1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

خلافت راشدہ کا ایک جج

'تاریخِ اسلام : ماضی ، حال اور مستقبل' میں موضوعات آغاز کردہ از صدیقی, ‏6 جنوری 2012۔

موضوع کا سٹیٹس:
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
  1. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    خلافت راشدہ کا ایک جج​


    حضرت عمرؓ بن خطاب کا عہدِ خلافت ہے۔ عمرؓ کسی شخص سے ایک گھوڑا خریدتے ہیں، اِس شرط پر کہ پسند آ گیا تو رکھ لیں گے، ورنہ واپس کر دیں گے۔ گھوڑا ایک سوار کوے کے لیے دیتے ہیں اور وہ سواری میں چوٹ کھا کر لنگڑا ہو جاتا ہے ۔عمرؓ گھوڑا واپس کرنا چاہتے ہیں مگر مالک لینے سے انکار کر دیتا ہے۔ دونوں شریح بن حارث کو ثالث مقرر کرتے ہیں۔ شریح فیصلہ کرتے ہیں ’’جو گھوڑا خریدا ہے، اُسے رکھو یا جس حالت میں لیا تھا، اِسی حالت میں واپس کرو۔‘‘ عمرؓ فیصلہ ہی تسلیم نہیں کرتے بلکہ شریح کو کوفہ کا جج بھی مقرر کر دیتے ہیں کہ ایسا دقیقہ رس، ذکی، طباع، حدیث و فقہ کا ماہر اور بے خوف انسان شخص ایسے ہی بلند پایہ منصب کا اہل ہو سکتا ہے۔

    قاضی شریح اپنی ذمے داریاں اِتنی خوبی، قابلیت اور دیانت کے ساتھ انجام دیتے ہیں کہ اموی خلیفہ عبدالمالک کے زمانے تک مسلسل ساٹھ برس اِس منصبِ جلیلہ پر فائز رہتے ہیں۔ اسلام کی تاریخ میں اُن کا شمار سب سے بڑے قضاۃ میں ہوتا ہے۔ اِن کے بعض فیصلوں پر تو اسلام کی تاریخِ عدل بجا طورپر ناز کر سکتی ہے۔

    ٭٭

    حضرت علیؓ کا دورِ خلافت ہے۔ دارالخلافہ مدینے سے کوفے منتقل ہو چکا ۔شریح اسلامی مملکت کے چیف جسٹس ہیں۔ امیر المؤمنین علیؓ اور ایک یہودی کا تنازع ان کی عدالت میں پیش ہوتا ہے۔ امیر المؤمنین کی زرہ کہیں گر پڑی تھی اور اِس یہودی کے ہاتھ لگ گئی۔ امیر المؤمنین کو پتا چلتا ہے تو اِس سے زرہ کا مطالبہ کرتے ہیں، مگر یہودی کہتا ہے کہ زرہ میری ہے، چنانچہ دینے سے انکار کر دیتا ہے۔ امیر المؤمنین عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں۔ چیف جسٹس شریح فریقین کے بیان لیتے ہیں۔ یہودی اپنے بیان میں کہتا ہے کہ زرہ میری ہے اور اِس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ میرے قبضے میں ہے ۔چیف جسٹس شریح، امیر المؤمنین سے اپنے دعوے کے ثبوت میں گواہ پیش کرنے کو کہتے ہیں۔ وہ دو گواہ پیش کرتے ہیں: حسنؓ اور قنبرؓ۔ چیف جسٹس شریح کہتے ہیں کہ قنبرؓ کی شہادت تو قبول کرتا ہوں لیکن حسنؓ کی شہادت قابلِ قبول نہیں۔

    امیر المؤمنین کہتے ہیں کہ آپ حسنؓ کی شہادت کو مسترد کرتے ہیں ! کیا آپؓ نے رسول اﷲﷺ کا ارشاد نہیں سنا کہ حسنؓ اور حسینؓ جنتی نوجوانوں کے سردار ہیں۔ چیف جسٹس شریح کہتے ہیں ’’سنا ہے، مگر میرے نزدیک باپ کے حق میں بیٹے کی شہادت معتبر نہیں۔‘‘

    دوسرا شاہد نہ ہونے کی وجہ سے امیر المؤمنین کا دعویٰ خارج کر دیا گیا ۔امیر المؤمنین نہ تو کوئی آرڈی نینس جاری کرتے اور نہ کسی قانون کی پناہ ڈھونڈتے ہیں بلکہ اِس فیصلے کے آگے سر تسلیم خم کر دیتے ہیں۔

    یہودی اِس فیصلے سے بے حد متاثر ہوتا ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ ایک شخص صاحبِ اقتدار ہونے کے باوجود زرہ اِس سے نہیں چھینتا بلکہ عدالت کے دروازے پر دستک دیتا اور مدعی کی حیثیت سے اِس کے سامنے جاتا ہے ۔ پھر عدالت اِس کے ساتھ کوئی امتیازی برتاؤ نہیں کرتی، مدعی اور مدعا علیہ دونوں یکساں حالت میں اِس کے سامنے پیش ہوتے ہیں۔ عدالتی کارروائی میں بھی کوئی خاص اہتمام نہیں ہوتا، روز مرہ کی سی کارروائی ہوتی ہے اور عدالتی طریق کار کے عین مطابق۔ پھر عدالت کا جج امیر المؤمنین کے خلاف فیصلہ صادر کرتا اور امیر المؤمنین بے چون و چرا اِس فیصلے کے آگے سر جھکا دیتا ہے۔ اسلامی عدالت کا بے لوث عدل اور امیر المؤمنین کا منصفانہ کردار اِس کے دل میں کھب جاتا ہے۔ وہ وہیں عدالت میں پکار اُٹھتا ہے کہ’’ زِرہ امیر المؤمنین ہی کی ہے اور جس دین کا ماننے والا قاضی، امیر المؤمنین کے خلاف فیصلہ صادر کرتا ہے اور امیر المؤمنین اِس فیصلے کو بلا حیل و حجت تسلیم کر لیتا ہے، وہ یقینا سچا ہے ۔


    امیر المؤمنین اِس یہودی کے اسلام قبول کر لینے پر اِتنے مسرور و شادماں ہوتے ہیں کہ بطور یادگار اپنی زرہ اِسے دے دیتے ہیں۔

    ٭٭

    عدلِ گستری کا ایک منظر اور ملاحظہ فرمائیے:

    عدالت کا اجلاس ہورہا ہے۔ اپنے عہد کے بلند پایۂ عالم اشعث بن قیس تشریف لاتے ہیں۔ جسٹس شریح اُٹھ کھڑے ہوتے اور کہتے ہیں، ہمارے شیخ اور سردار، خوش آمدید! پھر اُنہیں اپنے پہلو میں بٹھا لیتے ہیں ۔ اِتنے میں ایک شخص داخل ہوتا ہے ، وضع قطع اور لباس وغیرہ بتا رہے ہیں کہ کوئی عامی ہے۔ وہ اشعث کے خلاف دعویٰ دائر کرتا اور عدالت سے انصاف چاہتا ہے۔ جسٹس شریح اِس کا بیان لیتے ہیں۔ جونہی سارا واقعہ سنتے ہیں، اُن کی نگاہیں بدل جاتی ہیں اور اشعث کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں :

    ’’اشعث ! یہاں سے اُٹھو، مدعی کے پاس کھڑے ہو جاؤ اور جوابِ دعویٰ پیش کرو۔‘‘

    اشعث جسٹس شریح کے اِس طرزِ عمل پر چونک پڑتے اور کہتے ہیں’’میں یہیں بیٹھ کر اِن باتوں کا جواب دوں گا۔‘‘

    جسٹس شریح کی باوقار اور بلند آواز عدالت میں گونجتی ہے ’’فوراً کھڑے ہو جاؤ ورنہ میں کسی کو حکم دوں گا کہ وہ تمہیں اُٹھا دے ۔‘‘

    عدالت میں سناٹا طاری ہے۔ اشعث چپ چاپ اُٹھتے اور مدعی کے ساتھ جا کر کھڑے ہوتے ہیں۔

    ٭٭

    ایک جج کو عدل و انصاف کی راہ سے کئی اُمور منحرف کر سکتے ہیں…مثلاً اعلیٰ حکام کا دباؤ، اُن کا لحاظ، عزیز و اقارب کا پاس، سفارش، رشوت اور ظاہر فریبی۔لیکن جن دِنوں کا ذکر ہو رہا ہے، تب عدالت پر اعلیٰ حکام یا خود سربراہِ مملکت کے دباؤ کا کبھی تصور تک سایہ افگن نہیں ہوا۔ رہا لحاظ اور مروّت، تو اوپر کے مناظر شاہد ہیں کہ جسٹس شریح عدل و انصاف کے باب میں کسی کا لحاظ نہیں کرتے۔ اگر امیر المؤمنین کی پیش کردہ شہادت بھی ناقص ہو، تو اُن کا دعویٰ مسترد کر دیتے ہیں۔ اپنے ایک دوست اور وقت کے بڑے قابلِ احترام عالم کو بھی بھری عدالت میں مدعی کے دوش بدوش جا کھڑے ہونے کا حکم صادر کرتے اور ان کی طرف سے نادانستہ گریز کا اظہار دیکھ کر جبراً اُٹھانے کی دھمکی دیتے ہیں۔

    عزیز و اقارب کا پاس بھی عموماً عدل کی راہ میں حائل ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے دور میں کوئی عادل جج کسی ایسے مقدمے کی سماعت نہیں کرتا جس کا تعلق اُس کے اپنے عزیز واقارب یا دوست احباب سے ہو۔ خود فریق مخالف بھی ایسی صورت میں خواہش مند ہوتا ہے کہ مقدمہ کسی دوسری عدالت میں منتقل ہو جائے ، لیکن اُس زمانے میں اِس بنیاد پر انتقالِ مقدمہ کا دستور نہیں تھا۔ دوسرے ججوں کی طرح جسٹس شریح کی عدالت میں بھی اُن کے اپنے عزیزوں اور دوستوں کے مقدمات پیش ہوتے اور ان کا فیصلہ کرنے میں وہ کسی تعلق کو خاطر میں نہیں لاتے۔ اگر ان کا بیٹا بھی قانون کی زد میں آ جاتا تو اِس کی پروا نہیں کرتے۔

    ایک مرتبہ ان کا صاحبزادہ کسی ملزم کی ضمانت دیتا ہے۔ ملزم بھاگ جاتا ہے۔ جسٹس شریح ملزم کے بدلے میں اپنے بیٹے کو جیل بھیج دیتے ہیں۔

    ایک بار ان کا اردلی کسی شخص کو کوڑے مارتا ہے۔ مضروب ان کی عدالت میں استغاثہ دائر کرتا ہے اور وہ اردلی کو مضروب کے ہاتھوں کوڑے لگواتے ہیں۔

    ایک مرتبہ ان کے خاندان کا ایک فرد کسی شخص پر ظلمِ ناروا کرتا ہے۔ جسٹس شریح اُسے ایک ستون سے بندھوا دیتے ہیں۔ عدالت برخاست ہو جاتی ہے اور جانے لگتے ہیں تو وہ عزیز کچھ کہنا چاہتا ہے ۔مگر شریح یہ کہہ کر چلے جاتے ہیں’’ مجھ سے کہنے سننے کی حاجت نہیں، تمہیں حق نے قید کیا ہے ۔

    ایک مرتبہ ان کے صاحبزادے کا چند دوسرے اشخاص سے کسی حق کے بارے میں تنازع ہو گیا۔ لڑکا اُنہیں سارے واقعات بتا کر پوچھتا ہے ، اگر مقدمے میں کامیابی کی اُمید ہو تو میں دعویٰ کر دوں یا خاموش رہوں؟ شریح مشورہ دیتے ہیں کہ مقدمہ دائر کر دو۔ مقدمہ اُنہی کے سامنے پیش ہوتا ہے اور وہ بیٹے کے خلاف فیصلہ دیتے ہیں۔ گھر آتے ہیں تو بیٹا کہتا ہے، میں نے آپ سے مشورہ نہ کیا ہوتا، تو اِس فیصلے پر مجھے شکایت نہ ہوتی۔ مگر آپ نے خود ہی مقدمہ دائر کرنے کا مشورہ دیا اور خود ہی میرے خلاف فیصلہ صادر کر دیا۔ اِس طرح مجھے ذلیل و رُسوا کیا۔ جسٹس شریح کا جواب انصاف کی تاریخ میں آبِ زر سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ کہتے ہیں:

    ’’جانِ پدر! تم مجھے دُنیا جہان سے عزیز ہو، لیکن اﷲ مجھے عزیز تر ہے۔ مجھے اُن لوگوں کا حق نظر آیا تھا۔ اگر میں تمہیں بتا دیتا تو تم اُن سے صلح کر لیتے اور یوں اُن کا حق مارا جاتا۔

    رشوت بھی حق و عدل کی راہ میں سب سے بڑی رُکاوٹ ہے۔ عدالتوں اور سرکاری دفتروں میں اِس کا چلن ہر زمانے میں رہا ہے۔ رشوت کی ایک مہذب صورت ہدیہ و تحائف ہیں۔ اہلِ معاملہ اپنے جائز و ناجائز اُمور پورے کرنے کے لیے عموماً اُنہی کا سہارا لیتے ہیں۔ جسٹس شریح کے پاس بھی ہدیہ و تحائف آتے ۔ ہدیہ تو وہ قبول کر لیتے مگر رشوت سے بچنے کی خاطر فوراً ہدیہ دینے والے کو اپنی جانب سے ہدیہ دے دیتے۔

    جج اور قاضی بسا اوقات بہ ظاہر فریب میں آ جاتے ہیں۔ حقیقت کی تہ تک پہنچنے کے لیے نہایت گہری بصیرت اور عمیق نظر کی ضرورت ہے۔ جسٹس شریح بے حد دقیقہ رس ہیں اور اہلِ مقدمہ کی ظاہری حالت سے کبھی متاثر نہیں ہوتے۔ ایک عورت ایک مرد کے خلاف مقدمہ دائر کرتی ہے۔ عدالت میں آتی ہے تو زارو قطار رونے لگتی ہے۔ امام شعبیؒ بھی موجود ہیں۔ وہ شریح سے کہتے ہیں’’یہ عورت مظلوم معلوم ہوتی ہے۔‘‘ شریح کہتے ہیں ’’رونا مظلومیت کا ثبوت نہیں۔ یوسفؑ کے بھائی بھی باپ کے پاس روتے گئے تھے۔‘‘

    جسٹس شریح مقدمے کی گہرائیوں میں اُترتے اور شہادتوں کو خوب جانچتے پرکھتے ہیں۔ تاہم مقدمے کا انحصار چونکہ شہادتوں پر ہوتا ہے، اِس لیے جب دیکھتے کہ گواہ مشکوک ہیں، مگر ان کی ظاہری صداقت پر گرفت نہیں کی جا سکتی تو گواہوں سے کہتے کہ میں نے تمہیں طلب نہیں کیا ، تم جانا چاہتے ہو تو میں نہیں روکتا، تمہاری گواہی سے میرا دامن محفوظ ہو جائے گا، تم بھی اپنے آپ کو بچاؤ۔ اگر گواہ جھوٹی گواہی سے پھر بھی باز نہیں آتے تو چونکہ جج کسی گواہ کو شہادت دینے سے نہیں روک سکتا، اِس لیے جسٹس شریح مجبوراً اُس کی شہادت پر فیصلہ کر دیتے ۔ تاہم جس فریق کے حق میں فیصلہ ہوتا، اُس سے کہہ دیتے کہ تم اِس معاملے میں ظالم ہو، لیکن مقدمے کا فیصلہ مجھے اپنے خیال و گمان پر نہیں ثبوت کے مطابق کرنا ہے۔ اِس لیے یہ بات اپنی جگہ رہ جاتی ہے کہ جو چیز خدا نے تم پر حرام کی، میرا فیصلہ اُسے حلال نہیں کر سکتا ۔
     
  2. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: خلافت راشدہ کا ایک جج

    سبحان اللہ۔
    صدیقی بھائی اللہ پاک آپکو جزائے خیر دے۔ بہت خوب۔

    وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہوکر

    اگر کتب کے حوالہ جات دستیاب ہوجاتے تو مزید بہتر ہوتا۔
     
  3. عباس حسینی
    آف لائن

    عباس حسینی ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2009
    پیغامات:
    392
    موصول پسندیدگیاں:
    23
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: خلافت راشدہ کا ایک جج

    صدیقی صاحب یہ وھی محترم قاضی شریح ھے نا جس نے امام حسین علیہ السلام کا قتل جائز ھونے کا فتوی دیا تھا؟؟

    مجھے اس سوال کا جواب چاھیے!!!!!!
     
  4. زبیراحمد
    آف لائن

    زبیراحمد خاصہ خاصان

    شمولیت:
    ‏6 فروری 2012
    پیغامات:
    307
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: خلافت راشدہ کا ایک جج

    انصاف سے ایک مثالی معاشرے کاقیام ممکن ہے
     
  5. زبیراحمد
    آف لائن

    زبیراحمد خاصہ خاصان

    شمولیت:
    ‏6 فروری 2012
    پیغامات:
    307
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: خلافت راشدہ کا ایک جج

    محترم امام زین العابدین رح کے مطابق توامام حسین رض کے قاتل شیعہ ہیں۔مجھے زیادہ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔
     
  6. الکرم
    آف لائن

    الکرم ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جون 2011
    پیغامات:
    3,090
    موصول پسندیدگیاں:
    1,180
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: خلافت راشدہ کا ایک جج

    امام عالی مقام کی شہادت میں جس کا بھی ہلکا سا کردار بھی ہے
    اس لعین پہ خُدا کی لعنت ہو
     
  7. زبیراحمد
    آف لائن

    زبیراحمد خاصہ خاصان

    شمولیت:
    ‏6 فروری 2012
    پیغامات:
    307
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: خلافت راشدہ کا ایک جج

    گزارش یہ ہے کہ اگرآپ غصے میں نہ آئیں تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔کہ امام زین العابدین رح نے امام عالی مقام رح کی شہادت کاذمہ دارشیعوں کوٹھہرایاہے آپ اس نقطے کوملحوظ ضروررکھئے گا۔
     
  8. الکرم
    آف لائن

    الکرم ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جون 2011
    پیغامات:
    3,090
    موصول پسندیدگیاں:
    1,180
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: خلافت راشدہ کا ایک جج

    جناب زبیر احمد جی اس میں غُصے کی کوئی بات نہیں !
    اگر آپ میری بات کو سمجھ جائیں تو آپ بھی یہی کہیں گے جو میں نے کہی ہے !
    کہ آلِ رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے قاتلوں میں اگر کوئی صحابی کہلوانے والا بھی ہے تو
    وہ راندہء درگاہ ہے۔ بس
    باقی جو بھی راہِ راست کا پیرو ہے ہمارا سر اس ہستی کے آگے خم ہے!
     
  9. زبیراحمد
    آف لائن

    زبیراحمد خاصہ خاصان

    شمولیت:
    ‏6 فروری 2012
    پیغامات:
    307
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: خلافت راشدہ کا ایک جج

    میں اپنی گزارش دوبارہ پیش خدمت کرتاہوں کہ امام زین العابدین رح نے کسی صحابی رضوان اللہ اجمعین کوامام حسین رض کاقاتل نہیں گرداناہے،توحق امام زین العابدین رح نے خودظاہرکردیاجوعینی شاہدہیں واقعہ کربلاکے۔
     
  10. الکرم
    آف لائن

    الکرم ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جون 2011
    پیغامات:
    3,090
    موصول پسندیدگیاں:
    1,180
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: خلافت راشدہ کا ایک جج

    محترم زبیر احمد جی میں آپ ک بات کی نفی تو نہیں کر رہا
    مگر دشمنانِ اہلِ بیت پہ لعنت کرنا اور اُن سے براءت کرنا بھی تو چاہیے نا ؟
     
  11. زبیراحمد
    آف لائن

    زبیراحمد خاصہ خاصان

    شمولیت:
    ‏6 فروری 2012
    پیغامات:
    307
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: خلافت راشدہ کا ایک جج

    امام غزالی رح سے کسی نے پوچھاکہ بتائیے حضرت علی کرم اللہ وجہہ جنت میں جائیں گے یا دوزخ میں جائیں گے تو آپ رح نے جواب دیاکہ تمہیں اپنی فکرکرنی چاہیئے کہ تم جنت میں جائوگے کہ دوزخ میں۔آپ دوسروں پرلعنت بھیجتے ہیں کیاآپ اپنے آپ کواس قابل سمجھتے ہیں کہ دوسروں پرلعنت بھیج سکیں اگر نہیں توہمیں اپنے کرداراورانجام کی فکرکرنی چاہیئے کہ ایسی کسی موشگافی میں الجھناچاہیئے جس کے بارے میں ہمیں علم نہ ہو۔
     
  12. rohaani_babaa
    آف لائن

    rohaani_babaa ممبر

    شمولیت:
    ‏23 ستمبر 2010
    پیغامات:
    197
    موصول پسندیدگیاں:
    16
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: خلافت راشدہ کا ایک جج

    ہر وہ شخص اور ہر وہ گروہ لعنتی ہے جو کہ چار یاروں کو برا کہے یا حسنین کریمین کی جنگ کو اقتدار کی جنگ قرار دے۔
    اب جہاں تک صحابی کا تعلق ہے تو بہت سے صحابہ ایمان لانے کے بعد مرتد ہوگئے تھے اور بہت نے دنیا کو پسند کیا اب ایسے صحابہ کو ہم نہ برا کہتے ہیں اور نہ اچھا اور بھلا ہم کون ہوتے ہیں کسی کو برا یا بھلا کہنے والے۔
    لیکن ایسے لعینوں پر ہم ضرور بالضرور لعنت بھیجتے رہیں گے جو کہ چار یاروں اور حسنین کریمین کے بغضی ہیں۔
     
  13. الکرم
    آف لائن

    الکرم ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جون 2011
    پیغامات:
    3,090
    موصول پسندیدگیاں:
    1,180
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: خلافت راشدہ کا ایک جج

    روحانی بابا جی بُہت خُوبصُورت بات کی آپ نے
    جانے کیوں زبیر جی کو مجھ پہ شک سا ہونے لگا ہے
     
  14. زبیراحمد
    آف لائن

    زبیراحمد خاصہ خاصان

    شمولیت:
    ‏6 فروری 2012
    پیغامات:
    307
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: خلافت راشدہ کا ایک جج

    ایک طرف کہاجارہاہے کہ"بھلا ہم کون ہوتے ہیں کسی کو برا یا بھلا کہنے والے"
    اوردوسری طرف برابھلاکہابھی جارہاہے جبکہ میں نے توخودامام عظام رح کے موقف کوپیش کرچکاہوں امام زیدرح،امام جعفر صادق رح حضرت علی رض وغیرہ کی روایات تواریخ میں موجودہیں کسی نے صحابہ کرام رض پرالزام نہیں لگایاہے نہ ہی کسی نے فرمایاکہ صحابہ رض میں سے بعض دنیاپرست ہوگئے۔اب اگرکوئی اپنی بات پرمصرہے تومیں کیاکرسکتاہوں۔
     
  15. زبیراحمد
    آف لائن

    زبیراحمد خاصہ خاصان

    شمولیت:
    ‏6 فروری 2012
    پیغامات:
    307
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: خلافت راشدہ کا ایک جج

    ایک طرف کہاجارہاہے کہ"بھلا ہم کون ہوتے ہیں کسی کو برا یا بھلا کہنے والے"
    اوردوسری طرف برابھلاکہابھی جارہاہے جبکہ میں نے توخودامام عظام رح کے موقف کوپیش کرچکاہوں امام زیدرح،امام جعفر صادق رح حضرت علی رض وغیرہ کی روایات تواریخ میں موجودہیں کسی نے صحابہ کرام رض پرالزام نہیں لگایاہے نہ ہی کسی نے فرمایاکہ صحابہ رض میں سے بعض دنیاپرست ہوگئے۔اب اگرکوئی اپنی بات پرمصرہے تومیں کیاکرسکتاہوں۔
     
  16. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: خلافت راشدہ کا ایک جج

    السلام علیکم۔
    پہلی گذارش تو یہ ہے کہ ہمیں دھاگے کے موضوع کے مطابق ہی بات کرنا چاہیے۔ موضوع سے ہٹ کر لایعنی مباحث سے پرہیز کرنا چاہیے۔
    دوسری بات یہ کہ خواہ مخواہ الزام در الزام لگانے کی بجائے مستند حوالہ جات کے ساتھ بات کرنا چاہیے۔

    والسلام علیکم۔
     
  17. زبیراحمد
    آف لائن

    زبیراحمد خاصہ خاصان

    شمولیت:
    ‏6 فروری 2012
    پیغامات:
    307
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: خلافت راشدہ کا ایک جج

    گزارش یہ ہے کہ یہ حوالے آپ کس سے مانگ رہے ہیں مجھ سے یا میرے فاضل دوست سے وضاحت فرمائیے۔
     
  18. ابو محمد رضوی
    آف لائن

    ابو محمد رضوی ممبر

    شمولیت:
    ‏19 فروری 2012
    پیغامات:
    52
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: خلافت راشدہ کا ایک جج

    قاضی شریح حسینی ھیں،کیونکہ ان کا کردار حسینی ھے۔البتہ انکو نہ ماننے والے اپنا حسینی ھونا ثابت کریں ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
    1::قاضی شریح وہ ھیں جنہوں نے امام مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ (جنہیں واقعہ کربلاء سے چند دن پہلے امام حسین رضی اللہ عنہ نے کوفہ بیھجا تھا) کے دو ننھے بچوں کو پناہ دی، ان کھانا دیا ،انھیں لباس پیش کیا اور انھیں مدینہ شریف کے لیے اپنی تئیں بحفاظت بھیجنے کا بندوبست فرمایا
    بحوالہ
    1: البدایہ والنھایہ،
    2: فضائل علی المرتضی لامام شعیب النسائی
    2::صحابی کہتے ھی اسے ھیں کہ جسکا خاتمہ بالخیر ھو یہ شرط ھے،تعریف ملاحظہ فرمائیں۔
    من رای النبی صلی اللہ علیہ وسلم بالایمان و مات بالایمان
    یعنی وہ شخص جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حالت ایمان میں
    دیکھا اور ایمان پر خاتمہ ھوا وہ صحابی ھے
    بحوالہ:
    1: نخبۃ الفکر
    2:کتاب التعریفات لسید میر
    3:کشف الظنوں لحاجی خلیفہ
    3::کوئی صحابی خطاء پر نہیں ھو سکتا ،چہ جائے کہ کوئی ظلم کا مرتکب ھو. العیاذ باللہ ،اصحابی کالنجوم بایھم اقتدیتم اھتدیتم میرے صحابہ ستاروں کی مانند ھیں جسکے بھی پیچھے چلو گے ھدایت پاجاو گے اور یہ بھی فرمایا کہ مثل اھل بیتی کسفینۃ نوح من رکبھا نجا و من تخلف عنھا غرق اور اھل بیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مثال کشتی نوح والی کہ جو اس میں بیٹھا تھا بچا تھا جو نہیں بیٹھا وہ غرق ھو گیا الحدیث
    بحوالہ صحاح و دیگر بے شمار کتب حدیث
    ھاں یہ بات طے کہ خانوادہ اھل بیت کو کرب وبلاء میں جو اذیتیں دیں گئیں وہ شیعہ کے ھاتھوں تھی اللہ سمجھ عطا ء فرمائے مزید حوالوں کی ضرورت ھوئی تو بندہ حاضر ھے۔
    نوٹ:::::؛؛ بعض لوگ ایمان کہ مسئلے میں صلح جوئی کے متلاشی رھتے ھیں،جب کوئی ایمان پر وار کرتا ھے تو خاموشی اختیار کرنے کا گناہ لکہ لیا جاتا ھے یہ اک لمحہ فکریہ ھے امید ھے کہ وہ دوست سمجھ گئے ھوں گے۔
     
