1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

داستان کوہِ نور

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏11 جون 2019۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    داستان کوہِ نور
    upload_2019-6-11_1-55-3.jpeg

    طیب رضا عابدی

    جب بھی کوہِ نور ہیرے کا ذکر ہوتا ہے تو ہمیشہ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کسی دیو مالائی کہانی کو بیان کیا جا رہا ہے حالانکہ یہ کوئی کہانی نہیں بلکہ حقیقی داستان ہے۔یہ ہیرا جنوبی اور مغربی ایشیاء میں بہت سے ہاتھوں میں رہا۔ایسٹ انڈیا کمپنی نے یہ ہیرا برطانیہ بھجوا دیا تھا۔بعد ازاںاس ہیرے کو ٹاور آف لندن کے جیول ہاؤس میں رکھ دیا گیا ۔ ’’کوہ نور‘‘ دنیا کے چند بڑے ہیروں میں سے ایک ہے، وزن 21.12 گرام ہے۔ اردو، ہندی اور فارسی میں کوہ نور کا مطلب ’’روشنی کا پہاڑ‘‘ (Mountain of Light) ہے۔ کوہ نور ہیرے کے حصول کے لئے متعدد لڑائیاں لڑی گئیں اس لیے جب یہ برطانوی شاہی خاندان کی ملکیت میں آیا تو یہ خاندان ایک خاص قسم کی توہم پرستی کا شکار ہو گیا۔ انہیں یہ وہم ہو گیا کہ جو مرد اس ہیرے کو پہنے گا بدنصیبی اس کا پیچھا نہیں چھوڑے گی اس لئے برطانیہ میں اسے شاہی خاندان کی عورتوں نے ہی پہنا۔ ملکہ وکٹوریہ کے بعد سے یہ ہیرا مختلف ملکائوں کے تاج کی زینت بنا۔پھر 1937 ء میں ملکہ الزبتھ کے تاج کا حصہ بن گیا۔ پاکستان نے کئی بار برطانیہ سے یہ ہیرا واپس کرنے کا مطالبہ کیاہے۔ پاکستان کئی بارنے کوہِ نور ہیرے پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کیا۔ برطانیہ نے کہا کہ اسے ’’آخری معاہدہ لاہور‘‘ (Last Treaty of Lahore) کے تحت حاصل کیا گیاہے اس لیے واپس نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ’’آخری معاہدہ لاہور‘‘ کیا تھا؟ اصل میں جب نادر شاہ درانی نے دہلی پر حملہ کیا تو اس وقت محمد شاہ رنگیلا کی حکومت تھی ۔ محمد شاہ رنگیلا نے تاوان کے طور پر جہاں اور بہت کچھ نادر شاہ درانی کے حوالے کیا وہاں کوہ نور ہیرا بھی درانی کو دے دیا۔ نادر شاہ کی موت کے بعد اس کی سلطنت کا شیرازہ بکھر گیا تو کوہ نور ہیرا اس کے پوتے کی ملکیت میں آ گیا جس نے احمد شاہ درانی کو یہ ہیرا اس شرط پر دے دیا کہ وہ اس کی حمایت کرے گا۔ لیکن درانی سلطنت کا تختہ اُلٹ دیا گیا ۔اس لئے شجاع درانی کوہ نور ہیرا لاہورلے آیا جہاں رنجیت سنگھ نے شجاع درانی کو پناہ دے دی لیکن اس کے بدلے میں رنجیت سنگھ نے شجاع درانی سے کوہ نور ہیرا لے لیا۔ یہ 1813کی بات ہے۔ رنجیت سنگھ نے یہ وصیت کی کہ یہ ہیرا جگن ناتھ مندر میں رکھ دیا جائے ۔ یہ مندر ان دنوں ایسٹ انڈیا کمپنی کے زیر انتظام تھا۔ 1839ء میں رنجیت سنگھ کی موت کے بعد اس کی وصیت پر عمل نہیں کیا گیا۔ 1849ء میں پنجاب پر ایسٹ انڈیا کمپنی کے قبضے کے بعد ’’آخری معاہدہ لاہور‘‘ پر دستخط کئے گئے ۔اس ہیرے کے علاوہ رنجیت سنگھ کے دوسرے اثاثوں پربھی کمپنی نے قبضہ کر لیا۔ معاہدے کا آرٹیکل IIIیہ کہتا ہے، ’’کوہ نور ہیرا جسے مہاراجہ رنجیت سنگھ نے شجاع درانی سے لیا تھا وہ لاہور کا مہاراجہ برطانوی ملکہ کے حوالے کر دے گا‘‘۔کہا جاتا ہے کہ اس ہیرے کو رنجیت سنگھ کے بیٹے دلیپ سنگھ نے برطانوی ملکہ کے حوالے کیا۔ دلیپ سنگھ رنجیت سنگھ کا سب سے چھوٹا بیٹا تھا جو خود 1854ء میں انگلستان چلا گیاتھا۔ آج کوہ نور ہیرا برطانیہ کے پاس ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ اس ہیرے کی داستان بہت انوکھی اور ناقابل یقین ہے ، بہرحال یہ داستان مبنی بر حقیقت ہے اور اس میں کوئی مبالغہ نہیں۔ کوہ نور ہیرا ایک تاریخی ورثہ ہے جس کی قیمت کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ یہ بے مثال ہے، انمول ہے اور اس کا کوئی مقابلہ نہیں، تمام تر لڑائیوں کے باوجود یہ انمول ہیرا قائم رہاتاہم اس کا کچھ حصہ کاٹ دیا گیا تھا۔اب تک کروڑوں لوگ اس ہیرے کو دیکھ چکے ہیں۔ اس کی وجہ اس کی بے مثال شہرت ہے جو کبھی ختم نہ ہوگی۔ ۔۔۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں