1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

خاموشی کی جاذبیت

'سیرتِ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم' میں موضوعات آغاز کردہ از الکرم, ‏14 اگست 2011۔

  1. الکرم
    آف لائن

    الکرم ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جون 2011
    پیغامات:
    3,090
    موصول پسندیدگیاں:
    1,180
    ملک کا جھنڈا:
    خاموشی کی جاذبیت​



    کچھ لوگ بہت کم بولتے ہیں اور محفلوں یا بیٹھکوں میں انکی آواز خال خال ہی سنائی دیتی ہے۔ اگر ان لوگوں کا بغور مشاہدہ کیا جائے تو محض ان کے سر ہلتے ہوئے نظر آئیں گے یا پھر انہماک اور توجہ سے بھرپور آنکھیں یا پھر چہرے پر آئی ہوئی مسکراہٹ اور بدلتے ہوئے تأثرات۔۔۔ بات چیت کریں گے تو کبھی کبھار اور وہ بھی مختصر۔ ان سب باتوں کے باوجود بھی ان لوگوں کو پسند بھی کیا جاتا ہے اور یہ لوگ محفل کی جان بھی سمجھے جاتے ہیں۔
    معاشرے میں نمایاں اثر رکھنے والے اور کامیاب ترین لوگ ہمیشہ اچھے سامع اور دوسروں کی باتوں کو غور سے سننے والے لوگ رہے ہیں۔ زیادہ باتیں کرنا کبھی بھی کامیاب شخصیت کی علامت نہیں رہا اور نا ہی زیادہ باتیں کرنے والے لوگ با اثر ہوتے ہیں۔ بلکہ زیادہ بولنے والے کی گفتگو کے اختتام پر اُسکی کی ہوئی باتوں پر دلیلیں اور پھر وضاحتیں دینے کا کام شروع ہو جایا کرتا ہے۔
    ماہرین سماجی نفسیات کہتے ہیں کہ لوگوں کو محبت اور غور سے سننے والے اصل میں لوگوں کے دلوں پر حکومت کرنے کا راز جاننے والے لوگ ہوا کرتے ہیں اور لوگوں سے اُنکے تعلقات ہمیشہ ثمر آور ہوا کرتے ہیں۔
    ایک اچھا سامع ہونا بھی مہارت کا کام ہے۔ کچھ لوگ تو یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے بولنے کیلئے تو ایک زبان مگر سننے کیلئے دو کان بنائے ہیں تاکہ سُنا زیادہ اور بولا کم جائے۔ اگر آپ سننے کی عادت ڈالنے کا ارادہ کر ہی لیں تو یہ بات ضرور یاد رکھیں کہ چاہے بولنے والے کی بات پر آ پکو اعتراض ہی کیوں نا ہوا کرے اُسے بات پوری کرنے کا موقع دیا کریں۔
    مشہور مصنف سٹیفن کوفی اپنی کتاب (کامیاب ترین لوگوں کی سات عادتیں) میں ایک ایسے شخص کے ساتھ کی ہوئی اپنی گفتگو کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے جس کے اپنے بیٹے کے ساتھ تعلقات خراب تھے۔
    اُس آدمی نے سٹیفن کو بتایا: میں اپنے بیٹے کو سمجھ نہیں پا رہا، کیونکہ وہ میری بات سننا ہی نہیں چاہتا۔
    سٹیفن نے کہا: دیکھو، جو کچھ تم نے مجھے بتایا ہے میں اُسے اِن الفاظ میں ترتیب دیکر تمہیں بتاتا ہوں: تم اپنے بیٹے کو سمجھ ہی نہیں پا رہے کیونکہ تمہارا بیٹا تمہاری کوئی بات سُننا ہی نہیں چاہتا۔
    اُس آدمی نے کہا؛ جی، میری بات کا یہی مطلب تھا۔
