1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

خاندانی و ہمسائیگی نظام کی اہمیّت

'آپ کے مضامین' میں موضوعات آغاز کردہ از زیرک, ‏3 نومبر 2012۔

  1. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    خاندانی و ہمسائیگی نظام کی اہمیّت​


    از؛ زیرک

    پاکستان کا مشترکہ خاندانی نظام اپنی خوبیوں کی وجہ سے دنیا میں اپنی مثال آپ ہے، جہاں ایک دوسرے کا خیال رکھنا، ایک دوسرے کے کام آنا، غرض کہ ایسی کئی اور مثالیں دی جا سکتی ہیں جن کا مغرب کی دنیا میں کہیں نام و نشان نہیں ملتا۔ گو کہ اب مشرقی اقدار بھی پہلے جیسی نہیں رہیں۔ دیکھا دیکھی میں لوگ مغرب زدہ ہوتے جا رہے ہیں۔ مجھے خود مغرب میں رہتے ہوئے سولہ سترہ سال ہو گئے، یہاں خوبیاں بھی ہیں، یہاں کے انتظامی نظام کی اچھی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ مگر ہمارا موضوع خاندانی نظام ہے جو یہاں مغرب میں تو قریباً ختم ہو چکا ہے، مگر بدقسمتی سے پاکستان میں بھی اب یہ ختم ہوتا جا رہا ہے۔ مشرق میں گھر والوں کے ساتھ ساتھ ہمسایہ بھی گھر کے افراد جیسی اہمیت کا حامل ہوتا ہے کہتے ہیں کہ آپ دشمن، دوست بدل سکتے ہیں مگر ہمسایہ نہیں، اہلِ خانہ اگر کسی وجہ سے پاس نہیں تو ہمسائے کی خدمات اپنی جگہ مسلّم ہیں۔ مگر مغرب میں ہمسایہ سے تعلقات شاذ و نادر ہی دیکھنے میں آتے ہیں۔ ہر کوئی اپنی ذاتی زندگی میں مست ہے اور کسی اور کی دخل اندازی برداشت نہیں کرتا۔ جب آپ صحت مند ہوں تو یہ سب چل جاتا ہے، مگر بقول شخصے؛
    پڑیے گر بیمار تو کوئی تو ہو تیماردار​
    پھر تو جناب! آپ بھول جائیں کہ یہ عیاشی یہاں میسّر ہوگی، گولی کھائیں، کمبل اوڑھ کر بستر پر ڈھیر ہو جائیں اور دعا کریں کہ آرام آ جائے۔ مغرب میں انسانوں سے زیادہ جانوروں سے محبت کا رواج ہے، اب تو یہ عالم ہے کہ یہاں لوگ اپنے والدین کی وفات پر رنجیدہ نہیں ہوتے، حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ اپنے کتے، بلی کے بیمار ہونے پر دھاڑیں مار مار کے روتے نظر آئیں گے۔ اسٹوروں میں پالتو جانوروں کی خوراک لیبارٹری ٹیسٹ ہونے کے بعد سپلائی کی جاتی ہے۔ خوراک کی پیکنگ اتنی خوبصورت اور دیدہ زیب ہوتی ہے کہ اگر ہم جیسے تیسری دنیا کا کوئی غریب انسان دیکھے تو کتوں کی غذائیت سے بھرپور عمدہ خوراک دیکھ کر اس کا جی بھونکنے کو کر اُٹھے۔ جانوروں کے علاج معالجے کے لئے میں نے یہاں جو ویٹرنری کلینک اور اینیمل ہسپتال دیکھے تو میرا دل اپنے ملک کے انسانوں کے ہسپتال یاد کر کے وہاں کے مریضوں کے لئے تڑپ اٹھا کہ کاش یہ سہولتیں ہمارے پاکستانیوں کو بھی میسّر ہوتیں۔ یہاں اولاد سے زیادہ جانور جائیداد میں سے حصہ وصول کرتے ہیں۔ ہاں جی کیوں نہ ہو آخر یہ جانور برتن تو صاف کر ہی دیتے ہیں، بوڑھے ماں باپ کی طرح بستر تو گندہ نہیں کرتے، مگر وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ کبھی جب وہ بچے تھے تو ان کی گندگی انہی ماں باپ نے صاف کی تھی۔ مگر، قصوروار ماں باپ بھی ہیں جو پندرہ سولہ سال کی عمر کے بچوں کو یہ کہہ کر آزاد کر دیتے ہیں کہ "اب اپنا راستہ لو، ہمیں ہماری زندگی جینے دو"۔ اسی خاندانی و ہمسائیگی نظام سے دوری سے بہت سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ جوانی میں قدم رکھتے بچے بچیوں کو جب پیٹ بھر کھانا اور تن کے لئے لباس میسّر نہیں آئے گا تو پھر یہ بے راہ روی کا شکار تو ہوں گے ناں۔ بھوک، عزت کا احساس مٹا دیتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ مغرب میں بِن بیاہی ماؤں کے تعداد دنیا میں سب سے زیادہ ہے اور ان میں سے زیادہ تر تیرہ سے سترہ سال کی عمر کی لڑکیاں ہیں جو اس معاشرے میں بے سہارا طبقوں میں پہلے نمبر پر آتی ہیں۔
    مشترکہ خاندانی نظام کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ تمام گھروں میں بڑی عمر کی مائیں، چچیاں، تائیاں، دادیاں، نانیاں وغیرہ موجود ہوتی تھیں جو کم تجربہ کار ماؤں کی تربیت کیا کرتی تھیں۔ اگر بچوں کے ماں باپ دونوں کام کرتے ہیں یا کوئی ایک یا دونوں بیرونِ ملک روزگار کے سلسلے میں مقیم ہیں تو یہ تجربے کار عورتیں گھر پر ان بچوں کی دیکھ بھال اور تعلیم و تربیت میں ہاتھ بٹاتی تھیں، گھر کے بڑے مرد گھر سے باہر سے متعلق دیگر معاملات کو دیکھا کرتے تھے، یوں والدین کی کمی محسوس نہیں ہوتی تھی۔ جن گھروں میں یہ بزرگ موجود نہیں ہوتے تھے وہاں یہ فرائض ہمسائے انجام دیتے تھے۔ مگر دیکھا یہ گیا ہے کہ گزشتہ کچھ عرصہ سے ہمارا یہ خاندانی نظام پہلے جیسا نہیں رہا۔ ہم جہاں دوسرے معاملات میں انحطاط پذیر ہیں وہاں یہ خاندانی و ہمسائیگی نظام بھی پہلے جیسا نہیں رہا، یہ نظام بھی اب زوال پذیر ہے۔ اس کی وجہ سے جو چیک اینڈ بیلنس سسٹم تھا اب اس میں کمزوریاں ظاہر ہونا شروع ہو گئی ہیں۔ خاندانی نظام کی جگہ اب نفسہ نفسی نے لے لی ہے۔ ہر کوئی ترقی کرنا چاہتا ہے، مگر صرف اپنے لئے، بھائی بہنوں کی تربیت، ترقی اور بہتری اب ان کا دردِ سر نہیں رہا۔ ظاہری نمود و نمائش اب زندگی کا نصب العین بنتا جا رہا ہے۔ لوگ اب اپنے مفادات کے حصول کے لئے بھائی بہنوں کو دھوکہ دینے سے بھی نہیں چوکتے۔ جس کے پاس کچھ ہے وہ اس پر اِتراتا پھرتا ہے اور جس کے پاس کچھ نہیں ہے وہ کُڑھتا ہے یا اس جیسا بننے کے لئے اُلٹے سیدھے ہاتھ مارتا ہے۔ اور سب سے بُری بات جو دیکھنے میں آئی ہے وہ یہ ہے کہ ان لوگوں میں زیادہ تعداد جوان لڑکیوں کی ہے۔ مشترکہ نظام میں وقت پر شادی ہو جاتی تھی کیونکہ سب مل ملا کر یہ سب کچھ کر لیتے تھے، لیکن اب ماں باپ کے لئے اکیلے ایسا کرنا بہت دُشوار ہو گیا ہے۔ سب سے بڑی اور دلدوز حقیقت جنسی بے راہ روی ہے جس میں اچھے خاندانوں کی لڑکیاں بھی شامل ہیں۔ آج اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ مشترکہ خاندانی و ہمسائیگی نظام کو دوبارہ سے رائج کیا جائے۔ ایسا کرنے میں ہی ہماری فلاح ہے۔
     
  2. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: خاندانی و ہمسائیگی نظام کی اہمیّت

    بہت اچھی شئیرنگ جی
     
  3. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: خاندانی و ہمسائیگی نظام کی اہمیّت

    زیرک جی بہت خوب!
    ایک سنجیدہ معاشرتی المیے پر آپ نے بڑے اچھے طریقے سے اور مفصل مضمون لکھا۔
    آپ کا شکریہ۔ امید کرتا ہوں‌آپ کی طرف سے اچھی اچھی شیئرنگ موصول ہوتی رہیں‌گے۔
    خوش رہیں
    والسلام مع الاکرام
     
  4. زیرک
    آف لائن

    زیرک ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اکتوبر 2012
    پیغامات:
    2,041
    موصول پسندیدگیاں:
    1,017
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: خاندانی و ہمسائیگی نظام کی اہمیّت

    بلال جی، یہ واقعی ایک المیہ ہے کہ مادہ پرستی کی اس دوڑ میں اگر کسی کو ٹھیس پہنچ رہی ہے تو وہ ہماری اقدار ہیں، جن سے دوری سے یہ خانگی و ہمسائیگی نظام اب قریباً تباہی کے دھانے پر پہنچ چکا ہے اور اگر ہم نے اب بھی اسکی اہمیت کو نہ سمجھا تو پھر یہ باتیں صرف کتابوں کی حد تک ہی ملا کریں گی۔ انشاء اللہ جیسے ہی وقت ملتا ہے اور کوئی بات ذہن میں آتی ہے تو میں ضرور اس موضوع کو قلمبند کرنے کی کوشش کروں گا۔ حوصلہ افزائ کا شکریہ۔ خوش رہیں، آباد رہیں۔
     
  5. بزم خیال
    آف لائن

    بزم خیال ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 جولائی 2009
    پیغامات:
    2,753
    موصول پسندیدگیاں:
    334
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: خاندانی و ہمسائیگی نظام کی اہمیّت

    واقعی یہ ہمارا معاشرتی المیہ ہے کہ ہم ٹوٹ رہے ہیں۔ اندر سے بھی اور باہر سے بھی۔ جو باتیں آپ نے لکھیں مستقبل قریب یا بعید میں انجام یہی نظر آتا ہے۔
    مگر آج بھی کچھ اچھی مثالیں موجود ہیں جو باعث اطمینان ہیں۔ ہماری زمین کاشت کرنے والے چار کسان بھائیوں کے گھر میں بیک وقت 12 شادیاں اگلے اتوار طے پائی ہیں۔جن میں 7 لڑکوں کا ولیمہ ایک ہی روز ہے۔ 2 مزید دلہنیں بھی ان کی بھانجیاں ہی ہیں۔یعنی ایک شخص کے 7 پوتوں ، 5 پوتیوں اور 2 نواسیوں کی شادی آپس میں طے ہے۔ چاروں بھائی ایک حویلی میں رہائش پزیر ہیں۔ گھر الگ الگ ہیں مگر تین وقت کا کھانا ایک جگہ تیار کیا جاتا ہے۔ جو جائیداد انہوں نے بنائی اس کی مالیت آج کروڑوں میں ہے۔
     
  6. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: خاندانی و ہمسائیگی نظام کی اہمیّت

    الحمد للہ میرے والد صاحب پانچ بھائی تھے والد صاحب اللہ کو پیارے ہوگئے ہیں مگر میرے چاروں چچا ان کی اولاد ۔ میں میرے بچے اور میرے چچا زاد بھائیوں کے بچے ایک ہی گھر میں‌مقیم ہیں ، یہ ایک علیحدہ بات ہے کہ کھانا سب کا الگ الگ پکتا ہے مگر باہر کسی کو پتا نہیں ہم علیحدہ ہیں یا اکٹھے رہتے ہیں
     
  7. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: خاندانی و ہمسائیگی نظام کی اہمیّت

    زیرک جی ایک بہت اہم معاشرتی مسئلے پہ آپ نے لکھا اور بہت خوب لکھا ۔۔۔شکریہ
    بزم خیال جی آپ نے بھی بہت دلچسپ بات شیئر کی ۔۔۔تھینکس
     
  8. سمیع خان
    آف لائن

    سمیع خان ممبر

    شمولیت:
    ‏24 ستمبر 2014
    پیغامات:
    62
    موصول پسندیدگیاں:
    30
    ملک کا جھنڈا:
    بہت معیاری شئرینگ ہے ، شکریہ
     
    ھارون رشید نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں