1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

دلاور فگار .... پروفیسر ولی بخش قادری

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏23 فروری 2021۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    دلاور فگار .... پروفیسر ولی بخش قادری

    مرکے رہ جاتا ہے فنکار امر ہونے تک

    ,۔7 دسمبر 1970ء کو پاکستان میں ہونے والے انتخابات کے حوالے سے لکھی گئی مشہور نظم ’’میں ووٹ کس کو دوں‘‘ نے آپ کی شہرت کو چار چاند لگا دئیے۔ اپنے طنز اور ظرافت کی وجہ سے وہ ’’شہنشاہ ظرافت اور ’’اکبر ثانی‘‘ بھی کہلاتے ہیں۔پروفیسر ولی بخش قادری بچپن کے دوست بھی تھے اور ہم جماعت بھی ۔کئی مرتبہ دلاور فگار کی طنزیہ شاعری کا ’’نشانہ‘‘ بھی بنے ۔ ذیل میں دلاور فگار کے بارے میں ولی بخش کی ایک تحریر شائع کی جا رہی ہے۔
    دلاور فگار نے 8جولائی 1928ء کو حمیدی صدیقی خاندان میں آنکھ کھولی۔ ان کا نام دلاور حسین ہے، 1942ء میں وہ ہائی سکول کے امتحان میں پاس ہوئے۔ والد ماسٹر شاکر حسین مقامی اسلامیہ سکول میں استاد تھے ۔ اس وقت بدایوں میں صرف دسویں جماعت تک کی تعلیم ممکن تھی ، میں درجہ چہارم میں ان کا ہم جماعت بنا تھا۔ سکول کی ساری زندگی ایک دوسرے کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے گزری ، ہائی سکول کے امتحان میں پاس ہونے کے بعد میں مزید تعلیم کیلئے وطن سے باہر چلا گیا ۔

    بدایوںمیں ہمیشہ چھوٹے موٹے مشاعرے ہوتے رہتے تھے ۔ مگر موسم گرما کی تعطیلات کے زمانے میں مشاعروں میں عموماََ تیزی آ جایا کرتی تھی کیونکہ پڑھنے اور پڑھانے والوں کی صورت میں شہر کا ’’برآمد کیا ہوا مال’‘‘ اکثر وبیشتر لوٹ آیا کرتا تھا۔میں بھی ایک تعلیمی سال گزارنے کے بعد پہلی بار لوٹا تو ایک دوست کو مشاعرے میں غزل پڑھتے دیکھا۔ پتہ چلا کہ وہ شباب بدایوں کے نام سے مشاعروں میں شرکت کر رہے ہیں۔ ان دنوں وہ لہک لہک کر غزل سنایا کرتے تھے ان کی آواز میں دل آویز نقاہت ہوتی اور ایسا لگتا تھا کہ ابھی سانس ٹوٹی۔4 سال بعد وہ انٹرمیڈیٹ کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے بریلی کالج پہنچے ، وہیں سے معلمی کا ڈپلوما بھی لے ڈالا۔اس دوران وہ ا پنے والد کے سایہ عاطفت سے محروم ہو گئے۔ 1950میں اپنے والد ہی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اسی ادارے میں استاد بن گئے۔اس دوران آگرہ یونیورسٹی سے معاشیات ،انگریزی زبان اور اردو زبان میں ایم اے کئے۔

    یہی زمانہ فگار کی شاعری کے فروغ کا ہے، ان کی غزلوں کا مختصر مجموعہ’’ حادثے‘‘ 1954ء میں شائع ہوا ۔ غزل گوئی میں انہوں نے صاحب علم و فن مولانا جامی مرحوم، جام نوائی، آفتاب احمد جوہراور سبطین احمد سے فیض اٹھایا ہے۔ پھر وہ ’’شباب‘‘ سے ’’فگار‘‘ ہو گئے۔ان کی نظموں نے 1956ء میں لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرنا شروع کیا۔ان کی نظم ’’بوقلموں کی ممبری‘‘ پہلی کامیاب طنزیہ نظم کہی جاسکتی ہے۔ ان کے مزاحیہ اور طنزیہ قطعات اور نظموں کا پہلا مجموعہ ’’ستم ظریفیاں‘‘ 1963ء میں شائع ہوا۔ اسی کے ساتھ ان کی آواز قرب و جوار میں سنائی دینے لگی۔ اخبارات و رسائل میں ان کا کلام شائع ہونے لگااسی زمانے میں ان کی نظم ’’شاعر اعظم ‘‘ شائع ہوئی۔یہ نظم ان کی شہرت کے پہلے سنگ میل کا رتبہ رکھتی ہے۔ ان کا دوسرا مجموعہ کلام ’’شامت اعمال‘‘ 1964 میں شائع ہوا جس سے ایک مقبول مزاح و طنز نگار شاعر کی حیثیت سے ان کامقام مسلم ہو گیا۔اتر پردیش کی سرکار نے انہیں سرکاری انعام کا حق دار بھی ٹھہرایا۔ تاہم 1968ء میںوہ پاکستان آگئے اور کراچی کو مسکن بنایا،آخری سانس بھی وہیں لی۔ انہوں نے 68برس کی عمر پائی۔

    دلاور فگار کا مزاح خوش دلی پر مبنی ہوتا ہے، ان کے طنز میں تہذیب نفس کی نمود ملتی ہے، وہ تنگ نظرنہ تھے، بلکہ احساسات اور افکار کے اعتبار سے ترقی پسند ہی کہلائیں گے۔ وہ جھوٹی اقدار کی قلعی کھولتے تھے ۔

    حاکم وقت رشوت ستاں،فکر گرفتاری نہ کر
    کر رہائی کی کوئی آسان صورت، چھوٹ جا
    میں بتائوں تجھ کو تدبیر رہائی،مجھ سے پوچھ
    لیکر رشوت پھنس گیا ہے ، دے کے رشوت چھٹ جا

    انہوں نے تلخی حیات کے کڑوے گھونٹ بھی پیئے اور اپنی دنیا آپ پیدا کی ہے ۔ ان کی شاعری میں زندگی کا پرتو صاف جھلکتا ہے، طبیعت تصنع اور تکلفات سے دور بھاگتی تھی۔ وہ منکسر المزاج دوست نوازتھے ، یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں ہم عصر شعراء کے نام اور قصے جگہ جگہ جلوہ گر نظر آتے ہیں۔ ان کی شاعری اور دوست نوازی اس بات سے بھی ظاہر ہوتی ہے کہ مشہور ہونے کے باوجود وہ گمنا م دوستوں سے بھی رابطے میں رہتے تھے۔

    فگار کا حافظہ بہت اچھا تھا، انہیں عروض سے واقفیت تھی، زبان پر قدرت حاصل تھی، اور وہ فطرتاََ شاعر تھے ۔ اردو نظم میں الفاظ کا برجستہ استعمال ، پیوند کاری اور تصرف میںایک معیار رکھتے تھے ۔ ذرا سی بات میں ایک بات کہہ جاتے تھے بلکہ بسا اوقات کئی باتیں۔ ان کے بعض الفاظ پر علامتی رنگ چڑھتا ہوا نظرآتا تھا، وہ زندگی کے مضحک پہلوئوں کو اجاگرکیا کرتے تھے۔ لیکن نیک نیتی اور بالغ نظری کے ساتھ ان کا طنزتہہ دارہوتا تھا۔ جو پردہ بھی تھا اور پردہ در بھی۔

    فگار اچھے خاصے چوڑے چکلے آدمی نظرآتے تھے۔ اکڑفوں ہرگز نہ تھی، ڈھیلے ڈھالے تھے۔ سڑک پر سر جھکائے دنیاو مافیہا سے بے خبر اپنے آپ میں مگن چلا کرتے تھے۔ گفتگو کے دوران اکثر آنکھیں نیچی رہتیں۔نظمیں تحت اللفظ سے پڑھتے۔کچھ ایسا لگتا جیسے زور لگا کر آواز نکال رہے ہوں۔ان کے ترنم میں لڑکپن کی جھنکار سنائی دے جاتی تھی۔ مزاج میں آتش گیر مادے کی کمی تھی، وہ نرم دل محبت اور مروت کے آدمی تھے۔ وہ اپنا کلام حافظے میں جمع رکھتے تھے۔ کچھ مختصر اشاروں میں لکھ کر ادھر ادھر ڈالتے رہتے تھے اس کے علاوہ کچھ نظمیں رسائل و اخبارات کے تراشوں کی صورت میں ان کی کتابوں کے انبار میںمحفوظ رہتی تھیں ۔ ماں ،بیٹی اور بیوی ان کے گھر کی رونق تھے۔

    ان کی زندگی سراسر معصومیت میں گزری ۔ خود انہوں نے اپنے بارے میں کیا خوب کہا ہے،

    عمر اب تک تو صاف گزری ہے
    قاعدے کے خلاف گزری ہے

    ان کی طنزیہ اور مزاحیہ نظموں کا مجموعہ ’’آداب عرض‘‘ کلام کا اچھا نمونہ کہلانے کا مستحق ہے۔شامت اعمال ، عصر نو،انگلیاں فگار اپنی، مطلع عرض ہے، سنچری،خدا جھوٹ نہ بلوائے،چراغ خاندان،آبشار نور(سورۃ فاتحہ کی شاعرانہ تشریح ) ، صلہ شہید کیا ہے؟ (نشان حیدر حاصل کرنے والوں کی شاعرانہ بائیو گرافی )، فی سبیل اللہ اور کہا سنا معاف کرنا ان کے مجموعہ کلا م ہیں۔ جبکہ خوشبو کا سفر(انگریزی اور امریکی شاعری کا ترجمہ)،آئینہ راغب ( راغب مراد آبادی کی 125رعبایات کا مجموعہ مرتب کیا ) ، خوب تر کہاں(سابق صدر امریکہ جمی کارٹر کی کتاب کا ترجمہ ) بھی شائع کئے۔ وہ اس مقام پر پہنچ گئے تھے جہاں کلام اور فن میںطاقت پرواز خو دپیدا ہوا کرتی ہے۔ ذرا دیکھئے،

    ہے زراعت پر حکومت کی نظر
    اور تہذیب و تمدن پر نہیں
    ہے یہی باعث کہ ملک میں
    ایگری کلچر تو ہے کلچر نہیں

    …٭٭…

    دیکھتے جائو
    وطن والو! یہ مصنوعی گرانی دیکھتے جائو
    کہ سستا ہے لہو مہنگا ہے پانی، دیکھتے جائو
    غریبوں کے لئے عسرت، امیروںکیلئے عشرت
    مگر مارے گئے ہم درمیانی ، دیکھتے جائو
    فگار اس دور میں بھی طنزیہ اشعار کہتا ہے
    تم اس شاعر کی آشفتہ بیانی دیکھتے جائو

    …٭٭…

    نہ مرا مکاں بدل گیا ،نہ ترا پتہ کوئی اور ہے
    مری راہ پھر بھی ہے مختلف ،ترا راستہ کوئی اور ہے
    وہ جو مہر بہر نکاح تھا، وہ دلہن کا مجھ سے مزاح تھا
    یہ تو گھر پہنچ کے پتہ چلا، میری اہلیہ کوئی اور ہے
    کبھی میر و داغ کی شاعری بھی معاملہ سے حسین تھی
    یہ جو تیتر اور چوکور ہیں وہی پکڑیں ان کو جو چور ہیں
    مجھے ماں کا پیار نہیں ملا مگر اس کا باپ سے ہے گلہ
    مری والدہ تو یہ کہتی ہے، تری والدہ کوئی اور ہے

    …٭٭…

    میں نے کہا کہ رات سے بجلی بھی بند ہے
    اس نے کہا کہ ہاتھ سے پنکھا جھلا کرو

    میں نے کہا کہ کار ڈکیتوں نے چھین لی
    اس نے کہا کہ اچھا ہے ،پیدل چلا کرو

    میں نے کہا کہ کام ہے نہ کوئی کاروبار
    اس نے کہا کہ شاعری پراکتفا کرو

    ہر بات پر جو کہتا رہا میں بجا بجا
    اس نے کہا کہ یوں ہی مسلسل بجا کرو

    …٭٭…
     

اس صفحے کو مشتہر کریں