1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

داستان مجاہد

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از عرفان پتوکی, ‏24 اگست 2009۔

  1. عرفان پتوکی
    آف لائن

    عرفان پتوکی ممبر

    شمولیت:
    ‏8 اگست 2009
    پیغامات:
    84
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    داستان مجاہد 1

    داستان مجاہد
    نسیم حجازی کا اسلامی تاریخی ناول​


    1۔ صابرہ
    2۔ عذرہ
    3۔ بچپن
    4۔ مکتب
    5۔ ایثار
    6۔ دوسرا راستہ
    7 ۔اسیری
    8 ۔اجنبی
    9۔ فاتح
    10۔ نرگس
    11۔ سفیر
    12۔ نیا دور
    13۔اژدھا شیروں کے نرغے میں
    14۔ جزا اور سزا
    15۔آخری فرض

    پیش لفظ


    ”داستان مجاہد “ کی ابتدا ایک افسانے سے ہوئی۔ 1938ءمیں ”مجاہد“ کے عنوان سے ایک افسانے کا پس منظر تلاش کرنے کی غرض سے میں نے تاریخ اسلام اٹھائی۔ مجھے داستان ماضی کا ہر صفحہ ایک دل کش افسانہ نظر آیا۔ اس رنگین داستان کی جاذبیت نے افسانہ لکھنے کے ارادے کو تاریخ اسلام کا گہر ی نظر سے مطالعہ کرنے کے شوق میں تبدیل کردیا۔
    ایک مدت تک میں یہ فیصلہ نہ کر سکا کہ تاریخ اسلام کے کس واقعے کو اپنے افسانے کی زینت بناؤں۔ میں کسی ایک پھول کی تلاش میں ایک ایسی سرسبز و شاداب وادی میں پہنچ چکا تھا جس کی آغوش میں رنگا رنگ کے پھول مہک رہے تھے ۔ دیر تک میری نگاہیں اس دلفریب وادی میں بھٹکتی رہیں اورمیرے ہاتھ ایک پھول کے بعد دوسرے پھول کی طرف بڑھتے رہے۔ میں نے رنگا رنگ پھولوں سے اپنا دامن بھر لیا۔ آج میں ان پھولوں کو ایک گلدستے کی صورت میں پیش کر رہاہوں۔ اگر اس گلدستے کو دیکھ کر ہمارے نوجوانوں کے دلوں میں اس وادی کی سیاحت کا شوق اور اپنے خزاں رسیدہ چمن کو اس وادی کی طرح سرسبز و شاداب بنانے کی آرزو پیدا ہوجائے تو میں سمجھوں گاکہ مجھے اپنی محنت کا پھل مل گیا۔
    ادب برائے ادب کا نعرہ بلند کرنے والے حضرات شاید میری اس کاوش پر برہم ہوں لیکن میں ادب کو محض تضیع اوقات اورذہنی انتشار کا ذریعہ بنانے کا قائل نہیں ۔نظام کائنات میں ایک غایت درجہ کا توازن ہماری زندگی کے کسی فعل کو بے مقصد ہونے کی اجازت نہیں دیتا۔
    ہر قوم کی تعمیر نو میں اس کی تاریخ ایک اہم حصہ لیتی ہے۔ تاریخ ایک آئینہ ہے جس کو سامنے رکھ کر قومیں اپنے ماضی و حال کا موازنہ کرتی ہیں اور یہی ماضی اور حال کا موازنہ ان کے مستقبل کا راستہ تیار کرتا رہتا ہے۔ ماضی کی یاد مستقبل کی امنگوں میں تبدیل ہو کر ایک قوم کے لیے ترقی کا زینہ بن سکتی ہے اورماضی کے روشن زمانے پر بے علمی کے نقاب ڈالنے والی قوم کے لیے مستقبل کے راستے بھی تاریک ہوجاتے ہیں۔
    مسلمانوں کے ماضی کی داستان دنیاکی تمام قوموں کی تاریخ سے زیادہ روشن ہے ۔ اگر ہمارے نوجوان غفلت اورجہالت کے پردے اٹھا کر اس روشن زمانے کی معمولی سی جھلک بھی دیکھ سکیں تو مستقبل کے لیے انہیں ایک ایسی شاہراہ عمل نظر آئے گی جو کہکشاں سے زیادہ درخشاں ہے۔
    موجودہ دور کے فنون لطیفہ نے کسی ٹھوس مضمون کا مطالعہ کرنے کے لیے ہمارے نوجوانوں کی صلاحیت سلب کرلی ہے۔ میرے نزدیک موجودہ ادب میں ناول اورافسانے کی مدد سے زندگی کے اہم اور ٹھوس مسائل کو زیادہ سے زیادہ دلچسپ انداز میں پیش کیا جا سکتا ہے۔
    ”داستان مجاہد“ ایک ناول ہے۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ میرا پہلا ناول فنی اعتبار سے کس حد تک کامیاب ہے لیکن جہاں تک دلچسپی کا تعلق ہے، میں اپنی ادبی صلاحیتوں سے زیادہ تاریخ اسلام کی رنگینی کو اس کا ضامن سمجھتا ہوں۔“
    ....................................................................................................................


    صابرہ



    سورج کئی بار مشرق سے نکل کر مغرب میں غروب ہوا۔ چاند نے اپنے مہینے بھر کا سفر ہزاروں بار طے کیا۔ ستارے لاکھوں بار رات کی تاریکی میں چمکے اور صبح کی روشنی میں غائب ہوگئے۔ ابنِ آدم کے باغ میں کئی بار بہار اور خزاں نے اپنا اپنا رنگ جمایا۔ جنت سے نکالے ہوئے انسان کی نئی بستی ایک ایسی رزم گاہ تھی جس میں فطرت کے مختلف عناصر ہمیشہ برسرپیکار رہے۔ طرح طرح کے انقلابات آئے۔ تہذیب و تمدن نے کئی چولے بدلے۔ ہزاروں قومیں قعر مذلت سے اٹھیں اور آندھی اور بگولہ بن کر ساری دنیا پر چھا گئیں۔ لیکن قانون فطرت میں کمال اور زوال کا رشتہ ایسا مضبوط ہے کہ کسی کوبھی ثبات نہیں۔ وہ قومیں جو تلواروں کے سائے میں فتح کے نقارے بجاتی ہوئی اٹھیں، طاؤس اور رباب کی تانوں میں مدہوش ہو کر سو گئیں ۔ کوئی اس نیلگوں آسمان سے پوچھے جس کے وسیع سینے پر گزرے ہوئے زمانے کی ہزاروں داستانیں نقش ہیں جس نے قوموں کو بنتے اور بگڑتے دیکھا ہے۔ جس نے بڑے بڑے جابر بادشاہوں کو تاج و تخت سے محروم ہو ہو کر گداؤں کا لباس پہنتے اور گداؤں کو اپنے سر پر تاج رکھتے دیکھا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ ان داستانوں کے بار بار دہرائے جانے سے کچھ بے نیاز ہو گیا ہو۔ لیکن ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ صحرا نشینانِ عرب کی ترقی اور تنزلی کی طویل داستان میں جو ربع مسکوں کی تمام داستانوں سے مختلف ہے، اسے ابھی تک یاد ہوگی۔ اگرچہ اس داستان کا کوئی حصہ بھی دل چسپی سے خالی نہیں ، لیکن اس وقت ہمارے سامنے اس کا وہ رنگین باب ہے جب کہ مغرب و مشرق کی وادیاں، پہاڑ اور صحرا مسلمانوں کے سمند اقبال کے قدم چوم رہے تھے اوران کی خار اشگاف تلواروں کے سامنے ایران اور روما کے سلطان عاجز آچکے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کہ ترکستان ، اندلس اور ہندوستان کی سر زمین مسلمانوں کو قوت تسخیر کے امتحان کی دعوت دے رہی تھی۔
    بصرہ سے کوئی بیس میل کے فاصلے پر سرسبزو شاداب نخلستان کے درمیان ایک چھوٹی سی بستی تھی، جس کے ایک سیدھے سادے مکان کے صحن میں صابرہ، ایک ادھیڑ عمر کی عورت عصر کی نمازپڑھ رہی تھی۔ دوسرے تین بچے کھیل کود میں مصروف تھے۔ دو لڑکے اور ایک لڑکی۔ لڑکی نے ہاتھوں میں لکڑی کی دو چھوٹی چھوٹی چھڑیاں پکڑی ہوئی تھیں۔ لڑکی غور سے ان کی حرکات کا معائنہ کر رہی تھی۔ بڑے لڑکے نے چھڑی گھماتے ہوئے چھوٹے کی طرف دیکھا اور کہا:
    ”دیکھو نعیم! میری تلوار!“
    چھوٹے لڑکے نے بھی اپنی چھڑی گھمائی اور کہا:
    ”میرے پاس بھی تلوار ہے۔ اؤ ہم جنگ کریں۔“
    ”تم رو پڑو گے!“ چھوٹے لڑکے نے جواب دیا۔
    ”تو پھراؤ!“ بڑے نے تن کر کہا ۔
    معصوم بچے ایک دوسرے پر وار کرنے لگے اور لڑکی قدرے پریشان ہو کر یہ تماشہ دیکھنے لگی۔ اس لڑکی کا نام عذرا تھا۔“

    چھوٹے لڑکے کا نام نعیم اور بڑے کا نام عبد اللہ تھا۔ عبد اللہ نعیم سے تین سال بڑا تھا۔ اس کے ہونٹوں رپ مسکراہٹ کھیل رہی تھی لیکن نعیم کے چہرے سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ واقعی میدان کار زارمیں کھڑا ہے۔ نعیم وار کرتا اور عبد اللہ متانت سے روکتا۔ اچانک نعیم کی چھڑی اس کے بازو پر لگی۔ عبد اللہ نے قدرے غصے سے آکر وار کیا۔ اب نعیم کی کلائی پر چوٹ لگی اور اس کے ہاتھ سے چھڑی گر پڑی۔ عبد اللہ نے کہا ۔ ”دیکھو اب رونا مت۔“
    ”میں نہیں، تم روپڑو گے!“ نعیم نے غصے سے لال پیلا ہوتے ہوئے جواب دیا اور زمین سے ایک ڈھیلا اٹھا کر عبد اللہ کے ماتھے پر دے مارا۔ اس کے بعد اس نے اپنی چھڑی اٹھالی اور گھر کی طرف بھاگ کھڑا ہوا ۔ عبد اللہ بھی سر سہلاتا ہوا اس کے پیچھے بھاگا لیکن اتنی دیرمیں نعیم صابرہ کی گودمیں چھپنے کی کوشش کر رہا تھا۔
    ”امی! بھائی مارتا ہے۔“ اس نے کہا۔
    عبد اللہ غصے سے ہونٹ کاٹ رہا تھا۔ لیکن ماں کو دیکھ کر خاموش ہو گیا۔
    ماں نے پوچھا۔ ”عبد اللہ! کیا بات ہے؟“
    اس نے جواب دیا ”امی! اس نے مجھے پتھر مارا ہے۔“
    ”تم لڑے کیوں تھے بیٹا؟“ صابرہ نے نعیم کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا۔ ہم تلواروں سے جنگ کر رہے تھے ۔ اس نے میراہاتھ توڑ دیا۔ پھر میں نے بھی بدلہ لے لیا۔“
    ”تلواروں سے ؟ تلواریں تم کہاں سے لائے؟“
    ”یہ دیکھو امی! “ نعیم نے اپنی چھڑی دکھاتے ہوئے کہا ۔ ”یہ لکڑی کی ہے لیکن مجھے لوہے کی تلوارچاہیے۔ لے دو نا۔ میں جہاد پر جاؤں گا!“
    کم سن بیٹے کے منہ سے جہاد کالفظ سننے کی خوشی وہی مائیں جان سکتی ہیں جو اپنے جگر کے ٹکڑوں کو لوری دیتے وقت یہ گایا کرتی تھیں:
    ”اے رب کعبہ! میرا یہ لال مجاہد بنے اور تیرے محبوب کے لگائے ہوئے درخت کو جوانی کے خون سے سیراب کرے۔“
    نعیم کی زبان سے تلوار اور جہاد کے الفاظ سن کر صابرہ کا چہرہ خوشی سے چمک اٹھااور اس کے رگ و ریشہ میں مسرت کی لہریں دوڑنے لگیں ۔ اس نے فرط انبساط سے آنکھیں بند کرلیں۔ وہ ماضی اور حال کو فراموش کر چکی تھی اور تصورمیں اپنے بیٹوں کو نوجوان مجاہدوں کے لباس میں خوبصورت گھوڑوں پر سوار میدان جنگ میں دیکھ رہی تھی۔
    ....وہ یہ دیکھ رہی تھی کہ اس کے لال دشمن کی صفوں کو چیرتے اور روندتے ہوئے جارہے ہیں اوردشمن کے گھوڑے اور ہاتھی ان کے بے پناہ حملوں کی تاب نہ لا کر آگے بھاگ رہے ہیں۔ اس کے نوجوان بیٹے ان کے تعاقب میں ٹھاٹھیں مارتے ہوئے دریاؤں میں گھوڑے ڈال رہے ہیں۔ وہ دشمن کے نرغے میں کئی باراٹھ اٹھ کر گرتے ہیں اور بالآخر زخموں سے نڈھال ہو کر کلمہ شہادت پڑھتے ہوئے خاموش ہو جاتے ہیں ۔ وہ دیکھ رہی ہے کہ جنت کی حوریں ان کے لیے شراب طہور کے جام لیے کھڑی ہیں۔ صابرہ نے انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھا اور سجدے میں سررکھ کر دعا مانگی
    ”اے زمین و آسمان کے مالک! جب مجاہدوں کی مائیں تیری بارگاہ میں حاضر ہوں تو میں کسی سے پیچھے نہ رہوں گی۔ ان بچوں کو اس قابل بنا کہ وہ اپنے آباؤ اجداد کی روایات کو قائم رکھ سکیں۔“
    دعا کے بعد صابرہ اٹھی اور بچوں کو گلے لگالیا۔
    انسانی زندگی کے ہزاروں واقعات ایسے ہیں جو عقل کی محدود چار دیواری سے گزر کر مملکت دل کی لا محدود وسعتوں سے تعلق رکھتے ہیں۔“

    ہم دنیا کے ہر واقعہ کو عقل کی کسوٹی پر پرکھیں تو ہمارے لیے بعض اوقات نہایت معمولی باتیں بھی طلسم بن کر رہ جاتی ہیں۔ہم دوسروں کے احساسا ت و جذبات کا اندازہ اپنے احساسات و جذبات سے کرتے ہیں۔ اس لئے ان کی وہ حرکات جو ہماری سمجھ سے بالاتر ہوتی ہیںہمارے لیے ایک معمہ بن جاتی ہیں۔ آج کل کی ماؤں کو قرون اولیٰ کی ایک بہادر ماں کی تمنائیں اور دعائیں کس قدر عجیب معلوم ہو ں گی۔ اپنے جگر کے ٹکڑوں کو آگ اورخون میں کھیلتے ہوئے دیکھنے کی آرزو انہیں کس قدر بھیانک نظر آتی ہوگی۔ اپنے بچوں کوبلی کا خوف دلا کر سلانے والی مائیں ان کے شیروں کے مقابلے میں کھڑے ہونے کے خواب کب دیکھتی ہوںگی۔
    ہمارے کالجوں، ہوٹلوں اور قہوہ خانوں میں پہلے ہوئے نوجوانوں کاعلم اور عقل پہاڑوں کی بلندی اور سمندر کی گہرائی کو خاطر میں نہ لانے والے مجاہدوں کے دلوں کا راز کیسے جان سکتی ہے۔رباب کے تاروں کی جنبش کے ساتھ لرزجانے والے نازک مزاج انسانوں کو تیروں اور نیزوں کے مقابلے میں ڈٹ جانے والے جواں مردوں کی داستانیں کس قدر حیرت زا معلوم ہوں گی۔ اپنے گھونسلے کے ارد گرد چکر لگانے والی چڑیاں عقاب کے انداز پرواز سے کس طرح واقف ہو سکتی ہے؟
    (۲)
    صابرہ کا بچپن اورجوانی زندگی کے نا ہموار ترین راستوں سے گزر چکے تھے۔ اس کے رگ و ریشہ میں عرب کے ان شہسواروں کا خون تھا جو کفر و اسلام کی ابتدائی جنگوں میں اپنی تلواروں کے جوہر دکھا چکے تھے ۔ ان کا دادا جنگ یرموک سے غازی بن کر لوٹا اور قادسیہ میں شہید ہوا۔ وہ بچپن ہی سے غازی اور شہید کے الفاظ سے آشنا تھی بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ جب وہ اپنی توتلی زبان سے ابتدائی حروف ادا کرنے کی کوشش کیا کرتی تو اس کی ماں کا سکھلایا ہوا پہلا فقرہ ”ابا غازی “ اور چند دنوں کے بعد کا سبق ” ابا شہید“ تھا۔ ایسے ماحول میں پرورش پانے کے بعد اس کی جوانی اور بڑھاپے سے ہر وہ توقع کی جا سکتی تھی جو ایک مسلمان فرض شناس عورت سے وابستہ کی جاسکتی ہے ۔ وہ بچپن میں عرب عورتوں کی شجاعت کے افسانے سنا کر تی تھی۔ بیس سال کی عمر میں اس کی شادی عبد الرحمن کے ساتھ ہوئی۔ نوجوان شوہر ایک مجاہد کی تمام خوبیوں سے آراستہ تھا اور وفا شعار بیوی کی محبت اسے گھر کی چاردیواری میں بند کردینے کی بجائے ہمیشہ جہاد کے لیے ابھارتی رہی۔
    عبد الرحمن جب آخری مرتبہ جہاد پر روانہ ہوا تو اس وقت عبد اللہ کی عمر تین سال اور نعیم کی عمر تین مہینے سے کچھ کم تھی۔ عبد الرحمن نے عبد اللہ کو اٹھاکر گلے لگا لیا اور نعیم کو صابرہ کی گود سے لے کر پیارکیا۔ چہرے پر قدرے ملال کے آثار پیدا ہوئے لیکن فوراً ہی مسکرانے کی کوشش کی۔ رفیق حیات کو میدان جنگ کی طرف رخصت ہو تا دیکھ کر صابرہ کے دل میں تھوڑی دیر کے لیے طوفان سا امڈ آیا لیکن اس نے اپنی آنکھوں میں چھلکتے ہوئے آنسواؤں کو بہنے کی اجازت نہ دی۔
    عبد الرحمن نے کہا ”صابرہ! مجھ سے وعدہ کرو کہ اگرمیں جنگ سے واپس نہ آیا تو میرے بیٹے میری تلواروں کو زنگ آلود نہ ہونے دیں گے!“
    ”آپ تسلی رکھیں۔“ صابرہ نے جواب دیا۔ ”میرے لال کسی سے پیچھے نہیں رہیں گے۔“ عبد الرحمن نے خدا حافظ کہہ کر گھوڑے کی رکاب میں پاؤں رکھا ۔ صابرہ نے اس کے رخصت ہونے کے بعد سجدے میں سر رکھ کر دعا کی۔
    ”اے زمین و آسمان کے مالک! اسے ثابت قدم رکھنا!“
    جب شوہر اور بیوی صورت اور سیرت کے لحاظ سے ایک دوسرے کے لیے قابل رشک ہوں گی تو محبت کے جذبات کا کمال کی حد تک پہنچ جانا کوئی نئی بات نہیں۔ بیشک صابرہ اور عبد الرحمن کا تعلق جسم اور روح کا تعلق تھا۔ اور رخصت ہونے کے وقت لطیف جذبات کو اس طرح دبا لینا کسی حد تک عجیب معلوم ہوتا ہے۔ لیکن وہ کونسا عظیم الشان مقصد تھا جس کے لیے یہ لوگ دنیا کی تمام خواہشات اور تمناؤں کو قربان کر دیتے تھے ؟ وہ کون سا مقصد تھا جس نے تین سو تیرہ کو ایک ہزار کے مقابلہ میں کھڑا کیا تھا؟ وہ کونسا جذبہ تھا جس نے مجاہدوں کو دریاؤں اور سمندروں میں کودنے، تپتے ہوئے وسیع صحراؤں کو عبور کرنے اور فلک بوس پہاڑوں کو روندنے کی قوت عطاکی تھی؟

    ان سوالات کا جواب ایک مجاہد ہی دے سکتاہے۔
    عبد الرحمن کو رخصت ہوئے سات مہینے گزر چکے تھے۔ اس بستی کے چار اور آدمی بھی اس کے ہمراہ گئے۔ ایک دن عبد الرحمن کا ساتھی واپس آیا اور اونٹ سے اترتے ہی صابرہ کے گھر کی طرف بڑھا۔ اس کے آتے ہی بہت سے لوگ اس کے ارد گرد اکٹھے ہوگئے۔ کسی نے عبدالرحمن کے متعلق پوچھا۔ نووارد نے کوئی جواب نہ دیا اور چپ چاپ صابرہ کے مکان میں داخل ہو گیا۔
    صابرہ نماز کے لئے وضو کر رہی تھی۔ اسے دیکھ کر اٹھی۔ نووارد آگے بڑھااورچند قدم کے فاصلے پر کھڑا ہوگیا۔
    صابرہ نے دھڑکتے ہوئے دل پر قابو پا کر پوچھا:
    ”وہ نہیں آئے!“
    ”وہ شہید ہوگئے“
    ”شہید!“ ضبط کے باوجود صابرہ کی آنکھوں سے آنسواؤں کے چند قطرے بہہ نکلے۔نووارد نے کہا۔ ”اپنے آخری لمحات میں جب وہ زخموں سے چور تھے۔ انہو ں نے یہ خط مجھے اپنے خون سے لکھ کردیاتھا۔“
    ”صابرہ! میری آرزو پوری ہوئی۔ اس وقت جب کہ میں زندگی کے آخری سانس پورے کر رہاہوں۔ میرے کانوں میں ایک عجیب راگ گونج رہاہے۔ میری روح جسم کیقید سے آزاد ہو کراس راگ کی گہرائیوں میں کھو جانے کے لئے پھڑپھڑا رہی ہے۔ میں زخموںسے چور ہونے کے باوجود ایک فرحت سی محسوس کرتاہوں۔ میری روح ایک ابدی سرور کے سمندرمیں غوطے کھا رہی ہے۔ میں اس بستی کوچھوڑ کر ایک ایسی دنیا میں جا رہاہوں جس کاہر ذرہ اس دنیا کی تمام رنگینیاں اپنے پہلو میں لیے ہوئے ہے۔
    میری موت پر آنسو نہ بہانا۔ میں اپنے مقصود کو پا چکا ہوں۔ یہ خیال نہ کرنا کہ میں تم سے دور جا رہاہوں۔ ہم کسی دن ایسے مقام پر اکٹھے ہوںگے جو دائمی سرور کا مرکز ہے۔ جہاں کی صبح شام سے اور بہارخزاں سے آشنا نہیں۔ یہ مقام اگرچہ چاند اور ستاروں سے کہیں بلند ہے مگر مرد مجاہد وہاں ایک ہی جہت میں پہنچ سکتا ہے۔ عبد اللہ اور نعیم کو اس مقام پر پہنچ جانے کا راستہ دکھانا تمہارا فرض ہے! میں تمہیں بہت کچھ لکھتا مگر میری روح جسم کی قید سے آزاد ہنے کے لئے بے قرار ہے۔ میں آقائے نامدار کے پاؤں چومنے کے لیے بے تاب ہوں۔ میں تمہیں اپنی تلوار بھیج رہاہوں۔ بچوں کی قدر و قیمت بتانا۔ جس طرح میرے لیے تم ایک فرض شناس بیوی تھیں میرے بچوں کے لئے ایک فرض شناس ماں بننا۔ مامتا کواپنے ارادوں میں حائل نہ ہونے دینا۔ انہیں یہ بتانا کہ مجاہد کی موت کے سامنے دنیا کی زندگی بے حقیقت او ر ہیچ ہے۔

    عذرا


    عبد الرحمن کو شہید ہوئے تین سال ہو چکے تھے ۔ ایک دن صابرہ اپنے مکان کے صحن میں کھجور کے درخت کے نیچے بیٹھی عبداللہ کو سبق پڑھا رہی تھی۔ نعیم ایک ڈنڈے کا گھوڑا بنا کراسے چھڑی سے ہانکتا ہوا ادھر ادھر بھاگتا پھرتا تھا۔ کسی نے باہر کے دروازے پر دستک دی۔ عبد اللہ نے جلد ی سے اٹھ کر دروازہ کھولا اور ماموں جان ماموں جان کہتا ہو نووارد سے لپٹ گیا۔
    ”کون، سعید!“ صابرہ نے اندر سے آواز دی۔
    سعید ایک کم سن لڑکی کو انگلی سے لگائے صحن میں داخل ہوا۔ صابرہ نے اٹھ کر چھوٹے بھائی کا خیر مقدم کیا اور لڑکی کو پیار کرتے ہوئے پوچھا:
    ”یہ عذرا تو نہیں؟ اس کی شکل و صورت بالکل یاسمین جیسی ہے!“
    ”ہاں بہن یہ عذراہے۔ میں اسے آپ کے پاس چھوڑنے آیا ہوں۔ مجھے فارس جانے کا حکم ملا ہے۔ وہاں خارجی بغاوت پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میں بہت جلد وہاں پہنچ جا نا چاہتا ہوں۔ پہلے سوچا تھا کہ عذرا کو کس کے ساتھ آپ کےپاس بھیج دوں گا مگر یہی مناسب سمجھا کہ خود ہی یہاں سے ہوتا جاؤں۔“
    ”یہاں سے کب روانہ ہونے کا ارادہ ہے؟“ صابر ہ نے پوچھا۔
    ”آج ہی چلاؤں تو بہتر ہے۔ آج ہماری فوج بصرہ میں قیام کرے گی۔ کل صبح ہم وہاں سے فارس کی طرف روانہ ہو جائیں گے ۔“
    عبد اللہ والدہ کے پاس کھڑا یہ باتیں سن رہا تھا ۔ نعیم جوکچھ دیر پہلے ایک لکڑی کی چھوڑی کو گھوڑا سمجھ کر دل بہلا رہا تھا، عبداللہ کے پاس کھڑا ہوگیا۔ سعید نے نعیم کو اٹھاکر گلے لگایا، پیار کیا اور پھر ہمشیرہ سے باتیں کرنے لگا۔ نعیم پھر کھیل کودمیں مصروف ہوگیا۔ لیکن تھوڑی دیر بعد کچھ سوچ کر عبد اللہ کے پاس گیا اور عذرا کی طرف غور سے دیکھنے لگا۔ وہ کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن حیا کی وجہ سے خاموش رہا۔ تھوڑی دیر بعد اس نے جرات سے کام لیا اور عذرا سے مخاطب ہو کر پوچھا:
    ”تم بھی گھوڑا لوگی؟“
    عذرا شرما کر سعید کے پیچھے چھپ گئی۔
    ”جاؤ بیٹا! “ سعید نے عذراکے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا“ اپنے بھائی کے ساتھ کھیلو!“
    عذرا شرماتی ہوئی آگے بڑھی اور اس نے نعیم کے ہاتھ سے چھڑی پکڑ لی۔دونوں صحن کے دوسری طرف جا کر اپنے اپنے لکڑی کے گھوڑوں پر سوار ہوگئے اور بے تکلفی سے باتیں کرنے لگے ۔
    عبد اللہ نعیم کی حرکات سے نا خوش تھااور اسکی طرف گھُور گھُور کر دیکھ رہا تھا۔ لیکن نعیم تھوڑے ہی عرصے میں اپنے نئے ساتھی سے کچھ اس درجے مانوس ہو گیا تھا کہ عبداللہ اسکی طرف دیکھتا بھی تو وہ منہ دوسری طرف پھیر لیتا۔ جب عبد اللہ نے اس کو منہ چڑانا شروع کیا تو وہ ضبط نہ کرسکا:
    دیکھو امی جان! عبداللہ منہ چڑاتا ہے!“
    ماں نے کہا ۔ ”نہ عبد اللہ اسے کھیلنے دو!“
    عبد اللہ سنجیدہ ہوا تو نعیم نے منہ چڑانا شروع کیا۔ عبداللہ نے تنگ آکر اس کی طرف سے منہ پھیرلیا۔

