1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

خان صاحب کے وعدے اور حقیقت .... خالد مسعود خان

'کالم اور تبصرے' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏3 مارچ 2021۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    خان صاحب کے وعدے اور حقیقت .... خالد مسعود خان

    یقین کریں مجھے عمران خان صاحب سے یہ اختلاف ہرگز نہیں کہ ان کے دور میں ملک میں سونا مہنگا ہو گیا ہے۔ یہ باقی ساری دنیا میں بھی اسی نسبت سے مہنگا ہوا ہے جس نسبت سے پاکستان میں ہوا ہے۔ امریکہ میں بھی سونے کی قیمت میں اسی طرح اضافہ ہوا ہے جس طرح پاکستان میں بلکہ صورتحال یوں ہے کہ ایک دن میں نے پاکستان اور امریکہ میں سونے کی قیمت کا موازنہ کیا تو معلوم ہوا کہ امریکہ میں سونا پاکستان کی نسبت زیادہ مہنگا ہے۔ یہی حال ڈالر کی قدر میں اضافے کا ہے۔ جانے والی حکومتوں نے اس کی قدر کو مصنوعی طریقے سے نیچے باندھ کر رکھا ہوا تھا۔ جونہی اس کو زمینی حقائق کے مطابق ڈھیل دی گئی ‘ روپے کی اصل اوقات سامنے آ گئی۔ روپے کی قیمت کو مصنوعی طریقے سے قائم رکھنے کے پیچھے اقتصادی مضبوطی‘ زرمبادلہ کے ذخائر یا باہر سے آنے والے ڈالروں کی برسات کا کوئی عمل دخل نہیں تھابلکہ یہ اسحاق ڈار کی چکر بازیاں تھیں جنہوں نے ویسا ہی کام سر انجام دیا جس طرح سٹیج پر جادوگری کرنے والا مداری نظر بندی کے ذریعے ناظرین کو وقتی طور پر بیوقوف بنانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔
    مہنگائی کے بھی کئی عوامل ہیں۔ روپے کی قدر میں کمی کے باعث ساری درآمدی اشیاکی قیمتیں اسی نسبت سے بڑھ گئی ہیں جس تناسب سے روپے کی قدر میں کمی ہوئی ہے اور اس کا اثر درآمد کردہ اشیا سے جڑی ہوئی ہر چیز پر ہوتا ہے۔ تاہم اس میں حکومت کی نا اہلی اور قیمتوں کے کنٹرول میں مکمل ناکامی کا بھی اتنا ہی عمل دخل ہے جتنا کہ ان عوامل کا جو حکومت کے کنٹرول سے باہر ہیں۔ لیکن فی الحال اس سے زیادہ مایوسی اس بات پر ہے کہ عمران خان حکومت میں آنے کے بعد وہ ہرگز ثابت نہیں ہوئے جس کی لوگوں کو توقع تھی اور جس امید پر لوگوں نے تبدیلی کیلئے اپنا سب کچھ عمران خان پر نچھاور کر دیا تھا۔2018ء کے الیکشن کے فوراً بعد میں امریکہ جا رہا تھا تو جہاز میں کئی نوجوان ملے جو محض عمران خان کو ووٹ ڈالنے کیلئے امریکہ سے پاکستان آئے تھے۔ یہ تو صرف اس فلائٹ کی بات ہے جس میں میں سفر کر رہا تھا۔ یہ سب لوگ پاکستان میں اس تبدیلی کے خواہاں تھے جس کا خواب انہیں عمران خان صاحب نے دکھایا تھا۔ تب لوگوں کو اس بات کا یقین تھا کہ اس ملک میں جو شخص تبدیلی لا سکتا ہے وہ عمران خان کی شکل میں ان کے سامنے آ گیا ہے۔ لوگوں کو یقین تھا کہ عمران خان کو ماضی کے حکمرانوں پر کئی حوالوں سے فوقیت حاصل ہے۔ عمران خان موروثی سیاست کا تختہ کر دے گا‘ کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے گا‘ ایماندار لوگوں کی ٹیم بنائے گا‘ اہل افراد پر مشتمل کابینہ تشکیل دے گا‘ اداروں کو درست کر دے گا‘ چھوٹی کابینہ بنائے گا‘پرانے چوروں اور لٹیروں سے اپنی پارٹی کو محفوظ رکھے گا‘ میرٹ کا بول بالا ہو گا‘ عوام کو مختلف حیلوں بہانوں سے لوٹنے کے عمل کا تیا پانچہ کر دے گا‘ وی آئی پی کلچر کا خاتمہ کر ے گا‘ غلط بات پر کسی قسم سمجھوتہ نہیں کرے گا‘ کسی کے آگے جھکے گا نہیں اور اسی قسم کی اور بہت سی امیدیں۔
    جیسا میں نے شروع میں لکھا ہے مجھے عمران خان سے ان باتوں کے حوالے سے کوئی اختلاف نہیں جو ان کے کنٹرول سے باہر ہیں‘ جو عالمی سطح پر وقوع پذیر ہو رہی ہیں اور جو سابقہ حکومت نے اپنی شعبدہ بازی سے کسی حد تک کنٹرول کر رکھی تھیں۔ مجھے تو سارا افسوس ان باتوں کا ہے جو عمران خان صاحب کر سکتے تھے اور نہیں کیں۔ گلہ تو اس بات کا ہے کہ عمران خان نے جو کچھ کہا اس کے عین الٹ کیا۔ ملال تو اس چیز کا ہے کہ اپنی ہر بات سے یوٹرن لینے پر کسی قسم کا Regret محسوس کرنے کے بجائے نہ صرف اسے اپنی خوبی کے طور پر بیان کیا بلکہ اس پر فخر کیا۔اور اپنی ہر اس بات کی نفی کی جس کی بنا پر انہوں نے ان لوگوں کو بھی اپنی جانب کھینچا تھا جو پاکستان کی سیاست سے بالکل مایوس تھے اور اس سارے عمل سے کنارہ کشی اختیار کیے بیٹھے تھے۔ دکھ تو اس بات کا ہے کہ عمران خان نے ان لوگوں کو مایوس کیا ہے جو ان سے تبدیلی کی امید باندھے بیٹھے تھے۔ شکوہ تو یہ ہے کہ اب لوگ تبدیلی کے نعرے پر یقین نہیں کریں گے اور دوبارہ اس انتخابی نظام پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے گھر بیٹھے رہیں گے یا انہی چوروں اور لٹیروں کی طرف لوٹ جائیں گے جن سے جان چھڑوانے کی امید انہیں ''تھرڈ آپشن‘‘ کی طرف لے گئی تھی۔
    سب امیدوں کا خون کس طرح ہوا؟ خان صاحب کہتے تھے میں موروثی سیاست کا خاتمہ کر دوں گا۔ اس موروثی سیاست سے ان کی مراد تھی کہ پیپلز پارٹی میں ذوالفقار علی بھٹو کے بعد بے نظیر بھٹو‘ اس کے بعد آصف علی زرداری اور پھر آصفہ اور بلاول۔ مسلم لیگ (ن) میں پہلے میاں نواز شریف پھر شہباز شریف‘ اس کے بعد حمزہ شہباز اور اب مریم نواز شریف۔ یہ سچ ہے کہ خان صاحب کے اپنے دونوں صاحبزادے تو خیر سے ملک سے باہر ہیں لیکن پارٹی کے اندر یہ حال ہے کہ پرویز خٹک وزیر دفاع ہیں‘ ان کا بھائی لیاقت خٹک رکن صوبائی اسمبلی ہے اور ابھی تازہ واردات کے طفیل وزارت سے فارغ ہوا ہے۔ پرویز خٹک کا داماد نوشہرہ سے ایم این اے ہے۔ بھتیجی ساجدہ بیگم خواتین کی مخصوص نشستوں پر صوبائی اسمبلی کی رکن ہیں۔ بیٹا ابراہیم خٹک ممبر صوبائی اسمبلی ہے اور خواہرِنسبتی نفیسہ عنایت اللہ خان خٹک خواتین کی مخصوص نشست پر رکن قومی اسمبلی ہیں۔ گزشتہ دنوں قومی اسمبلی کی نشست این اے 75 پر تحریک انصاف کی شکست کی وجہ یہ ہے کہ لیاقت خٹک اس قومی نشست پر بھی اپنے خاندان کے کسی فارغ بچ جانے والے افراد کیلئے ٹکٹ کا خواہشمند تھا‘ یاد رہے ضلع اور تحصیل کی نظامت بھی اسی گھر میں تھی۔ یہ تو معاملہ ہے صرف موروثی سیاست کا۔ ابھی اس میں جہانگیر ترین کی ہمشیرہ سیمی زیدی کی سینیٹری کا کوئی ذکر نہیں۔
    سترہ ارکان پر مشتمل صاف ستھری کابینہ کے دعوے کا یہ حال ہے کہ کابینہ کے ارکان کی تعداد مع مشیران و معاونین خصوصی پچاس سے زائد ہے اور اس میں غالب اکثریت ان لوگوں کی ہے جنہیں ماضی میں خان صاحب کرپٹ‘ چور اور ڈاکو قرار دیتے تھے۔ یہ ساری فہرست ایک پورے کالم کی متقاضی ہے تاہم ''یکے از مشتے‘‘ چودھری پرویز الٰہی‘ شیخ رشید‘ فہمیدہ مرزا اور حفیظ شیخ کا نام لیا جا سکتا ہے۔ایک کروڑ نوکریوں اور پچاس لاکھ گھروں کو تو چلیں مذاق سمجھ کر معاف کیا جا سکتا ہے لیکن میرٹ پر ''رائٹ پرسن‘ فار رائٹ جاب‘‘ کا حشر نشر دیکھنے کیلئے صرف سردار عثمان بزدار اور محمود خان کی وزارتِ عالیہ پر تقرریاں ہی کافی سے زیادہ ہیں۔ اور بات بات پر ترقی یافتہ مغربی ممالک کی مثالیں دینے والے خان صاحب نے قومی اسمبلی سے اپنے جھوٹ کے طفیل متوقع طور پر نا اہل ہونے والے ایک رکن سے غلط بیانی پر جواب طلبی اور سرزنش کر کے قومی اسمبلی کی نشست سے استعفیٰ لینے کے بجائے انہیں ایک بار پھر اکاموڈیٹ کرنے کی غرض سے سینیٹ کی سیٹ پر ٹکٹ عطا کر دی ہے اور ہاں! سینیٹ سے یاد آیا۔ میرٹ کی دھوم مچانے والے خان صاحب نے بلوچستان سے پہلے عبدالقادر کو سینیٹ کا ٹکٹ جاری کیا۔ میڈیا میں تنقید ہوئی تو یہ ٹکٹ واپس لے کر ظہور آغا کو دے دیا۔ عبدالقادر نے بلوچستان عوامی پارٹی سے ٹکٹ لے لیا۔ جونہی عبدالقادر کو دوسری پارٹی سے ٹکٹ ملا پی ٹی آئی نے اپنے امیدوار ظہور آغا کو سینیٹ کے انتخابات سے دستبردار کروا لیا تا کہ عبدالقادر کا راستہ صاف ہو سکے۔ اسے کہتے ہیں میرٹ اور یہ ہیں وہ اخلاقی اقدار جن کا ذکر خان صاحب کسی زمانے میں روزانہ ٹیلی وژن پر بیٹھ کر کیا کرتے تھے اور خوش گمان لوگ اس پر سر دھنتے تھے۔


     

اس صفحے کو مشتہر کریں