1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

خود کو تلاش کیجیے ۔۔۔۔۔ محمد اعظم رضا تبسم

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏22 دسمبر 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    خود کو تلاش کیجیے ۔۔۔۔۔ محمد اعظم رضا تبسم

    کہا جاتا ہے ایک شیر کا بچہ اپنے ایام طفلی میں اپنے قبیلے سے گْم ہو گیا اور اتفاقاََ بھیڑوں کے قبیلے سے جا ملا۔ابھی چلنا سیکھا ہی تھا کہ اس حادثے سے دوچار ہو گیا۔ اب اس کے دن رات بھیڑوں کے ساتھ گزرتے وہ ان ہی میں پلنے لگا۔ بھیڑوں کے ساتھ جاگنا سونا۔گھاس چرنا پانی پینا اور میمنوں جیسی اٹھکیلیاں کرنا۔ہوا یوں کہ ایک دن ایک بزرگ شیر جب شکار کے لیے نکلا تو اس کی نظر بھیڑوں کے اس ریوڑ پر پڑ گئی۔ شیر یہ دیکھ کر حیران ہو گیا کہ بھیڑوں کے ریوڑ میں پہلے سے ایک شیر موجود ہے مگر وہ شکار نہیں کر رہا بلکہ ان کے ساتھ ایسے چل پھر رہا ہے جیسے انہی کا حصہ ہو۔ بزرگ شیر کے لیے یہ بہت باعث تعجب تھا۔بالآخر اس نے فیصلہ کیا اور اس ریوڑ پر حملہ آور ہوا۔ شیر کے حملے سے تمام بھیڑیں ادھر ادھر بھاگنے لگیں لیکن اس حملے اور دھاڑ کا مقصد اس بار ذرا مختلف تھا۔ شیر کے حملے سے ریوڑ میں بھیڑوں جیسی زندگی جینے والا شیر بھی بھاگنے لگا۔بزرگ شیر نے ایک چھلانگ لگا کر اسے دبوچ لیا اور اس سے مکالمہ کیا اسے سمجھایا کہ تو شیر ہے تیری جنس الگ ہے تیرا جینا اور تیرے جینے کا انداز الگ ہے مگر تو کیا بھیڑوں کے ساتھ بھیڑوں والی زندگی جی رہا تھا تیرا معیار شہنشاہیت ہے جنگل کی بادشاہت ہے مگر وہ چھوٹا شیر اس بات کو نہ مانا۔ شیر نے اسے سمجھانے کے لیے ایک چھلانگ لگائی اور ایک بھیڑ کو مار ڈالا اور کھانے لگا اور کہا تمہارا یہ کام ہے گھاس چرنا نہیں تمہیں اللہ نے طاقت سے نوازا ہے گوشت کھانے کے لیے پیدا کیا ہے تم دوسرے جانوروں جیسے نہیں مگر چھوٹا شیر اب بھی نہ مانا۔ اب بزرگ شیر اس چھوٹے شیر کو تالاب کے کنارے پر لے گیا اور کہا پانی میں دیکھو تمہااری اور میری شکل ایک جیسی ہے اور اب ان بھیڑوں پر نظر ڈالو وہ ہم دونوں سے مختلف ہیں مگر تم اپنی صلاحیتوں کو پہچاننے کی بجائے ان جیسی زندگی گزار رہے ہو۔ اب جائو اور شکار کرو وہ کام کرو جس کے لیے تم بنے ہو۔ بزرگ شیر اور چھوٹے شیر کی زندگی کی یہ کہانی ہم پر بھی درست ثابت ہوتی ہے۔ اللہ نے ہمیں بہت ساری صلاحیتوں سے نوازا ہے مگر ہم ان کو پہچانتے نہیں تلاش نہیں کرتے۔ ہمیں بھی حقیقت کا آئینہ دیکھنا باقی ہے اگر ہم اپنی حقیقت جان لیں تو ہم صحیح جینا شروع کردیں۔ اپنی صلاحیتوں سے نفع اٹھائیں۔ ہماری ناکامی کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ ہمیں اپنی صلاحیتوں کا علم ہی نہیں۔ بس چھوٹے شیر کی طرح آئینہ دیکھنا باقی رہ گیا ہے۔ اس کا آسان حل یہ ہے کہ تنہائی میں بیٹھیںاور اپنی خوبیوں اور خامیوں کی ایک فہرست بنائیں۔ ہمیں کس معیار کس کردار کی زندگی گزارنی چاہیے اور ہم کس سطح پر جی رہے ہیں۔ فہرست بنائیے کون کون سی صلاحیتیں اللہ نے دی ہیں جن کو بروئے کارلا کر بہتر سے بہترین کا سفر کر سکتے ہیں۔مولانا رومؒ کی یہ مثال ناصرف انفرادی طور پر ہمارے لیے قابل تقلید ہے بلکہ من حیث القوم بھی ہم پر لازم آتا ہے کہ ہم اپنے بزرگوں کے حال احوال جانیں۔ ان کی زندگیوں کے وہ روشن باب پڑھیں جن سے ہمیں ہماری پہچان ہو۔ آج عالم اسلام پر برا وقت اسی وجہ سے ہے کہ ہم نے اپنے اسلاف کی تعلیمات کو بھلا دیا ہے اور اسی وجہ سے ہم احساس کمتری کا شکار ہیں اور ہم ہی نہیں بلکہ ہماری نئی نسل تو اسلاف کے کارہائے نمایاں سے بالکل واقف نہیں۔
    تجھے آباء سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی
    کہ تْو گْفتار وہ کردار، تْو ثابت وہ سیّارا
    آج ہمارے بچوں کے ہیرو وہ فرضی کردار بن گئے ہیں جن کو کارٹونز، فلموں اور ڈراموں کے ذریعے معصوم ذہنوں تک پہنچا دیا گیاہے۔ اپنے بچوں کو اسلاف کی زندگیوں سے متعلق کتابیں لیکر دیں معلومات دیں اور خود بھی مطالعہ کریں تا کہ اپنی حقیقت سے آگاہی حاصل ہو۔
    سبَق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا
    لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا

     

اس صفحے کو مشتہر کریں