1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

خود میں اُترے اور طغیانی سے باہر آ گئے

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏27 دسمبر 2019۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    خود میں اُترے اور طغیانی سے باہر آ گئے
    آ کے گہرائی میں ہم پانی سے باہر آ گئے
    اس کی رونق میں بہت سنسان سے رہتے تھے ہم
    شہر سے نکلے تو ویرانی سے باہر آ گئے
    لفظ وہ جن کو زباں تک لانے کی ہمت نہ تھی
    آخر اک دن میری پیشانی سے باہر آ گئے
    دم بخود اُس حسن کو ہی دیکھتے رہتے تھے ہم
    یوں بھرم ٹوٹا کہ حیرانی سے باہر آ گئے
    آستیں میں پل رہے تھے اور اک دن یوں ہوا
    سانپ آپس کی پریشانی سے باہر آ گئے
    وہ تعلق ہم کو قیدِ خواب جیسا تھا ظہیرؔ
    کھُل گئیں آنکھیں تو آسانی سے باہر آ گئے
    (ثناء اللہ ظہیرؔ)​
     
    زنیرہ عقیل نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں