1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

حکایت مولانا رومیؒ،، احمقوں کے شہر میں

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏3 دسمبر 2019۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    حکایت مولانا رومیؒ،، احمقوں کے شہر میں
    upload_2019-12-3_3-33-35.jpeg
    ایک چالباز بغداد سے حمص کی طرف گیا۔بیوی اس کے ہمراہ تھی۔ اس نے بیوی سے کہا: یہ احمقوں کا شہر ہے، میں ایک چال چلنا چاہتا ہوں تم میری مدد کرنا۔ اس نے کہا: بالکل ٹھیک ہے۔ اس نے کہاتم اپنی جگہ ٹھہری رہو اور میرے قریب مت آنا، ہر روز ایک پائو کشمش اور ایک پائو بادام لے کر معجون بنا لینا اور دوپہر کے وقت فلاں وضو خانہ کے پاس ایک صاف پتھرپر رکھ دینا۔ مزید کچھ نہ کرنا اور نہ ہی میرے پاس سے گزرنا۔ عورت نے ایسا ہی کرنے کا وعدہ کیا۔ وہ شخص باہر نکلا۔ اس کے پاس ایک سوتی جبہ تھا جسے اس نے پہن لیا۔ ایک شلوار اور تہبند اپنے سر پر رکھ لیا اور ایک ستون کے پاس بیٹھ گیا جہاں سے لوگ عموماً گزرتے تھے۔ دن بھر نماز پڑھتا رہا حتیٰ کہ رات بھی نوافل میں گزر گئی۔ سوائے مکروہ اوقات کے وہ مسلسل نماز پڑھتا رہتا یا بیٹھ کر ذکر میںمشغول رہتا، کسی شخص کے ساتھ بات نہ کرتا۔ لوگوں کو آہستہ آہستہ اس کا پتہ چلا اور نگاہیں اس پر مرکوز ہو گئیں۔ لوگوں نے دیکھا کہ وہ کھائے پئے بغیر عبادت میںمشغول رہتا ہے۔ اہل شہر حیران ہوگئے۔ صرف دوپہر کے وقت قضائے حاجت وغیرہ کے لیے مسجد سے باہر نکلتا ۔جب اس کا گزر وضو خانہ کے قریب پتھر پر بیوی کی رکھی ہوئی معجون اٹھاتا اور کھا لیتا۔ رات کے وقت چپکے سے پانی پی لیتا۔ اہل حمص یہ گمان کرتے کہ وہ کوئی چیز کھاتا پیتا نہیں۔ لوگوں کے نزدیک اس کی قدر و منزلت میں اضافہ ہوگیا۔ لوگ بات چیت کرنا چاہتے، لیکن وہ خاموش رہتا۔ جس کی وجہ سے لوگ دیوانہ وار اس پر ٹوٹ پڑے،بچوں اور مریضوں کو اس کے پاس لاتے، وہ ان پر اپنا ہاتھ پھیرتا۔ اس نے دیکھا کہ وہ لوگوں میں بہت زیادہ مقبول ہو گیا ہے ۔ اسی حالت میں ایک سال گزر گیا۔ ایک دن وہ چپکے سے اپنی بیوی سے ملا اور کہا جمعہ کے دن جب لوگ نماز پڑھنے کے لیے آئیں تو میرے پاس آنا ، میرے منہ پر تھپڑ رسید کرنا اور یہ کہنا: اے فاسق و فاجر تو نے بغداد میں میرے بیٹے کو قتل کر دیا اور بھاگ کر یہاں لوگوں کو دھوکہ دینے کے لیے عبادت میں مشغول ہے۔ یہ ظاہر کرنا کہ تو بیٹے کے بدلہ میں مجھے قتل کرنا چاہتی ہے ۔میں اعتراف کرلوں گا کہ میںنے اسے قتل کیا ہے لیکن اب توبہ کر لی ہے اور یہاں عبادت و ریاضت اور اپنے کئے کی تلافی کرنے کے لیے آیاہوں۔ میرے اقرار کے بعد قصاص لینے کے لیے بادشاہ کے پاس مجھے لے جانا کا مطالبہ کرنا۔ لوگ دیت پیش کریںگے لیکن قبول نہ کرنا یہاں تک کہ لوگ تجھے دس دیتیں دینے پر راضی ہو جائیں۔ مال سمیٹ کر اسی دن بغداد چلے جانا۔ میں بھی عنقریب بھاگ کر تجھے آ ملوں گا۔ اگلے دن وہ طے شدہ منصوبے کے مطابق خاوند کے گلے پڑ گئی اور وہ تمام ڈرامہ رچایا جس کا خاکہ اس کے شوہر نے تیار کیا تھا۔ اہل شہر اسے قتل کرنے پر تیار ہو گئے۔ وہ کہنے لگے اے دشمن خدا! یہ ابدال ہے، قیوم زمان اور اپنے وقت کا قطب ہے۔ اس نے اشارہ کیا کہ اس عورت کو کچھ نہ کہو۔ پھر کہا: ا ے لوگو! جب سے میں تمہارے پاس آیا ہوں تم نے مجھے بات کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ یہ بات سن کر لوگوںکے چہرے کھل گئے اور ایک شور بپا ہو گیا اور کہاں نہیں۔ اس نے کہا، میں تمہارے پاس توبہ تائب ہوکرمقیم ہوں۔ میں نے اس عورت کا بیٹا قتل کیا ہے، لیکن اب توبہ کر لی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اس عورت کے پاس جائوں تاکہ وہ مجھے اپنے بیٹے کے بدلہ میں قتل کر دے۔ کیونکہ مجھے یقین ہے کہ اس کے بغیر میری توبہ قبول نہیں ہو گی۔ میں اللہ سے دعا کرتا رہا کہ وہ میری توبہ قبول فرمالے اور مجھے اس عورت کے حوالے کر دے۔ آج میری دعا قبول ہو گئی ہے۔ اس عورت نے مجھے پا لیا ہے۔ اس لیے مجھے چھوڑ دیںتاکہ یہ عورت قصاص میں مجھے قتل کر دے۔ خدا حافظ۔ اللہ تمہیں اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ یہ سن کر لوگ زار و قطار رونے لگے اور ایک شور بپا ہو گیا۔ یہ کہا اور حاکم وقت کی عدالت کی طرف چل نکلا۔ لوگ غم سے نڈھال جلوس کی شکل میں اس کے ساتھ ساتھ چل پڑے۔ بوڑھوںنے کہا: تم اس مصیبت سے بچنے کے لیے کوئی راہ نہیں نکال سکتے۔ ہاں یہ صورت ہے کہ عورت کے ساتھ نرمی کرو اور دیت قبول کرنے پر اسے مجبور کرو تاکہ اس بزرگ کا سایہ ہمارے سروں پر قائم رہے۔ ہم سب مل کر دیت ادا کر دیں گے۔ اس عورت کے گرد جمع ہو گئے اور دیت قبول کرنے کامطالبہ کیا۔لیکن اس عورت نے صاف انکار کر دیا۔ انہوں نے کہا: دو دیتیں لے لو۔ عورت نے کہا: میرے بیٹے کا ایک بال ہزار دیت کے برابر ہے۔ لوگ اضافہ کرتے رہے یہاں تک کہ دس دیتیں دینے پر راضی ہو گئے۔ اس عورت نے کہامال جمع کرو۔ جب میں دیکھوں گی کہ تم نے مال جمع کر دیا ہے اور میرا دل خوش ہو جائے تو میں اسے قبول کر لوں گی ورنہ قاتل کو قتل کروا دوں گی۔ لوگوں نے ایک لاکھ درہم اکٹھے کئے اور کہا: لے لو۔ اس نے کہا: ابھی میرا دل راضی نہیں ہوا۔ لوگوں نے اسے راضی کرنے کے لیے ہر طرح حیلہ بہانہ کیا، انہوں نے اپنے کپڑے اور چادریں اور عورتوں نے اپنے زیورات پھینکنا شروع کر دئیے۔ اس عورت نے یہ سب کچھ سمیٹا اور رفو چکر ہو گئی۔ وہ آدمی کچھ دن مسجد میں قیام پذیر رہا حتیٰ کہ جب اسے یقین ہو گیا کہ اس کی بیوی دور جا چکی ہے ایک رات وہ بھی بھاگ نکلا اور تلاش کے بعد اس کا سراغ نہ لگ سکا۔ کافی عرصہ کے بعد پتہ چلا کہ یہ تو ایک چال تھی۔​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں