1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

حکایت مولانا رومیؒ ۔۔۔۔۔ اپنی ذات کی نفی

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏7 جنوری 2021۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    حکایت مولانا رومیؒ ۔۔۔۔۔ اپنی ذات کی نفی

    اک طبیعت کی اداسی کا اثر ہوتا ہے
    سارا عالم نگہ یاس میں ویرانہ ہے
    محبوب کے رخ زیبا کو دیکھنے کے لئے عاشق در ِمعشوق پر پہنچا اور دوست کے دروازے پر دستخط دی.... اندر سے آواز آئی کون ہے؟ با چشم گریاں و سینہ بریاں عاشق نے جواب دیا، ''میں‘‘ ہوں۔دیدار کی حاجت ہے ۔ اندر سے جواب آیا،
    گفت من گفتش بروھنگام نیست
    برچیں خوائے مقام خام نیست
    محبوب نے کہا: اے شخص چلا جا، ابھی ملاقات کا وقت نہیں ہوا۔ کچی چیز کا دستر خوان پر کیا کام؟ میرے دوستوں میں ''میں‘‘ نامی کوئی شخص نہیں ہے۔ تجھ سے ابھی غرور کی بُو آتی ہے۔ تو ابھی عشق میں پختہ نہیں ہوا۔ چونکہ ابھی تک تیری ''میں ‘‘ تجھ سے نہیں گئی .....تجھے مزید ہجر کی تیز آگ میں جلنا چاہیے،ہجر و فراق کی آگ میں جلے بغیر خام شے بھلا کیسے پختہ ہو سکتی ہے ۔
    عاشق بے چارا اپنا سا منہ لے کر واپس آ گیا۔ اور ایک سال تک فراقِ یار کی چنگاریوں پر جلتا رہا۔حیران و سرگرداں محبوب کی جدائی کا صدمہ سہتا رہا۔ ....''پختہ گشت آں سوختہ‘‘یہاں تک کہ ہجرکی آگ نے اسے پختہ کر دیا۔
    عہد جوانی رو رو کے کاٹا، پیری میں لیں آنکھیں موند
    یعنی رات بہت تھے جاگے، صبح ہوئی آرام کیا
    ناحق ہم مجبوروں پر تہمت ہے مختاری کی
    چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں، ہم کو عبث بدنام کیا
    ''حال وانگ سودایاں‘‘ بنائے ہوئے وہ دوبارہ درِ محبوب پر حاضر ہوا، نہایت خوف اور ادب سے دروازے پر دستک دی تاکہ کوئی بے ادبی سرزد نہ ہو جائے۔ گھر کے اندر سے آواز آئی، کون ہے؟عاشق نے نہایت ادب سے جواب دیا، اے میری جان ، دروازے پر بھی ''تو ہی ہے‘‘۔
    محبوب یہ سن کر خوش ہوا،اور کہنے لگا!اب تجھ سے ''میں‘‘ دور ہو گئی ہے۔ اب تو اندر چلاآ، پہلے تو مدعی انانیت تھا، ا س لئے ہم نے تمہیں اندر آنے کی اجازت نہیں دی تھی۔
    نیست سوزن راہ سر رشتہ دوتا
    چونکہ یکتائی دریں سوزن در آ
    یعنی سوئی میں دو دھاگے نہیں ہوتے، یہاں دو ''میں‘‘ نہیں سما سکتے ۔ اور جب تو ایک بن گیا ہے تو اب جدائی کی گھڑیاں ختم ہو گئی ہیں۔
    درس حیات: اپنی ذات کی نفی کئے بغیر منزل کو پانا ممکن نہیں۔ ''میں‘‘ کہنے میں نامرادی ہے،میں کو مارے بغیر کامیابی نہیں مل سکتی۔دانہ مٹی میں مل کر ہی گل و گلزار ہوتا ہے،
    خام ہے جب تک تو ہے مٹی کا اک انبار تو
    پختہ ہو جائے تو ہے شمشیر بے زنہار تو
    ہو صداقت کے لئے جس دل میں مرنے کی تڑپ
    پہلے اپنے پیکر خاکی میں جاں پیدا کر


     

اس صفحے کو مشتہر کریں