1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

خالد احمد۔۔۔۔۔۔۔ تحریر : عبدالحفیظ ظفر

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏20 فروری 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    خالد احمد

    وہ جدید طرزِ احساس کے باکمال شاعر تھے
    تحریر : عبدالحفیظ ظفر
    ۔70ء کی دہائی میں جو شعرا جدید طرزاحساس اور ندرتِ خیال کی وجہ سے مشہور ہوئے ان میں خالد احمد کا نام بھی یقینی طور پر شامل ہے۔ جب خالد احمد کا نام آتا ہے تو نجیب احمد کا نام بھی ذہن میں گردش کرنے لگتا ہے۔ احمد ندیم قاسمی دونوں کو اپنی معنوی اولاد کہتے تھے۔ دونوں قاسمی صاحب کے بہت قریب رہے۔ خالد احمد معروف ناول نگار خدیجہ مستور اور ہاجرہ مسرور کے بھائی تھے۔ وہ پانچ جون 1944ء کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ تقسیم ہند کے بعد وہ پاکستان آ گئے۔ انہوں نے 1957ء میں مسلم ماڈل ہائی سکول لاہور سے میٹرک کیا اور پھر دیال سنگھ کالج سے بی ایس سی کا امتحان پاس کیا۔ وہ روزنامہ ’’امروز‘‘ میں ’’لمحہ لمحہ‘‘ کے عنوان سے کالم بھی لکھتے رہے اور ادبی جریدے ’’فنون‘‘ سے بھی وابستہ رہے۔ بعدازاں انہوں نے واپڈا میں ملازمت اختیار کر لی۔ انہوں نے ڈرامے بھی لکھے اور کالم نگاری بھی کی لیکن انہیں شہرت اپنی خوبصورت شاعری کی وجہ سے ہی ملی۔ ایک بات ان کے بارے میں متفقہ طور پر کہی جاتی ہے کہ انہیں شعریت کا زبردست ادراک تھا۔ ان کے ہاں روایت اور جدیدیت کا حسین امتزاج ملتا ہے۔ وہ اپنی قوتِ متخیلہ کو دلکش شعری اسلوب کا لباس پہناتے تھے۔ ذرا یہ شعر ملاحظہ فرمائیں’’کوئی تو روئے لپٹ کر جوان لاشوں سے؍ اسی لیے تو وہ بیٹوں کو مائیں دیتا ہے۔ خالد احمد کی شاعری براہ راست ابلاغ کی شاعری ہے۔ وہ قاری کو کسی ابہام میں نہیں ڈالتے۔ ان کی تراکیب بھی بڑی اثرانگیز ہوتی ہیں اور وہ نفسِ مضمون کے دائرے سے باہر نہیں ہوتیں۔ سادگی اور سلاست بھی ان کی شاعری کا بڑا وصف ہے۔ خالد احمد کا شمار ان شعرا میں ہوتا ہے جنہوں نے غزل کو نئے رجحانات سے آشنا کیا۔ انہوں نے معروضی صداقتوں کو بھی اپنی شاعری کا حصہ بنایا اور قاری کو یہ احساس دلایا کہ وہ سماجی حقائق سے غافل نہیں۔ ان جیسے شعرا نے ترقی پسندی کو ایک نیا مفہوم دیا۔ وہ شاعری میں کسی ایک نظریے کے تابع نہیں بلکہ ہمہ گیریت کے حامی ہیں البتہ وہ صرف نفس کی نہیں بلکہ آفاق کی شاعری بھی کرتے ہیں۔ ان کی شاعری کا کینوس محدود نہیں۔ چھوٹی بحر میں بھی وہ خوبصورت اشعار کہتے ہیں جو تاثریت سے بھرپور ہوتے ہیں۔ زبان کے اعتبار سے بھی کہا جا سکتا ہے کہ وہ کلاسیکل اور جدیدیت کے امتزاج کے حامی ہیں۔ خالد احمد نے اعلیٰ درجے کی نعتیں بھی تخلیق کیں۔ رسول پاکؐ سے انہیں کتنی عقیدت تھی اس کا اظہار انہوں نے اپنی نعتوں میں بڑی وضاحت سے کیا ہے۔ خالد احمد کی نعتیں قاری پر وجد طاری کر دیتی ہیں۔ اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ یہ نعتیں عقیدت کی جس سطح کو چھوتی نظر آتی ہیں اسے سمجھنا پڑتا ہے۔ ان کی کتابوں میں ’’دراز پلکوں کے سائے سائے، ایک مٹھی ہوا، پہلی صدا پرندے کی، ہتھیلیوں پر چراغ، تشبیب، جدید تر پاکستانی ادب،نم گرفتہ اور کاجل گھر‘‘ شامل ہیں۔ وہ 22 سال تک اپنا ماہوار ادبی جریدہ بھی شائع کرتے رہے۔ 2011ء میں انہیں تمغہ حسن کارکردگی سے نوازا گیا۔ ذیل میں ہم اپنے قارئین کے لیے ان کی غزلوں کے کچھ اشعار پیش کر رہے ہیں۔ ترکِ تعلقات پہ رویا نہ تو نہ میں؍لیکن یہ کیا کہ چین سے سویا نہ تو نہ میں چمک اٹھاتھاوہ چہرہ دھڑک اٹھاتھایہ دل؍نہ اس نے راستہ بدلانہ گھرگئے ہم بھی شہر میں کون دن نکلنے کا؍رات بھر انتظار کرتا ہے اب تک تری یادیں مری آنکھوں کی چمک ہیں؍یہ نم بھی کوئی چھین نہ لے دیدۂ تر سےاب ذرا خالد احمد کی نعتیہ شاعری ملاحظہ کیجیے خَلق میں انساں تھا لیکن خُلق میں قرآن تھا؍ کہ سر تا پا جمالِ سورہِ رحمان تھا؍ چال تک معجزہ نما تھی آمنہ کے لال کی؍ ہر قدم ہر سانس اک معراج کا عنوان تھا؍میزبانی کے لیے کس رخ سے جھکتے آسماں؍وہ زمیں پر بھی فقط اللہ کا مہمان تھا۔ 19مارچ 2013ء کو خالد احمد پھیپھڑوں کے سرطان کی وجہ سے اس جہانِ فانی سے رخصت ہو گئے۔ انہیں ہمیشہ خراجِ عقیدت پیش کیا جاتا رہے گا۔

     
    مسفرہ الماس نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں