1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

حکیم ناصر....... عبدالحفیظ ظفر

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏9 جون 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    حکیم ناصر....... عبدالحفیظ ظفر


    وہ حکمت کے ساتھ ساتھ عمدہ شاعری بھی کرتے رہے

    جب میڈم نور جہاں نے فیض احمد فیض کی مشہور زمانہ نظم '' مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ‘‘ گائی تو پورے برصغیر میں تہلکہ مچ گیا۔ یہ نظم فلم ''قیدی‘‘ کے لئے گائی جو شمیم آراء پر عکس بند کی گئی ۔ اس نظم کی بے پناہ مقبولیت کے بعد فیض احمد فیض نے میڈم نورجہاں سے کہا '' آپ نے مجھے امر کر دیا ہے‘‘ اگرچہ اس نظم کے بعد مہدی حسن نے فیض صاحب کی کچھ غزلیں بڑی عمدگی سے گائیں لیکن اس نظم کی دلکشی کچھ اورہی رنگ لئے ہوئے تھی۔ ایک طویل عرصہ بعد عابدہ پروین نے ایک غزل گائی جس کا مطلع کچھ یوں تھا۔
    جب سے تونے مجھے دیوانہ بنا رکھاہے
    سنگ ہر شخص نے ہاتھوں میں اٹھا رکھا ہے
    اس غزل نے بھی مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کئے 1989ء میں جب عمران خان کی دعوت پر بھارتی فنکار لاہور آئے تو ایک شاندار تقریب کاانعقاد کیا گیا۔ اس تقریب میں پاکستان فنکاروں کے علاوہ میڈم نورجہاں اور عابدہ پروین بھی موجود تھیں۔ بھارتی فنکاروں میں ریکھا کے علاوہ ونود کھنہ ، کبیر بیدی اور سونووالیہ بھی موجود تھیں۔ ریکھا نے عابدہ پروین سے فرمائش کی کہ وہ یہ غزل گائیں ، ‘‘جب سے تو نے مجھے دیوانہ بنا رکھا ہے‘‘ عابدہ پروین نے یہ غزل گا کر اس تقریب کو چار چاند لگا دیئے۔اس باکمال غزل کے خالق تھے حکیم ناصر
    1947ء میں اجمیر شریف (بھارت) میں جنم لینے والے حکیم ناصر کااصل نام محمد ناصر تھا۔ تقسیم ہند کے بعد وہ کراچی آ گئے جہاں وہ ''نظامی دواخانہ‘‘ چلاتے رہے ان کے والد نصیرالدین ندوی اور دادا بھی حکیم تھے۔ انہوں نے حکمت کے ساتھ ساتھ شاعری بھی جاری رکھی ۔ ان کی شاعری روایت اور جدت کا حسین امتزاج ہے۔ وہ بنیادی طور پر رومانوی شاعر تھے لیکن ان کا کمال یہ ہے کہ کاموں نے رومانوی شاعری کی نئی جہتیں تلاش کیں اور اس کو نیا آہنگ دیا۔ان کے اشعار پڑھ کر تازگی کا احساس ہوتا ہے۔ خیال کی ندرت اورخوبصورت انداز بیاں نے ان کی شاعری کی تاثریت میں اضافہ کر دیا ہے۔
    حکیم ناصر کی شاعری کی ایک اور خوبی سلاست اور روانی ہے۔ اس کیساتھ ساتھ عنائیت اور رچائو بھی ان کے شاعری کے اہم اوصاف ہیں۔ وہ شعری طرز احساس اور جمالیاتی طرز اور ان دونوں کو ساتھ لیکر چلتے ہیں کچھ نقادوں کو یہ اعتراض کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ حکیم ناصر کی شاعری کا کینوس محدود ہے اور ان کے اشعال میں عصری صداقتوں کا اظہار نہیں ملتا۔ اس کے علاوہ وہ معروضی صورتحال سے بھی بے نیاز نظر آتے ہیں۔ اس لئے ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ خارجیت کو نظراندازکردیتے ہیں۔ بہرحال یہ کوئی حتمی رائے نہیں۔ ہرشاعر کی سوچ کے زاویئے بھی مختلف ہیں اور اس کی زندگی کے تجربات بھی اس کے اپنے ہوتے ہیں۔ اس لئے کسی بھی شاعر کی شاعری کو پرکھنے کیلئے کوئی مخصوص پیمانہ مقرر کرنا کسی بھی لحاظ سے مناسب نہیں۔
    حکیم ناصر کی شاعری کو مقبول شاعری کہا جاتا ہے لیکن قابل تحسین بات یہ ہے کہ اس میں عامیانہ نہیں بلکہ معیاری شاعری کے تقاضوں کا بدرجہ اتم خیال رکھاگیا ہے۔انہوں نے براہ راست ابلاغ کی شاعری کی غالباً یہی سبب ہے کہ اب تک ان کے مداحین کی بڑی تعداد موجود ہے۔ ہم ذیل میں حکیم ناصر کے چند خوبصورت اشعار اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔
    جب سے تو نے مجھے دیوانہ بنا رکھاہے
    سنگ ہر شخص نے ہاتھوں میں اٹھا رکھا ہے
    اب مری دید کی دنیا بھی تماشائی ہے
    تو نے کیا مجھ کو محبت میں بنا رکھا ہے
    یہ تماشا بھی عجب ہے ان کے اٹھ جانے کے بعد
    میں نے دن میں اس سے پہلیتیرگی دیکھی نہ تھی
    آپ سے آنکھیں ملی تھیںپھر نہ جانے کیا ہوا
    لوگ کہتے ہیں کہ ایسی بے خودی دیکھی نہ تھی
    زندگی کو نہ بنا لیں وہ سزا ہونے کے بعد
    حوصلہ دینا انہیں میرے خدا میرے بعد
    ہاتھ اٹھتے ہوئے ان کے نہ کوئی دیکھے گا
    کسی کے آنے کی کریں گے وہ دعا میرے بعد
    ہماری شام تمنا بھی جل کے خاک ہوئی
    ہمارے شعلوں کا عالم چتائوں جیساہے
    وہ بس گیا ہے جو آخر ہماری سانسوں میں
    جبھی تو لہجہ ہمارا دعائوں جیسا ہے
    تمہارے بعد اجالے ہی ہو گئے رخصت
    ہمارے شہر کامنظر بھی گائوں جیسا ہے
    مے کشی گردش ایام سے آگے نہ بڑھی
    زندگی موت کے پیغام سے آگے نہ بڑھی
    وہ گئے گھر کے چراغوں کو بجھا کر میرے
    پھر ملاقات مری شام سے آگے نہ بڑھی
    حکیم ناصر کی شاعری کے فنی محاسن کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ وہ شاعر تھے اور عمدہ شاعر تھے۔ان کی شعری حیثیت مسلمہ ہے اور اس میں کوئی دورائے نہیں۔ وہ 28جولائی 2007ء کو راہی ملک عدم ہوئے۔ حکیم صاحب ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔


     

اس صفحے کو مشتہر کریں