1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

داستان مجاہد 16

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از عرفان پتوکی, ‏10 ستمبر 2009۔

  1. عرفان پتوکی
    آف لائن

    عرفان پتوکی ممبر

    شمولیت:
    ‏8 اگست 2009
    پیغامات:
    84
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    داستان مجاہد
    نسیم حجازی کے قلم سے اسلامی تاریخی ناول


    اژدہا شیروں کے نرغے میں

    نعیم گھوڑے پر سوار ہوا۔ اس نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا۔ عبد اللہ نے اس کا ہاتھ پکڑ کر چوما اورآنکھوں سے لگالیا۔ نعیم کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
    ”بھائی عذرا کیسی ہے؟“ نعیم نے مغموم آواز میں سوال کیا۔
    ”وہ اچھی ہے۔ اگر خدا کو منظور ہوا تو ہم تمہیں سپین میں ملیں گے۔“
    اس کے بعد عبد اللہ نے یوسف کے ساتھ مصافحہ کیا اور پھرنرگس کے قریب جا کر اپنا ہاتھ بلند کیا۔ نرگس نے اس کا مطلب سمجھ کر سر نیچے جھکا دیا۔ عبد اللہ نے شفقت سے اس کے سر پرہاتھ پھیرا۔
    نرگس نے کہا۔”بھائی جان! عذرا سے میرا سلام کہیے!“
    ”اچھا۔خداحافظ! عبد اللہ نے کہا۔
    تینوں نے اس کے جواب میں خدا حافظ کہا اور گھوڑوں کی باگیں ڈھیلی چھوڑ دیں۔ عبد اللہ اور برمک کچھ دیر وہیں کھڑے رہے اور جب نعیم اور اس کے ساتھی رات کی تاریکی میں غائب ہوگئے تو یہ اپنے گھوڑوں پر سوار ہو کر لشکر کی قیام گاہ میں پہنچے ۔
    پہریداروں نے عبد اللہ کو پہچان کو سلام کیا۔ برمک کا گھوڑا ایک سپاہی کے حوالے کیا اور اس کی سواری کے لیے اونٹ کا انتظام کر کے دوبارہ شہر کی طرف لوٹا۔
    (۴)
    زیاد اپنے مالک سے ابن صادق کا پورا پورا خیال رکھنے کا حکم سن چکا تھا اور اس نے ابن صادق کا اس حد تک خیال رکھا کہ اس کے چہرے سے نظر تک نہ ہٹائی۔ جب نیند کا غلبہ ہوتا تو اٹھ کر اس ستون کے گرد چکر لگانا شروع کردیتا جس کے ساتھ ابن صادق جکڑا ہوا تھا، وہ اس تنہائی سے تنگ آچکا تھا۔ اسے اچانک خیال آیا اور وہ ابن صادق کے قریب جا کھڑا ہوگیا اور اسے غور سے دیکھنے لگا۔اس کے چہرے پر اچانک ایک خوفناک مسکراہٹ نمودار ہوئی، اس نے ابن صادق کی ٹھوڑی کے نیچے ہاتھ دے کر اسے اپنی طرف متوجہ کیا اوراس کے منہ پر تھوکنے لگا۔ اس کے بعد اس نے پوری طاقت سے ابن صادق کو چند کوڑے رسید کردیے اور پھر اس کے منہ پر اس زور سے تھپڑا ماراکہ تھوڑی دیر کے لیے اس پر بے ہوشی طاری ہوگئی، جب اسے ہوش آیا تو زیاد اس کی داڑھی پکڑ کر کھینچنے لگا۔ جب ابن صادق نے بے بس ہو کر گردن ڈھیلی چھوڑ دی تو زیاد بھی اس کی خلاصی کر کے تھوڑی دیر کے لیے اس کے گرد گھومنے لگا۔ابن صادق نے ہوش میں آکر آنکھیں کھولیں تو زیادے نے پھر وہی عمل دہرایا۔ چند بار ایسا کرنے پر جب اس نے محسوس کیا کہ اس کی طاقت کوڑے کھانے سے جواب دے چکی ہے تو ستون کے گرد چکر لگانے کے بعد وہ کبھی کبھی ابن صادق کی داڑھی پکڑ کر ایک آدھ جھٹکا دے دیتا۔ کبھی کبھی وہ تھک کر بیٹھ جاتا اور پھر تھوڑی دیر کے بعدیہ دل لگی شروع کردیتا۔
    جس وقت صبح کی اذان ہو رہی تھی۔ زیاد نے دروازے سے باہر دیکھا۔ عبد اللہ اوربرمک آتے دکھائی دیے۔ اس نے آخری بار جلدی جلدی تھوکنے، کوڑے مارنے، طمانچے رسید کرنے اور ڈاڑھی نوچنے کا شغل پورا کرنا چاہا۔ ابھی اس نے داڑھی نوچنے کی رسم پوری طرح ادا نہ کی تھی کہ عبد اللہ اور برمک آپہنچے ۔
    عبد اللہ نے کہا۔”بے وقوف تم کیا کرتے ہو ، اسے جلد ی سے صندوق میں ڈالو۔“
    زیادہ نے فوراً حکم کی تعمیل کی اور اس ادھ موئے اژدہے کو صندوق میں بند کردیا۔
    سورج نکلتے ہی عبد اللہ اپنی فوج کے ساتھ قسطنطنیہ کی طرف جا رہا تھا۔ سامان رسد کے اونٹوں میں سے ایک اونٹ کی پیٹھ پر ایک صندوق بھی لدا ہوا تھا۔ اس اونٹ کی نکیل زیاد کی سواری کے اونٹ کی دم سے بندھی ہوئی تھی۔لشکر میں عبد اللہ، برمک اور زیاد کے سوا کسی کو معلوم نہ تھا کہ اس صندوق میں کیا ہے۔
    عبد اللہ کے حکم سے برمک بھی گھوڑے پر سوار اس صندوق والے اونٹ کے ساتھ ساتھ آرہا تھا۔
    (۵)
    نعیم، نرگس اور یوسف کے ہمراہ قیروان پہنچا۔ وہاں سے ایک لمبی مسافت طے کرنے کے بعد قرطبہ پہنچا۔ قرطبہ سے طیطلہ کا رخ کیا۔وہاں پہنچ کر نرگس کو ایک سرائے میں ٹھہرایا اور یوسف کے ہمراہ امیر عساکر ابوعبیدہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عبد اللہ کا خط پیش کیا۔
    ابوعبیدہ نے خط کھول کر پڑھا اور یوسف اور نعیم کو سر سے پاؤں تک دیکھا اور کہا۔”آپ عبداللہ کے دوست ہیں۔ آج سے مجھے اپنا دوست خیال کریں۔ کیا عبد اللہ اخود واپس نہیںآئے گا؟“
    نعیم نے جواب دیا۔”امیر المومنین نے انہیں قسطنطنیہ کی مہم پرروانہ کیا ہے۔“
    ”اس جگہ ان کی قسطنطنیہ سے زیادہ ضرورت تھی۔ طارقؒ اور موسیؒ کی جگہ لینے والا کوئی نہیں۔ میں ضعیف ہو چکا ہوں اور پوری تن دہی سے اپنے فرائض ادا نہیںکر سکتا۔ آپ جانتے ہیں کہ یہ ملک شام اور عرب سے بہت مختلف ہے۔ یہاں پہاڑی لوگوں کے جنگ کے طریقے بھی ہم سے جدا ہیں۔ اس سے پیشتر آپ کو فوج میں کوئی اچھا عہدہ دیا جائے، اس جگہ معمولی سپاہیوں کی حیثیت سے کافی دیر تک تجربہ حاصل کرنا ہوگا۔ رہا آپ کی حفاظت کا سوال تو اس کے متعلق مطمئن رہیں۔ اگر امیر المومنین نے آپ کو یہاں تک تلاش کرنے کی کوشش کی تو آپ کو کسی محفوظ مقام پر پہنچا دیا جائے گا۔ میرا یہ اصول ہے کہ میں کسی شخص کی قابلیت کا امتحان لیے بغیر اسے کسی ذمہ داری پر مامور نہیں کرتا!“
    نعیم نے سپہ سالار کی طرف دیکھا اور مسکر ا کر کہا۔”آپ اطمینان رکھیں، مجھے سپاہیوں کی آخری صف میں رہ کر بھی وہی مسرت حاصل ہوگی جو میں قتیبہؒ بن مسلم اور محمدؒ بن قاسم کے دائیں ہاتھ پر رہ کر محسوس کیا کرتا تھا۔“
    ”آپ کا مطلب ہے کہ آپ........!“
    ابو عبیدہ نے اپنا فقرہ پورا نہ کیا تھا کہ یوسف بول اٹھا۔”یہ ابن قاسم اور قتیبہؒ کے مشہور سالاروں میں سے ایک ہیں۔“
    ”معاف کیجئے۔ مجھے معلوم نہ تھا کہ میں اپنے سے زیادہ قابل اور تجربہ کار سپاہی کے سامنے کھڑا ہوں۔“ یہ کہتے ہوئے ابوعبیدہ نے پھر ایک بار نعیم سے مصافحہ کیا۔
    ”میں اب سمجھا کہ آپ امیر المومنین کے زیر عتاب کیوں ہیں۔ یہاں آپ کوکوئی خطرہ نہیں۔ تاہم احتیاط کے طور پر آج سے آپ کا نام زبیر اور آپ کے دوست کا نام عبد العزیز ہوگا۔ آپ کے ساتھ اور کوئی بھی ہے؟“
    نعیم نے کہا۔”ہاں ! میری بیوی بھی ساتھ ہے ۔ میں اسے سرائے میں ٹھہراکر آیاہوں۔“
    ”میںا ن کے لیے ابھی کوئی بندوبست کرتا ہوں!“ ابوعبیدہ نے آوازدے کر ایک نوکر کو بلایا اورشہر میں کوئی اچھا سا مکان تلاش کرنے کا حکم دیا۔
    چار مہینوں کے بعد نعیم زرہ بکتر پہنے نرگس کے سامنے کھڑا ہوا تھا اور اس سے یہ کہہ رہا تھا”جس رات بھائی عبد اللہ اور عذرا کی شادی ہوئی تھی وہ اسی رات جہاد پر روانہ ہوگیا تھا۔ میںنے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا کہ عذرا کے چہرے پر تفکرات اور غم کے معمولی آثار بھی نہ تھے۔“
    ”میں آپ کا مطلب سمجھتی ہوں۔“ نرگس نے مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔”آپ کئی بار کہہ چکے ہیں کہ تاتاری عورتیں عرب عورتوں کے مقابلے میں بہت کمزورہیں لیکن میں آپ کا خیال غلط ثابت کردوں گی۔“
    نعیم نے کہا۔”پرتگال کی مہم میں ہمیں قریباً چھ ماہ لگ جائیں گے۔ میں کوشش کروں گا کہ اس دوران ایک دفعہ آکر تمہیں دیکھ جاؤں۔اگر میں نہ آسکا تو گھبرا نہ جانا۔ آج ابوعبیدہ ایک لونڈی تمہارے پاس بھیج دے گا۔“
    ”میں آپ کو....!“ نرگس نے اپنی آنکھیں نیچے جھکاتے ہوئے کہا۔”ایک نئی خبر سنانا چاہتی ہوں۔“
    ”سناؤ!“ نعیم نے نرگس کی ٹھوڑی پیار سے اوپر اٹھاتے ہوئے کہا۔
    ”جب آپ آئیں گے....!“
    ”ہاں ہاں کہو!“
    ”آپ نہیں جانتے؟“ نرگس نے نعیم کا ہاتھ پکڑ کردباتے ہوئے کہا۔
    ”میں جانتاہوں۔ تمہارا مطلب ہے کہ میں عنقریب ایک ہونہار بچے کا باپ بننے والا ہوں!“
    نرگس نے اس کے جواب میں اپنا سر نعیم کے سینے کے ساتھ لگا لیا۔
    ”نرگس! اس کا نا م بتاؤں....اس کا نا م عبد اللہ ہوگا۔ میرے بھائی کا نام!“
    ”اور اگر لڑکی ہوئی تو؟“
    ”نہیں وہ لڑکا ہوگا۔ مجھے تیروں کی بارش اور تلواروں کے سائے میں کھیلنے والے بیٹے کی ضرورت ہے۔ میں اسے تیر اندازی، نیزہ بازی اور شاہسواروں کے کرتب سکھایا کروںگا۔ میں اپنے آباؤ اجداد کی تلوارو ں کی چمک برقرار رکھنے کے لیے اس کے بازواؤں میں طاقت اور اس کے دل میں جرات پیداکروں اگا۔“
    (۶)
    اپنی وفات سے کچھ عرصہ پہلے خلیفہ ولید نے قسطنطنیہ کی تسخیر کے لیے جنگی جہازوں کا ایک بیڑا روانہ کیا تھا اور ایک فوج ایشیائے کوچک کے راستے بھیجی تھی لیکن اس حملے میں مسلمانوں کو سخت ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ قسطنطنیہ کی مضبوط فصیل کی تسخیر سے پہلے اسلامی افواج کا سامان رسد ختم ہوگیا۔ دوسری مصیبت یہ نازل ہوئی کہ موسم سرما کے آغاز پر لشکر میں طاعون کی وبا پھیل گئی اور ہزاروں مسلمانوں کی جانیں ضائع ہوگئیں۔ ان مصائب میں اسلامی افواج کو ایک سال کے محاصرے کے بعد نا کام لوٹنا پڑا۔
    محمدؒ بن قاسم اور قتیبہ بن مسلم باہلی کے حسرتناک انجام کے بعد سندھ اور ترکستان میں اسلامی فتوحات دور تقریباً ختم ہوچکا تھا۔ سلیمان نے بدنامی کے اس بد نما دھبے کو دھونے کے لیے قسطنطنیہ کو فتح کرناچاہا۔ اس خیال تھا کہ وہ قسطنطنیہ فتح کرنے کے بعد خلیفہ ولید پر سبقت لے جائے گا لیکن بدقسمتی سے اس اس کام کی تکمیل کے لیے ان لوگوں کو چنا جنہیں سپاہیانہ زندگی سے کوئی سروکار نہ تھا۔ جب اس کے سپہ سالار کو پے درپے ناکامی ہوئی تو اس نے والی اندلس کو ایک بہادر اورتجربہ کار جرنیل بھیجنے کا حکم دیا۔ جیساکہ ذکرآچکا ہے۔ عبد اللہ اس کی تعمیل میں حاضر ہوا اوردمشق سے پانچ ہزار سپاہی لے کر قسطنطنیہ کی طرف روانہ ہوا۔ سلیمان نے خود بھی دمشق چھوڑ کر رملہ کواپنا دارالخلافہ بنایا تاکہ وہاں سے قسطنطنیہ پر حملہ کرنے والی فوج کی نگرانی کر سکے۔ اس نے خود بھی کئی بار حملہ آور فوج کی راہنمائی کی لیکن کوئی کامیابی نہ ہوئی۔
    عبد اللہ کو سلیمان کی بہت سی تجاویز کے ساتھ اختلاف تھا۔ وہ یہ چاہتا تھاکہ ترکستان اورسندھ کے مشہور جرنیل جو قتیبہ بن مسلمؒ اورمحمد ؒ بن قاسم کے ساتھ عقیدت کے جرم کی پاداش میں معزول کردیے گئے تھے، دوبارہ فوج میں شامل کر لیے جائیں لیکن خلیفہ نے ان کی بجائے اپنے چند نا اہل دوست بھرتی کرلیے۔
    عوام میںسلیمان کے خلاف جذبہ حقارت پیدا ہورہا تھا۔ اسے خود بھی اپنی کمزوری کا احساس تھا۔ خدا کی راہ میں جان و مال نثار کرنے والی سپاہ محض خلیفہ کی خوشنودی کے لیے خون بہانا پسند نہیں کرتی تھی۔ اس لیے کشور کشائی کا وہ پہلا سا جذبہ آہستہ آہستہ فنا ہو رہا تھا ابن صادق کے اچانک غائب ہونے سے خلیفہ کی پریشانیوں میں اضافہ ہوگیا۔اسے جھوٹی تسلیاں دے دے کر آنے والے مصائب سے بے پروا کرنے والا کوئی نہ تھا۔محمدؒ بن قاسم جیسے بے گناہوں کے قتل پراس کا ضمیر اسے ملامت کر رہا تھا۔ اس نے ابن صادق کی تلاش میں ہرممکن کوشش کی۔ جاسوس دوڑائے، انعام مقرر کیے لیکن اس کاکوئی پتہ نہ چلا۔


    جزا اور سزا



    عبد اللہ معلوم تھا کہ خلیفہ ابن صادق کی تلاش میں ہر ممکن کوشش کر رہاہے اوراسے زندہ رکھنا خطرناک ہے مگر وہ ایسے ذلیل انسان کے خون سے ہاتھ رنگنا بہادر کی شان کے شایاں نہ سمجھتا تھا۔ جب قسطنطنیہ کے راستے میں اس کی فوج نے قونیہ کے مقام پر قیام کیا تو عبد اللہ عامل شہر سے ملا اوراس کے سامنے اپنے قیمتی سامان کی حفاظت کے لیے ایک مکان حاصل کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ عامل شہرنے عبد اللہ کو ایک پرانا اورغیرآباد مکان دے دیا۔ عبد اللہ نے ابن صادق کو اس مکان کے تہ خانے میں بند کیا اور برمک اورزیاد کواس کی حفاظت کے لیے چھوڑ کر فوج کے ساتھ قسطنطنیہ کا راستہ لیا۔
    زیادکو اپنی زندگی پہلے سے دلچسپ نظر آتی تھی۔ پہلے وہ محض ایک غلام تھالیکن اب اسے ایک شخص کے جسم اورجان پر پورا پورا اختیارتھا۔ وہ جب چاہتا ابن صادق کے ساتھ دل بہلا لیتا ۔ وہ محسوس کرتا تھا کہ ابن صادق اس کے لیے ایک کھولنا ہے اور اس کھلونے کے ساتھ کھیلتے ہوئے اس کا جی کبھی سیر نہ ہوتا۔ اس کی بے لطف زندگی میں ابن صادق پہلی اور آخری دلچسپی تھی۔ اسے اس کے ساتھ چڑ تھی یا پیار ۔ بہر صورت وہ ہر روز اسے تھپڑ لگانے، اس کی ڈاڑھی نوچنے اور اس کے منہ پر تھوکنے کے لیے کوئی نہ کوئی موقع ضرور نکال لیتا۔ برمک اپنی موجودگی میں اسے ان حرکات کی اجازت نہ دیتا لیکن جب وہ کھانے کی چیزیں لینے کے لیے بازارجاتا تو زیاد اپنا جی خوش کرلیتا۔
    عبد اللہ کے حکم کے مطابق ابن صادق کو اچھے سے اچھا کھانا دیا جاتا۔ اس کا یہ بھی حکم تھا کہ ابن صادق کو کوئی تکلیف نہ دی جائے لیکن زیاد اس حکم کو اتنا ضروری خیال نہ کرتا۔ اگرچہ عربی زبان سے تھوڑی بہت واقفیت رکھتا لیکن ابن صادق کے ساتھ وہ ہمیشہ اپنی مادری زبان میں گفتگو کرتا۔ ابن صادق کو شروع شروع میں دقت ہوئی لیکن چند مہینوں کے بعد وہ زیاد کی باتیں سمجھنے کے قابل ہوگیا۔
    ایک دن برمک بازار سے کھانے پینے کی چیزیں لینے گیا۔ زیاد مکان کے ایک کمرے میں کھڑا کھڑکی سے باہرجھانک رہا تھا کہ اسے اپنا ایک ہم نسل ایک گدھے پرسوارشہر سے باہر نکلتا ہوا دکھائی دیا۔ دیوہیکل حبشی کے بوجھ سے نحیف گدھے کی کمر دوہری ہو رہی تھی۔ گدھا چلتے چلتے لیٹ گیا اورحبشی اس پر کوڑے برسانے لگا۔ گدھا مجبوراً اٹھ کھڑا ہوا اور حبشی اس پر سوار ہوگیا۔ گدھا تھوڑی دور چل کر پھر بیٹھ گیا اورحبشی پھرکوڑے برسانے لگا۔ زیاد قہقہہ لگاتا ہوا کمرے سے ایک کوڑا اٹھا کر نیچے اترا اور ابن صادق کے قید خانے کادروازہ کھل کراندر داخل ہوا۔
    ابن صادق زیاد کودیکھتے ہی حسب معمول ڈاڑھی نچوانے اور کوڑے کھانے کے لیے تیار ہوگیا لیکن زیاد اس کی توقع کے خلاف کچھ دیر خاموش کھڑا رہا۔ بالآخر اس نے آگے جھک کر دونوں ہاتھ زمین پرپر ٹیک دیے اور یک چوپائے کی طرح ہاتھ اور پاؤںکے بل دو تین گز چلنے کے بعد ابن صادق سے کہا۔”اؤ!“
    ابن صادق اس کا مطلب نہ سمجھا۔ آج کسی نئی دل لگی کے خوف نے اسے بد حواس کردیا تھا۔ وہ اتنا گھبرایا کہ اس کی پیشانی پر پسینہ آگیا۔
    زیاد نے پھر کہا۔”اؤ مجھ پرسواری کرو!“
    ابن صادق جانتا تھا کہ اسکے جائز اور نا جائز احکام کی اندھا دھند تکمیل ہی میں بہتری ہے اور اس کی حکم عدولی کی سزااس کے لیے نا قابل برداشت ہوگی۔اس لیے ڈرتے ڈرتے زیاد کی پیٹھ پر سوار ہوگیا۔ زیادنے تہہ خانے کی دیوار کے ساتھ دو تین چکر لگائے اورابن صادق کو نیچے اتاردیا۔ اس نے زیادکو خوش کرنے کے لیے خوشامدانہ لہجے میں کہا۔”آپ بہت طاقتور ہیں!“

    لیکن زیادنے اس کے ان الفاظ پر کوئی توجہ نہ دی اور اٹھتے ہی اپنے ہاتھ جھاڑنے کے بعد ابن صادق کو پکڑ کرنیچے جھکاتے ہوئے کہا۔”اب میری باری ہے!“
    ابن صادق کومعلوم تھاکہ وہ اس بھاری بھرکم دیو کے بوجھ تلے دب کر پس جائے گا لیکن اس نے مجبوراً اپنے آپ کو سپرد تقدیر کردیا۔
    زیاد اپنا کوڑا ہاتھ میں لے کر ابن صادق کی پیٹھ پر سوا رہوا۔ ابن صادق کی کمردوہر ہوگئی۔ اس کے لیے اس قدر بوجھ لے کر چلنا ناممکن تھا۔ وہ بصد مشکل دو تین قدم اٹھانے کے بعد گر پڑا۔ زیاد نے کوڑے برسانے شروع کردیے یہاں تک کہ ابن صادق بے ہوگیا۔ زیاد نے اسے اٹھایا اور دیوار کا سہارا د کر بٹھا دیا اور خود بھاگتا ہوا باہرنکل گیا۔ تھوڑی دیر بعد قید خانے کا دروازہ پھر کھلا اور زیاد ایک طشتری میں چند سیب اورانگور لے کراندرداخل ہوا۔ ابن صادق نے ہوش میں آکر آنکھیں کھولیں۔ زیاد نے اپنے ہاتھ سے چند انگو اس کے منہ میں ڈالے۔اس کے بعد اس نے اپنے خنجر کے ساتھ ایک سیب چیرا اور اس میں سے آدھا ابن صادق کو دیا۔ جب ابن صادق نے اپنا حصہ ختم کرلیا تو زیاد نے اسے ایک اور سیب کاٹ کردیا۔
    ابن صادق کو معلوم تھا کہ زیاد کبھی کبھی ضرورت سے زیادہ مہربان بھی ہوجایاکرتاہے، اس لیے اس نے دوسرا سیب ختم کرنے کے بعد خود ہی تیسرا سیب اٹھا لیا۔ زیادہ نے اپنا خنجر سیبوں کے درمیان رکھا ہوا تھا۔ ابن صادق نے قدرے بے پرواہی ظاہر کرتے ہوئے اس کا خنجر اٹھایا اور سیب کا چھلکا اتارنا شروع کردیا۔ زیاد اس کی ہر حرکت کو غور سے دیکھتا رہا ۔ ابن صادق نے خنجر پھر وہیں رکھ دیا اور بولا”یہ چھلکا نقصان دہ ہوتا ہے!“
    ”ہوں!“ زیاد نے سر ہلاتے ہوئے کہا اور ایک سیب اٹھا کر خود بھی ابن صادق کی طرح اس کا چھلکا اتارنے لگا۔ زیاد کے ہاتھ پر ایک معمولی سا زخم آگیا۔ وہ ہاتھ منہ میں ڈال کر چوسنے لگا۔
    ”لائیے۔ میں اتار دوں!“ ابن صادق نے کہا۔
    زیاد نے سر ہلایا اور اپنا سیب اور خنجر اسے دے دیا۔
    ابن صادق نے سیب کا چھلکا اتارا کر اسے دیا اور پوچھا۔”اور کھائیں گے آپ؟“
    زیاد نے سرہلایا اور ابن صادق نے ایک اور سیب اٹھا کر اس کا چھلکا اتارنا شروع کیا۔ ابن صادق کے ہاتھ میں خنجر تھا اور اس کا دل دھڑک رہا تھا ۔ وہ چاہتا تھاکہ ایک دفعہ قسمت آزمائی کرکے دیکھ لے لیکن اسے یہ خوف تھاکہ زیاد اسے حملہ کرنے سے پہلے دبوچ لے گا۔ اسے نے کچھ سوچ کر اچانک دروازے کی طرف مڑ کردیکھا اور پریشان سا منہ بنا کر کہا۔”کوئی آرہا ہے!“ زیاد نے بھی جلدی سے مڑ کر دروازے کی طرف دیکھا۔ ابن صادق نے نظر بچاتے ہی چمکتا ہوا خنجر اس کے سینے میں قبضے تک گھونپ دیا اور فوراً کود کر ایک قدم پیچھے ہٹ گیا۔ زیاد غصے سے کانپتا ہوا اٹھا اور دونوں ہاتھ آگے کی طرف بڑھا کر ابن صادق کا گلا دبوچنے کے لیے آگے بڑھا۔ابن صادق اس کے مقابلے میں بہت پھرتیلا تھا۔ فوراً بھاگ کر اس کی زد سے باہر نکلا اور تہہ خانے کے دوسرے کونے میں جا کھڑا ہوا۔ زیاد اس کی طرف بڑھا تو وہ تیسرے کونے میں جا پہنچا۔ زیاد نے اسے چاروں طرف سے گھیرنا چاہا لیکن وہ قابو میں نہ آیا۔
    زیاد کے قدم لحظہ بہ لحظہ ڈھیلے پڑ رہے تھے ۔ زخم کا خون تمام کپڑوں کو تر کرنے کے بعد زمین پر گر رہاتھا ۔ طاقت جواب دے چکی تھی۔ وہ سینے کو دونوں ہاتھوں میں دبا کر جھکتے جھکتے زمین پر بیٹھا اور بیٹھتے ہی نیچے لیٹ گیا۔ ابن صادق ایک کونے میں کھڑا کانپ رہا تھا۔ جب اسے تسلی ہوئی کہ وہ مرچکاہے ی بے ہوش ہوگیاہے تو آگے بڑھ کر اس کی جیب سے چابی نکالی اور دروازہ کھول باہر نکل گیا۔
    برمک ابھی تک بازار سے نہیں آیا تھا۔ ابن صادق یہاں سے خلاصی پا کر چند قدم بھاگا لیکن تھوڑی دور کر یہ محسوس کرتے ہوئے کہ اسے شہر میں کوئی خطرہ نہیں، اطمینان سے چلنے لگا اورشہر کے لوگوں سے باہر کی دنیا کے حالات معلوم کرنے کے بعد وہ خلیفہ کواپنی آب بیتی سنانے کے لیے رملہ روانہ ہوگیا۔
    ابن صادق کے رہائی کے چند دن بعد یہ خبر سنی گئی کہ خلیفہ نے عبد اللہ کو سپہ سالاری کے عہدے سے معزول کردیا ہے ےاور وہ پابہ زنجیر رملہ کی طرف لایا جارہاہے۔
    جاری ہے
     