    سٹیفن نے کہا: میں تمہاری بات کو تمہیں ایک اور انداز سے بتاتا ہوں کہ تم اپنے بیٹے کو سمجھ ہی نہیں پا رہے کیونکہ وہ تمہاری باتوں کو ہرگز سُننا ہی نہیں چاہتا۔
    اُس آدمی نے بیزاری سے کہا: جی جناب، میری بات کا یہی مطلب ہے۔
    سٹیفن نے پھر کہا: میرا تو خیال یہ بنتا ہے کہ تم کسی ایسے آدمی کو سمجھ ہی نہیں پا رہے جس کو تُم سُننا نہیں چاہتے۔
    اُس باپ کے منہ سے ایک آہ (صدمہ کی سی کیفیت سے) نکلی، پھر ایک طویل خاموشی کا وقفہ آیا، اُس نے پھر ایک بار کہا : اوہ ہ ہ ہ
    یہ باپ ایسے لوگوں میں سے ایک چھوٹی سی مثال ہے جو یہ کہہ کہہ کر نہیں تھکتے کہ مجھے تمہاری سمجھ ہی نہیں آ رہی، جبکہ حقیقت میں تو اُس نے نا تمہاری بات سنی ہے اور نا ہی آ پ کو اس قابل بنایا ہے کہ آپ بھی اُس کی بات کو سنو۔
    آئیے لگے ہاتھوں ایک قصہ سنیئے۔۔۔
    نبوت کے ابتدائی زمانے میں جب کہ مسلمانوں کی تعداد چند ایک ہی تھی، کفار زور و شور سے نبوت کو جھٹلانے کے ساتھ ساتھ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کو پاگل (مجنون) اور جادوگر جیسے طعنے دیکر طنز و تشیع کیاکرتے تھے۔ ایسے میں مکہ میں ایک شخص آیا جس کا نام ضماد تھا۔۔۔
    ضماد پیشے کے لحاظ سے طبیب تھا، جسمانی بیماریوں کے ساتھ ساتھ لوگوں کے پاگل پن اور اُن پر کیئے گئے جادو اور جنات کے اثرات کا بھی علاج کیا کرتا تھا۔
    ضماد لوگوں سے مل ملا کر ابھی بیٹھ ہی رہا تھا کہ شور سا اُٹھا؛ وہ دیکھو پاگل آ گیا۔۔۔۔
    ضماد نے پوچھا: کدھر ہے وہ پاگل شخص، ہو سکتا ہے اِسے میرے ہاتھوں شفا مل جائے۔
    لوگوں نے اُسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لا کھڑا کیا۔
    ضماد جب سرکار صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا تو کہا: اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)، میں ایسی بیماریوں کیلئے دم درود کرتا ہوں اور اللہ جسے چاہتا ہے میرے ہاتھوں سے شفا دے دیتا ہے، اگر کہو تو میں تمہارا علاج کر دوں؟
    اور ضماد لگا بولنے اپنے علاج، طریقہ علاج اور علاج سے شفا پانے والوں کے بارے میں، اور میرے سرکار صلی اللہ علیہ وسلم لگے سننے اُسکی باتوں کو، یہ بولتا جا رہا ہے اور سرکار سنتے جا رہے ہیں۔
    کیا آپ جاننا چاہتے ہیں کہ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کس شخص کو اس قدر توجہ سے سن رہے تھے؟
    جی ہاں؛ ایک کافر کو، اور کافر بھی وہ جو اُن کے پاگل پن کا علاج کرنا چاہتا تھا۔
    جب ضماد اپنی بات مکمل کر چکا تو سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا:
    [BLINK]إن الحمد للہ، نحمدہ و نستعینہ
    من یھدہ اللہ فلا مضل لہ و من یضلل فلا ھادی لہ،
    و أشھد اَن لا الہ إلا اللہ وحدہ لا شریک لہ،[/BLINK]

    ضماد نے حیرت کے ایک جھٹکے سے جھرجھری سی لی اور کہا؛ اپنی بات کو ذرا پھر سے دُہرانا، اور سرکار صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کہی ہوئی بات کو ایک بار پھر دُہرا دیا۔
    ضماد نے کہا؛ اللہ کی قسم، میں نے تعویذ و گنڈے کرنے والوں اور کاہنوں کے کلام بھی سنے ہیں اور جادو گروں کے منتر بھی، میں نے شاعروں کے کلام بھی سُنے ہیں مگر ایسا کلام کبھی نہیں سُنا جو سمندروں سے زیادہ گہرا اثر رکھتا ہو۔ کیا تم (صلی اللہ علیہ وسلم) مجھے اپنا ہاتھ نہیں دوگے کہ اُسے تھام کر اپنے اسلام لانے کیلئے بیعت کر لوں؟
    سرکار صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ ضماد کی طرف بڑھایا اور ضماد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دُہرا رہا تھا (أشھد أن لا الہ إلا اللہ و أشھد أن محمد عبدہ و رسولہ)۔
    سرکار کو جب پتہ چلا کہ ضماد اپنے قبیلے کا معزز اور عزت و افتخار والا شخص ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ضماد سے کہا؛ تو پھر تم اپنی قوم کیلئے بھی (تو کچھ کروگے ناں)؟
    ضماد نے کہا؛ ہاں یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم)، میں اپنی قوم کیلئے بھی (ہدایت کا پیغام لے کر جاؤنگا)۔ اور ضماد اپنی قوم کیلئے ہدایت اور دعوت کا پیغام لے کر روانہ ہوگیا۔
    دانا کہتے ہیں؛ اگر جاہلوں کے ساتھ بیٹھو تو اُنہیں خاموشی سے سُنو، اور اگر علماء کے ساتھ بیٹھو تو اُنہیں بھی خاموشی سے سُنو، جاہلوں کو خاموشی سے سُننے پر تمہارے حلم اور بُردباری میں اضافہ ہوگا، اور علماء کو خاموشی سے سُننے پر تمہارے علم میں اضافہ ہوگا۔
    تو کیا پھر کیا خیال ہے آپ بھی ایک اچھے سامع بننا چاہتے ہیں؟
    تو پھر سنتے رہیئے۔ سر کو ہلا کر اپنی موجودگی اور بھرپور توجہ کا اظہار کرتے ہوئے۔ اور اپنے تأثرات کا اظہار کرنا تو بہت ہی ضروری ہے چاہے بولنے والا چھوٹا ہو یا بڑا۔ جی ہاں سنتے رہیئے، یہ احساس دلانے کیلئے کہ بولنے والا آپ کیلئے کتنا اھم ہے ، اِسی طرح ہی تو آپ اُسکا دل جیت پائیں گے۔



    http://hajisahb.wordpress.com/2011/06/18/خاموشی-کی-جاذبیت/
     
  2. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: خاموشی کی جاذبیت

    شکریہ الکرم جی ایک نصیحت آموز اور عمدہ تحریر ہمارے ساتھ شیئر کرنے کے لیے۔
     
  3. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: خاموشی کی جاذبیت

    ماشاءاللہ جی کافی اچھا اور تحقیقی مضمون ہے
    الکرم جی اللہ پاک آپ کو سلامت رکھے۔۔۔۔
     
  4. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: خاموشی کی جاذبیت

    اللہ کریم آپ کے عزت و وقار میں اضافہ کریں

    مزید نصیحت آموز باتوں کا انتظار رہے گا
     
  5. شاہ جی
    آف لائن

    شاہ جی ممبر

    شمولیت:
    ‏8 اگست 2011
    پیغامات:
    146
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: خاموشی کی جاذبیت

    جزب کر لیا ایسا لفظوں نے بابر
    کہ سکتہ خرد پے بھی چھا گیا ہے
    بہت خوب سوہنا بہت خوب​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں