داستان حیات از خلیل جبران http://www.allurdu.com/free-books/dastaan-e-hiyat-by-khalil-gibran کتابی شکل میں ہے داون لوڈ کرکے پی ڈی ایف پر پڑھ سکتےہیں۔آف لائن:yes:
خلیل جبران کسی تعارف کے محتاج ہی نہیں ہیں۔ کہ اس لبنانی عرب عیسائی عظیم ادیب نے وہ شہ پارے تخلیق کیے ہیں کہ بس پڑھتے ہی جائیں اور جس گہرائی سے وہ کسی پہلو پر بات لکھتے ہیں تو بےاختیار ان کے پرواز تخیل کو داد دینے کو دل کرتا ہے۔
کتاب پسند کرنے کا بہت بہت شکریہ سب خواتین وحضرات کا بہت بہت شکریہ۔۔۔خلیل جبران واقعی کسی تعارف کے محتاج نہیںکافی مشہور رائٹرہیں ان کی لکھاوت کافی پختہ اور محبوب خان بھائی نے واقعی قابل قدر اور سلیس تعارف پیش کیاہے
خلیل جبران عربی زبان کا مشہور صاحب طرز ادیب ، جبران خلیل جبران ۱۸۸۳ء میں پیدا ہوا، مقام پیدائش بشریٰ ہے۔ جو لبنان کے مضافات میں الارزالخالد کے قریب واقع ہے۔ ابتدائی زندگی شمالی لبنان کی آزاد فضامیں گزری ۔ بارہ برس کی عمر میں ترک وطن کر کے ممالک متحدہ امریکہ چلا گیا۔ چند سال وہاں ٹھہرکر عربی زبان وادب کی تحصیل کیلئے بیروت آیا اورمدرسہ حکمت میں داخل ہو گیا۔۱۹۰۳ ء میں امریکہ واپس ہوا۔ اور پانچ برس تک وہاں رہا، اس عرصہ میں اس کا زیادہ ترقیا م بو سٹن میں رہا ۔ جہاں اُس نے کچھ کتابیں عربی زبان میں تالیف کیں۔ ۱۹۰۸ء میں مصوری اور دیگر فنون لطیفہ کی تکمیل ، نیز یورپ کے بڑے بڑے شہروں کی سیاحت کے لئے پیرس کا سفر کیا ۔ تین سال پیرس میں رہ کر جامعہ فنون فرانسیسی سے امتیازی سندحاصل کی اورمجلس فنون فرانسیسی کارُ کن مقرر کیا گیا۔ ۱۹۱۲ میں پھر امریکہ گیا اور نیویارک میں مستقل اقامت اختیار کرلی۔ یہاں اس نے عربی اور انگریزی میں بہت سی کتابیں اور مقالے لکھے جن کی وجہ سے وہ ساری دنیا کے اہل فن کی نگاہوں کا مرکز بن گیا۔ ان کتابوں کے علاوہ کچھ غیر فانی مقالات ہیں، جو مختلف اوقات میں شائع ہو کر یورپ کی اکثرزبانوں میں ترجمہ ہو چکے ہیں۔ جبران کی ایک کتاب ”الرسوم العشرون“ کے نام سے ہے جو اس کے سحر آفریں موقلم کی اشاراتی تصویر وں کا نادرِ روز گار مجموعہ ہے۔ یہ کتاب ۱۹۱۹ء میں شائع ہوئی تھی۔ جبران کی انگریزی تالیفات دنیا کی اکثر زندہ زبانوں میں ترجمہ ہو چکی ہیں۔ مسرت کا مقام ہے کہ اردو بھی جبران خلیل جبران کے افکار سے ناآشنا نہیں ۔سب سے پہلے قاضی عبدالغفار ، مصنف ”لیلیٰ کے خطوط“ نے اس کے انگریزی شاہکار ”النبی“کا ترجمہ” اُس نے کہا“کے نام سے کیا۔ پھر اسی کتاب کا دوسرا ترجمہ ”مسائل ِحیات“ لاہور سے شائع ہوا۔ اس کے بعد ابوالعلاچشتی نے ” الارواح المتمردہ“ کو” سرکش روحیں “کے نام سے براہِ راست عربی سے اردو میں منتقل کیا۔ سب سے آخر میں بشیر ہندی نے ”پاگل “ملک کے سامنے پیش کی ،جو” المجنون“کے غالبا انگریزی ایڈیشن کا ترجمہ ہے۔ ان کتابوں کے علاوہ کچھ مضامین اور افسانوں کے تراجم ہیں، جو صلاح الدین قریشی، رضا انصاری اورحبیب اشعر کی طرف سے مختلف ادبی رسائل میں شائع ہو چکے ہیں۔