    عذراکی کہانی صابرہ سے مختلف نہ تھی۔ وہ ان لوگوں میں سے تھی جو ہوش سنبھالنے سے پہلے والدین کے سائے سے محروم ہو جاتے ہیں۔
    عذرا کا باپ ظہیر فسطاط کے سرکردہ لوگوں میں سے تھا۔ اسنے بیس سال کی عمر میں ایرانی نسل کی ایک حسین لڑکی یاسمین سے شادی کی تھی۔
    یاسمین کے سہاگ کی پہلی شب تھی۔ وہ اپنے محبوب شوہر کے پہلو میں امنگوں کی ایک نئی دنیا بیدار کر رہی تھی۔ کمرے میں چند شمعیں جل رہی تھیں ۔ یاسمین اور ظہیر کی آنکھوں میں ایک خمار تھا لیکن وہ خمار نیند کے خمار سے بہت مختلف تھا۔
    ظہیر پوچھ رہا تھا۔ ”یاسمین! سچ سچ بتاؤ تم خوش ہونا !“
    دلہن نے انتہائی مسرت کی حالت میں بولنے کی بجائے نیم باز آنکھیں اوپر اٹھائیں اور پھر جھکا لیں۔
    ظہیر نے پھر وہی سوال کیا۔ یاسمین نے شوہر کی طرف دیکھا ، حیا اور مسرت کی گہرائیوں میں کھوئے ہوئے ایک دلفریب تبسم کے ساتھ اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔ یہ بھولا بھالا سا جواب کس قدر معنی خیز تھا۔ اس وقت جب کہ رحمت کے فرشتے مسرت کا گیت گا رہے تھے اور یاسمین کا دھڑکتا ہوا دل ظہیر کے دل کی دھڑکن کا جواب دے رہا تھا ۔ الفاظ کس قدر بے حقیقت معلوم ہو تے تھے۔ ظہیر نے پھر اپنا سوال دہرایا۔
    ”اپنے دل سے پوچھو۔“ یاسمین نے جواب دیا۔
    ظہیر نے کہا ”میرے دل میں تو آج خوشی کا طوفان امڈ رہا ہے۔ مجھے ایسے معلوم ہوتا ہے کہ آج کائنات کی ہر چیز مسرت کے نغموں سے لبریز ہے۔ کاش! یہ نغمے ہمیشہ ایسے ہی رہیں“۔
    ”کاش!“ یاسمین کے منہ سے بے اختیار نکلا اور اس کی بڑی بڑی سیاہ آنکھیں جو ایک لمحہ پیشتر مسرتوں کا گہوارہ بنی ہوئی تھیں۔ مستقبل کاخیال آتے ہی پرنم ہوگئیں۔ ظہیر محبوب بیوی کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر بے اختیار ہو گیا۔
    ”یاسمین! یاسمین! تم رو پڑیں۔ کیوں؟“
    ”نہیں“ ۔ یاسمین نے مسکرا نے کی کوشش کرتے ہوئے جواب دیا۔ آنسواؤں میں بھیگی ہوئی مسکراہٹ اس کے حسن کودوبارہ کر رہی تھی ۔
    ”نہیں۔ کیوں؟ تم سچ مچ رو رہی ہو۔ یاسمین تمہیں کیا خیال آیا۔ تمہاری آنکھوں میں آنسو دیکھنا میری قوت سے باہر ہے۔“
    ”مجھے ایک خیال آیا تھا۔ یاسمین نے چہرے کو ذرا شگفتہ بناتے ہوئے جواب دیا۔
    ”کیسا خیال؟ ظہیر نے سوال کیا۔
    ”کوئی خاص بات نہیں۔ مجھے حلیمہ کا خیال آیا تھا۔ بے چاری کی شادی کو ایک سال بھی نہ ہوا تھا کہ اس کا شوہر اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔“
    ظہیر نے کہا ”میں ایسی موت سے بہت گھبراتا ہوں۔ بے چارے نے بیماری کی حالت میں بستر پر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر جان دی۔ ایک مجاہد کی موت کتنی اچھی ہوتی ہے۔ لیکن افسوس وہ اس سعادت سے محروم رہا۔ اس بیچارے کا اپنا قصور بھی تو نہ تھا۔ وہ بچپن سے مختلف جسمانی بیماریوں کا شکار رہا۔ جب اس کی موت سے چند دن پہلے مزاج پرسی کے لیے گیا تو اس کی عجیب حالت تھی، اس نے مجھے اپنے پاس بٹھالیا اور میرا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر کہنے لگا:
    ”تم بہت خوش ہو۔ تمہارے بازو لوہے کی طرح مضبوط ہیں۔ تم گھوڑے پر چڑھ کر میدان جنگ میں دشمنوں کے تیروں اور نیزوں کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوگے لیکن میں یہاں پڑا ایڑیاں رگڑ رہاہوں۔ دنیامیں میرا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔ میں بچپن میں مجاہد بننے کے خواب دیکھا کرتا تھا لیکن اب جوانی کا وقت آیا ہے تو میرے لیے بستر سے اٹھ کرچند قدم چلنا بھی دشوار ہے۔“
    جب وہ یہ کہہ رہا تھا تو اس کی آنکھوں میں آنسو چھلک رہے تھے۔ میں نے اسے بہت تسلی دی لیکن وہ بچوں کی طرح رونے لگا۔ وہ جہاد پر جانے کی حسرت اپنے ساتھ ہی لے گیا لیکن اس کے پہلو میں ایک مجاہد کادل تھا۔ وہ موت سے نہیں ڈرتا تھا لیکن ایسی موت اسے پسند نہ تھی۔


    ظہیر نے بات ختم کی اور دونوں ایک گہری سوچ میں ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ صبح کے آثار نمودار ہو رہے تھے اور ماؤذن دنیا والوں کوخواب غفلت سے بیدار کرکے نماز میں شریک ہونے کا خدائی حکم سنا رہا تھا۔ یہ دونوں اس حکم کو بجا لانے کی تیاری کر رہے تھے کہ کسی نے دروازے پر دستک دی۔ ظہیر نے دروازہ کھولا تو سامنے سعید سر سے پاؤں تک لوہے میں ڈھکا ہوا گھوڑے پر بیٹھا تھا۔ سعید گھوڑے سے اترا اور ظہیر نے بڑھ کر اسے گلے سے لگا لیا۔
    سعید اور ظہیر بچپن کے دوست تھے۔ ان کی دوستی سگے بھائیوں کی محبت سے بھی زیادہ بے لوث تھی۔ دونوں نے ایک ہی جگہ تعلیم پائی تھی۔ ایک ہی جگہ فنون سپہ گری سیکھے تھے اورکئی میدانوں میں دوش بدوش لڑ کر اپنے بازاؤں کی طاقت اور تلواروں کی تیزی کے جوہر دکھا چکے تھے۔ ظہیر نے سعید کے اس طرح اچانک آنے کی وجہ پوچھی۔
    ”مجھے والی قیرون نے آپ کی طرف بھیجاہے!“
    ”خیر تو ہے؟“
    ”نہیں“۔ سعید نے جواب دیا ”افریقہ میں بغاوت نہایت سرعت کے ساتھ پھیل رہی ہے ۔ اہل روم جاہل بربریوں کو اکسا کر ہمارے مقابلے میں کھڑا کر رہے ہیں۔ اس آگ کو فرو کرنے کے لیے تازہ دم فوجوں کی ضرورت ہے۔ گورنر نے دربار خلافت سے چلا چلا کر مدد مانگی ہے لیکن وہاں ہماری آواز کوئی نہیں سنتا۔ نصرانی ہماری کمزوری سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اگر ان حالات پر قابو نہ پایا گیا تو ہم اس وسیع خطہ زمین کو ہمیشہ کے لئے کھو بیٹھیں گے۔ گورنر نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے اور آپ کے نام یہ خط دیاہے۔“
    ظہیر نے خط کھول کر پڑھا، خط کا مضمون یہ تھا:
    ”سعید تمہیں افریقہ کے حالات بتا دے گا۔ ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے تمہارا فرض ہے کہ جس قدر سپاہی فراہم کر سکوں ان کو لے کر فوراً پہنچ جاؤ۔ میں نے ایک خط دربار خلافت میں بھی بھیجا ہے لیکن موجودہ حالات میں جبکہ اہل عرب طرح طرح کی خانہ جنگیوں میں مبتلا ہیں، مجھے وہاں سے کسی مدد کی امید نہیں۔ تم اپنی طرف سے کوشش کرو۔“
    ظہیر نے ایک نوکر کو بلاکر سعید کا گھوڑا اس کے حوالے کیا اور اسے اپنے ساتھ مکان کے ایک کمرے میں لے گیا۔ اس کی آنکھوں سے شب عروسی کا خمار اتر چکا تھا۔ اس نے دوسرے کمرے میں جا کر دیکھا، یاسمین بارگاہ الٰہی میں سربسجود تھی۔ دل کو گونہ مسرت ہوئی۔ واپس سعید کے پاس آکر کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا:
    ”سعید میری شادی ہوچکی ہے!“
    ”مباک ہو۔ کب ؟“
    ”کل“
    ”مبارک ہو!“ سعید مسکرا رہا تھا۔ لیکن اس کی مسکراہٹ اچانک پژمردگی میں تبدیل ہونے لگی۔ وہ دیرینہ دوست کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھ رہا تھا اور اس کی نگاہیں سوال کر رہی تھیں کہ شادی کی خوشی نے تمہیں جذبہ جہاد سے تو عاری نہیں کردیا؟ ظہیر کی آنکھیں اس سوال کا جواب نفی میں دے رہی تھیں۔
    دنیا میں کم و بیش ہر انسان کی زندگی میں کبھی نہ کبھی ایسا وقت ضرور آتا ہے جب اسے کسی بلندی تک پہنچنے یا بڑا کام کرنے موقع ملتا ہے لیکن ہم اکثر نفع نقصان کی سوچ میں ایسے موقع کو کھو دیتے ہیں۔
    سعید نے پوچھا ”آپ نے خط کے متعلق کیا سوچا؟“
    ظہیر نے مسکراتے ہوئے اپنا ہاتھ سعید کے کندھوں پر رکھ دیا اور کہا:
    ”اس میں سوچنے کی کیا بات ہے ۔چلو!“۔
    ”چلو“ بظاہر ایک سادہ سا لفظ تھا لیکن ظہیر کے منہ سے سعید کو یہ لفظ سن کر جو خوشی ہوئی اس کا اندازہ کرنا ذرا مشکل ہے۔ وہ بے اختیار اپنے دوست سے لپٹ گیا۔ ظہیر نے کوئی اور بات نہ کی۔ سعید کو اپنے ساتھ لے کر گھر سے باہر نکلا اور مسجد کی طرف ہو لیا۔
    صبح کی نماز ختم ہوئی اور ظہیر تقریر کے لیے اٹھا۔ ایک مجاہد کو اپنی زبان میں اثر پیدا کرنے کے لئے اچھے اچھے الفاظ اور لمبی لمبی تاویلوں کی ضرورت نہ تھی۔ اس کے سیدھے سادے مگر جذبے سے بھرے ہوئے الفاظ لوگوں کے دلوں میں اتر گئے۔ اس نے تقریر کے دوران میں آواز بلند کرتے ہوئے کہا:
    ”مسلمانوں! ہماری خود غرضیاں اور خانہ جنگیاں ہمیں کہیں کا نہ چھوڑیں گی۔ آج وہ وقت آگیا ہے کہ اہل روم جن کی سلطت کو ہم کئی بار پاؤں تلے روند چکے ہیں ایک بار پھر ہمارے مقابلے کی جرات کر رہے ہیں۔ وہ لوگ یرموک اور اجنادین کی شکستیں بھول چکے ہیں ۔ اؤ انہیں ایک بار پھر بتائیں کہ مسلمان اسلام کی عظمت کی حفاظت کے لئے اب بھی اپنے خون کو اتنا ہی ازاں سمجھتا ہے جتنا کہ پہلے سمجھتا تھا۔ انہوں نے طرح طرح کی سازشیں کر کے افریقہ کے لوگوں پر عرصہ حیات تنگ کررکھا ہے۔ وہ یہ خیلات کرتے ہیں کہ ہم خانہ جنگیوں کی وجہ سے کمزور ہوچکے ہیں لیکن میں یہ کہتاہوں کہ اس دنیا میں جب تک ایک بھی مسلمان زندہ ہے ، ان لوگوں کو ہم سے ڈر کر رہنا چاہیے۔
    مسلمانو! اؤ ایک بار پھر انہیں یہ بتادیں کہ ہمارے سینوں میں وہی تڑپ ہے،ہمارے بازاؤں میں وہی طاقت اور ہماری تلواروں میں وہی کاٹ ہے جو کہ حضرت عمرؓ کے زمانے میں تھی۔“
    ظہیر کی تقریر کے بعد اڑھائی سو نوجوان اس کا ساتھ دینے کے لئے تیار ہوگئے۔
    (۳)
    یاسمین اپنی زندگی کی تمام خواہشوں کے مرکز کو اپنی آنکھوں سے میدان جنگ کی طرف رخصت ہوتے دیکھ رہی تھی۔ دل کا بخار آنکھوں کے راستے آنسو بن کر بہنے کے لیے جدوجہد کر رہا تھا لیکن یاسمین کے نسوانی غرور نے شوہر کے سامنے اپنے آپ کو بزدل ظاہر کرنے کے اجازت نہ دی۔ آنکھوں کے آنسو آنکھوں میں ہی دبے رہے۔
    ظہیر نے بیوی کی طرف دیکھا۔ وہ حزن و ملا کی تصور بنی سامنے کھڑی تھی۔ دل نے سفارش کی کہ ایک لمحہ اور ٹھہر جاؤ۔ چند باتیں کرو۔ لیکن اسی دل کی دوسری آرزو تھی کہ ایک اور امتحان سے بچو!
    ”اچھا یاسمین! خدا حافظ“۔ کہہ کر ظہیر لمبے لمبے قدم اٹھاتا دروازے کی طرف بڑھا۔ پھر کچھ سوچ کر رک گیا۔ ایک ایسا خیال جسے اس نے ابھی تک اپنے قریب نہ بھٹکنے دیا۔ برق کی سی تیز رفتاری کے ساتھ س اس کے دل و دماغ پر حاوی ہو گیا۔ دل کے لطیفے حصے نے اپنی کمزور آواز میں فقط اتنا کہا کہ شاید یہ آخری ملاقات ہو لیکن ایک لمحے کے اندر اندر اس خیال نے ایک ہنگامے کی صورت اختیار کرلی۔ وہ رکا اور مڑ کر یاسمین کی طرف دیکھنے لگا ۔ وہ آگے بڑھی۔ ظہیر نے آنکھیں بند کرکے بانہیں پھیلا دیں اور وہ روتی ہوئی اس سے لپٹ گئی۔
    ”یاسمین!“
    ”آقا!“
    وہ آنسو جنہیں یاسمین اپنے دل کی گہرائیوں میں پوشیدہ رکھنے کی نا کام کوشش کر رہی تھی، بے اختیار بہہ نکلے۔ دونوں کے دل دھڑک رہے تھے۔ لیکن دلوں کی یہ دھڑکن اس وقت بہت مدھم تھی اور بدستور کم ہو رہی تھی۔ کائنات اسی پرکیف نغمے سے لبریز تھی لیکن اس نغمے کی تانیں پہلے کی نسبت بہت گہری تھیں۔ مجاہد کے امتحان کا وقت تھا۔ احساس محبت اور احساس فرض کا مقابلہ....! ظہیر کے سامنے یاسمین تھی۔ فقط یاسمین۔ حسن و لطافت کا ایک پیکر۔ رنگ و بو کی دنیا۔ پھر اچانک اس کے ہاتھوں کی گرفت ڈھیلی ہوگئی اور وہ ایک قدم پیچھے ہٹ گیا:
    ”یاسمین یہ فرض ہے۔“
    ”آقا مجھے معلوم ہے۔“ یاسمین نے جواب دیا۔

    ”میرے آنے تک حنیفہ تمہارا خیال رکھے گی۔ تم گھبرا تو نہ جاؤ گی؟“
    ”نہیں۔ آپ تسلی رکھیں۔“
    ”یاسمین مجھے مسکرا کر دکھاؤ۔ بہادر عورتیں ایسے موقع پر آنسو نہیں بہایا کرتیں۔ تم ایک مجاہد کی بیوی ہو!“
    شوہر کے حکم کی تعمیل میں یاسمین مسکر ادی۔ لیکن اس مسکراہٹ کے ساتھ ہی آنسواؤں کے دو موٹے موٹے قطرے اس کی آنکھوں سے چھلک پڑے۔
    ”آقا مجھے معاف کرنا۔“ اس نے جلدی سے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔” کاش میں نے بھی ایک عرب ماں کی گود میں پرورش پائی ہوتی۔“ یہ فقرہ ختم کرتے ہوئے انتہائی کرب کی حالت میں اس نے آنکھیں بند کرلیں اور اپنے بازو ایک بار پھر ظہیر کی طرف پھیلا دیے لیکن آنکھیں کھولنے پر معلوم ہوا کہ محبوب شوہر جا چکا ہے۔
    (۴)
    جیسا کہ پہلے ذکر آچکا ہے ۔ یاسمین نے ایک ایرانی ماں کی گود میں پرورش پائی تھی۔ اس لیے اس کے وجود میں نسوانیت کا لطیف اور نازک حصہ عرب عورتوں کے مقابلے میں زیادہ تھا۔ ظہیر کے رخصت ہوتے ہی اس کی بے قراری کی حد نہ رہی۔ دنیا بدلی ہوئی نظر آنے لگی۔ حنیفہ اس کی پرانی خامہ ہر ممکن کوشش سے اس کا دل بہلاتی۔ چند مہینوں کے بعد یاسمین کو اس بات کا احساس ہوا کہ اس کے پہلو میں ایک نیا وجود پرورش پا رہا ہے۔ اس دوران میں شوہر کی طرف سے چند خطوط بھی ملے۔
    حنیفہ نے اپنی طرف سے ظہیر کو لکھ بھیجا کہ تمہارے گھر ایک کمسن مہمان تشریف لانے والا ہے۔ واپس آنے پر گھر کی رونق میں اضافہ محسوس کروگے۔ ہاں تمہاری بیوی سخت غمگین ہے اگر رخصت مل جائے تو چند دنوں کے لیے آکر تسلی دے جاؤ!“
    آٹھ ماہ ظہیر نے لکھا کہ دو مہینوں تک گھر آجائے گا۔ اس خط کے بعد یاسمین کو انتظار کی گھڑیا ں پہلے کی نسبت دشوار نظر آنے لگیں۔ اس کے لیے دن کا چین اور رات کی نیند حرام ہو گئی اور صحت بگڑنے لگی۔
    ظہیر کے انتظار کے ساتھ ننھے مہمان کا انتظار بھی بڑھنے لگا۔بالآخر ایک انتظار کی مدت ختم ہوئی اور ظہیر کے گھر کی خاموش فضا میں ایک بچے کے بلکنے نے کچھ رونق پیدا کردی۔ یہ بچہ عذرا تھی۔
    عذرا کی پیدائش کے بعد جب یاسمین نے ہوش میں آکر آنکھیں کھولیں تو اس کا پہلا سوال یہ تھا۔“ وہ نہیں آئے؟“
    ”وہ بھی آجائیں گے۔“ حنیفہ نے تسلی دیتے ہوئے کہا۔
    ”اتنی دیر ہوگئی۔ خدا جانے کب آئیں گے ۔“
    (۵)
    عذرا کو پیدا ہوئے تین ہفتے گزر چکے تھے۔ یاسمین کی صحت روز بروز بگڑتی جارہی تھی۔ وہ رات کو سوتے میں اکثر ظہیر ظہیر! پکارتی اٹھ بیٹھتی اور بعض اوقات خواب کی حالت میں چلنے لگتی اور دیواروں سے ٹکرا کر گرپڑتی۔
    حنیفہ سوتے جاگتے اٹھتے بیٹھتے اسے تسلی دیتی۔ اس کے سوا وہ کر بھی کیا سکتی تھی۔ ایک دن دوپہر کے وقت یاسمین اپنے بستر پر لیٹی ہوئی تھی ۔ حنیفہ اس کے قریب ایک کرسی پر بیٹھی عذرا کو پیار کر رہی تھی کہ کسی نے دروازے پر دستک دی۔
    ”کوئی بلا رہا ہے۔“ یاسمین نے نہایت کمزور آواز میں کہا۔
    حنیفہ عذرا کو یاسمین کے پاس لٹا کر اٹھی اور باہر جا کردروازہ کھولا۔ سامنے سعید کھڑا تھا۔
    حنیفہ نے اضطراب اور پریشانی کی حالت میں کہا۔ ”سعید تم آگئے۔ ظہیر کہا ں ہے۔ وہ نہیں آیا؟“
    یاسمین کا کمرہ اگرچہ باہر کے دروازے سے کافی دور تھا لیکن حنیفہ کے الفاظ یاسمین کے کانوں تک پہنچ چکے تھے۔ سعید کا نام سنتے ہی اس کا کلیجہ منہ کو آنے لگا اور ایک لمحے کے اندر اندر ہزاروں توہمات پیدا ہوگئے۔وہ اپنے دھڑکتے ہوئے دل کو ہاتھوں سے دبائے بستر سے اٹھی۔ کانپتی ہوئی کمرے سے باہر نکلی اور حنیفہ سے دو تین قدم کے فاصلے پر کھڑی ہوگئی۔ حنیفہ دروازے میں کھڑی ابھی تک سعید کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اس لیے یاسمین کی آمد سے بے خبر تھی اور سعید چونکہ دروازہ سے باہر کھڑا تھا۔ اس لیے وہ یاسمین کو نہ دیکھ سکا۔

