1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

حکایت مولانا رومیؒ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ،عذابِ صحبتِ ناجنس

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏18 فروری 2021۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    حکایت مولانا رومیؒ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ،عذابِ صحبتِ ناجنس

    ایک شکاری نے جال لگا کر آہوئے صحرا (جنگلی ہرن) کو گرفتار کیا۔ اس کے بعد یہ غضب کیا کہ اسے گدھوں کے اصطبل میں باندھ دیا۔ بدنصیب ہرن بدحواس ہو کر کبھی اِدھر بھاگتا، کبھی اُدھر بھاگتا۔ ان گدھوں کے ہجومِ بدتمیزی میں ساری چوکڑی بھول گیا۔ کھانا پینا کچھ یاد نہ رہا۔ گدھے مزے سے ساری رات اس طرح گھاس چرتے رہے جیسے گنا چوس رہے ہوں۔ پھر وہ بے ہنگام دولتیاں چلاتے اور اصطبل میں گرد و غبار کا طوفان اٹھا دیتے۔ غرض ہرن کو کسی پہلو چین نہ تھا۔
    اے عزیز! یاد رکھ، خلافِ طبع غیر جنس کے ساتھ یکجائی کے عذاب سے موت بہتر ہے۔ غیر جنس کے ساتھ ایک ہی قفس میں قید ہونا بدترین عذاب ہے۔ اے فرزند! تو بھی اس فانی بدن میں عذاب جھیل رہا ہے۔ تیری روح کا آہو، جنس غیر کے ساتھ ایک جگہ قید کر دیا گیا ہے۔
    کئی دن تک وہ بدنصیب،فافۂ مُشک رکھنے والا ہرن، گدھوں کے اصطبل میں بند کسی ناکردہ گناہ کی سزا بھگتتا رہا۔ ایسا بے تاب اور مضطرب تھا جیسے ماہی بے آب۔ ایک ہی ڈبے میں مینگنیں اور مشک کو بند کردیا گیا تھا۔ ہرن کی یہ بے چینی دیکھ کر ایک گدھے نے اس سے کہا :''ارے او جنگلی، تو یہاں کہاں سے آگیا؟ دماغ تو دیکھو جیسے بادشاہوں کا۔‘‘دوسرے گدھے نے زور دار قہقہہ لگایا ''بھئی واہ! کیا بات کہی۔ معلوم ہوتا ہے اس ہرن کے پاس کہیں سے چمکدار قیمتی موتی آگیا ہے۔ اب یہ اس موتی کو سستا کیسے بیچ دے۔‘‘تیسرے گدھے نے پھبتی کسی ''میاں! تم جب ایسے ہی نازک بدن ، نازک دماغ ہوکہ ہمارا ساتھ پسند نہیں فرماتے تو یہاں سے بھاگو ،اور تختِ شاہی پر تکیہ لگا کر بیٹھو۔‘‘
    چوتھے گدھے نے گھاس کھاتے کھاتے منہ اوپر اٹھایا اور ہمدردی سے بولا ''بھائی! اِدمر آ کر کچھ گھانس واس چر لو، ورنہ بھوک سے مر جائو گے۔‘‘
    ہرن نے نفی میں گردن ہلا کر جواب دیا ''نہیں صاحب! اس چیز سے آپ ہی شوق فرمایئے ، مجھے شرکت سے معذور سمجھئے۔‘‘''خیر ، میں تو کھا ہی رہا ہوں‘‘ گدھے نے کہا ''تم پر ترس کھا کر دعوت دی تھی ، نہیں مانتے تو نہ مانو ، جہنم میں جائو۔ معلوم ہوتا ہے ابھی دماغ میں اپنی بڑائی اور نفاست کی بو باقی ہے۔‘‘
    ہرن نے کہا ''یہ گھاس تُو ہی کھا سکتا ہے ، میں نہیں، اس گھاس سے تیرا بدن زندہ اور فربہ ہے مگر میں سرسبز و شاداب گلستانوں کا شیدائی ہوں،مجھے اونچے درختوں کے گھنیرے سائے اور نازک و نرم پھولوں کے جھرمٹ میں آرام کرنے کی عادت ہے۔ اگر قدرت نے اپنی کسی مصلحت کے باعث مجھے اس عذاب میں گرفتار کرا دیاہے تب بھی میری وہ فطرت اور طبیعت کی نفاست و نزاکت جا نہیں سکتی۔ اب تمہاری طرح قیدی اور مفلس ہوں تو کیا ہوا۔ میری صورت تو قیدیوں اور مفلسوں جیسی نہیں۔ ارے احمقو! میں وہ ہوں جو لالہ و سنبل کو بھی ہزار نخروں سے آہستہ آہستہ کھاتا ہوں۔ میرا نافہ خود بتاتا ہے کہ میری غذا کیا ہے۔ کہاں نافے کی خوشبو اور کہاں اس خشک سڑی ہوئی گھاس کی بدبو۔ نافہ کون سونگھتا ہے؟ وہی جسے حق تعالیٰ نے سونگھنے کی قوت عطا فرمائی۔ گدھے پر نافے کی خوشبو حرام ہے۔ تم گدھے جب راستے میں چلتے ہو تو گندگی کے ڈھیر سونگھتے جاتے ہو۔ بھلا ایسوں کو مشکِ نافہ کی کیا قدر؟‘‘
     

اس صفحے کو مشتہر کریں