  19. زبیراحمد
    آف لائن

    زبیراحمد خاصہ خاصان

    شمولیت:
    ‏6 فروری 2012
    پیغامات:
    307
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: خلافت راشدہ کا ایک جج

    اگرآپ کاروئے سخن میری طرف ہے توآپ کومیرامضمون "اہل بیت رح کاقرب صحابہ کرام رض سے"کوپڑھ لیں آپ کومیراجواب مل جائے گا۔
     
  20. ابو محمد رضوی
    آف لائن

    ابو محمد رضوی ممبر

    شمولیت:
    ‏19 فروری 2012
    پیغامات:
    52
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: خلافت راشدہ کا ایک جج

    نہیں بھیا آپ تو جس عقیدہ کے حامل ھیں میرے سر کے تاج ھیں۔میرا جو نشانہ تھا وہ آپ نہیں ، جبکہ میرا نشانہ آپ سمجھے بھی نہیں۔
     
  21. عباس حسینی
    آف لائن

    عباس حسینی ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2009
    پیغامات:
    392
    موصول پسندیدگیاں:
    23
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: خلافت راشدہ کا ایک جج

    ابھی تک کسی محترم نے اس سوال کا جواب نھیں دیا۔ ۔ ۔ پس ھر اس شخص سے اعلان برائت کرین۔ ۔ ۔ چاھے اس کا کردار جس حوالے سے بھی ھو۔ ۔ چاھے وہ قتل کا فتوی دے یا قتل میں شریک ھو۔
     
  22. الکرم
    آف لائن

    الکرم ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جون 2011
    پیغامات:
    3,090
    موصول پسندیدگیاں:
    1,180
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: خلافت راشدہ کا ایک جج


    عباس حسینی جی
    میں نے کربلا کی مکمل تاریخ نہیں پڑہی
    مگر میرا اپنا مسلک یہ ہے کہ اس واقع میں ہر وہ شخص جو کسی بھی طرح سے شہادتِ امامِ حُسین علیہ السلام میں شریک تھا، چاہے اس نے اس پر صرف ہلکی سی خُوشی ہی کیوں نہ کی ہووہ لعنتی ہے
    مردود ہے ہمارا اُس سے کوئی تعلق نہ ہے چاہے وہ کتنا بڑا ہی کیوں نہ ہو۔
     
  23. عباس حسینی
    آف لائن

    عباس حسینی ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2009
    پیغامات:
    392
    موصول پسندیدگیاں:
    23
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: خلافت راشدہ کا ایک جج

    احسنت الکرم جی!
    لیکن بعض حضرات اس معاملے میں بخل سے کام لیتے ھیں۔ ۔ سب کچھ معلوم ھوتے ھوئےبھی لعنت کرنے سے کتراتے ھیں۔ ۔ ۔اب یزید پلید کا ھی کردار لیجیے۔ ۔ ۔کیا قتل حسین میں یزید کے کردار پر کسی کو شک ھے؟؟
    کیا اس میں کسی کو شک ھے کہ قاضی شریح‌قتل حسین کا حکومتی فتوی جاری کیا تھا۔
     
  24. حارث عمیر لطیف خان
    آف لائن

    حارث عمیر لطیف خان ممبر

    شمولیت:
    ‏12 جنوری 2012
    پیغامات:
    69
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: خلافت راشدہ کا ایک جج

    السلام علیکم! جی میرا بات کرنا اس محاورے کے مصداق جائے گا کہ چھوٹا منہ اور بڑی بات لیکن میں پھر بھی کوشش کروں گا کہ میری اصلاح ہو سکے!
    جہاں تک سید الشہدا سیدنا حضرت امام حسین کی بات ہے تو اگر آپ ان کو صاحب امر مانتے ہیں تو پھر آپ نا تو ان کو مظلوم کہہ سکتے ہیں اور نا ہی ان کی شہادت پر افسوس کا اظہار کر سکتے ہیں۔ کیونکہ صاحب امر کی اجازت کے بغیر تو ایک پتہ بھی نہیں ہلتا۔ اور جہاں تک فتویٰ کی بات ہے تو اس پہ مجھے حضرت سلطان باہو صاحب کا ایک شعر آتا ہے :۔
    جے کر دین علم وچ ہوندا، تاں سر نیزے کیوں چڑھدے ہو؟
    اٹھارہ ہزار جو عالم ہا، اگے حسین دے مردے ہو،
    جے کر مندے بیعت رسولی، پانی بند کیوں کردے ہو ؟
    صادق دین تنہاں دے باہو، جیہڑے سر قربانی کردے ہو!
     
  25. حارث عمیر لطیف خان
    آف لائن

    حارث عمیر لطیف خان ممبر

    شمولیت:
    ‏12 جنوری 2012
    پیغامات:
    69
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: خلافت راشدہ کا ایک جج

    امید کرتا ہوں کہ اس شعر سے محترم عباس حسینی صاحب کو بھی جواب مل گیا ہو گا اور باقی ساتھیوں کو بھی کہ آپ تو ایک فتویٰ کو لے کر بیٹھے ہیں وہاں اٹھارہ ہزار عالم تھے جنہوں نے یہ فتویٰ دیا تھا ۔
     
  26. زبیراحمد
    آف لائن

    زبیراحمد خاصہ خاصان

    شمولیت:
    ‏6 فروری 2012
    پیغامات:
    307
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: خلافت راشدہ کا ایک جج

    سب کچھ معلوم ھوتے ھوئےبھی لعنت کرنے سے کتراتے ھیں۔
    میں جوباتیں کرنے والاہوں مجھے اندیشہ ہے کہ وہ آپ کواب اچھی نہیں لگیں گی لیکن جوحقائق ہیں اسے بیان کرنااب اس گھڑی میں،،،میں اپنی مجبوری سمجھتاہوں جومیں نہیں چاہتاتھالیکن جناب نے پلیدوغیرہ جیسے الفاظ استعمال کرکے مجھے مجبورکردیاکہ اب میں بھی حقائق بیانی مختصرن کرلوں
    آپ لعنت کرنے سے کیوں کترائیں گے شیعہ صاحبان نے توحضرت علی رض پرزنابالجبرکادعوی بھی کیاہے دیکھئے اصول کافی جلد 5کتاب نکاح۔
    انتہائی شرمناک ایک روایت کتاب سلیم بن قیس کوفی صفحہ 197میں ہے کہ (دل تھام کے لکھ رہاہوں) حضرت علی رض حضرت عائشہ رض اورآپ ص کے درمیان سویاکرتے تھے۔
    جب شیعہ حضرات نے اپنے اماموں رح کے شان میں ایسی ایسی گستاخیاں کی ہیں توآپ کی طرف سے یہ مطالبہ کہ"بعض حضرات اس معاملے میں بخل سے کام لیتے ھیں۔ ۔ سب کچھ معلوم ھوتے ھوئےبھی لعنت کرنے سے کتراتے ھیں۔ " حیرت کاباعث نہیں ہے۔
    آپ یزیدکوپلیدکہتے ہیں جبکہ شیعیت نے تواماموں رح کوبھی نہیں بخشاہے۔شیعہ اماموں کی شہادت پرافسوس بھی کرتے ہیں اوردوسری طرف انکی ایسی توہین بھی کرتے ہیں۔خداکی پناہ۔۔۔۔۔
     
  27. زبیراحمد
    آف لائن

    زبیراحمد خاصہ خاصان

    شمولیت:
    ‏6 فروری 2012
    پیغامات:
    307
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: خلافت راشدہ کا ایک جج

    استغفراللہ
     
  28. عباس حسینی
    آف لائن

    عباس حسینی ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2009
    پیغامات:
    392
    موصول پسندیدگیاں:
    23
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: خلافت راشدہ کا ایک جج

    محترم زبیر صاحب!
    مجھے ابھی تک سمجھ نہیں آئ کہ آپ یزید کا دفاع کیوں کر رہے ہیں؟ آپ کو اپنے تین سالہ دور میں کرنے والے یزید کے کارنامے یاد نہیں ہیں؟؟ تاریخ کی کتابوں میں 61 ہجری سے 63 تک کے واقعات پڑھ لیں۔ کیوں اندھے تعصب کا اظہار کر رہے ہیں؟؟ بس منہ سے یہی دعا نکلتی ہے کہ اللہ آپ کو یزید کے ساتھ محشور کرے اور ہمیں مولا امام حسین علیہ السلام کے ساتھ۔

    باقی آپ کے سوال کا جواب یہ ہے ہم اپنے تمام اماموں کے معصوم ہونے کا اعتقاد رکھتے ہیں۔ ۔ اور ان سے کوئ بھی گناہ سرزد ہو نہیں سکتا۔ ۔ اس عقیدے کے خلاف موجود ہر روایت کو رد کرتے ہیں۔ ۔ ۔ چاہے وہ روایت ہماری اپنی کتابوں میں ہی کیوں نہ ہو۔ ۔ چونکہ ہمارے ہاں کوئ کتاب صحاح نہیں ہیں۔
    مسئلہ تو ان کو ہے جن کی صحاح کتابیں ہیں۔ ۔ اور سلمان رشدی نے اپنی کتاب میں انہی کتابوں سے صحیح روایات جمع کی تھی۔ ۔ ۔ ایسی روایات ۔ ۔ اف اللہ۔ ۔ رسول خدا کی شان میں؟؟؟ اک غیرت مند مسلمان نہیں پڑھ سکتا۔۔ آپ ان تمام روایات کو صحاح سے حذف کر دیں۔ ۔ اگر چاہے تو اگلی دفعہ مثال پیش کر سکتا ہوں۔ ۔
     
  29. زبیراحمد
    آف لائن

    زبیراحمد خاصہ خاصان

    شمولیت:
    ‏6 فروری 2012
    پیغامات:
    307
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: خلافت راشدہ کا ایک جج

    مجھے ابھی تک سمجھ نہیں آئ کہ آپ یزید کا دفاع کیوں کر رہے ہیں؟
    اب اگرمیں یہ کہوں گاکہ شیعوں کی کتاب رجال کشی میں یزیدکادفاع کیاگیاہے توآپ کہیں گے کہ میں مانتاہی نہیں تواسکاکیاجواب دیاجائے اورکیاجواب ہوناچاہیئے۔"امام غزالي سے سوال کيا گيا کہ اس شخص کے متعلق کيا حکم ہے، جو يزيد پر لعنت کرتا ہے؟ کيا اس پر فسق کا حکم لگايا جاسکتا ہے؟ کيا اس پر لعنت کا جواز ہے؟ کيا يزيد في الواقع حضرت حسين کو قتل کرنے کا ارادہ رکھتا تھا يا اس کا مقصد صرف اپني مدافعت تھا؟ اس کو "رحمۃ اللہ عليہ " کہنا بہتر ہے يا اسے سکوت افضل ہے؟"

    امام غزالي نے جواب ديا مسلمان پر لعنت کرنے کا قطعاً کوئي جواز نہيں، جو شخص کسي مسلمان پر لعنت کرتا ہے وہ خود ملعون ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمايا ہے:

    "مسلمان لعنت کرنے والا نہيں ہوتا۔" علاوہ ازيں ہميں تو ہماري شريعت اسلاميہ نے بہائم (مسلمانوں) تک پر لعنت کرنے سے روکا ہے تو پھر کسي مسلمان پر لعنت کرنا کس طرح جائز ہوجائے گا؟ جبکہ ايک مسلمان کي حرمت (عزت) حرمت کعبہ سے بھي زيادہ ہے جيسا کہ حديث نبوي ﷺ ميں مذکور ہے۔ (سنن ابن ماجہ)

    آپ کو اپنے تین سالہ دور میں کرنے والے یزید کے کارنامے یاد نہیں ہیں؟؟
    مثلاکون سے کارنامے؟؟؟؟کسی ایک یادوکی نشاندہی فرمادیجئے۔
    تاریخ کی کتابوں میں 61 ہجری سے 63 تک کے واقعات پڑھ لیں۔ کیوں اندھے تعصب کا اظہار کر رہے ہیں؟؟ بس منہ سے یہی دعا نکلتی ہے کہ اللہ آپ کو یزید کے ساتھ محشور کرے اور ہمیں مولا امام حسین علیہ السلام کے ساتھ۔
    جبکہ آپ ص کی شریعت یہ ہے کہ آپ ص نے باوجودطائف کے لوگوں کے برے سلوک کے انہیں بددعانہیں کی میری دعاہے کہ خداآپ کوشریعت محمدی ص کی پیروی کرنے کی ہدایت دے۔
    باقی آپ کے سوال کا جواب یہ ہے ہم اپنے تمام اماموں کے معصوم ہونے کا اعتقاد رکھتے ہیں۔ ۔ اور ان سے کوئ بھی گناہ سرزد ہو نہیں سکتا۔ ۔ اس عقیدے کے خلاف موجود ہر روایت کو رد کرتے ہیں۔
    بہت خوب توان شیعہ کتب کوجلاکرراکھ کردیں تاکہ ثبوت مل جائے کہ آپ ان سب روایتوں کورد کرتے ہیں۔
    چونکہ ہمارے ہاں کوئ کتاب صحاح نہیں ہیں۔
    یہ درست نہیں اصول کافی وغیرہ کوشیعہ حضرات اپنی ثقہ کتابیں تصورکرتے ہیں۔جہاں تک آپ نے صحیحین کی بات کی ہے تومعذرت کے ساتھ آپ کے توعقیدے میں قرآن بھی تحریف شدہ ہے۔[اصول کافی جلددوم ص 189 روایت ازامام جعفر صادق رح سامع محمد بن یحیی۔۔۔۔۔۔۔امیدہے روایت کی صحت کابہانہ بھی اب جناب کاختم ہوگیاہوگا]
    سلمان رشدی نے اپنی کتاب میں انہی کتابوں سے صحیح روایات جمع کی تھی۔
    سلمان رشدی توخوش ہوجائے گاکہ جن روایات کوتوڑمروڑکراس نے پیش کیاتھااورجسپر امام خمینی سمیت سب کاردپرفتوی موجودہے اسے آپ صحیح روایات فرمارہے ہیں اورکسی کی نہ سہی سلمان رشدی کی دعائیں آپ کوضرورلگے گی۔
    اگر چاہے تو اگلی دفعہ مثال پیش کر سکتا ہوں۔ ۔
    اورانشائ اللہ آپ کوآپ کی ان مثالوں کاجواب بھی دے دوں گا۔
     
  30. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: خلافت راشدہ کا ایک جج

    زبیر صاحب علم تو شیطان کے پاس بھی بہت تھا مگر اس کا کیا فائدہ ہوا ، نواسہ رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے دشمنی رکھنے والا کہاں کا مسلمان ہے ، اگر وہ مسلمان ہے تو اس سے محبت کرنے والے بھی یزیدی ہیں -
    اس لڑی کو مقفل کیا جارہا ہے آپ نے آئندہ ایسے ہی اختلافی مسائل کو جاری رکھا تو مجبوراً بین کرنا پڑے گا
     
موضوع کا سٹیٹس:
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

اس صفحے کو مشتہر کریں