  2. الف
    آف لائن

    الف ممبر

    شمولیت:
    ‏1 اگست 2008
    پیغامات:
    398
    موصول پسندیدگیاں:
    3
    خوب ھے جی خوب ۔ دلچسپ سٹوری ھے۔ اب باقی قسطیں بہی پڑہتا ھوں ۔
     
  3. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,154
    ملک کا جھنڈا:
    مجھے ہمیشہ سے ہی ایسے بےوقوف بہادر "مجاہدین " کی عقل پر افسوس ہوتا ہے۔
    عبداللہ صاحب کو معزول ہونے کے ساتھ ساتھ زنداں میں بھی ڈال دیا جانا چاہیے۔ جس نے ایسے خطرناک منافق کو زندہ چھوڑ دیا۔
     
  4. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    سوری عرفان جی میں کچھ دن سے پڑھ نہیں پائی آپ بہت وقت نکال کے محنت سے لکھ رھے ھیں
    شکریہ کم لکھنے کا اب بخوبی پڑھا جا سکتا ھے
     
  5. عرفان پتوکی
    آف لائن

    عرفان پتوکی ممبر

    شمولیت:
    ‏8 اگست 2009
    پیغامات:
    84
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    شکریہ خوشی جی
    میں نے تو صرف اس لیے لکھنا شروع کیا کہ ہماری اردو کا پلیٹ فارم مجھے بہت اچھا لگا
    لیکن جتنی پذیرائی کا سوچا تھا وہ نہیں مل پائی لیکن چلیں کوئی بات نہیں
    نعیم بھائی کا شکریہ جنہوں نے میری ہر پوسٹ کا جواب دے کے مجھے حوصلہ دیا
    الحمدللہ آج الف جی نے بھی پڑھ لیا
    ان شاءاللہ اور بھی آئیں گے
    آپ سب کے لیے دعا گوہ
    محمد عرفان
     
  6. برادر
    آف لائن

    برادر ممبر

    شمولیت:
    ‏21 اپریل 2007
    پیغامات:
    1,227
    موصول پسندیدگیاں:
    78
    بھائی محمد عرفان صاحب۔
    ایسا ہے کہ ہم جیسے گمنام بھی اردو ادب بہت شوق سے پڑھتے ہیں ۔ مگر تبصرہ کرنے کا ہنر نہ ہونے کی وجہ سے چپ چاپ رہتے ہیں۔ اس لیے آپ دلجمعی سے اردو ادب اور تاریخ اسلام کی خدمت جاری رکھیے۔ :hands:
     
  7. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    عرفان جی برادر جی کی بات درست ھے ، کئی جگہ تبصرہ کرنا بڑا مشکل ہو جاتا ھے ، تنقید والی کوئی بات نہیں ہوتی اور تعریف کریں تو محض خانہ پری نہ سمجھا جائے اس اندیشے کے پیش نظربعض لوگ کچھ نہیں لکھتے
    مگر پڑھتے ضرور ھیں
    آپ بددل نہ ہوں‌بہت لوگ پڑھتے ھیں اسے
     

اس صفحے کو مشتہر کریں