    باقی آئیندہ
     
  2. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    بہت خوب عرفان جی اچھا سلسلہ شروع کیا ھے بہت عمدہ اور اس مرتبہ بلاک بھی نہیں ھیں بہت شکریہ اس شئیرنگ کا
     
  3. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,154
    ملک کا جھنڈا:
    عرفان بھائی ۔ عمدہ سلسلہ کے آغاز پر مبارک باد اور شکریہ قبول کیجئے
    فی الحال پڑھنا شروع نہیں کرتا ۔ وقت ملنے پر باقاعدہ مطالعہ کرکے آپکو آگاہ کرتا رہوں گا۔ انشاءاللہ
     
  4. عرفان پتوکی
    آف لائن

    عرفان پتوکی ممبر

    شمولیت:
    ‏8 اگست 2009
    پیغامات:
    84
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    شکریہ نعیم بھائی
    بس ایک چھوٹی سی کوشش کی ہے
    باقی آپ سب کی رائے جو بھی ہو بتا دیجئے گا کہ اس سلسلے کو مزید چلایا جائے یا نہیں

    کیونکہ میں نے دیکھا ہے کہ زیادہ تر لوگ اس شعبے میں آنا پسند نہیں کرتے
     
  5. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,154
    ملک کا جھنڈا:
    عرفان بھائی ۔
    آپ اس نیک کام کو ایک مشن سمجھ کر جاری رکھیے۔
    لوگوں کو آہستہ آہستہ چسکا پڑ جائے گا تو خود ہی آجایا کریں گے۔

    سید عبدالرحمن بھائی کی سوانح حیات "یادوں کی پٹاری" بھی شروع شروع میں ایسے ہی چلی تھی ۔ پھر ایک وقت آیا کہ اسکے ناظر لاکھوں‌میں پہنچ گئے۔ ماشاءاللہ ۔

    اس لیے آپ مستقل مزاجی سے اپنے نیک مقصد کو جاری رکھیے۔ بس یہ دھیان رہے کہ کہیں بےجا طوالت یا بےترتیبی کی وجہ سے پڑھنے والے لوگ اکتاہٹ کا شکار نہ ہوں۔ یعنی بےشک مواد تھوڑا کم ہو ۔۔ لیکن دلچسپ ہو۔ شکریہ
     
  6. عدنان بوبی
    آف لائن

    عدنان بوبی ممبر

    شمولیت:
    ‏1 فروری 2009
    پیغامات:
    1,777
    موصول پسندیدگیاں:
    30
    ملک کا جھنڈا:
    شکریہ عرفان بھائی
     
  7. زاہرا
    آف لائن

    زاہرا ---------------

    شمولیت:
    ‏17 نومبر 2006
    پیغامات:
    4,208
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    عرفان صاحب۔
    ہماری اردو کے ادبی شعبہ میں ایسے مراسلات کی کمی ایک عرصے سے محسوس کی جارہی تھی ۔
    اس سلسلے میں ابتدائی لیکن معیاری ناول ارسال فرمانے کے لیے بہت شکریہ ۔
    امید ہے آپ یہ دلچسپ سلسلہ جاری رکھیں گے۔
     
  8. عرفان پتوکی
    آف لائن

    عرفان پتوکی ممبر

    شمولیت:
    ‏8 اگست 2009
    پیغامات:
    84
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    اسلام علیکم
    جی بہتر زاہرا جی
    ویسے مجھے لگتا ہے جیسے میں تھوڑا سا خوش نصیب ہو گیا ہوں
    کہ ہماری اردو کے محترمین تک میری آواز پہنچ گئی
    ان شاءاللہ کوشش رہے گی اس سلسلے کو مسلسل جاری رکھوں
     

اس صفحے کو مشتہر کریں