! سائنس دان تجھے اب سمجھے ہیں‘‘ ۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں